امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن کی ’’توہین آمیز‘‘ برطرفی :::مسعود ابدالی


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کو برطرف کرکے اُن کی جگہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیک پومپیو (Mike Pompeo) کو امریکہ کا نیا وزیر خارجہ نامزد کردیا ہے۔ ہم نے تقرری کے بجائے نامزدگی اس لیے کہا کہ امریکہ میں تقرری سے پہلے کابینہ کے ارکان کی سینیٹ سے توثیق ضروری ہے۔ سیاست کے میدان میں اکھاڑ پچھاڑ کوئی نئی بات نہیں، اور تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، لیکن جس توہین آمیز انداز میں ریکس ٹلرسن کو برطرف کیا گیا اُس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ امریکی وزیرخارجہ اپنی برطرفی کے وقت افریقہ کے سرکاری دورے پر تھے کہ صدر ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ جاری کی جس میں کہا گیا: ’’سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیک پومپیو ہمارے نئے وزیر خارجہ ہوں گے۔ وہ اس عہدے کے فرائض شاندار طریقے سے انجام دیں گے۔ ریکس ٹلرسن کی خدمات کے لیے شکریہ۔ جینا ہیسپل (Gina Haspel) کو سی آئی اے کی نئی ڈائریکٹر نامزد کیا گیا ہے جو اس منصب پر فائز پہلی خاتون ہوں گی۔ ان سب کو مبارکباد!‘‘ ایک اطلاع کے مطابق صدارتی ٹوئٹ کے اجرا سے پہلے وہائٹ ہائوس کے چیف آف اسٹاف جان کیلی فون پر ریکس ٹلرسن کو متنبہ کرچکے تھے کہ تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں صدر ٹرمپ کے ٹوئٹ کے بعد مسٹر ٹلرسن اپنا دورۂ افریقہ مختصر کرکے دوسرے ہی دن واشنگٹن واپس پہنچے اور استعفیٰ جمع کرا دیا۔
صدر ٹرمپ اپنی ٹیم کے معاملے میں خاصے سخت گیر ہیں، اور وہ اپنے مشیروں سے غیر مشروط وفاداری کی توقع کرتے ہیں۔ امریکی صدر کہتے تو ہیں کہ انھیں ایسے مشیر پسند ہیں جو اُن سے اہم امور پر اختلاف کرتے ہوں تاکہ انھیں مختلف نقطہ ہائے نظر کا اندازہ ہو، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ انھیں وہی لوگ پسند ہیں جو اُن کے نقطہ نظر سے نہ صرف پوری طرح متفق ہوں بلکہ ان کے ایجنڈے کو جارحانہ انداز میں آگے بڑھانے میں مخلص ہوں۔ اسی وجہ سے موجودہ انتظامیہ میں برطرفی اور استعفے روزمرہ کا معمول بنے ہوئے ہیں۔ صدر نے اپنے 14 ماہ کے اقتدار میں بہت سے قریبی مشیر برطرف کیے جن میں قومی سلامتی کے لیے اُن کے مشیر مائیکل فلن، وزیرصحت جان پرائس، وہائٹ ہائوس کے ترجمان شان اسپائسر، وہائٹ ہائوس کے چیف آف اسٹاف رائنس پرائبس(Reince Priebus)، صدر کے خصوصی مشیر اسٹیو بینن، کمیونی کیشن ڈائریکٹر محترمہ ہوپ ہکس، اقتصادی امور کے لیے ان کے مشیر گیری کوہن چند بڑی مثالیں ہیں۔ صدر ٹرمپ کو روایتی سیاست دانوں کے مقابلے میں کامیاب کاروباری اور امیر افراد پسند ہیں، اور انھوں نے شروع میں اپنی کابینہ میں ایسے ہی لوگوں کو لیا، جیسے اینڈی پزڈر کو جو ہارڈیز (Hardee’s) برگر کے چیف ایگزیکٹو تھے وزیرمحنت نامزد کیا گیا، لیکن سینیٹ سے توثیق میں مشکل کی بنا پر نامزدگی واپس لے لی گئی۔ وزیر خزانہ منوشن ایک متمول سرمایہ کار ہیں۔ وزیر تجارت ولبر روس (Wilbur Ross) بھی ایک ارب پتی تاجر ہیں۔ وزیر تعلیم بیٹسی ڈیوس (Betsy DeVos) ایک کاروباری خاندان کی ہیں۔ ان کے شوہر Amwayکے مالک ہیں، جبکہ بھائی ایرک پرنس بدنامِ زمانہ بلیک واٹر کے بانی ہیں، جو اب ’اکیڈمی‘ کے نام سے کام کررہی ہے۔ ان سارے لوگوں کو میدان و خارزارِِ سیاست کا کوئی تجربہ نہیں، لیکن صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ کامیاب کاروباری لوگ امورِ مملکت بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں۔ ریکس ٹلرسن تیل کی صنعت سے وابستہ تھے اور دنیاکی ایک بہت بڑی تیل کمپنی Exxon Mobilکے چیف ایگزیکٹو تھے۔ وزیر خارجہ مقرر ہونے سے پہلے ریکس ٹلرسن کو سفارت کاری کا کوئی تجربہ نہیں تھا، لیکن کارپوریٹ قیادت کی بنا پر انھیں گفتگو اور تقریر کے فن پر عبور حاصل ہے، وہ طبیعتاً ٹھنڈے مزاج کے آدمی ہیں۔ بات چیت کے دوران جناب ٹلرسن مصالحت کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور دبائو اور دھمکی کے بجائے کاروباری انداز میں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مسئلے کا ایسا حل تلاش کرتے ہیں جو دونوں فریق کے لیے قابلِ قبول ہو، جسے win- win dealکہتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا صدر ٹرمپ کو سخت گیر رویہ پسند ہے، وہ جارحانہ سفارت کاری کے ذریعے اپنے مؤقف کو منوانے کے قائل ہیں۔ اسی فرق کی وجہ سے صدر اور ریکس ٹلرسن کے درمیان ابتدا ہی سے اختلافات تھے۔ جناب ٹلرسن سے یہ بات بھی منسوب ہے کہ انھوں نے ایک نجی نشست میں صدر ٹرمپ کو احمق یا Moron کہا تھا۔ وہائٹ ہائوس کے اندرونی حلقوں کے مطابق صدر اور وزیرخارجہ کے درمیان کھٹ پٹ وزیرِ باتدبیر کے حلف اٹھانے کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ جناب ٹلرسن گزشتہ انتخابات میں روس کی مداخلت پر اُس کے خلاف پابندیوں کے حامی تھے، جبکہ صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ انتخابات میں روس کی مداخلت ڈیموکریٹک پارٹی کا پروپیگنڈہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں، اور محض مفروضوں کی بنا پر دنیا کی ایک بڑی طاقت سے پنگا لینا انتہائی نامناسب ہے۔ صدر ٹرمپ کی اس وضاحت کو امریکہ کے سراغ رساں حلقوں نے قبول نہیں کیا۔ ان کا خیال ہے کہ روس پر پابندیاں لگانے کی بات کرکے ریکس ٹلرسن نے صدر ٹرمپ کی دُکھتی رگ کو چھیڑدیا تھا اور اس بات پر صدر ٹرمپ کے اشتعال اور اس کی شدید مخالفت سے ان شکوک و شبہات کو تقویت پہنچی کہ صدارتی انتخاب کے دوران ٹرمپ اور روسیوں کے درمیان گٹھ جوڑ تھا۔ ایران کے معاملے پر بھی مسٹر ٹلرسن اور صدر ٹرمپ کے اندازِِ فکر میں بڑا واضح فرق ہے۔ ایران کے بارے میں صدر ٹرمپ کا رویہ بہت سخت ہے۔ انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ برسراقتدار آکر ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے کو منسوخ کردیں گے۔ اس کے علاوہ وہ ایران میں قیادت کی تبدیلی کے حامی ہیں جس کے لیے سی آئی اے نے Regime Change کی اصطلاح وضع کی ہے۔ ریکس ٹلرسن کا مؤقف تھا کہ ایران جوہری معاہدے کے دستخط کنندگان میں امریکہ کے علاوہ یورپی یونین، جرمنی اور سلامتی کونسل کے مستقل نمائندے بھی شامل ہیں، چنانچہ معاہدے کی بلاجواز و یک طرفہ منسوخی نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ یہ بات اتحادیوں کے لیے بھی پسندیدہ نہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی ٹوئٹ میں ایران کے معاملے پر اختلاف کو ہی ریکس ٹلرسن کی برطرفی کی بنیادی وجہ قرار دیا، لیکن سیانوں کا خیال ہے کہ وزیرخارجہ کی برطرفی کی اصل وجہ روس کے خلاف پابندیوں پر ان کا اصرار ہے۔ اسی طرح ریکس ٹلرسن خلیجی ممالک کی جانب سے قطر کی ناکہ بندی کے خلاف ہیں اور وہ اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے تھے، جبکہ صدر ٹرمپ کا اصرار ہے کہ جب تک قطر ’دہشت گردوں‘ کی مالی معاونت بند نہیں کردیتا دوحہ پر دبائو برقرار رہنا چاہیے۔ دہشت گردوں سے صدر ٹرمپ کی مراد اخوان المسلمون اور فلسطینی حماس ہیں۔ قطرکے معاملے پر ریکس ٹلرسن کا مؤقف سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ان کے دوست دامادِ اوّل جیرڈ کشنر کو بھی پسند نہیں۔ صدر ٹرمپ اور ریکس ٹلرسن کے درمیان اختلافات کا اعلانیہ مظاہرہ گزشتہ برس اُس وقت ہوا جب صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ کے تندوتیز بیانات کے باوجود سابق امریکی وزیر خارجہ نے شمالی کوریا کے جوہری معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا اور کہا کہ طاقت مسئلے کا حل نہیں اور الفاظ کی جنگ کے باوجود وہ جوہری مذاکرات کے انعقاد اور اس کی کامیابی کے لیے بے حد پُرامید ہیں۔ اپنے وزیرخارجہ کے بیان کا مضحکہ اڑاتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ایک طنزیہ ٹوئٹ داغ دی ’’بہتر ہوگا کہ فاضل سیکریٹری آف اسٹیٹ (وزیرخارجہ) شمالی کوریا کے معاملے پر اپنی توانائیاں ضایع نہ کریں، ہمیں معلوم ہے کہ راکٹ مین (کم جونگ) سے کیسے نبٹنا ہے‘‘۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے افسران ٹلرسن کی عجلت کے ساتھ تضحیک آمیز برطرفی کی وجہ شمالی کوریا ہی کو قرار دے رہے ہیں۔ حال ہی میں کم جونگ نے اعلان کیا ہے کہ وہ جوہری تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے خواہش مند ہیں اور وہ اس معاملے پر امریکی صدر سے بات کرنے کو تیار ہیں۔ صدر ٹرمپ سربراہ ملاقات سے قبل اپنی ٹیم میں تبدیلیاں مکمل کرلینا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے نامزد کردہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نہ صرف اُن کے قریبی دوست ہیں بلکہ تمام نظریاتی امور پر ان دونوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ پومپیو سیاسی اعتبار سے انتہائی قدامت پسند، قوم پرست، مسلم مخالف اور غیر ملکی تارکینِ وطن کے سخت خلاف ہیں۔ صدر ٹرمپ کی طرح مائیک پومپیو بھی ایران کے جوہری سمجھوتے کو امریکہ کے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں اور اپنے باس کی طرح وہ بھی ایران میں حکومت کی تبدیلی کے دل و جان سے حامی ہیں۔ جناب پومپیو مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی بالادستی کو اپنے مسیحی عقیدے کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی طرح مسٹر پومپیو کو بھی مسلمانوں اور غیر ملکیوں کے بارے میں تضحیک آمیز تبصروں کی عادت ہے۔ 2010ء میں جب وہ امریکی ریاست کنساس سے ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) کا انتخاب لڑرہے تھے تو اُن کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی نے ایک ہندو راج گوئل کو ٹکٹ دیا۔ مائیک پومپیو نے اپنے ٹوئٹراکائونٹ پر راج گوئل کو Turban Topper یعنی پگڑی پوش کہا۔ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’’امریکی کانگریس یا کسی ایسے ادارے میں جس کا تعلق امریکی آئین، مسیحیت یا ریاست سے ہو، کسی ’پگڑی پوش‘ کا کوئی کام نہیں‘‘۔ راج گوئل تو بیچارے خیر سے ہند نژاد امریکی تھے۔ مسٹر پومپیو صدر اوباما پر بھی گمراہ مسلم کمیونسٹ کی پھبتی کسا کرتے تھے۔ مائیک پومپیو بدنام زمانہ گوانتاناموبے کے عقوبت کدے کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور وہ لب کشائی کے لیے قیدیوں پر انسانیت سوز تشدد کے پُرجوش حامی ہیں۔ معاملہ صرف مائیک پومپیو تک محدود نہیں، بلکہ سی آئی اے کی قیادت کے لیے صدر ٹرمپ نے محترمہ جینا ہیسپل کا انتخاب کیا ہے جو ہیں تو ایک خاتون، لیکن شقاوتِ قلبی کا یہ عالم ہے کہ اُن کے قریبی رفقا انھیں پتھر دل کہتے ہیں۔ محترمہ کو نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹوریل بورڈ نے Torturer گردانتے ہوئے جنگی جرائم کا مرتکب قراردیا ہے۔ 61 برس کی جینا دنیا بھر میں پھیلے سی آئی اے کے خفیہ عقوبت خانوں کی ذمہ دار رہ چکی ہیں جو Black Sites کے نام سے مشہور ہیں۔ ان مراکز پر لب کشائی کے لیے انسانیت سوز تشدد کیا جاتا ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سی آئی اے کا ایسا ایک مرکز پاکستان میں بھی ہے جہاں سابق افغان سفیر ملاّ عبدالسلام ضعیف اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو تختۂ مشق بنایا گیا۔ محترمہ جینا قیدیوں کو خود کچوکے لگاتی ہیں اور اُن کے ساتھیوں کے مطابق تشدد پر قیدیوں کی چیخیں سن کر اُن کا چہرہ خوشی سے گلنار ہوجاتا ہے۔ ’ چشمِ گربہ‘ (Cat’s Eyes)کے نام سے ایسا ہی ایک خفیہ عقوبت کدہ تھائی لینڈ میں ہے جہاں القاعدہ کے عبدالرحیم النشیری اور ابوزبیدہ کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس میں بجلی کے جھٹکے، کتوں سے نچوانا، نازک اعضا پر ضرب اور Waterboarding شامل ہیں۔ ابو زبیدہ پر روح فرسا تشدد کی خود امریکی سینیٹ نے بھی مذمت کی۔ تشدد سے ابوزبیدہ کی ایک آنکھ پھوٹ گئی۔ محترمہ جینا ہیسپل پر یہ بھی الزام ہے کہ انھوں نے قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو ضائع کرکے تمام شواہد مٹا دیے جو امریکی قانون کی رو سے ایک بہت بڑا جرم ہے۔ سی آئی اے ڈائریکٹر کی حیثیت سے جینا ہیسپل کی نامزدگی پر ری پبلکن پارٹی کے سینئر سینیٹرز جان مک کین اور رینڈ پال نے شدید تنقید کی ہے۔ رینڈ پال نے کہا کہ امریکی سینیٹ نے Waterboardingکو غیر انسانی تشدد قرار دیا ہے اور اسی فعلِ قبیح کی مرتکب کو سی آئی اے کی سربراہ نامزد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ سینیٹر رینڈ پال نے اعلان کیا ہے کہ وہ سینیٹ سے جینا ہیسپل اور مائیک پومپیو کی توثیق کی مخالفت کریں گے۔ فاضل سینیٹر کا کہنا ہے کہ ان دونوں کے تقرر سے امریکہ کی خارجہ پالیسی میں سخت گیری بڑھے گی اور ایران کے ساتھ معرکہ آرائی خونریز جنگ کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ اس سے پہلے جب گزشتہ برس فروری میں محترمہ جینا ہیسپل کو صدر ٹرمپ نے سی آئی اے کی ڈپٹی ڈائریکٹر مقرر کیا تھا تب بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے 3 سینیٹرز نے امریکی صدر کے نام ایک خط میں ان کی تقرری کو انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ ان تبدیلیوں کے علاوہ مستقبل قریب میں مزید تبدیلیاں متوقع ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ ریٹائرڈ فوجیوں یا ویٹرن امور (Veteran’s Affairs)کے وزیر David Shulkin کا جانا بھی ٹھیر گیا ہے۔ ان کے بارے میں شکایت ہے کہ وہ اپنے محکمہ کو ٹھیک سے نہیں چلا پارہے اور اسٹاف سے ان کے تعلقات اچھے نہیں۔ خیال ہے کہ ان کی جگہ وزیر توانائی رک پیری نامزد کیے جائیں گے۔ مسٹر پیری ایک راسخ العقیدہ مسیحی ہیں اور اسلام اور اقلیتوں کے بارے میں ان کے منفی تبصرے عام ہیں۔ اس کے علاوہ قومی سلامتی کے لیے صدر کے مشیر جنرل مک ماسٹر کی رخصتی بھی جلد متوقع ہے۔ اٹارنی جنرل جیف سیشنز اور وہائٹ ہائوس کے چیف آف اسٹاف جنرل جان کیلی کے جانے کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ دوسری طرف یہ افواہ بھی ہے کہ Oracleکی شریک سربراہ محترمہ صفرا کارٹز کو بھی کابینہ میں لیا جارہا ہے۔ 56 سالہ اسرائیل نژاد صفرا صدر ٹرمپ کی قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتی ہیں اور بلوم برگ کے مطابق انھیں ڈین کوٹس کی جگہ سراغ رسانی کے وفاقی ادارے (National Intelligence Directorate)کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا جارہا ہے۔ صفرا ایک دین دار یہودی اور اسرائیل کی زبردست پشت پناہ ہیں۔ وہ صدر ٹرمپ کی طرح ایران کے خلاف پابندیوں اور مشرق وسطیٰ میں اخوان المسلمون اور حماس کے گرد شکنجہ مزید سخت کردینے کی حامی ہیں، اور شاید اسی بنا پر مصر کے جنرل السیسی اُن کی محبوب شخصیت ہیں۔

Comments