آ زادی کے بعد - قائد اعظم - آخری ہچکی (چودھواں اور آخری حصہ ) ( نجیب ایوبی) قسط نمبر:: 101

بر صغیر میں اسلام کے احیا ء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر:: 101‎

 
آزادی سے کچھ پہلے مسلم لیگ میں جس طرح ہندوستان کے نواب، جاگیر دار ، وڈیرے ، خوانین، قبائلی سردار اور یہاں کے مسلم صنعت کار شامل ہونا شروع ہوئے ا س سے یہ تاثر پختہ ہوتا چلا گیا کہ مسلم لیگ نوابوں ، وڈیروں جاگیرداروں اور پیسے والوں کی جماعت ہے - بنگال میں تو ڈھاکہ کے نواب آگے آگے تھے ۔ سندھ میں مسلم لیگ وڈیروں اور سیدوں کے ہاتھ میں کھیل رہی تھی ۔ اسی طرح پنجاب میں جاگیر دار اور زمیندار مسلم لیگ کے سرپرست تھے اور پنجاب میں مسلم لیگ اور وہاں کے جاگیرداروں کی یونینسٹ پارٹی کا اتحاد ہونے سے مسلم لیگ پر یہ الزام اور بھی شدت سے لگایا جانے لگا کہ مسلم لیگ جاگیرداروں اور وڈیرے نوابوں کی پارٹی ہے - اس کلف زدہ سیاسی کلچر کا نتیجہ یہ نکلا کہ کلف زدہ طبقہ ملک کی فیصلہ کن قوت بنکر ابھرتا چلا گیا اور ملک و ملت کے لئے حقیقی قربانیاں دینے والے بری طرح نظر انداز کردے گئے -اور آج تک اس محروم طبقے کا یہی حال ہے - تقسیم کے وقت ہندوستان میں وزارت خارجہ کے دفاتر تھے جہاں سیاسی اور مملکت کے معاملات دیکھے جاتے تھے -امور خارجہ کا شعبہ بھی کا م کر رہا تھا ۔اور دولت مشترکہ سے رابطے کے لئے بھی افسران موجود تھے - اس کے مقابلے پر پاکستان کے حصے میں آنے والے 4 مسلمان 5 اور برطانوی آفیسرز تھے اور بقیہ 141، قاصد ،کلرک یا چپراسی لیول کے لوگ تھے
ان حالات میں وزارت خارجہ کا کا م شروع ہوا - ابتداء میں لیاقت علی خان بنفس نفیس ان تمام امور کی نگرانی کرتے تھے - قادیانی وزیر خارجہ ظفر اللہ خان کا تقرر ہونے کے بعد یہ شعبہ مکمل طور پر ظفر اللہ خان کے پاس آگیا - یہ قادیانی سازش کوئی اچانک رونما نہیں ہوئی تھی -یہ کام پاکستان بننے سے بہت پہلے سے ہورہا تھا - اس سلسلے میں جناب سیف اللہ خالد صاحب کا مضمون " قادیانی دین و ملت کے غدار کیوں ہیں ؟" کا حوالہ بہت اہم ہے سیف اللہ خالد لکھتے ہیں کہ "ا س حوالہ سے تحقیق کی گئی تو معاملہ بہت سنگین صورت اختیار کرتادکھائی دیا کہ دراصل قادیانی جماعت کو ’’یہودیت کاچربہ اوردین و ملت کی غدار‘‘ کا لقب مصور پاکستان علامہ اقبال ؒ نے دیا تھا، قادیانی جماعت کے حوالہ سے حضرت اقبال ؒ اورپنڈت نہرو کے درمیان خط کتابت ریکارڈ پرموجود ہے ، جس میں اپنے آخری خط میں علامہ اقبال نے لکھا کہ: ’’میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قادیانی دین اور ملت کے غدار ہیں ۔‘‘ (“A Bunch of Old Latters”,frist British edition 1960,Asia Publishing House pp187-188) اب آجائیں پاکستان کی دفاعی صورتحال پر جو قیام پاکستان کے موقع پر تھی - یہاں بھی ہندو سازش مکمل طور پر عیاں دکھائی دیتی ہے قیام پاکستان کے وقت جو فوج پاکستان کے پاس تھی اگرچہ وہ تعداد میں بہت ہی کم تھی مگر حوصلہ‘ ہمت‘ خلوص اور ایمانی قوت سے لبریز تھی - قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کو آزاد کرواکر قوم کو آگ کے دریا سے نکالنے میں تو کامیاب ہوگئے تھے - مگر آزادی کے فورا بعد مفا د پرست عناصر ، قوم پرست چودھری وڈیرے جاگیر دار اور خوانین اس نوآزاد مملکت کو شہد کا شیرہ سمجھ کر ایسے چمٹے کہ کہ آزاد ہونے کے بعد سے لیکر آج تک پاکستان کو ان سے چھڑانا وقت کا ا ہم ترین چیلنج بن چکا ہے - آزادی کی اس جدوجہد میں قائد اعظم نے اپنی ذات ، خواھشات اور نجی زندگی سب کچھ داؤ پر لگاتے ہوئے قوم کو آزادی کا تحفہ دیا مگر اس دوران وہ ایک مہلک مرض کو جا ن سے لگا بیٹھے تھے - دن رات کام اور مختلف مقامات کے سفر نے قائد اعظم کی کالی کھانسی کی بیماری کو جان کا آزار بنا دیا تھا اس بیماری کا علم یا تو ان کے معالج خاص کو تھا یا پھر قائد اعظم کو - قائد اعظم نے نہایت سختی کے ساتھ اپنے معالج کو منع کردیا تھا کہ وہ اس بیماری کا علم کسی کو نہ ہونے دیں کیونکہ ابھی پاکستان آزاد نہیں ہوا تھا اگر اس بیماری کا علم ماؤنٹ بیٹن یا کانگریسی رہنماؤں کو ہوجاتا تو پاکستان کی آزادی کا اعلان بآسانی مؤخر کیا جا سکتا تھا - ان کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مطابق انہیں قائد اعظم کی اس بیماری کا اندازہ پہلی مرتبہ اس وقت ہوا جب 1940 لاہور میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس تھا- قائد اعظم مسلم لیگ کے صدر اور پارلیمانی پارٹی کی قانون ساز کمیٹی کے رہنماء بھی تھے ا جلاس کے بعد تنظیمی کام اور دورے بہت زیادہ بڑھ چکے تھے - بھائی کا وزن غذاؤں میں بے اعتدالی اور عدم آرام کے سبب دن بدن کم ہوتا جارہا تھا اسی ضمن میں ایک سفر بمبئی سے دلی کا بذریعہ ریل ہوا -میں بھائی کے ساتھ تھی -اس وقت بھائی کو ہلکا سا بخار بھی تھا - کھانا کھانے کے بعد وہ سیٹ پر لیٹے ہی تھے کہ انہوں نے اچانک درد سے کراہنا شروع کردیا بھاگتی دوڑتی شور مچاتی گاڑی کی آوازوں کے باوجود میں نے بھائی کی درد میں ڈوبی آواز سن لی- میں اٹھ کر ان کے پاس گئی - تکلیف کی شدت سے ان سے بولا نہیں جارہا تھا - انگلی سے کمر کی وسط میں ریڑھ کی ہڈ ی کے بائیں جانب اشارہ کیا -تکلیف کی شدت سے چہرے کا رنگ زرد تھا اور تشنج کی سی کیفیت طاری تھی -چونکہ ہمارا ڈبہ ریزرو تھا -میں باہر سے کسی کو مدد کیلئے بھی نہیں بلا سکتی تھی -میں نے ان کی بتائی ہوئی جگہ پر کچھ دیر مالش کی مگر افاقہ نہ ہوا - اسی اثناء میں گاڑی کی رفتار دھیمی ہوئی ، زنجیر کھینچنے میں مصلحت نہیں تھی کیونکہ اس صورت میں گاڑی اسٹیشن سے باہر کھڑی ہوجاتی اور طبی امداد کے امکانات کم ہوجاتے -میں نے انتظار کیا جوں ہی گاڑی پوری طرح رکی تو میں نے گارڈ کو آواز دی -وہ فورا گرم پانی کی ایک بوتل لے آیا جسے میں نے ایک کپڑے میں لپیٹ کر درد والی جگہ رکھا -تھوڑی دیر بعد بھائی نے بولنا شروع کیا اور کہا " اب میں بہتر ہوں " فاطمہ جناح کے مطابق 7اگست کو عید الفطر کا دن تھا- قائد اعظم قوم کے نام پیغام لکھنے میں مصروف تھے -یہ ان کا قوم کے نام آخری مراسلہ تھا اس پیغام میں قائد نے لکھا کہ" ہمارے مسلمان ملکوں کے لئے میرا عید کا پیغا م دوستی اور نیک خواہشات کا پیغا م ہے ہم سب اس وقت پر آشوب دور سے گزر رہے ہیں-طاقت کی سیاست کا جو کھیل فلسطین ، انڈونیشیا اور کشمیر میں کھیلا جارہا ہے اس سے ہم سب کی آنکھیں کھل جانی چاہییں- ہمارے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم آپس میں متحد ہوکر بین الاقوامی اداروں میں اپنی آواز بلند کریں اور اپنی بات منوالیں -" محترمہ فاطمہ جناح لکھتی ہیں کہ اگست کے آخر میں بھائی اچانک پزمردہ اور دلگرفتہ دکھائی دینے لگے تھے ایک دن انھوں نے مجھ سے کہا کہ "فاطمہ- اب میں مزید زندہ نہیں رہنا چاہتا -جتنی جلد میری سانسوں کا سلسلہ رک جائے اچھا ہے " وہ لکھتی ہیں کہ یہ سن کر میرے ہوش اڑ گئے -اور میں یہ سوچنے لگی کہ یہ تبدیلی آخر کس بناء پر آئی ہے ؟ "---- طبعیت کی خرابی پر بھائی کو زیارت بھیجا گیا -مگر جلد ہی کوئٹہ آگیے - کیونکہ زیارت میں سانس لینے میں بہت دشواری تھی - 6 ستمبر کو ڈاکٹروں نے کہا کہ ان کو نمونیا ہوگیا ہے -ان کو آکسیجن دی جانے لگی -7 ستمبر کو میں میں اصفہانی کو فون کیا کہ فورا امریکی ماہرین کو بلایا جائے - یہ نام ڈاکٹر ریاض علی شاہ نے تجویز کئے تھے - ڈاکٹر محمد علی مستری اگلے روز میرے کہنے پر کوئٹہ پہنچ گئے -ڈاکٹروں کی میٹنگ ہوئی اور قائد کو کراچی لے جانے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ کوئٹہ کا خشک اور سرد موسم مناسب نہیں تھا - ڈاکٹر سمجھتے تھے کہ قائد کا بچنا معجزے سے کم نہیں ہوگا - قائد کو بتایا گیا کہ آپ کو کراچی لے جانے کا فیصلہ ہوا ہے - آنکھیں موندے موند ے آپ نے کہا کہ یہ اچھا ہے ، میں کراچی میں پیدا ہوا ہوں اور وہیں دفن ہونا چاہتا ہوں - یہ کہہ کر آنکھیں دوبارہ بند کرلیں -اس کیفیت میں وقتا فوقتا ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلتے سنائی دیتے تھے -وہ بڑبڑا رہے تھے --ماں -ابا -کشمیر -- --مہاجرین --ابا--فاطمہ " اس حالت میں11 ستمبر کو جہاز وائی کنگ کو کوئٹہ پہنچنے کا آرڈر دیا گیا - ان کے پھیپھڑے ناکارہ ہوچکے تھے اسٹریچر پر ڈال کر ان کو جہاز میں پہنچایا گیا -توپوں کی سلامی کے دوران نحیف حالت میں اپنا بازو لہرانے کی کوشش کی -دو گھنٹے کی پرواز کے بعد ماری پور ایئر بس پر اتر گئے -ائیر بیس حیرت انگیز طور پر ویران تھی - اسٹریچر کی مدد سے ایمبولنس میں شفٹ کیا گیا - گاڑی بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی -ہمارے ساتھ دوسرے لوگ اپنی گاڑیوں میں تھے ہمارے ساتھ کرنل الہی بخش -ڈاکٹر مستری اور ملٹری سکریٹری گورنر کی کیڈی لا ک کا ر میں ایمبولنس کے پیچھے آرہے تھے - چار پانچ میل کے سفر کے بعدایمبولنس نے ہچکولہ کھایا اور دو تین جھٹکوں کے بعد بند ہوگئی - معلوم ہوا کہ پیٹرول ختم ہوچکا ہے - ہم دوسری ایمبولنس کا انتظار کرنے لگے میں بھائی کو پنکھا جھلنے لگی - قریب ہی مہاجرین کی جگھیاں آباد تھیں - لوگ اپنے کاموں میں مصروف دکھائی دے ان کو کیا معلوم تھا کہ یہاں ان کا قائد بے یارو مددگار پڑا ہے جس نے ان مہاجرین کو آزاد وطن کا تحفہ دیا ہے - ہمیں ایک گھنٹے سے زائد انتظار کرنا پڑا -جب دوسری ایمبولنس آئی تو بھائی کو اس میں شفٹ کیا گیا - ما ڑ ی پور سے گورنر جنرل ہاؤس پہنچنے میں دو گھنٹے کا وقت لگا - ان کو کمرے میں لٹا دیا گیا -بظاھر وہ سو چکے تھے -اچانک انھوں نے اپنی آنکھیں کھولیں میری طرف دیکھ کر اپنے سر کو جنبش دینے کی کوشش کی جیسے وہ مجھے بلا رہے ہوں - میں بھا گ کر ان کے قریب گئی -انھوں نے سرگوشی میں کہا - "فاطمہ خدا حافظ ----لا الہ الا الله "-اور ان کا سر دائیں جانب جھک گیا -آنکھیں بند ہوگئیں " حوالہ جات : (حوالہ : کتاب -میرا بھائی - محترمہ فاطمہ جناح )- (قائد اعظم : چراغ حسن حسرت )





Comments