چودھری نثار کا مخمصہ ::: متین فکری

اللہ بخشے جنرل ضیا الحق مرحوم اپنی تقریروں اور گفتگو میں ایک لفظ بکثرت استعمال کرتے تھے اور وہ لفظ تھا ’’مخمصہ‘‘ یار لوگوں نے ان کا نام ہی ’’جنرل مخمصہ‘‘ رکھ دیا تھا۔ وہ جب تک برسراقتدار رہے انہوں نے پوری قوم کو مذہب، سیاست، جمہوریت، جماعتی اور غیر جماعتی الیکشن کے بارے میں مخمصے میں مبتلا کیے رکھا۔ یہاں تک کہ ان کی موت کے بعد بھی مخمصہ قوم پر مسلط رہا۔ چودھری نثار احمد خان مسلم لیگ (ن) کے نہایت قد آور لیڈر اور بڑے گرم و سرد چشیدہ سیاستدان ہیں، انہوں نے قوم کو تو مخمصے میں مبتلا نہیں کیا البتہ خود ایک مدت سے مخمصے میں مبتلا ہیں اور یہ مخمصہ کسی طرح ان کی جان چھوڑتا نظر نہیں آتا۔ مخمصہ ان کا یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) میں رہیں یا اسے چھوڑ دیں۔ اگر رہیں تو کیا وہ مسلم لیگ (ن) میں اپنے سے جونیئر لوگوں کی قیادت قبول کرلیں؟ میاں نواز شریف اگرچہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں عوامی نمائندگی اور منصب کے لیے نااہل ہوچکے ہیں لیکن پارلیمنٹ میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے وہ اب بھی اپنی پارٹی کی قیادت کررہے ہیں(جس کے خلاف عدالت سے فیصلہ آگیا ہے)، چودھری نثار ان کی قیادت کو تو تسلیم کرتے ہیں، انہیں اپنا لیڈر مانتے ہیں، ان سے اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہیں لیکن وہ ان کے مشیروں سے خوش نہیں ہیں جو میاں صاحب کو عدلیہ اور فوج سے محاذ آرائی کا مشورہ دے رہے ہیں اور میاں صاحب اپنی افتا دطبع کے تحت اس مشورے پر پورے جوش و خروش سے عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے چودھری کو اپنے مشاورتی عمل سے بالکل خارج کردیا ہے وہ ان کی کوئی بات سننے اور ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسے میں چودھری نثار کا مخمصہ یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) میں رہتے ہوئے اپنی سیاسی انا کو کیسے تسکین دیں اور پارٹی میں اپنی اہمیت کیسے منوائیں، ان کا مخمصہ یہ بھی ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر پارٹی سے بے وفائی کا داغ اپنے ماتھے پر نہیں لگانا چاہتے۔ وزارت علیا یا وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کا خواب ہر مہم جو سیاستدان دیکھتا ہے، چودھری نثار بھی اس سے مستثنا نہیں ہیں، وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بننے کا خواب دیکھتے رہے ہیں، انہوں نے اس سلسلے میں پنجاب اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا تھا لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوگیا کہ پنجاب میں شریف خاندان کے ہوتے ہوئے ان کی دال نہیں گل سکتی۔ چناں چہ وہ اس خواب کو ترک کرکے قومی اسمبلی میں آگئے اور اپنی پسند کی وزارت لینے میں کامیاب رہے۔ میاں نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد ان کے دل میں بھی وزیراعظم بننے کی خواہش نے انگڑائی لی ہوگی لیکن انہیں پتا تھا کہ وہ میاں صاحب کی گڈ بکس میں نہیں ہیں اس لیے وزارت عظمیٰ کا ہما ان کے سر پہ نہیں بیٹھے گا، میاں صاحب اپنے کسی جی حضوریے ہی کو اس منصب پر فائز کریں گے۔ چناں چہ جب شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنایا گیا تو چودھری نثار نے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے ان کی کابینہ میں شمولیت سے انکار کردیا اور خاموشی اختیار کرلی۔ اب چودھری نثار نے چپ کا روزہ توڑا ہے اور پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی جونیئر کو سر یا میڈم نہیں کہہ سکتے۔ ’’سر‘‘ سے ان کی مراد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہیں جن کی کابینہ میں اگر وہ شامل ہوتے تو انہیں لازماً سر کہنا پڑتا۔ عباسی صاحب چوں کہ ان سے بہت جونیئر ہیں اس لیے چودھری نثار کی انا انہیں سر کہنے کی روادار نہ تھی۔ رہا ’’میڈم‘‘ کا معاملہ تو یہ صاف اشارہ ہے مریم نواز صاحبہ کی طرف جو اس وقت میاں نواز شریف کے بعد نمبر ٹو قرار دی جارہی ہیں۔ بلکہ میاں صاحب تو اپنی صاحبزادی کو نمبر ون بنانے کی فکر میں ہیں اور انہیں جلسوں میں اپنے بعد خطاب کا موقع دے رہے ہیں جو اس بات کا اظہار ہے کہ ان کے بعد اب مریم نواز کی باری ہے۔ چودھری نثار کہتے ہیں کہ وہ نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ تو کام کرسکتے ہیں لیکن مریم نواز ان کی بیٹی کی طرح ہیں، ان کے ساتھ کام نہیں کرسکتے۔ چودھری صاحب کا یہ مخمصہ بھی ایک لطیفے سے کم نہیں۔ جب مریم نواز کے والد محترم اپنی بیٹی کے سر پر قیادت کا تاج رکھنا چاہتے ہیں وہ جلسوں میں اپنی بیٹی کو سب سے اہم لیڈر کے طور پر متعارف کرارہے ہیں تو چودھری نثار کون ہوتے ہیں۔ اس رنگ میں بھنگ ڈالنے والے۔ شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ (ن) لیگ ایک موروثی سیاسی جماعت ہے جس میں باپ کے بعد بیٹا یا بیٹی ہی قائد بن سکتی ہے۔ یہ کوئی جمہوری سیاسی جماعت نہیں ہے جس میں سینیارٹی کی بنیاد پر چودھری صاحب کی بھی لاٹری نکل آئے، اگر چودھری نثار مسلم لیگ (ن) میں رہنا چاہتے ہیں اور اس کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو پھر انہیں مریم نواز کی قیادت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا، ورنہ وہ اپنے لیے کسی خیر کی اُمید نہ رکھیں۔ چودھری نثار نے اپنی پریس کانفرنس میں ڈان لیکس کا معاملہ بھی اُٹھایا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ پارٹی کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلا کر ڈان لیکس کی رپورٹ شائع کرنے کا فیصلہ کیا جائے اگر ایسا نہ ہوا تو وہ رپورٹ خود شائع کردیں گے۔ ڈان لیکس میں اصل فریق فوج تھی جب فوجی قیادت نے اس معاملے پر سمجھوتا کرلیا تو اب اس رپورٹ کو شائع کرنے پر اصرار مردہ گھوڑے کو چابک مارنے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ چودھری صاحب اتنے دلیر تھے تو وزیر داخلہ کی حیثیت سے اس رپورٹ کو شائع کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اس لیے شائع نہیں کی کہ پارٹی پالیسی یہ نہیں تھی، پارٹی کی پالیسی اب بھی یہی ہے کہ اسے شائع نہ کیا جائے اور ڈان لیکس کے ذمے داروں پر پردہ پڑا رہے، تو اب چودھری نثار اس پالیسی سے انحراف کیوں کرنا چاہتے ہیں؟۔ جیسا کہ ہم نے ابتدا میں لکھا ہے کہ چودھری نثار کا اصل مخمصہ یہ ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) میں رہیں یا اسے چھوڑ دیں، چھور دیں تو کہاں جائیں، عمران خان نے انہیں اس مخمصے سے نکالنے کے لیے تحریک انصاف میں آنے کی دعوت دی ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ وہ تحریک انصاف جوائن نہیں کریں گے اور مخمصے میں رہنا ہی پسند کریں گے۔ مخمصہ چیز ہی ایسی ہے وہ چمٹ جائے تو جان نہیں چھوڑتا۔بشکریہ روزنامہ جسارت

Comments