سازشوں کا تسلسل - امریکہ ہی قا تل نکلا ( چھٹا حصہ ) ;( نجیب ایوبی) قسط نمبر:107

بر صغیر میں اسلام کے احیا ء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر:107 سازشوں کا تسلسل - امریکہ ہی قا تل نکلا ( چھٹا حصہ )
وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کی سازش میں مبینہ طور پر ملوث شخصیات کے بارے میں مزید حقائق کو سامنے رکھیں تو اس سازش کے تانے بانے امریکی حکومت اور اس کی اقتصادی ترجیحات سے جا ملتے ہیں - پاکستان جیسے نوآزا د ملک کے لئے اس وقت کی دو عالمی قوتوں روس اور امریکہ دونوں کی خواہش تھی کہ پاکستان کا جھکاؤ ان کی جانب رہے - مگر لیاقت علی خان دوسری طرح سوچ رہے تھے کہ خارجہ پالیسی کو اس حد تک آزاد رکھا جائے کہ پاکستان اپنے معا ملات آزادانہ طور پر حل کرے اور اپنی ترجیحات کا تعین بھی خود کرے - امریکہ نے اس مقصد کے لئے سر ظفر اللہ قادیانی کو اپنے ہرکارے کے طور پر استمعال کرنا شروع کیا جس نے امریکہ میں امریکی حکام سے کئی ملاقاتیں بھی کیں - اور غلام محمد نے لیاقت علی خان کی زندگی میں ہی خفیہ خط کے ذریعے یہ امریکی حکام کو التجا کی کہ اسے امریکہ کے دورے کی دعوت دی جائے - بہر حال غلام محمد کی جانب سے بھیجے گیۓ اس مراسلے کا علم لیاقت علی خان کو ہوچکا تھا - اس قتل کے تقریبا ساٹھ برس بعد امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی دستاویز سامنے آئیں جس میں اس وقت کی ملکی ترجیحات اور پٹرول کے حصول کے لئے امریکہ کے انتہائی اقدامات کے بارے میں تشویشناک حقائق سامنے لائے گئے - مشرق وسطی اور برصغیر اور اس کے ساحلی علاقوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے امریکہ نے ان نوآزاد علاقوں میں اور اس وقت تیل کی دولت سے مالامال ایران و بلوچستان میں اپنی نظریں جمالیں - امریکہ کی خواہش تھی کہ ایران میں موجود تیل کے کنوؤں کا ٹھیکہ امریکی آئل کمپنیز کو مل جائے
یران کی حکومت نے امریکی دباؤ میں آئے بغیر امریکہ کو انکار کردیا - یہ وہی وقت تھا جب پاکستان کے ایران میں سفیر راجہ غضنفر علی خان نےتہران میں روسی سفارت کاروں سے خفیہ مقام پر ملاقات کی اور لیاقت علی خان کے دورہ روس کے حوالے سے لیاقت علی خان کا پیغا م پہنچایا - امریکن سی آئی اے کو اس ملاقات کی بھنک پڑ چکی تھی - بین الاقوامی تعلقات کی استواری کے اس نازک موقع پر جب کہ لیاقت علی خان روس کے حوالے سے اپنا دورہ پلان کررہے تھے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے حکومت پاکستان سےدرخواست کی کہ پاکستان اپنے پڑوسی مسلم ملک ایران سے رابطہ کرکے اسے اس بات پر قائل کرے کہ وہ امریکی کمپنیوں کو تیل کے کنوؤں سے تیل نکالنے کا ٹھیکہ دے -لیاقت علی خان نے امریکہ کی اس درخواست کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیاکہ وہ ایران کے ساتھ قائم برادرانہ اسلامی تعلقات کو امریکی مفا دات کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے اور ایران کے داخلی معاملات میں پاکستان کو مداخلت کا حق بھی نہیں پہنچتا ۔ امریکہ کو پاکستان کی جانب سے اس قدر دوٹوک جواب کی توقع نہیں تھی -

ا


اس وقت امریکہ کا صدر ہیری ٹرومین تھا - جو اپریل 1945ء میں صدر روزویلٹ کے انتقال کرجانے کے بعد صدر بنا ۔ 1948ء میں دوبارہ صدر کے لئے دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوا - (جاپان کے شہروں ھیروشیما اور ناگاساکی پر ہولناک تباہی مسلط کرنے والا اور ایٹم بم پھینکنے کا حکم بھی اسی نے دیا تھا -) ہیری ٹرومین نے امریکہ کی جانب سے لیاقت علی خان کو دھمکی دیتے ہوئے سخت نتائج کے لئے تیار رہنے کا ڈراوا بھی دیا گیا جس کے جواب میں لیاقت علی خان نے امریکی حکومت سے کہا کہ وہ فوری طور پر پاکستانی علاقوں میں موجود امریکی فضائی چوکیوں کو خالی کردے - ہیری ٹرومین نے سی آئ اے کا ہنگامی اجلاس طلب کیا اور ایک گھناونا منصوبہ تشکیل پایا - پاکستان میں موجود سی آئ اے ایجنٹ حرکت میں آگئے - افغانستان کے فرماں رو ا ظاہر شاہ کو کہا گیا کہ وہ اجرتی قاتل کا بندوبست کرے - اس کام کے بدلے میں ظاہر شاہ کو یہ لالچ دیا گیا کہ پاکستان کا شمالی حصہ پشتونستان کی صورت میں افغانستان کو دے دیا جائے گا - اس خفیہ معا ئدے کے تحت سی آئ اے کی مدد سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں افغانستان کے لئے کام کرنے والے سیکرٹ ایجنٹ سید اکبر کو کھوج نکا لا گیا - افغانستان نے اس وقت تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا - وزیر خزانہ غلام محمد وزیر خزانہ بننے سے پہلے بہت عرصے تک ڈپٹی کمشنر پشاور رہے اور قبائلی علاقہ جات کے نگراں کے طور پر بھی سرکاری خدمات انجام دے چکے تھے ان کے علم میں بھی یہ بات تھی کہ کن کن سیکرٹ ایجنٹوں سے پاکستان خفیہ طور پر کام لے رہا ہے - مخبری کے لئے پاکستان حکومت ان ایجنٹوں کو ماہانہ بنیادوں پر غیر معمولی اجرت بھی دیتی تھی - جس کے ثبوت بھی موجود تھے - قتل کی سازش بہت ہوشیاری کے ساتھ تیار کی گئی تھی - ایک رات پہلے سید اکبر نے پنڈی کے ایک ہوٹل میں کمرہ بک کروایا تھا - جس کے ملاقاتی رجسٹر سے ملنے والے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ تین افراد اس سے رات گئے ملنے آتے رہے اور ان تینوں نے شہر میں اچھی طرح گھوم پھر کر جلسہ گاہ کے اطراف کا جائزہ بھی لیا - نوابزادہ لیاقت علی خان کے جسم میں دو گولیاں لگیں ان گولیوں کے خول امریکی گولیوں کے خولوں سے ملتے جلتے تھے - جو عام مارکیٹ میں دستیاب نہیں تھے - یہ اسی قسم کی گولیاں تھیں جو اعلیٰ عہدوں کے حامل امریکی افسران کو حفا ظتی اقداما ت کے لئے استعمال کرنے میں دی جاتیں تھیں ۔ وزیر خزانہ ملک غلام محمد کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وہ امریکی سی آئی اے کے ہاتھوں استمعال ہو ا - اور اس خدمت ( قتل میں معاونت ) کے صلے میں امریکی حکومت کی جانب سے گورنر جنرل آف پاکستان بنایا گیا - غلام محمد امریکی خدمت کے صلی میں گورنر جنرل پاکستان بن چکا تھا - بیمار فالج زدہ ، بلند فشار خون کا دائمی مریض امریکہ کے لئے نہایت کام کا مہرہ تھا - واشنگٹن کے دورے میں پرسونل سکریٹری کے طور پر مس روتھ بورل ( نوجوان نازک اندام دوشیزہ ) کو اپنے ساتھ لیکر آئے - جو ان کے دن بھر کے معمولات پر نگاہ رکھتی - آنے جانے والے افراد کو لازمی طور پر مس روتھ بورل سے ملنا پڑتا - کیونکہ منہ پر فالج گرنے کے سبب غلام محمد بول نہیں سکتے تھے البتہ بول چال کے نام پر غوں غاں کی آوازیں نکالتے رہتے جس کی ترجمانی کا فریضہ بھی مس روتھ بورل اد ا کرتیں - گویا پرائیویٹ سکریٹری کے روپ میں امریکی سی- آئ -اے ہمہ وقت گورنر جنرل کی نگرانی پر مامور تھی - قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ " گورنر جنرل کی حیثیت سے غلام محمد کا دور پاکستان کے لئے بدشگونی کا زمانہ تھا- جمہوری روایات اور اقدار کی بےدریغ پامالی کا سلسلہ ان ہی کے ہاتھوں شروع ہوا - اسی کے ساتھ امور سلطنت میں " نظریہ ضرورت " کے عمل کی ابتداء ہوئی - شخصیت پرستی نے فروغ پایا - مشرقی پاکستان کی سیاست نے واضح طور پر الگ رخ اختیار کیا - بری فوج کے کمانڈر انچیف نے اپنے عہدے کے ساتھ وزیر دفاع کی خدمت شامل کرکے کابینہ میں شرکت حاصل کی - اس دور کی مجموعی خصوصیت بے ثباتی - بے یقینی - بے اعتمادی اور بد نیتی تھی -" وہ مزید لکھتے ہیں کہ مجھ سے کئی بار یہ سوال کیا گیا کہ محمد اس قدر شدید بیمار تھے کہ نہ وہ چل پھر سکتے تھے - بول نہ سکتے تھے -زیادہ لکھ پڑھ نہ پتے لیکن اس کے باوجود وہ بڑے رعب دب کے ساتھ حکمرانی کرتے رہے- ان کی طاقت کا اصل راز کیا تھا ؟ اس کا جواب قدرت الله نے اسطرح دیا " اس کے دو جواب ہیں کہ " مسٹر غلام محمد کی طاقت کا سرچشمہ " سیاست دانوں کی کمزوری کمزوری " تھی - دوسرا جواب یہ کہ جنرل اسکندر مرزا کی شہہ پر مسٹر غلام محمد کو کمانڈر انچیف ایوب خاں کی پشت پناہی تھی - جو نہ نظر آنے والی روشنائی سے لکھی ہوئی تھی - مستقبل کے بارے میں ان دونوں حضرات کے اپنے اپنے عزائم تھے " " وہ جب تک جئے حب جاہ اور حب دنیا کا عبرتناک مجسمہ بن کر جئیے " ( حوالہ : شہاب نامہ صفحہ - 663) مسٹر غلام محمد کی صورت میں امریکہ نے پاکستان کو مکمل طور پر اپنی مٹھی میں لے لیا - اس کے بعد کے واقعات تسلسل کے ساتھ امریکہ کے حق اور پاکستان کے خلاف جاتے رہے - جماعت اسلامی کے بانی امیر سید ابو الا علی مودودی نے ہنگامی بنیادوں پر نظریہ پاکستان کے تحفظ اور قرار داد مقاصد میں قادیانیوں کے حوالے سے ترمیمی نکات شامل کرنے اور امریکہ کے جبری تسلط سے نکلنے کے لئے تمام جمہوری و سیاسی جماعتوں اور علماء کرام کو ایک پیج پر جمع کرنے کی کوششیں تیز تر کردیں - مولانا مودودی کے وہ تمام خدشات درست ثابت ہورہے تھے جو انہوں نے موقع پرست حکومتی عہدیداروں کے حوالے سے ظاہر کئے تھے (جاری ہے )


Comments