بر صغیر میں اسلام کے احیا ء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-98‎‎‎ آزادی کے بعد - قائد اعظم - قاتلانہ حملے کی سازش بے نقاب (گیارہواں حصہ )

آزادی کے بعد - قائد اعظم - قاتلانہ حملے کی سازش بے نقاب (گیارہواں حصہ )
الحمد للہ پاکستان دنیا کے نقشے پر بطور آزاد اسلامی ریاست نمودار ہوچکا تھا - برصغیر کے مسلمان ہندو اور انگریز تسلط سے نکل آئے تھے - اس موقع پر ہندوستان کے کانگریسی رہنماء مسلسل نوآزاد پاکستان کے حوالے سے اپنی تقاریر اور بیانات میں پاکستان اور قائد اعظم کے حوالے سے زہر اگل رہے تھے - قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوستان کی سرزمین چھوڑتے وقت تاریخی جملے کہے جو ان کی متانت اور بالغ نظری کی دلیل ہیں -قائد نے کہا کہ " ہم اپنے ماضی کو دفن کردیں اور دو آزاد خود مختار مملکتوں ہندوستان اور پاکستان کے طور پر آغاز کریں - میں ہندوستان کے لئے خوشحالی اور امن کی دعا کرتا ہوں " اس پیغام کے جواب میں کانگریسی رہنماء دراب پٹیل نے بیان دیا کہ " ہندوستان کے جسم سے زہر نکل چکا ہے اب ہم ایک اور ناقابل تقسیم ہیں -تم سمندروں اور دریاؤں کے پانی کو تقسیم نہیں کرسکتے -جہاں جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کی جڑیں ،ان کا مرکز اور مقدس مقامات یہاں ہیں -میں نہیں جانتا کہ وہ پاکستان میں کیا کریں گے وہ بہت جلد ہم سے آ ن ملیں گے " یہی معاملہ مولانا ابو الکلام آزاد کا رہا, انھوں نے بھی اس تقسیم کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور اپنے خیالات کا اظہار اسطرح کیا " کہ یہ تقسیم صرف ہندوستان کے نقشے کی حد تک ہوئی ہے لوگوں کے دلوں میں نہیں اور مجھے یقینن ہے کہ یہ تقسیم زیادہ دن نہیں رہے گی " قائد اعظم محمد علی جناح کی وسعت قلبی اور سیاسی بالغ نظری ان کے بیان سے واضح ہے جبکہ کانگریسی رہنماؤں کے بیانات سے پاکستان کے خلاف بغض اور نفرت کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں -ایک جانب قائد اعظم ہندوستان کی خوشحالی کی دعا مانگ رہے ہیں تو دوسری جانب کانگریسی رہنماء پاکستان کے خلاف زہر اگل رہےتھے - کانگریس اور ہندوستانی رہنماؤں کا یہ رویہ اس وقت سے لیکر آج تک جوں کا توں برقرار ہے - ایک اور سازش قیام پاکستان سے کچھ دن پہلے پکڑی گئی -یہ سازش تھی قائد ا عظم کو قتل کرنے کی - واقعہ یوں تھا کہ 5 اگست کی صبح لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی صدارت میں ایک اہم اعلی سطحی اجلاس طلب کیا جس میں پنجاب سی آئی ڈی کے افسران ،انتظامیہ اور پولیس افسران موجود تھے -یہ اجلاس ہندوستان کے تقسیم کے عمل میں ممکنہ طور پر درپیش مسائل اور امن و عامہ کا جائزہ لینے طلب کیا گیا تھا - اس اجلاس میں دراب پٹیل ، لیاقت علی خان اور قائد اعظم بطور خاص موجود تھے - دوران کاروائی سی آئی ڈی کے اعلی افسر نے انکشاف کیا کہ ہمارے ڈپارٹمنٹ کی اطلاعات یہ ہیں کہ سکھ رہنما ماسٹر تارا سنگھ کی سرکردگی میں انتہا پسند سکھوں نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کو ساتھ ملاتے ہوئے قائد اعظم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے - منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے سی آئ ڈی کے افسر نے کہا کہ 14 اگست کو جب قائد اعظم جلوسس کی صورت میں روانہ ہوں گے تو پہلے سے تیار نامعلوم ہندو جلوس کے راستے میں بھیس بدل کر کھڑے ہوں گے اور جونہی قائد اعظم کی سواری ان کے قریب سے گزرے گی اچانک گرنیڈ سے حملہ کردیا جائے گا- اس حملے کے نتیجے میں ہندوستان میں غیض و غضب کی فضاء بن جائے گی اور ملک میں خانہ جنگی کی صورت پیدا ہوجائے گی اور ہندو جو تعداد میں بہت زیادہ ہیں ان کو کامیابی مل جائے گی - یہ اطلا ع سن کر لیاقت علی خان جذباتی ہوکر آٹھ کھڑے ہوئے اور سکھ رہنما مسٹر تارا سنگھ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا - لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے یقین دہانی کروائی کہ وہ پنجاب کے پولیس انتظامیہ اور پنجاب کے گورنر سر ایون جنکز سے مل کر حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائیں گے - نوابزادہ لیاقت علی خان نے دوٹوک الفاظ میں ماؤنٹ بیٹن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا" تم جناح کو مروانا چاہتے ہو ؟ " اس کے جواب میں ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ " اگر آپ مجھے ایسا سمجھتے ہیں تو میں جناح کے ساتھ کھلی کار میں بیٹھنے کو تیار ہوں-اگر حملہ ہوتا ہے تو میں جناح کے ساتھ ہی ہلاک ہو جاؤں گا " اجلاس ختم ہوگیا اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن آخری وقت تک کوشش کرتے رہے کہ جلوس کا پروگرام منسوخ کردیا جائے -مگر قائد اعظم اپنے فیصلے پر قائم رہے - پھر ماونٹ بیٹن نے کوشش کی کہ کھلی کار کے بجا ئے بند کار کا بندوبست کرلیا جائے مگر قائد اعظم نے موت کو سر پر منڈلاتے دیکھ کر بھی اپنے سابقہ پلان کو برقرار رکھا - ( حوالہ : قائد اعظم محمد علی جناح -سیا سی و تجزیاتی مطا لعہ - مرتب محمد سلیم ) آزادی کے فورا بعد 15 اگست 1947 بروز جمعہ المبارک کو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب میاں عبدالرشید نے قائد اعظم محمد علی جناح سے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف لیا - قائد اعظم کے گورنر جنرل بن جانے کے بعد 31 توپوں کی سلامی دی گئی - اس مرحلے کے بعد پاکستان کی پہلی کابینہ نے حلف اٹھایا - اس کابینہ میں نوابزادہ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے اور ان کی کابینہ میں جن وزراء نے حلف اٹھایا وہ تھے - آئی آئی چندریگر ، سردار عبدالرب نشتر ، غلام محمد ، راجہ غضنفر علی خاں ، جوگندر ناتھ منڈل ، اور فضل الرحمن - قائد اعظم محمد علی جناح -سیا سی و تجزیاتی مطا لعہ - مرتب محمد سلیم صاحب کے مطابق وزراء کی یہی فہرست ہے - اس میں چودھری ظفر اللہ خان کا ذکر نہیں ہے ( جبکہ وہ بھی وزیر بنائے گئے تھے -ان کا تعلق احمدی فرقے قادیانیت سے تھا ) ہوسکتا ہے ظفر اللہ خان کو بعد میں کابینہ میں شامل کیا گیا ہو - کیونکہ ان کی وزارت خارجہ کی مدت 24 دسمبر تا 27اکتوبر 1954 ملتی ہے - واضع رہے کہ اس وقت تک قادیانی غیر مسلم تصور نہیں کئے جاتے تھے - قائد اعظم کے گورنر جنرل بننے کے دو دن بعدآزاد مملکت پاکستان میں پہلی نماز عید الفطر ہوئی -اس دن نماز کیلئے عید گاہ روانہ ہوئے اور ڈرائیور کو حکم دیا کہ واپسی کے لئے دوسر راستہ اختیار کرے ( کیونکہ یہ سنت طریقه تھا ) -اس موقع پر آپ نے قوم کے اپنے پیغا م میں کہا کہ " ہمارے ان بہن بھائیوں کو جو ا ب ہندوستان میں اقلیت میں ہیں ، کو پورا یقین ہونا چاہیے کہ ہم انہیں کبھی نظر انداز نہیں کریں گے اور نہ ہی فراموش !ہمارے دل ان کے ساتھ ہیں " اب ذرا دیکھتے ہیں صوبہ سرحد کی جانب - پاکستان بننے سے کچھ عرصہ پہلے خان عبدالغفار خان نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ آزاد پختونستان کے نام سے ایک نئی ریاست بن جائے -اور پھر یہ ریا ست ہندوستان میں ضم ہوجائے یا الحاق کا اعلان کردے -اس کام کیلئے ان کے بھائی جو ڈاکٹر خان کے نام سے مشہور تھے اور سرحد کے وزیر اعلی تھے کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی -کانگریس کو بھی خان عبدالغفار خان پر مکمل بھروسہ تھا - جون اور جولائی میں ڈاکٹر خان کی دو ملاقاتیں قائد اعظم کے ساتھ ہوئیں جس میں ڈاکٹر خان نے قائد اعظم کو یقین دلایا تھا کہ اگر ریفرینڈ م کا نتیجہ ان کے حق میں نہیں آیا تو وہ وزارت سے مستعفی ہو جائیں گے - مگر جبب ریفرینڈم کا نتیجہ پاکستان کے حق میں آیا تو وہ اپنے وعدے سے مگر گیا اور مستعفی ہونے کا فیصلہ اپنی پارٹی پر چھوڑ دیا - ایک ہفتے تک قائد اعظم نے اس کے فیصلے کا انتظار کیا -چودہ اگست کو آزاد ہوجانے کے بعد سرحد واحد صوبہ تھا جہاں مسلم لیگ کی اکثریت نہیں تھی ، مسلم لیگ کی سترہ سیٹوں کے مقابلے پر خدائی خدمت گاروں کی انیس نشستیں تھیں - اور آزادی کے بعد بھی ان کی وزارت برقرار رہی -اور قائد اعظم نے کسی بھی قسم کی انتقامی کاروائی سے گریز کیا - مگر قومی پرچم لہرانے کی تقریب جو پندرہ اگست کو تھی اس موقع پر ڈاکٹر خان اور ان کی پوری ٹیم نے پرچم کشائی کی تقریب کا بائیکاٹ کیا - اس توہین آمیز حرکت کے باوجود قائد اعظم نے اس صوبائی حکومت کو برداشت کیا - بالاخر 22اگست کو وزارت کی برطرفی کا اعلان کرتے ہوئے خان عبدا لقیوم کو وزارت اعلی سنبھا لنے کی دعوت دی - اسطرح صوبہ سرحد سے کانگریسیوں کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا - پنجاب کی سیاست یونینسٹ پارٹی کے ارد گرد گھوم رہی تھی - سردار سکندر حیات اور خضر حیات ٹوانہ نے پنجاب پر کنٹرول کیا ہوا تھا - قائد اعظم نے پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا ہوا تھا - یونینسٹ پارٹی کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ تقسیم کے وقت ہندو اور مسلمان اپپنی اپنی وابستگی اپنے مذھب کی بنیاد پر کریں گے ، یعنی مسلمان مسلم لیگ کے ساتھ ہوگا اور ہندو کانگریس کے ساتھ ! چونکہ پنجاب میں مسلمان اکثریت ہے تو لازمی ہے کہ مسلمان مسلم لیگ کا ساتھ دیں گے- چناچہ یونینسٹ پارٹی کی پنجاب میں حکومت اسی صورت میں بن سکتی تھی جب وہ مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کرتے - چناچہ مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی نے اپنا اتحاد قائم رکھا - مگر قا ئد اعظم یونینسٹ پارٹی کی ترجیحات اور عزائم سے پوری طرح باخبر اور چوکنا تھے - ( جاری ہے)


Comments