پاکستان کے تین ناسور ____ نجیب ایوبی

ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ پاکستان جسیی نعمت خداوندی ہے جو بلا مبالغہ دنیا میں کسی اور کو حاصل نہیں - مگر اس حقیقت سے بھی نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ یہ پیا را وطن چند نا عاقبت اندیشوں اور بدقماش گروہوں کے ہتھے چڑھ کر اب مسائلستان بن چکا ہے - ہمارا ایک جان جسم 1971 میں دو لخت ہوا - اور اس کے باوجود ہم نے اس سانحے سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا - ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم بچے کچھے پاکستان کی قدر کرتے -مگر ہوا اس کے برعکس !!! اگر گراس روٹ لیول پر اس کی اصل خرابی کو دیکھا جائے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا کہ ہماری بنیادی بیماری اور خرابی کے ذمہ دار" تین ناسور " ہیں- ١- عدلیہ- انصاف کا نا ملنا اور باا ثر طبقے کو قانون سے ماورا سمجھنا ٢- پولیس گردی -ماورائے عدالت قتل ٣- میڈیا -فحش و لغویات افکار کا پرچار
مندرجہ بالا ان تین ناسوروں کو جب تک کاٹ کر جسم سے علیحدہ نہیں کیا جا تا اس وقت تک کسی بھی قسم کی بہتری کے کوئی امکانات نہیں ہیں -ہاں یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ وقتی طور پر کچھ کاسمیٹک اقدامات سے عوام کو تسلی و دلاسے کا " کارٹیزون " لگا کر چپ کروادیا جائے - مگر اسطرح کے اقدامات و تدابیر سے کینسر پورے جسم کو برباد کرکے رکھ دے گا - پا کستان میں اس وقت کا منظر نامہ " معصوم زینب " کے ساتھ زیادتی اور قتل -ملزم عمران کی گرفتاری - ماورائے عدالت قتل کے تین سینکڑے مکمل کرنے والے ظالم ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور اس کے خلاف جعلی پولیس مقابلے میں قتل ہونے والے نقیب اللہ محسود کے اہل خانہ کویجنب سے درج ہونے والی ایف آئ آر سے بھرا ہوا ہے - آئے دیکھتے ہیں اس خبری کہانی میں قوم کو کیسی کیسی تسلیاں اور راگ دئیے جارہے ہیں تازہ ترین اطلا ع کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے قاتل کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ملزم عمران سیریل کلر ہے، اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا ۔انہوں نے کہا کہ درندہ صفت شخص کو سرعام پھانسی دی جانی چاہیے۔لاہور میں مقتولہ زینب کے والدمحمد امین ، چچا اور وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 24سالہ ملزم کا ڈی این اے میچ کرگیا اور پولی گرافک ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہے۔ زینب قتل کیس کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کے ساتھ انٹیلی جنس ایجنسیز اور دیگر اداروں کی انتھک محنت کے بعد اسے پکڑا گیا۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ1150 ڈی این اے ٹیسٹ کی جانچ پڑتال کے بعد یہ درندہ صفت شخص گرفت میں آیا۔ملزم عمران قصور کے علاقے کورٹ روڈ کا رہائشی اور زینب کا پڑوسی ہے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اگر میرا بس چلے تو میں اس درندہ صفت انسان کو چوک پر لٹکا کر پھانسی دوں لیکن چونکہ ہم قانون کے تابع ہیں اس لیے میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے درخواست کروں گا کہ اس کیس کو ہنگامی بنیادوں پر سنا جائے اور ملزم کو سخت سے سخت سزا دی جائے ہوسکے تو ملزم کو سرعام پھانسی دی جائے جس کے لیے قانون میں تبدیلی کرنی پڑی تو وہ بھی کریں گے۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ میرا بس چلے تو اس بھیڑیے کو بیچ چوراہے پر پھانسی دوں کیوں کہ قوم کی خواہش بھی یہی ہے کہ اس درندے کو سرعام پھانسی دی جائے یہ صرف زینب کا نہیں دیگر 7 بچیوں کا بھی قاتل ہے جنہیں قصور میں بے دردی سے زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔مردان میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی عاصمہ سے متعلق انہوں نے کہا کہ عاصمہ بچی کے قاتلوں کو بھی گرفتار کیا جائے کے پی کے حکومت چاہے تو تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں جس کے لیے ہماری فارنزک لیب حاضر ہے۔ قبل ازیں ترجمان پنجاب حکومت ملک احمد خان کے مطابق ملزم کو پاک پتن کے قریب سے پکڑا گیا وہ گرفتاری کے خوف سے اپنا حلیہ تبدیل کرتا رہا۔ملزم قصور میں ہونے والے ہنگاموں کے دوران ہی پہلے پاک پتن فرار ہوا جس کے بعد وہ عارف والا چلا گیا تھا جبکہ اس نے اپنی داڑھی بھی منڈوالی تھی۔ قبل ازیں ملزم کو پولیس نے شک کی بنا پر گرفتار کیا تھا تاہم بعد میں چھوڑ دیا گیا تھا اس کے بعد سے ہی وہ بیرون شہر تھا۔ پولیس کی بھاری نفری عمران کے گھر کے باہر تعینات ہے جب کہ ملزم کے گھر والے نامعلوم مقام پر چلے گئے ہیں اور گھر پر تالا لگا ہواتہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران ہی کی نشاندہی پر ایک اور ملزم بھی پکڑا گیا ہے تاہم اس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔یاد رہے کہ قصور میں 8 سالہ بچی زینب کو اغوا اور زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا تھا، بچی کی لاش کچرا کنڈی سے ملی تھی۔ جبکہ خبر یہ بھی ہی کہ معصوم زینب کے والد کا مائیک پریس کانفرنس کے دوران اس وقت بند کردے اگیا جب وہ شہباز شریف کی تعریف کے علاوہ بھی کچھ کہنا چاہتے تھے - ان کے منہ سے چیف جسٹس لا لفظ پورا ادا بھی نہیں ہوا تھ اکہ کمال پھرتی سے " شو باز شریف " نے زینب کے والد کے سامنے رکھے مائیک کا سوئچ آف کردیا - مقتول زینب کے والد حامی امین نے کہا ہے کہ مجھے پوری بات کرنے کا موقع نہیں دیا اور میرا مائیک بند کردیا گیا۔وزیراعلیٰ پنجا ب شہباز شریف کے ہمراہ پریس کانفرنس کے بعد ان کا کہناتھا کہ پولیس کو شاباشی دینے کے لیے تالیاں بجائی گئیں لیکن یہ تالیاں بجانے کا موقع نہیں تھا۔قبل ازیں پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ بیٹی کے قاتل کی گرفتاری پر مطمئن ہوں۔ اسی طرح دوسری خبر جو میڈیا کی بریکنگ خبر بنی وہ تھی راؤ انوار کے ملک سے فرار ہونے کی کوشش پر حکام کی کاروائی - تفصیلات کے مطابق
نقیب اللہ محسود کو ماورائے عدالت قتل کرنے والے معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار دبئی فرار ہونے میں ناکام ہوگئے۔وہ گزشتہ روز رات گئے بھیس بدل کر اسلام آباد پہنچے جہاں سے انہیں غیرملکی ائرلائن کی پرواز سے دبئی جانا تھا،بے بھٹو ائرپورٹ پر ان کا سامان دوسرے شخص نے جمع کروایا۔جن میں 20 جنوری کو سندھ حکومت کی جانب سے جاری کیا گیا اجازت نامہ بھی شامل تھا۔ایف آئی اے کے حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ راؤ انوار دبئی جانے والی پرواز ای کے 653 میں سوار ہوگئے تھے تاہم حکام کو ملنے والی اطلاعات کی روشنی میں انہیں طیارے سے اتارا گیا۔ علاوہ ازیں مقتول نقیب اللہ محسود کے والد کی مدعیت میں واقعے کے 10 روز بعد راؤ انوار اور ان کی ٹیم کے خلاف جعلی پولیس مقابلے کا مقدمہ سچل تھانے میں درج کرلیا گیا۔ ایف آئی آر میں درج مدعی کے موقف میں نقیب اللہ کے اغوا کی تاریخ 3 جنوری بتائی گئی ہے، متن میں کہا گیا ہے کہ ایس ایس پی ملیر کے 8 سے 9 سادہ لباس میں ملبوس اہلکار بیٹے کو لے گئے اور بہت تلاش کرنے کے باوجود نقیب اللہ نہیں ملا۔مقدمے میں راؤ انوار اور ان کی ٹیم کے 8 افسران و اہلکاروں کو نامزد کیا گیا ہے جب کہ مقدمے میں قتل ، انسداد دہشت گردی اور حبس بے جا کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔دوسری جانب وزارت داخلہ نے عدالت عظمیٰ کے حکم پر راؤانوار کا نام ای سی ایل میں شامل کرلیا ہے۔قبل ازیں عدالت عظمیٰ نے راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا ۔ نقیب اللہ محسود کے مبینہ ماورائے عدالت قتل سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت27جنوری کو کراچی میں ہو گی ۔ آئی جی سندھ ، ایڈووکیٹ جنرل کو بھی طلبی کانوٹس جاری کردیا گیا ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پہلے بھی پیپلزپارٹی کی حکومت ماورائے عدالت قتل کی وجہ سے ختم ہوئی تھی۔ادھر نقیب اللہ قتل کیس کی تحقیقاتی ٹیم کے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی نے کہا ہے کہ نقیب اللہ محسود بے گناہ تھا اور اسے جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔کراچی میں سہراب گوٹھ پر لگائے گئے احتجاجی کیمپ کے دورے کے موقع پرمحسود عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تفتیشی ٹیم نے 14گھنٹوں میں ثابت کیا کہ مقابلہ جعلی تھا۔ثنااللہ عباسی نے کہا کہ کسی کو بھی ماورائے عدالت قتل کی اجازت نہیں ہے، نقیب اللہ محسود کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ثنااللہ ء عباسی کا کہنا تھا کہ پولیس آپریشن کی وجہ سے امن و امان قائم ہوا لیکن پولیس میں کسی کو غیر قانونی کام کی اجازت نہیں دیں گے،آئی جی نے تحقیقاتی کمیٹی بنائی ہے اور بے گناہ کو انصاف ملے گا۔ان کا کہنا تھا ہمیں خدا کو جواب دینا ہے جبکہ اس سے پہلے یہاں عدالتوں اور افسران کو بھی دینا ہے، جو اس مقابلے میں ملوث ہے اس کا انجام پوری دنیا دیکھے گی اور ملوث عناصر کو ضرور سزا ملے گی۔علاوہ ازیں جعلی پولیس مقابلے میں نقیب کے ساتھ مارے گئے دیگر ملزمان کی ہلاکت کی بھی تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔نقیب اللہ محسود قتل کیس کی تحقیقاتی کمیٹی میں شامل ڈی آئی جی ایسٹ سلطان خواجہ نے تینوں ملزمان کے کرمنل ریکارڈ کے لیے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے آئی جیز کو خط لکھ دیے جبکہ سندھ کے ڈی آئی جیز کو بھی معلومات دینے کا کہا گیا ہے۔ دوسری جانب تینوں ملزمان کے شناختی کارڈ نمبر، تصاویر اور دیگر تفصیلات بھی فراہم کی گئی ہیں۔ جناب مجھے یہ بتائیں کہ اصل مجرم اگر راؤ انوار ہے تو اس کو اعلی حکم اپنی تحویل میں کیوں نہیں لے رہے - کیوں اس کو اب تک آزاد چھوڑا گیا ہے ؟ اسی طرح معصوم مقتول زینب کا قاتل جو کہ ایک سیریل کلر ہے ، اس کے علاوہ بھی کئی قتل اور جنسی جرائم کرچکا ہے -مزید یہ کہ پنجاب میں ہی کئی شہروں میں اور کے پی کے سمیت پورے ملک میں اس قسم کے جنسی جرائم اغوا ، آبرو ریزی - بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ---اس پر حکومت اب تک کیوں خاموش رہی - کیا عدالتیں بااثر ملزمان و مجرمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے ہمیشہ قانونی جھول بلکے جھولے دلاتی رہیں گی ؟ میڈیا کے ڈراموں ، لچر ڈانس پارٹیوں ، فلرٹس ، کالج اسکول کے معاشقوں اور با حفا ظت جنسی تعلقات پر لیکچر دکھاتے رہیں گے ؟ کون ان بدمعاشیوں اور مجرمانہ تغافل پر آواز بلند کرے گا ؟ کون اس تین ناسوروں کو جسم سے کٹ پھینکنے کے اقدام کرے گا ؟؟؟ مجھے لگتا ہے کہ اب کوئی خونی انقلاب ہی ہوگا جو ان ناسوروں کا آپریشن کرے گا - ہمیں مل کر اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا -

Comments