دو خبریں - راؤ انوار بول پڑا ----اور زینب کے قتل کو سات دن کے اندر سزا سنائی جائے

نقیب اللہ قتل کیس میں معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے دعویٰ کیا ہے کہ انکاؤنٹرز آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی پالیسی ہے جس پر عمل کیا۔نجی ٹی وی جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سی ٹی ڈی، کرائمز برانچ اور لوکل پولیس بھی جعلی پولیس مقابلے کرتی ہے، ان کے پولیس مقابلوں میں بھی اہلکار زخمی نہیں ہوتے۔نامعلوم مقام سے گفتگو کرتے ہوئے راؤانوار نے کہا کہ اجلاسوں میں کہا گیا جو دہشت گرد ہیں انہیں زمین پر نہیں ہونا چاہیے، میں نے اعلیٰ پولیس افسران کے احکامات پرعمل کیا ہے، اعلیٰ پولیس افسران بھی مقدمے کی دفعہ 109 میں آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر میں نے سازش کی ہے تو پھر یہ سب بھی سازش میں آتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کیوں دوں ؟کوئی غلط کام نہیں کیا، گرفتاری تب دوں جب کوئی غلط کام کیا ہو، طریقے سے بات کرتے تو میں خود ساتھ دیتا، میں خود چاہتا تھا کہ اصل بات پتا چلے غلطی کس سے ہوئی۔ جعلی مقابلوں کے ماہر کا کہنا تھاکہ پولیس والوں کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں، یہ زیادتی ہے، چھاپوں کا سلسلہ نہ رکا تو آئی جی سمیت سب کے خلاف ڈکیتی کا مقدمہ درج کراؤں گا۔راؤ انوار نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر موجود شخص کے خلاف دہشت گردی کامقدمہ درج کردیا گیا، جے آئی ٹی بنائی جائے اس کے سامنے پیش ہوں گا۔ دوسری جانب آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے معطل پولیس افسرکے الزامات کو سختی سے مستردکرتے ہو ئے کہا کہ راؤانوارجھوٹ بولنے سے بازآجائیں، خود کوقانون کے حوالے کریں اورجے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں۔انہوں نے کہا کہ راؤ انوارقانون سے بچنے کے لیے بے بنیادالزام تراشی کاسہارالے رہے ہیں،کبھی ماورائے عدالت مقابلوں کے احکامات دیے نہ یہ سندھ پولیس کی پالیسی رہی ہے۔اے ڈی خواجہ نے کہا کہ میرا کردار اور کیریئر سب کے سامنے اور کھلی کتاب کی طرح ہے، جھوٹ اور سچ کا سب کو اندازہ ہے۔ دوسری اہم خبر قصور کی معصوم زینب کے حوالے سے رپورٹ ہوئی کہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کو زینب قتل کیس کافیصلہ 7روز میں سنانے کا حکم دیا ہے۔یہ حکم لاہور ہائی کورٹ کے ڈائریکٹوریٹ آف ڈسٹرکٹ جیوڈیشری کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے جمعرات کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نمبر ایک کے جج شیخ سجاد احمد کو لکھے گئے خط میں جاری کیا گیا ہے۔ایڈیشنل رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کردہ خط میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے ہدایت جاری کی جاتی ہے کہ زینب قتل کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے اور اس کا فیصلہ قانون کے مطابق چالان پیش کیے جانے کے بعد 7دن میں یقینی بنایا جائے۔علاوہ ازیں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے قصور کی 7سالہ بچی زینب سے جنسی زیادتی اور اس کے قتل کے ملزم عمران علی کے مبینہ بینک اکاؤنٹس کے بارے میں الزامات سامنے آنے کے بعد معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے زینب کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی میں 2 ارکان کا اضافہ کیا ہے اور اب پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کے علاوہ اسٹیٹ بینک کا ایک نمائندہ بھی اس کا رکن ہوگا اور یہ ٹیم اب ان اکاؤنٹس کے بارے میں تحقیقات کرے گی۔عمران کے بینک اکاؤنٹس کا معاملہ جمعرات کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران اٹھا تھا۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ از خودنوٹس بدھ کی شب ایک نجی ٹی وی چینل ’نیوز ون‘ پر زینب قتل کیس سے متعلق ایک پروگرام پر لیا تھا۔ اس پروگرام کے میزبان شاہد مسعود کو جمعرات کو عدالت میں طلب کیا گیا اور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3رکنی بینچ نے اس ازخودنوٹس کی سماعت کی۔شاہد مسعود نے عدالت کو بتایا کہ ملزم عمران کوئی پاگل یابے وقوف شخص نہیں بلکہ اس کا تعلق ایک عالمی گینگ سے ہے جو فحش فلمیں بناتا ہے۔ انہوں نے عدالت میں غیر ملکی بینکوں میں 37 اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی پیش کیں جو ان کے بقول ملزم عمران علی کے ہیں۔سماعت کے دوران اس پروگرام کے میزبان نے عدالت کو بتایا کہ ایک وفاقی وزیر اور اہم شخصیت کا تعلق بھی ملزم کے ساتھ ہے۔ جب عدالت نے شاہد مسعود سے اس وفاقی وزیر کا نام پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ کھلی عدالت میں ان کا نام نہیں بتاسکتے تاہم شاہد مسعود نے ایک پرچی پر اس وفاقی وزیر کا نام لکھ کر چیف جسٹس کو پیش کیا۔عدالت کے استفسار پر شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ چونکہ ملزم عمران علی کا تعلق ایک بین الاقوامی گروہ سے ہے اس لیے اْنہیں خدشہ ہے کہ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد ملزم کو پولیس کی تحویل میں ہی قتل کروا دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں اس واقعے پر بات ہورہی ہے، پولیس کی حراست کے بجائے ملزم کو کسی حساس ادارے کی تحویل میں دیا جائے۔عدالت نے اس ضمن میں پنجاب پولیس کے سربراہ اور آئی جی جیل خانہ جات کو حکم دیا ہے کہ وہ ملزم کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کریں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اگر ملزم کو کوئی جانی نقصان پہنچا تو اس کی تمام تر ذمے داری ان دونوں افسران پر ہوگی۔عدالت نے پنجاب حکومت کو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی وساطت سے حکم دیا ہے کہ وہ ملزم کے مبینہ طور پر ان غیر ملکی اکاونٹس کے بارے میں بھی تحقیقات کر کے عدالت کو آگاہ کریں۔چیف جسٹس نے سماعت کے دوران عدالت میں نجی ٹی وی چینل کے پروگرام کی فوٹیج بھی چلوائی اور پروگرام کے اندر دیے گئے مزید حقائق پر تحقیقات کرنے کی ہدایت کی گئی۔عدالت عظمیٰ نے آئی جی پنجاب اور زینب قتل کیس کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو حکم دیا کہ وہ نجی ٹی وی اینکر کے شواہد سے متعلق تحقیقات کریں ۔چیف جسٹس نے اینکر پرسن کو انتباہ کیا ہے کہ اگر آپ کا دعویٰ غلط ثابت ہوا تو اچھا نہیں ہوگا۔بعد ازاں عدالت نے اس کیس کی سماعت پیر 29 جنوری تک ملتوی کردی۔

Comments