لفظ مہاجر ہی پر زور کیوں ::: مظفر اعجاز

اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے مہاجروں کے حقوق اور مسائل کے حل کے عنوان سے سیاست شروع کرنے والے بار بار اپنی اصل کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ 1990ء میں الطاف حسین نے مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ بنانے کا آغاز کیا تو آفاق احمد اور عامر خان ناراض ہو کر الگ ہوگئے۔ ڈاکٹر سلیم حیدر پہلے ہی مہاجر اتحاد تحریک چلارہے تھے۔ لیکن 1990ء کے عشرے سے 2017ء تک متحدہ قومی موومنٹ کے نام سے متحدہ قومیتکا پرچار ہوتا رہا اور متحدہ قومیت کی سیاست ہوتی رہی۔ اتفاق رائے صرف قومیتوں پر تھا حالاں کہ تمام قومیتیں مل کر پاکستانی قومیت بن جاتیں لیکن الطاف حسین اور ان کی پارٹی کو چلانے والوں نے اس امر کا خوب اہتمام کیا کہ یہ قومیتیں الگ الگ رہیں پاکستانی نہ بن جائیں حالاں کہ یہ کھیل چلانے والے خود کو دوسروں سے زیادہ پاکستانی سمجھتے ہیں لیکن یہ بات بھی خوب جانتے ہیں کہ قوم پاکستانی بن گئی تو سوالات تو اُٹھیں گے اور یہ سوالات ان کے بارے میں زیادہ اٹھیں گے۔ بہرحال مختلف ادوار اور حالتوں سے گزر کر متحدہ قومی موومنٹ اب ایم کیو ایم پاکستان بن چکی ہے اور اس میں بھی دو دھڑے بن گئے ہیں۔ عامر خان مہاجر سیاست کے دعویدار بنے ہوئے ہیں، آفاق احمد پہلے ہی مہاجر سیاست کررہے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ فاروق ستار بھی مہاجر سیاست کی بات کررہے ہیں۔ متحدہ قومیت غائب ہوگئی ہے۔ یہ مہاجر سیاست مہاجر کارڈ کیا ہے اور مہاجر کن لوگوں کو کہا جاتا ہے۔ ساری کہانی اس کے گرد گھومتی ہے۔ مہاجر ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان آئے تھے، ان میں پنجابی بولنے والے مشرقی پنجاب کے لاکھوں لوگ بھی تھے۔ پشتو بولنے والے اور سندھی بولنے والے لوگ بھی تھے لیکن بھاری اکثریت اردو بولنے والوں کی تھی۔ اسے بدقسمتی کہیے یا پاکستانی حکام کی مستقبل بینی کی صلاحیت میں کمی، کہ انہوں نے بھی صرف اردو بولنے والوں ہی کو مہاجر بننے دیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مشرقی پنجاب کے جو لوگ ہجرت کرکے پاکستان آئے وہ پنجابی زبان بولنے کی وجہ سے پاکستان میں پنجابی کہلائے، جو لوگ مہاجر کہلائے پورے پاکستان میں سید، شاہ جی اور پڑھے لکھے لوگوں کے طور پر مشہور تھے اور صرف مشہور نہیں بلکہ حقیقتاً پڑھے لکھے تھے، یہ لوگ قناعت پسند تھے، اچھے سرکاری عہدوں پر ہونے کے باوجود گزر اوقات سادگی کے ساتھ رکھتے تھے لیکن ملکی معاملات میں بھرپور دلچسپی لیتے تھے۔ رویت ہلال کا مسئلہ ہو، آئین سازی کا معاملہ ہو، ختم نبوت کا دفاع کرنا ہو، ہر معاملے میں یہ لوگ آگے آگے ہوتے تھے۔ ایوب خان اور بھٹو کے خلاف دو بڑی تحریکیں یہیں سے اُٹھیں اور دونوں کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ جب بھٹو کو فارغ کرکے جنرل ضیا الحق اقتدار پر صرف 90 روز کے لیے براجمان ہوئے تو دو تین کام کیے گئے جن کی مدد سے مستقبل میں کسی سیاسی تحریک کی جڑ کاٹی جاسکے۔ ایک کام طلبہ یونینوں کا خاتمہ تھا، پہلے تو تنظیمیں ختم کی گئیں پھر ان کو بحال کردیا گیا اور ان کے مقابلے میں لسانی تنظیمیں پیدا کی گئیں۔ سیاسی تحریکوں میں اسکول، کالج کے طلبہ کے علاوہ اساتذہ بھی شریک ہوتے تھے، وکلا بھی ان تحریکوں میں آگے آگے ہوتے تھے اور علما ان سب کی قیادت کرتے تھے۔ جرنیلی نقشہ یوں بنا کہ دینی جماعتوں کے دو دو گروپ بنائے جائیں، طلبہ سیاست ختم کی جائے اور وکلا، اساتذہ اور کلرکوں وغیرہ کو معاش کے چکر میں ایسا اُلجھایا جائے کہ وہ قومی تو کجا مقامی امور پر بھی توجہ نہ دے سکیں۔ گھر کا چولہا، کرایہ، اسکول، کالج کی فیس، دوا دارو اور عید بقر عید۔ اس کے لیے دوسری نوکری یا پارٹ ٹائم کام ضروری کردیا گیا۔ مہنگائی کا سیلاب اس مقصد کے لیے لایا گیا۔ وکلا اساتذہ اور کلرک تو اس حملے سے آج تک نہیں سنبھل سکے۔ ان کے طلبہ تو ان کی بنیادی نرسری طلبہ یونینیں آج تک معطل ہیں۔ جنرل ضیا کے بعد 11 سال جمہوریت کے نام پر حکومتیں رہیں کسی نے یونین انتخابات بحال نہیں کرائے۔ پھر جنرل پرویز مشرف 9 سال مسلط رہے اور ان کو گئے ہوئے پھر 11 سال ہونے کو آئے ہیں لیکن پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے بھی طلبہ یونینوں کو بحال نہیں کیا۔ کیوں کہ لسانی اور علاقائی بنیادوں پر سیاست اور طلبہ کو تقسیم کرنا مقصود تھا۔ یہ حکمران بھی ہدایت کار کی ہدایات کے پابند ہیں لہٰذا لسانی تقسیم پر ہی متفق رہے، اس کو فروغ دیتے رہے۔ ہدایت کار کی ضرورت کے مطابق 90 کے عشرے میں الطاف حسین کو مہاجر سیاست ترک کرکے متحدہ قومی موومنٹ کا شوشا چھوڑنے پر تیار کیا گیا اور پھر اس پر ایسا ڈراما رچایا گیا کہ آزاد کشمیر سے بھی متحدہ کے ارکان جیتنے لگے اور پنجاب میں بھی ان کے یونٹ بننے لگے لیکن اردو لسانی سیاست کے ردعمل نے پنجاب میں ان کو قدم جمانے بلکہ رکھنے کا بھی موقع نہیں دیا۔ صوبہ سرحد (کے پی کے) اور بلوچستان میں بھی ان کو موقع نہیں ملا۔ یوں ایم کیو ایم پاکستان بننے کے باوجود کراچی، حیدر آباد تک محدود رہی اور اب تک یہی صورت حال تھی۔ ایم کیو ایم میں تازہ اکھاڑ پچھاڑ کے نتیجے میں سارے فلسفے دھرے کے دھرے رہ گئے اور پانچوں دھڑے مہاجر بن کر رہ گئے۔ اس لسانی سیاست نے اہل کراچی کو گزشتہ 35 برسوں میں صرف خون، تباہی اور بربادی دی ہے۔ سب سے بڑی تباہی اہل کراچی اور اردو بولنے کے لیے یہ تھی کہ سید اور شاہ جی کہلانے والے پڑھے لکھے مہاجر اب کن کٹے، ٹنٹے، کالیا، انکاؤنٹر، بھرم اور پاجاما وغیرہ نہ جانے کیا کیا کہلائے جانے لگے۔ صرف کہلائے جانے تک تو کوئی بڑی بات نہیں تھی، اس لسانی سیاست نے تین عشروں میں مہاجر نوجوانوں کے ہاتھ سے قلم اور کتاب لے لی ہے، اب میٹرک سے آگے تعلیم بلکہ میٹرک بھی مہاجر بچوں کے لیے خواب ہے۔ اب وہ مکینک کے چھوٹے ہیں، دکان پر سیلز مین ہیں، یا کھوکھے لگارہے ہیں، کیبن میں دکان چلا رہے ہیں، موبائل شاپ کھولے بیٹھے ہیں یا پھر خود موبائل چھین رہے ہیں۔ ان کے منہ میں گٹکا، مین پوری، راج گرو، سٹی، جے ایم، ماوا، پان پراگ یا ون ٹو ون وغیرہ ہیں۔ کان میں بالیاں، کلائی میں راکھی بندھی ہوئی ہے۔ اہل زبان کی زبان بھی چھین لی گئی ہے، اب تو ابے تبے بہت پیچھے رہ گیا ہے، گفتگو میں اردو بھی غائب ہے، یہ تباہی ہوئی ہے اصل۔ مہاجر سیاست کے نتیجے میں۔ اس کے مجرم الطاف حسین اور ان کی باقیات میں شامل تمام دھڑے ہیں اگر مہاجروں کو اپنی تاریخ، ثقافت اور باپ دادا سے کچھ محبت ہے تو تعلیم کی طرف لوٹ جائیں۔ لسانی سیاست کو مسترد کریں ان کے پاس پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت موجود ہے۔ وہ نہ ہو تو دس سال کے لیے سیاست ہی سے کنارا کریں صرف تعلیم پر توجہ دیں۔

Comments