کلبھوشن - ملاقات اور بھارت کا رویہ :::اسد اللہ غالب

بھارتی جاسوس کل بھوشن سے اس کی ماںا ور اہلیہ کی ملاقات کروائی گئی۔ پاکستان پر یہ کسی لحاظ سے و اجب نہ تھا کہ وہ اس فراخدلی کامظاہرہ کرتا کیونکہ کل بھوشن عام بھارتی شہری نہیں، ایک جاسوس ہے جو حسین مبارک پٹیل کے نام سے پاکستان کے علاقے ماشخیل تک پہنچا، وہ ا یران سے بلوچستان میں داخل ہوا تھا، گرفتاری کے بعد پتہ چلا کہ اس کا پاسپورٹ جعلی ہے، اس کاا صل نام کل بھوشن یادیو ہے اور وہ بھارتی بحریہ میں کمانڈر کے منصب پر فائز ہے جہاں سے ا سے بھارتی خفیہ تنظیم را کے لئے مستعار لیا گیا، وہ حسین مبارک پٹیل کے نام پر بھارت کے باہر سترہ بار سفر کر چکاہے، پاکستان میں وہ کسی ویزے پر نہیں آیا تھا بلکہ اس سے غیر قانونی طور پر سرحد پا ر کرنے کا جرم سر زد ہوا۔ دوران تفتیش وہ اقرار کر چکا ہے کہ اس نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار میں بھارتی دہشت گردی کا ایک نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے جہاں سے وہ بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں وارداتیں کر رہا تھا، اس نے اعتراف کیا کہ کراچی میں نیول بیس پر بھی دہشتگردانہ حملے کی منصوبہ بندی اسی نے کی تھی، ایس ایس پی چودھری اسلم کی شہادت کی ذمے داری بھی اس نے قبول کی ۔ اور بلوچستان میں دھماکوں کی وارداتوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں، ان جرائم کے مرتکب شخص کو موت کی سزا سنائی جا چکی ہے ۔
بھارت نے پہلے مرحلے میں تو اس امر سے انکار کیا کہ حسین مبارک پٹیل اس کا شہری ہے، پھرا س نے یہ بھی ماننے سے انکار کیا کہ اس کا اصل نام کل بھون یادیو ہے اور وہ بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر ہے۔ پھر اچانک اس نے جنیوا کنونشن کی دہائی دینا شروع کر دی ا ور قونصل رسائی مانگ لی جو کہ عام بھارتی قیدی کے لئے تو دی جا سکتی تھی مگر ایک دہشت گرد جاسوس کے لئے نہیں دی جا سکتی اور پاکستان نے اس سہولت سے بجا طور پرانکار کیا۔ اس اثنامیںبھارت نے عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جہاں اب یہ کیس چل رہا ہے، اصولی طور پر عالمی عدالت اس کیس کی سماعت کر ہی نہیں سکتی مگر بھارت نے دھاندلی کی اور عالمی عدالت نے اس کا ناجائز طور پرساتھ دیا۔ ایک دہشت گرد بھارتی سے اس کے اہل خانہ کی ملاقات بھی عالمی اصولوں کے تحت کروانا لازمی نہیں تھا مگر پاکستان نے انسانی ہمدردی اور اسلام کی تعلیمات کے مطابق نرمی دکھائی اور بھارتی جاسوس کی ماں ا ور اہلیہ کو پاکستان آنے اور یہاں تین دن ٹھہرنے کا ویزہ بھی جاری کر دیا مگر یہ لوگ صرف پون گھنٹہ کی ملا قات کر کے واپس چلے گئے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی خواہش تھی کہ کل بھوشن کی ماںا ور اہلیہ پاکستانی ، بھارتی اور عالمی میڈیا کے سوالوں کا جواب دیں تاکہ کئی باتوں سے پردہ اٹھ سکے جن میں انتہائی اہم نکتہ یہ ہے کہ حسین مبارک پٹیل ان ملاقاتیوں کا رشتے دار کیسے بن گیا، یہ بھی ان لوگوں سے ہی معلوم کیا جاسکتا تھا کہ کیا وہی کل بھوشن یادیو ہے اور یہ کہ وہ بھارتی بحریہ میں نوکری کر رہا ہے یا اہل خانہ کو اس کی ریٹائر منٹ پر پنشن مل رہی ہے، اہل خانہ یہ بھی بتا سکتے تھے کہ کیا وہ حسین مبارک پٹیل کے بیرون ممالک سفر کی تفصیلات سے آگا ہ ہیںا ور کیا کبھی انہوںنے ایسی کوئی کوشش کی کہ اسے دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتائج سے خبردار بھی کیا۔جن کا براہ راست اثر اس کی فیملی پر بھی مرتب ہوسکتا تھا۔ بھارتی قونصل خانے کے افسر نے بد تمیزی کا مظاہرہ کیاا ور میڈیا ٹاک کی اجازت نہ دی ۔ جس سے کئی سوالوں کے جواب نہیں مل سکے۔ بھارتی سفارت کار نے تو ملاقاتیوں کو یہ کہنے کی اجازت بھی نہیں دی کہ پاکستان نے ایک فراخدلانہ ا ور انسانی ہمدردی کا زبردست اقدام کیا۔ جبکہ اس امر کا خدشہ بھی موجود تھا کہ نہ معلوم یہ جوڑا بھارت واپس جا کر کیا گل کھلاتا ہے، اس ضمن میں ماضی کی مثالیں کوئی اچھی نہیں، کشمیر سنگھ نے پاکستان میں اعلان کیا تھا کہ وہ حسن سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر چکا ہے، اسے ایک وزیر نے پاکستانی جھنڈے والی کار میں بٹھا کر واہگہ پہنچا یا مگر سرحد پار کرتے ہی اس شخص نے پاکستان کو ہر لحاظ سے مطعون کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت بھارتی جیلوں میں سینکڑوں پاکستانی قیدی ہیں جن میںمچھیروں کی تعداد زیادہ ہے، کچھ لوگ غلطی سے سرحد پار کرنے کا جرم کر بیٹھے، ان میں سے کسی کے ساتھ بھارت نے پاکستان کو قونصلر رسائی نہیں دی ، نہ ان کے اہل خانہ کو کوئی خبر ہونے دی گئی ہے کہ ان کے پیارے کس حال میں ہیں۔ بھارت نے پاکستان کے ایک جاسوسی ادارے کے ریٹائرڈ افسر کو نیپال میں دھوکے سے بلایاا ور پھر اسے اچک لیا، مہینوں گزر گئے مگر اس کا کوئی اتا پتہ نہیں کہ زندہ بھی ہے یا نہیں، یہ ہے بھارت کا سنگ دلانہ رویہ جسے نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان نے ا نتہائی فراخدلی کا مظاہرہ کیا ۔ ابھی ملاقاتی جوڑے نے تو اپنی زبان نہیں کھولی مگر جس وقت ان ملاقاتیوں کا جہاز فضا میں بلند ہوا تو بھارت نے کنٹرو ل لائن پر توپوں کے دہانے کھول دیئے جس سے پاک فوج کے 3جوان شہید ہو گئے۔ یہ ہے بھارت کا سنگ دلانہ جواب پاکستان کی فراخ دلی، انسانی اور اسلامی ہمدردی کے مقابلے میں۔ دیکھا جائے تو بھارت میں آبادی کی اکثریت ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے ، ہندو مذہب اہنساا ورا ٓشتی کا پرچار کرتا ہے مگر کیا مجال ا س مذہب کو ماننے والوںنے ان سنہری اصولوں پر کبھی عمل کرنے کی زحمت کی ہو۔ بلکہ بغل میں چھری ا ور منہ میں رام رام کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، کشمیر پر قبضہ بھارت نے کیا ، پاکستان نے جوابی اقدام کیا تو پنڈت نہرو بھاگم بھاگ سلامتی کونسل جا پہنچا اور سیزفائر کی بھیک مانگی ، سلامتی کونسل نے جنگ تو بند کروا دی مگر شرط لگائی کہ کشمیر کے مستقل حل کے لئے استصواب کروایا جائے گا، پنڈت نہرو نے جنگ بندی کی خاطر یہ شرط قبول تو کر لی مگر وہ دن اورآج کا دن اس پر عمل نہیں کیاا ور اس کے بجائے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنے کی گردان شروع کر دی گئی۔اس بھارت سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے، اس نے پاکستان کو بار بار دھوکہ دیا ہے اور پاکستان پھر بھی معاندانہ روش اختیار نہیں کرتا بلکہ جہاں تک ہو سکے ، فراخدلی کا رویہ اپناتا ہے۔ دنیا یہ سب دیکھ رہی ہے مگر پھر بھی بھارت کی پیٹھ ٹھونک رہی ہے، صرف اسلئے کہ کسی کو ایک اسلامی مملکت کا قیام منظور نہیں، اب ہم ایٹمی اسلحے سے لیس ہیں اس لئے اللہ کے فضل سے کوئی بڑا نقصان تو ہمارا نہیں کیا جاسکتا۔بھارت شرارت سے کبھی باز نہیں آتا، بہر حال پاکستان کے رویئے کی ستائش کی جانی چاہیے۔

Comments