عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آگیا-نواز شریف کی چھٹی

عدالت عظمیٰ کا فیصلہ آگیا۔ نااہل قرار دیے گئے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف حکمران مسلم لیگ کی صدارت نہیں کرسکتے۔ یہ فیصلہ کسی ایک فرد کے خلاف نہیں، اس کے بہت دور رس نتائج ہوں گے۔ فوری طور پر تو چند دن بعد ہونے والا سینیٹ کا الیکشن خطرے میں پڑ گیا ہے۔ نواز شریف نے پارٹی صدر کے طور پر جن لوگوں کو سینیٹ کے ٹکٹ جاری کیے تھے اب وہ کالعدم ہوگئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ نواز شریف نے پارٹی صدر کے طور پر جو بھی فیصلے کیے وہ سب منسوخ سمجھے جائیں گے۔ گویا سینیٹ کا الیکشن مقررہ تاریخ پر نہیں ہوسکے گا۔ عدالت عظمیٰ کو کسی پارٹی کی صدارت کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہے یا نہیں، اس پر ماہرین قانون اور تجزیہ کاروں کے بحث، مباحثے طویل عرصے تک چلیں گے۔ نوازشریف کو سڑکوں پر نکلنے اور جلسوں، جلوسوں سے خطاب کرنے کے لیے ایک اور موضوع مل گیا ہے۔ عمران خان تک کہہ رہے ہیں کہ عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو سڑکوں پر نکلنے کا ایک اور موقع فراہم کردیا ہے۔ ایک تجزیہ یہ بھی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کا فائدہ میاں نواز شریف کو پہنچ رہا ہے اور وہ عوام میں مقبولیت حاصل کررہے ہیں۔ کم از کم پنجاب میں تو ن لیگ اور نواز شریف کی گرفت مزید مضبوط ہوگئی ہے۔ لودھراں میں کامیابی اس کا حالیہ ثبوت ہے۔ میاں نواز شریف عمران خان کو عدلیہ کا لاڈلا قراردیتے ہیں لیکن جو فیصلے آرہے ہیں ان کا فائدہ نواز شریف کو پہنچ رہا ہے۔ لوگوں نے تو یہ کھوج بھی نکال لیا کہ 1993ء میں جناب ثاقب نثار نواز شریف کے وکیل تھے اور 2011ء میں اس بینچ کا حصہ تھے جس نے میمو گیٹ میں نواز شریف کی پٹیشن منظورکی۔ مخالفین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ 1991ء میں جب نواز شریف پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے تو اپنے ایک دوست کو لاہور ہائی کورٹ بار کا سیکرٹری جنرل بنوا دیا۔ انہی صاحب کو 1997ء میں دوبارہ وزیر اعظم بننے پر بیورو کریسی میں جو پہلا تقرر کیا وہ سیکرٹری قانون کا تھا۔ یہ وہی تھے جن کو 1991ء میں لاہور بار کا سیکرٹری جنرل بنوایا تھا۔ یعنی تعلقات پرانے ہیں۔ لیکن یہ پی ٹی آئی کا پروپیگنڈا بھی ہوسکتا ہے ورنہ محترم جسٹس ثاقب نثار نواز شریف کا کیس ہی نہ لیتے۔ وہ ضابطہ اخلاق کے سخت پابند ہیں۔ مگر مخالفین کو تو بدنام کرنے کا کوئی موقع ملنا چاہیے۔ نواز شریف کو مسلم لیگ ن کی صدارت سے ہٹانے پر اب ن لیگ زیادہ اودھم مچائے گی اور عدلیہ کے خلاف اس کی دشنام طرازی میں تیزی آجائے گی۔ یہ اوربات ہے کہ میاں نواز شریف کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ عدلیہ کا ہر حکم تسلیم کریں گے۔ لیکن ان کے قول و فعل سے اب تک یہ ظاہر تو نہیں ہوا۔ محاذ آرائی میں نئی جان پڑ گئی ہے۔ عدالت کا موقف ہے کہ آئین کی شق 62اور 63 پر پورانہ اترنے والا کوئی شخص کسی سیاسی جماعت کی صدارت نہیں کرسکتا۔ لیکن اب مسلم لیگ ن صدارت کے لیے ایسا کوئی شخص کہاں سے تلاش کرے گی۔ خود نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی الزامات کی زد میں ہیں۔ عدلیہ کے مذکورہ فیصلے سے پیپلزپارٹی کے شریک صدر نشین آصف علی زرداری کو اطمینان حاصل ہوا ہے گو کہ اس کا کوئی جواز نہیں کیونکہ نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے پر پنجاب میں پیپلزپارٹی کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا بلکہ ممکن ہے کہ مزید نقصان پہنچے۔ عدالت کے حکم پر نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹاتو دیا گیا ہے لیکن کیا ن لیگ کے ارکان بھی انہیں اپنا قائد تسلیم کرنے سے انکار کردیں گے؟ وزیراعظم کے منصب پر فائز کردیے جانے والے شاہد خاقان عباسی تک تو عدلیہ کے فیصلوں کا منہ چڑاتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ان کے وزیراعظم تو نواز شریف ہی ہیں۔ چنانچہ ن لیگ کے ارکان بھی یہی کہہ سکتے ہیں کہ ان کا صدر تو نواز شریف ہی ہے۔ نواز شریف پر اور بھی کئی مقدمات ہیں جن کا فیصلہ آنا باقی ہے مثلاً توہین عدالت کا مقدمہ جس کی سماعت26 فروری تک ملتوی ہو گئی ہے ۔ یہ مقدمہ عدالت عالیہ اسلام آباد میں زیر سماعت ہے ۔ ان کی صاحبزای مریم نواز عدالت کے فیصلوں کو انتقام کی ایسی آگ قرار دے رہی ہیں جو ٹھنڈی ہونے میں نہیں آ رہی ۔ فرماتی ہیں کہ جج عمران خان کی زبان بول رہے ہیں ۔ میاں نواز شریف کے خلاف اثاثوں سے متعلق معاملات نیب میں چل رہے ہیں اور ضمنی ریفرنسز میں انہیں براہ راست ملزم قرار دیا جا چکا ہے ۔ نیب کے مطابق سابق وزیر اعظم اپنے اثاثوں سے متعلق بے گناہی ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ا یسے میں نواز شریف کے پاس یہی راستہ رہ گیا ہے کہ وہ عوام کو مشتعل کر کے کوئی ایسا قدم اٹھائیں کہ سارا معاملہ ہی لپیٹ دیا جائے ۔ ان کے بنائے ہوئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اپنی وفا داری کے اظہار میں اپنے منصب کے تقاضے فراموش کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کو سزا دی تو جنگ ہو گی ۔ کیا یہ ایک وزیر اعظم کا بیانیہ ہے یا نواز شریف کے کسی کارکن کا؟ موصوف یہ اشارہ بھی دے چکے ہیں کہ اسمبلیوں کی مدت ایک برس بڑھائی جا سکتی ہے ۔ ایوان بالا کے انتخابات کی تاریخ تو بڑھتی ہوئی نظر ہی آ رہی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کی وجہ سے سینیٹ کے انتخابات متاثر نہیں ہونے چاہییں ۔

Comments