بر صغیر میں اسلام کے احیا ء اور آزادی کی تحا ریک - لیاقت علی خان کی شہادت ( پہلا حصہ ) ( نجیب ایوبی) قسط نمبر:: 102‎

سازشوں کا تسلسل - لیاقت علی خان کی شہادت ( پہلا حصہ )
قائد اعظم علی جناح کی آنکھ بند ہوتے ہی پاکستان کے خلاف سازشوں کا زور بڑھتا چلا گیا - پاکستان کا ازلی دشمن ہندوستان غالبا اسی موقع کے انتظار میں تھا - 26 اکتوبر 1947 کو ہندوستان اپنی افواج جموں کشمیر میں اتار چکا تھا -8نومبر 1947 کو ریاست جوناگڑھ پر زبردستی قبضہ کیا- قائد کی رحلت کے فورا بعد 13 ستمبر 1948 سے 17ستمبر تک حیدرآباد دکن کی آزاد ریاست پر جاری رہنے والے چار روزہ پولیس ایکشن کے نام پر ہندوستانی افواج نے مسلمانوں کے خون کی جو ہولی کھیلی اس کو کبھی بھی کیا جاسکتا - صرف تعلقہ عثمان آباد میںایک ہی رات میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا گیا - ( اس اندوہناک سقوط کے بارے میں ہم پچھلی اقساط میں تفصیلی تذکرہ کرچکے ہیں ) بیرونی سازشوں اور عالمی قوتوں کے اثرات سے پاکستان کو محفوظ رکھنا اولین ترجیح تھی - پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کے کندھوں پر بہت اہم ذمہ داری آن پڑی تھی- بیرونی اور داخلی محاذ پر جو خطرات پاکستان پر منڈلا رہے تھے ان سے نوابزادہ لیاقت علی خان اچھی طرح واقف تھے - قائد اعظم علی جناح کی رحلت کے بعد جس طرح نوابزادہ لیاقت علی خان نے سیاسی بصیرت اور عزم واستقامت کے ساتھ پاکستان کو خطرات سے نکالا اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے
دستور ساز اسمبلی سے ’’قرارداد مقاصد‘‘ منظور کروا نا اور اس قراداد مقاصد کو قرآن وسنت کے رہنمائی میں پاکستان کے آئین میں شامل کروانا آپ کا سب سے اہم کارنامہ ہے کے پاکستان کے آئین کو کا پابند کیا۔ شہادت ان کا مقدر تھی۔ پاکستان جب آزاد ہوا تو ہمارے ملک کا کوئی آئین موجود نہیں تھا ہندوستان میں رائج 1935ء کے آئین میں ضروری ترامیم کرنے کے بعد عبوری آئین کی جو شکل نکلی اسی پر ملکی معاملات چلائے جاتے رہے مہاجرین کی آباد کاری اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج تھا -پاکستان کیونکہ مشرقی و مغربی دو حصوں میں منقسم تھا-دونوں جگہوں پر بیک وقت ایک ہی جیسے مسائل موجود تھے - آباد کاری کے سلسلے میں کراچی اور باا لخصوص اندرون سندھ میں اور اسی طرح لاہور میں جس طرح مہاجرین کو ویلکم کیا گیا اس کاذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی -بلکہ اس وقت تو کراچی میں جو اب خداداد کالونی کھلاتی ہے یہاں مہاجرین کے قافلے آکر ٹہرتے اور عارضی قیام گاہیں بنا کر رہتے تھے - جو پنجاب کے راستے پاکستان آئے تھے کچھ عرصہ لاہور رکنے کے بعد عزیز رشتے داروں میں سندھ یا پھر کراچی چلے آتے - پیر الہی بخش مرحوم جو کہ سندھی تھے انھوں نے پیر کالونی کی تمام زمین مہاجرین کے لئے وقف کردی تھی جسے اب پی آئ بی کالونی کہا جاتا ہے - مغربی پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد تقریباً 3 فی صد تھی جبکہ مشرقی پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد 22 فی صد تھی- بہت سے ایسے سیاست دان تھے جو 25 فی صد غیر مسلم آبادی والا ملک کہتے ہوئے ایک ایسے آئین کا مطالبہ کررہے تھے جو ہندوستان کی طرز پر سیکولر کہلایا جاسکے - اس کے مقابلے پر کثیر تعداد میں عوام اور علمائے کرام اس بات پر یکسو تھے کہ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر قائم ہوا لہٰذا پاکستان کاآئین بھی اسلامی طرز پر وضح ہونا چاہیے - نواب زادہ لیاقت علی خان کی حالات پر گہری نگاہ تھی وہ عوام الناس اور علماء کے خیالات سے متفق تھے اس لئے انہوں نے علمائے کرام کے تعاون سے ایک قرارداد تیار کی جسے قرارداد مقاصد کا نام دیا گیا - اس کام کے لئے نوابزادہ لیاقت علی خان نے اپنے وقت کے جید علمائے کرام سے رابطہ کیا مشاورت کے کئی ادوار ہوئے اور پھر مولانا شبیر احمد عثمانی‘ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور دیگر علمائے کرام کی مرتب کردو تجاویز کی روشنی میں اور متفقہ کوششوں سےنوابزادہ لیاقت علی خاں نے 7 مارچ 1949ء کو دستور ساز اسمبلی میں ’’قرارداد مقاصد‘‘ پیش کی - یہ قرارداد 12 مارچ 1949ء کو منظور کی گئی۔ اس قراداد میں وضاحت کے ساتھ کہا گیا تھا کہ ساری کائنات پر حکمرانی کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور جمہور کے توسط سے مملکت پاکستان کو جو اختیار حاصل ہوگا لازم ہے کہ وہ الله کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال ہو اور حکمرانی کا یہ منصب نیابۃً انہیں عطا کیا ہے ‘ اس لئے دستور ساز اسمبلی آزاد و خودمختار مملکت پاکستان کیلئے ایک ایسا دستورمرتب کرے- -1 جس میں اصولِ جمہوریت ومساوات ورواداری اور عدل عمرانی کو جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے۔ -2جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق جو قرآن مجید اور سنت رسول میں متعین کر دین گئیں ہیں اس کے مطابق ڈھال سکیں ۔ -3 جس کی رو سے اس امر کا ضروری انتظام کیا جائے کہ اقلیتیں آزادی کیساتھ اپنے مذہب پر عقیدے پر رہ کر اس پر عمل کرسکیں ساتھ ہی ساتھ اپنی ثقافت کو ترقی دے سکیں۔ 12 مارچ 1949ء کو لیاقت علی خاں نے قرارداد مقاصد کی منظوری کے وقت تقریر کرتے ہوئے کہا: ہم اپنے ہاں اقلیت کیلئے جو کچھ کر رہے ہیں آرزو صرف یہی ہے کہ ہندوستان بھی اپنی اقلیتوں کو یہی مراعات اور تحفظات فراہم کرے۔ نوابزادہ لیاقت علی خاں کون تھے ؟ ہندوستان کے ضلع کرنال کے سب سے بڑے نواب اور جاگیر دار لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کو پاکستان آکر مسلم لیگ کی قیادت پر مجبور کرنے والے بھی یہی لیاقت علی خاں تھے - جو اپنے زمانہ طا لب علمی قائد اعظم سےبرطانیہ میں ملے -اور قائد اعظم کو مجبور کی اکہ کانگریس کو چھوڑ کر حقیقی اسلامی نظریاتی مملکت کے لئے کام کریں - آپ نے نے تقسیم کے بعد اپنی زمین جاگیر اور جائیداد سب کچھ چھوڑ کر اپنے آپ کو پاکستان کے لئے وقف کردیا اور حد تو یہ کہ پاکستان آنے کے بعد کلیم کے کاغذات تک جمع نہیں کروائے آپ کا پاکستان میں نہ کو ئی بینک اکاونٹ تھا اور نہ ہی کوئی زمین ۔ کل مال و متا ع وہ دوشیروانیاں ، تین پتلونیں اور بوسکی کی ایک قمیض تھی اور ان کی پتلونوں پر بھی موٹے دھاگے سے سلائی والے پیوند ۔ 16 اکتوبر1951 کو جب خان لیاقت علی خان شہید ہوئے تو ان کی نعش پوسٹ مارٹم کے لئے لیجائی گئی۔تو سب یہ دیکھ کے حیران رہ گئے کے وزیر اعظم نے جو بنیان پہن رکھی تھی وہ پٹھی ہوئی تھی اور جرابوں میں بھی بڑے بڑے سوراخ تھے۔شہادت کےوقت خان صاحب کے پاس کفن دفن کے لئے بھی رقم نہیں تھی۔خان صاحب اپنے درزی اور کریانہ سٹور کے بھی مقروض تھے۔ بیگم رانا لیاقت علی خان شہادت کے بعد حکومت کو بتایاکہ حکومت نے وزیراعظم ہاؤس کے لیے چینی کو کوٹہ فکس کیا تھا جب وہ کوٹہ ختم ہو جاتا تو نہ صرف خان صاحب کو بلکہ مہمانوں کو بھی پھیکی چائے پینی پڑتی۔ بیگم رانا لیاقت علی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ خان صاحب کہا کرتے تھے کہ "میں جب بھی اپنے لیے کپڑا خریدنے لگتا ہوں تو میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں۔کیا پاکستان کے سارے عوام کے پاس کپڑے ہیں۔میں جب اپنا مکان بنانے کا سوچتا ہوں تو اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کیا پاکستان کے تمام لوگوں کے پاس اپنے گھر ہیں۔جب میں اپنے بیوی بچوں کے لیے کچھ جمع کرنے کا سوچتا ہوں تو اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کیا پاکستان میں سب لوگوں کے بیوی بچوں کے لئے کچھ ہے۔جب سب سوالوں کا جواب نفی میں ملتا ہے تو میں اپنے آپ سے کہتاہوں لیاقت علی خان ایک غریب ملک کے وزیر اعظم کو نئے کپڑے لمبا چوڑا دسترخوان اور ذاتی مکان زیب نہیں دیتا۔" یہ درویش صفت وزیر اعظم اور قائد اعظم کے دست راست جناب لیاقت علی خان عالمی سازش کے شکار ہوگئے اور اس گھناؤنی سازش میں داخلی کردار بہت نمایاں ہے - ہندوستان ، برطانیہ دونوں کے نزدیک نوابزادہ لیاقت علی خاں کا ٹھنڈا ہونا اور راستے سے ہٹا یا جانا نہایت ضروری ہوچکا تھا - داخلی طور پر پاکستانی ایجنٹوں کا سہارا لیا گیا اور ایک خاص منصوبہ بندی کے ساتھ16 اکتوبر 1951ء لیاقت علی خاں صاحب کو کمپنی باغ راولپنڈی ( جو اب لیاقت باغ کہلایا جاتا ہے )میں مدعو کیا گیا - وزیر اعظم کے جلسے میں صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ اور آئی جی پولیس تو موجود تھے مگر پنجاب کے وزیر اعلیٰ ممتاز دولتانہ، آئی جی پولیس قربان علی خاں اور ڈی آئی جی، سی آئی ڈی انور علی غائب تھے۔ درحقیقت جلسہ گاہ میں فرائضِ منصبی پر مامور پولیس کا اعلی ترین عہدیدار راولپنڈی کا ایس پی نجف خاں تھا۔ پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل یوسف خٹک پنڈی میں تھے مگر جلسہ گاہ میں موجود نہیں تھے۔ گولی کی آواز سنتے ہی نجف خاں نے پشتو میں چلا کر کہا، ’اسے مارو‘۔ نجف خاں نے پنڈی (پنجاب) کے جلسے میں پنجابی کی بجائے پشتو کیوں استعمال کی؟ کیا انہیں معلوم تھا کہ قاتل افغانی ہے؟ ان کے حکم پر سید اکبر کو ہلاک کرنے والا انسپکٹر محمد شاہ بھی پشتو بولنے والا تھا۔ کیا پولیس کا ضلعی سربراہ اضطراری حالت میں یاد رکھ سکتا ہے کہ اس کے درجنوں ماتحت تھانیدار کون کون سی زبان بولتے ہیں؟ کیا تجربہ کار پولیس افسر نجف خاں کو معلوم نہیں تھا کہ وزیر اعظم پر حملہ کرنے والے کو زندہ گرفتار کرنا ضروری ہے؟ (جاری ہے )





Comments