بھولی بسری ایک خلش::: ڈاکٹر طاہر مسعود

1970
ء کی دہائی سے پروفیسر غفور احمد میرے لیے ایک معّمار ہے۔ میں ان سے بارہا ملا تھا، ان کا انٹرویو کیا ، ان کے گھر بیٹھ کے ان کی چائے پی تھی، ان کے خیالات سے استفادہ کیا تھا، بلکہ زمانۂ طالب علمی میں ایک تقریری مقابلے میں ان کے ہاتھوں اوّل انعام حاصل کرنے کی سعادت بھی مجھے حاصل ہے۔ وہ میرے گھرانے کی ایک تقریب شادی میں میری دعوت پر بنفس نفیس شرکت بھی فرماچکے تھے۔ اس کے باوجود اگر وہ میرے لیے معماّ رہے تو یقینا اس میں آپ کے لیے حیرت کے بہت سے پہلو ہوں گے۔ خود میں نے بھی کئی بار اس بارے میں سوچا ہے کہ وہ میرے لیے ایک سربستہ راز کیوں رہے؟ کیوں کہ عام لوگوں کے لیے تو وہ ہمیشہ ایک کھلی کتاب ہی تھے۔ میں کہتا ہوں بعض کتابوں کے متن میں ایسی گہرائی ہوتی ہے جو ایک خواندگی میں نہیں کھلتی۔ اسے سمجھنے کے لیے بار بار پڑھنا پڑتا ہے۔ کتاب میں معنی کی گہرائی ہو تو ہر بار وہ ایک نئی طرح سے نئے رنگ میںوا ہوتی ہے۔ پروفیسر صاحب کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا ، وہ جب بھی ملے ، میں نے ایک نئی کیفیت میں انھیں پایا۔ ہاں برا ہو میری پرتکلّف طبیعت کا کہ کبھی ان سے پوچھ نہ سکا کہ پروفیسر غفور صاحب آپ کون ہیں؟ زندگی اور اس کی رونقوں سے اتنے بے نیاز کیوں ہیں؟ عزّت، شہرت ، قرب اقتدار، اپنوں اور بیگانوں میں یکساں احترام ۔۔ ان سب نے مل جل کر بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑا، حالاں کہ یہ چیزیں تو اچھے اچھوں کا دماغ خراب کردیتی ہیں۔ ان کی گردنیں اکڑ جاتی ہیں جیسے اپنی طاقت اور اپنی اہمیت کا بے جا احساس سریا بن کر گردن میں پیوست ہوگیا ہو اور اب مخلوق خدا کے سامنے ہی نہیں خدا کے سامنے بھی یہ گردن احساس بندگی سے جھکنے سے انکار ی ہوجاتی ہے تو کیوں؟ ایسی اکڑی ہوئی گردنوں والے کتنے ہی حکم رانوں کا انجام یہ قوم اور اس کے سیاست داں و سرکاری عمال دیکھ چکے ہیں۔ مگر کوئی عبرت پکڑنے کے لیے تیاّر نہیں۔
ہمارے پروفیسر غفور احمد نے اوائل عمری ہی میں جانے کیا دیکھ لیا تھا، یا قدرت نے ان کی طبیعت ہی میں احساس بندگی کو ایسا رچا بسا دیا تھا کہ شہرت کے بام عروج پر پہنچ کر بھی ویسے ہی گوشۂ گمنامی میں رہے۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی۔ اگر شہرت اور اپنی اہمیت کا جا و بے جا احساس آدمی کی طبیعت میں فرحت و انبساط بھی پیدا نہ کرے تو ایسا آدمی بھلا گوشت پوست کا بنا ہوا تو نہ ہوا۔ وہ تو ایک مشینی آدمی ہوا، ایک روبوٹ۔ آپ برا نہ مانیے ۔ پروفیسر غفور احمدکبھی ایسے انسان دکھائی نہ دیے جس کے سینے میں آرزوئیں ہوں، آنکھوں میں خوابوں کے رنگ ہوں، رویّے میں ایسا رچاؤ ہو کہ آدمی نظروں کے راستے سیدھے دل میںا تر جائے۔ جب بھی اپنے پروفیسر صاحب سے ملا، ہمیشہ ایک دوری کا احساس رہا، شیشے کی ایک دیوار ہم دونوں کے درمیان حائل رہی۔ چناں چہ اتنی ملاقاتوں اور بسا اوقات بہت قربتوں کے باوجود میں کبھی ان کے دل کی دھڑکنیں نہ سن سکا۔ کبھی ان کے وجود کو پوری طرح محسوس بھی نہ کرسکا۔ اس کا مجھے گلہ ہے، اس کی بڑی تشنگی ہے میرے اندر۔ کیوں کہ وہ میرے لیے ان شخـصیتوں میں سے تھے۔ جن کا پہلی ملاقات کے بعد ہی میں گرویدہ ہوگیا تھا۔ ہر چند کہ ان سے ملاقات سے قبل میں نے ان کا تذکرہ ہی سنا تھا، اپنے ایک عزیز سے جو ان دنوں داؤد انجینئرنگ کالج میں زیر تعلیم تھے۔ میں خود بھی جامعہ ملیہ کالج میں انٹر میں پـڑھ رہا تھا۔ بھٹو صاحب برسر اقتدار تھے اور اپنی ہواؤں میں تھے۔ پروفیسر غفور قومی اسمبلی میں جماعت کے پارلیمانی لیڈر تھے۔ کراچی ہی نہیں ملک بھر میں ان کا طوطی بولتا تھا۔ غالباً ان کی شخصیت پہلی بار توجّہ کا مرکز اس وقت بنی جب 1973ء کے دستور کی تدوین کے وقت پاکستان ٹیلی ویژن نے ہر سیاسی جماعت کے رہ نما کا ایک کھلا ڈلا انٹرویو پیش کرنے کا اہتمام کیا تھا انٹرویو ر تھے جناب فرہاد زیدی۔ جن کا جھکاؤ ویسے تو پیپلز پارٹی کی طرف تھا لیکن نہایت شائستہ، مہذب اور پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے صحافی کی حیثیت سے مشہور تھے۔ فرہاد زیدی صاحب نہایت تیاری کے ساتھ سیاست دانوں کے انٹرویو کرتے تھے ۔ انٹرویو کیا کرتے سیاست دانوں کے بخیے ادھیڑ دیتے تھے۔ مولانا شاہ احمد نورانی جیسے گھاگ اور جہاں دیدہ، سرد و گرم چشیدہ سیاست داں کو فرہاد زیدی نے اپنے تابڑ توڑ سوالات اور وکیلانہ جرح و تفتیش سے زچ کردیا تھا۔ پروفیسر غفور احمد واحد سیاست داں تھے، جن کے منطقی ، دوٹوک اور ذہانت آمیز جوابات کے سامنے فرہاد زیدی صاحب کی بولتی بند ہوگئی۔ چوں کہ پی ٹی وی واحد چینل تھا، ان دنوں بہت دیکھا جاتا تھا، پھر یہ پروگرام مقبول بھی ہوچکا تھا۔ لہٰذا اس انٹرویو سے پروفیسر غفور کی شہرت کا آغاز ہوا۔ ’’ڈان‘‘نے اس انٹرویو میں پروفیسر غفورصاحب کی غضب کی کارکردگی پر خوش ہوکر ایک عدد اداریہ لکھ ڈلاا تھا۔ تقریباً ہر گھر میں پروفیسر غفور کا چرچا تھا۔ میرے گھر پر ٹی وی نہیں تھا، اس لیے میں نے اس انٹرویو کی صرف باز گشت سنی تھی کہ ہر شخص پروفیسر صاحب کے لیے رطب اللسان تھا۔
میں نے ان کا ذکر جیسا کہ ابتداء میں عرض کیا تھا کہ داؤد انجینئرنگ میں زیر تعلیم ایک عزیز سے سنا تھا اور وہ بھی منفی پیرایے میں۔ ان عزیز کا کہنا تھا کہ پروفیسر غفور صاحب نے پیپلز پارٹی کے وفاقی وزیر عبدالحفیظ پیر زادہ کے ذریعے اپنے بیٹے کا داخلہ داؤد انجینئرنگ کالج میں کرادیا ہے، حالاں کہ نمبر اس کے کم تھے ا ور میرٹ پر داخلہ ممکن نہ تھا۔ میں اس وقت تک جماعت اور اس کے رہنماؤں کے معاملات سے بے خبر تھا۔لیکن کالج میں جمعیت طلبہ سے وابستہ ضرور تھا مگر اتنی واقفیت نہ تھی کہ اپنے عزیز کی اطلاع یا الزام کی تردید یا تصدیق کرتا۔ بہت بعد میں جب رسالہ آنکھ مچولی سے وابستہ ہوا جس کے ناشر اور مدیر اعلیٰ احمد فوڈ انڈسٹریز کے نہایت شریف النفس ، وضعدار اور انسان دوست شخصیت جناب ظفر محمود شیخ تھے۔ کچھ عرصے بعد اس رسالے کے شعبۂ اشتہار سے جو صاحب منسلک ہوئے، ان کا نام طارق فوزی تھا۔ ظفر صاحب نے بتایا کہ یہ پروفیسر غفور احمد کے صاحب زادے ہیں۔ طارق فوزی صاحب سے گپ شپ ہوئی تو معلوم ہوا کہ اللہ میاں کی گائے ہیں۔ سیدھے سادے ، نہ کوئی ایچ پیچ نہ کوئی گھنّا پن، نہ سازش اور توڑ جوڑ کے فن سے واقف ۔ اور تو اور اس احساس سے بھی تہی کے ایک بڑے سیاسی رہ نما اور ایک مشہور سیاسی شخصیت کے بیٹے ہیں۔ ان سے مل کر مجھے ایسی ہی مایوسی ہوئی جیسی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے چھوٹے صاحب زادے خالد فاروق مودودی سے یونی ورسٹی کیمپس میںمل کر ہوئی تھی۔ وہ بھی دوسرے طارق فوزی تھے۔ یا یوں کہیے کہ طارق فوزی دوسرے خالدفاروق مودودی تھے۔ طارق فوزی آنکھ مچولی میں تنخواہ اوراشتہارات کے کمیشن کی بنیادپر رکھے گئے تھے۔ ایک دن میں نے طارق سے پوچھا۔ ’’حضرت! آپ یہاں اشتہارات لانے پر مامور کیے گئے ہیں۔۔ یہ بتایئے کہ آپ کے اباّ جان نے اپنے اثر رسوخ سے آپ کو کوئی اچھی ملازمت کیوں نہ دلادی؟‘‘ طارق فوزی ہنسے۔ کس بات پر ہنسے۔نہیں معلوم، کیوں کہ میری بات یا سوال پر ہنسنے کا کوئی محل تو تھا نہیں۔ بولے: ’’اباّ کہتے ہیں اپنا مستقبل خود بناؤ۔ میرا کام تم لوگوں کو پـڑھانا لکھانا تھا، وہ میں نے کردیا ‘‘ میں نے کہا:’’یار فوزی صاحب! یہ پروفیسر صاحب تو بڑے سنگ دل ہیں۔ ملک میں سیاست داں جو دو جمع دو آٹھ کررہے ہیں، وہ اپنے بچّوں کے لیے کررہے ہیں۔ یہ پروفیسر صاحب کیسے آدمی ہیں، جنہیں اپنے بچّوں کی ذرّہ بھر بھی پروا نہیں۔ ان کے لیے کیا مشکل تھا کہ اپنے سیاسی اثر و رسوخ کواستعمال میں لاتے اور کہہ سن کر تمہیں ڈیڑھ دو لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ والی ملازمت دلادیتے‘‘۔ طارق فوزی کی نگاہیں جھک گئیں جیسے اپنے والد ماجد کے تقویٰ اور راست بازی پر شرمندہ ہوں۔ یہ منظر مجھ سے نہ دیکھا جاسکا ، ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلّی دی۔ ’’یار فوزی صاحب۔ حوصلہ رکھیں،مجھے امید ہے کہ پروفیسر صاحب اس دنیا کو تم بیٹوں کے لیے تو جنّت نہ بنا سکے لیکن آسمانی جنت میں وہ تم لوگوں کو پہنچا کر دم لیں گے‘‘ تسلّی کے یہ بول سن کر طارق کے سیاہی مائل گول بھولے بھالے چہرے پر بے یقینی کے آثار نمودار ہوئے۔ میںسمجھ گیا، وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں اور مارے ادب کے کہہ نہیں پار ہے۔ ’’آپ یہی کہنا چاہتے ہیں نا بھائی فوزی کہ روز محشر بھی اباّ یہ کہہ کر الگ ہوجائیں گے کہ میاں یہاں بھی اپنے اپنے اعمال پر فیصلہ ہوگا، میں تم لوگوں کی کوئی سفارش نہیں کرنے والا‘‘۔ میری صفائی بیان پر طارق فوزی زور زور سے ہنسنے لگے، ان کا پورا جسم ہل رہا تھا ہنستے ہوئے، ایک انبساط کے ساتھ جیسے کسی آدمی نے پہلی بار ان کے دل کی بات کہہ دی ہو، جسے سن کر اندر کا ـغبار دھل گیا ہو، کتھار سس ہوگیا ہو۔ تو طارق فوزی سے مل کر اور ان کی باتیں سن کر مجھے شدّت سے احساس ہوا کہ ہم لوگ کانوں کے کتنے کچّے ہیں۔ کوئی آکر کہہ دے کہ کوّا تیرا کان لے اڑا تو کوّے کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ تو فیق نہیں ہوتی کہ ذرا یہ تحقیق تو کرلیں کہ اطلاع واقعی سچّی ہے بھی یا نہیں۔ کانوں کو ٹٹولے بغیر کوّے کا تعاقب کرنا ہمارے مزاج کی عجلت پسندی، بدگمانی اور سہل انگاری کو ظاہر کرتاہے۔ ہم انتظار نہیں کرسکتے، معاملے کی تہہ تک نہیں اتر سکتے، اور سچائی کی تلاش تو بہ حیثیت قوم ہمارا مسئلہ کبھی رہا نہیں۔ چناں چہ ہمارے عزیز نے تحقیق و تفتیش کیے بغیر جو الزام پروفیسر صاحب کی ذات پر دھرا تھا، وہ سخن مدتوں میری سماعتوں میں محفوظ رہا، کم از کم اس وقت تک، جب تک پروفیسر صاحب کے کسی قدر مظلوم فرزندطارق فوزی سے میری ملاقات نہیں ہوگئی۔
مجھے یاد ہے 1973ء میں، میں نے شعبۂ صحافت جامعہ کراچی میں بی اے آنرز میں داخلہ لے لیا۔ کیمپس میں جمعیت کا زور تھا۔ سیاسی لیـڈروں کی جامعہ میں آمدورفت پر کوئی پابندی نہ تھی۔ چناں چہ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہ نما ، وزراء اور پارلیمنٹرین آرٹس آڈیٹوریم میں آکر ملک کی سیاسی صورت حال پر تقریریں کرتے رہتے تھے۔ ایسے ہی ایک جلسے میں ایک بار پروفیسر غفور احمد مدعو کیے گئے۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکن طلبہ نے غالباً پہلے سے یہ منصوبہ بندی کررکھی تھی کہ پروفیسر صاحب کو تقریر نہیں کرنے دیں گے، چناں چہ آخری مقرّر کے طور پر جوں ہی پروفیسر غفور روسٹرم پر آئے۔ یکایک آڈیٹوریم “جیے بھٹو”کے نعروں سے گونجنے لگا۔ یہ صورت حال ان کے لیے غیر متوقع تھی۔ میں آڈیٹوریم میں پروفیسر صاحب کو سننے کے لیے ہمہ تن گوش تھا۔ ادھر پروفیسر صاحب روسٹرم پر منتظر کھڑے تھے کہ نعرے بازی ختم ہو تو وہ تقریر شروع کریں لیکن نعرے تھے کہ بند ہونے ہی میں نہ آرہے تھے، بلکہ ان میںلمحہ بہ لمحہ شدّت آتی جارہی تھی۔ پروفیسر صاحب نعرے بازوں کے ارادے کو بھانپ گئے۔ میں نے دیکھا کہ نعرہ زنی سے وہ گھبرائے نہ سراسیمہ ہوئے۔ وقار اور نہایت پرسکون ہوکر تھوڑی دیر انہوں نے نعرے سنے اور پھر گرج کرکہا: ’’میں بھی یہی کہتا ہوں جئے بھٹو، سدا جئے لیکن عوام کو تو جینے دے‘‘۔ ان کا اتنا کہنا تھاکہ آڈیٹوریم میں سناٹا چھاگیا اور پھر انھوں نے نہایت دل جمعی اور انہماک کے ساتھ اپنی تقریر مکّمل کی۔ دوسرا واقعہ جو حافظے کی اسکرین پر اس وقت روشن ہوگیا ہے وہ بھی اسی آڈیٹوریم میں پیش آیا۔ اس واقعے سے پروفیسر صاحب کی عزت جو میرے دل میں تھی، اس میںمحبت کی آمیزش ہوگئی۔اصل میں یہ تقریری مقابلہ تھا جس میں بہ حیثیت مقرر میں بھی شریک تھا۔ حسن اتفاق سے منصفین کے فیصلے کے مطابق اول انعام کا مستحق میں قرار پایا۔ چناں چہ جب نام پکارا گیا تو میں مہمان خصوصی پروفیسر غفور احمد سے انعام لینے اسٹیج پر چڑھا، انھوں نے مسکراتے ہوئے کپ میرے ہاتھ میں تھمایا، آہستگی سے مبارک باد دی، کپ لیتے ہوئے فوٹو گرافر نے تصویر اتاری، جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ تقسیم انعامات کے بعد گروپ فوٹو کا وقت آیا تو میں قطار کے آخر میں کھڑا تھا، تصویریں اتروانے کے شوقین لڑکے لڑکیوں نے پروفیسر صاحب کے اطراف میں قبضہ جمالیا تھا۔ میں نے قطار کے آخر میں کھڑے کھڑے دیکھا پروفیسر صاحب کی متلاشی نگاہیں کسی کو ڈھونڈھ رہی تھیں۔ جوں ہی ان کی نظر مجھ پر پڑی تو انھوں نے اشارے سے مجھے اپنے قریب بلایا، اپنے ساتھ کھڑا کیا اور پھر فوٹو گرافر نے گروپ فوٹو بنالیا۔ گویا وہ اس بات کو سمجھتے تھے کہ مباحثے میں اوّل آنے کی وجہ سے مجھے تصویر میں نمایاں ہونا چاہیے۔ آج بھی اس تصویر کو دیکھتا ہوں تو انجانی سی خوشی ہوتی ہے، میں سرخ سوئٹر پہنے، ہاتھ میں کپ لیے ان کے پہلو میں کھڑا ہوں، میں تو سنجیدہ ہوں مگر پروفیسر صاحب کے لبوں پر ہلکی سی سکراہٹ ہے۔ جیسے کپ انھوں نے جیتا ہو۔ انھوں نے بغیر محبّت جتلائے مجھے جیت لیا تھا۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد میں پہلے رسالہ ’’عقاب‘‘اور پھر ہفت روزہ ’’بادبان‘‘سے وابستہ ہوگیا۔ مجیب الرحمن شامی صاحب کے رسالے’’باد بان‘‘کے لیے میں نے ان دنوں پروفیسر صاحب کا انٹرویو کیا تھا۔ وہ جنرل ضیاء الحق کی حکومت میںپی این اے ااور جماعت اسلامی کی طرف سے وفاقی وزیر پیداوار تھے۔ انٹرویو کے لیے انھیں فون کیا، اپنا تعارف کرایا، حرف مدعّا سن کر فوراً ہی انٹرویو کے لیے تیار ہوگئے۔ میں فیڈرل بی ایریا میں ان کے گھر کے رستوں سے واقف نہ تھا، پوچھتے پاچھتے ان کے کشادہ لان والے گھر تک پہنچا تو غالباً ایک ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر ہوچکی تھی۔ مزاج کچھ برہم سا تھا، لیکن ضبط کیے ہوئے تھے، کچھ بولے نہیں، موڈ ان کا خراب دیکھ کر میں نے معذرت کی: ’’معاف کیجئے گھر ڈھونڈنے میں دیر ہوگئی‘‘اس پر کہا تو دبے لفظوں میں صرف یہ کہا: ’’پتا معلوم نہ تھا تو آنے سے پہلے سمجھ لیتے‘‘ بات ان کی صحیح تھی، کیا کہتا، چپ رہا۔ چوں کہ گفتگو کی ابتداہی ناخوشگوار ہوگئی تھی، یا تو اس واقعے نے پورے انٹرویو کو متاثر کیا یاکوئی ا ورو جہ تھی جو میرے علم میں نہ تھی۔ پروفیسر غفور سوالوں کے دوران اکھڑے اکھڑ ے سے تھے۔ کوئی بھی سوال کرتا، چند جملوںمیںمختصرسا جواب دے کر چپ ہوجاتے۔ان دنوں سیمنٹ کا بحران درپیش تھا۔ وزیر پیداوار کی حیثیت سے اس بحران سے ان ہی کی وزارت کو نمٹنا تھا، اس حوالے سے ایک آدھ سوال اور پھر جوابی سوال پر جو میرے انٹرویو کا لازمی سا مزاج ہے، وہ کسی قدر تلخی کا شکار ہوگئے۔ میں بہت Dismoodہوکر ان کے پاس سے اٹھا۔ بلکہ انٹرویو کے تعارفی نوٹ میںا س کا اظہار بھی کردیا۔ اس وقت تو اتنی وضاحت سے نہیں البتہ بعد میں ان کی اس کیفیت کا معقول سبب سمجھ میں آگیا۔ وہ مارشل لا سے متفق نہ تھے ا ور اس کی چھتری تلے بننے والی کا بینہ میں وہ وزیر محض پارٹی ڈسپلن کے تحت بنے تھے، ان کا ضمیر غالباً اس فیصلے پر انھیں ملامت کرتا تھا۔ لہٰذا بہ حیثیت وزیر پیدا وار جب تک وہ رہے،بجھے بجھے سے رہے۔ وہ برّاقی جو اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ان کے بیانات، خیالات اور تقریروں میں نظر آتی تھی، ان کی شخصیت اور گفتگو میں سے غائب ہوگئی تھی۔ سنا ہے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پانے کی اطلاع انھیں ملی تو بتانے والے بتاتے ہیں کہ رنگ ان کا زرد پڑ گیا تھا، کسی میٹنگ میں فائل لیے جارہے تھے۔میٹنگ کینسل کرکے وہیں سے واپس ہولیے۔غالباً وہ بھٹو کو پھانسی دیے جانے کے فیصلے سے بھی متفق نہ تھے اور اسی لیے ضیاء الحق کے ریفرنڈم میںانھوں نے جماعت کی ریفرنڈم کی حمایت والی پالیسی سے اختلاف کیا۔ کراچی جماعت اس کی قائل تھی کہ فوجی اقتدار کے خاتمے کے لیے پیپلز پارٹی سے بھی اتحاد کرنا پڑے تو کرلینا چاہیے۔ جنرل ضیاء اور ان کی اسلامائزیشن کی پالیسی کے معاملے میں مرکز میںاکابرین جماعت جس نہج پر سوچ رہے تھے، اس میں عقیدت غالب تھی۔ جنرل ضیاء کا اسلام دھوم دھڑ کے والا، دکھاوے والا، ظاہر پرستانہ اسلام تھا۔ وہ غریبوں،مظلوموں، مسکینوں اور حاجت مندوں کا اسلام نہ تھا۔ چناں چہ ان کے پورے دور میں جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور سرداروں کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ اسلام کے نام پر جو تعزیری قوانین نافذ کیے گئے، ان کا اطلاق کمزوروں اور پسے ہوئے طبقے ہی پر ہوتا رہا۔ کسی وڈیرے ، کسی سیٹھ اور کسی سرمایہ دار کی پیٹھ پر کوڑے نہ پڑے۔ کوڑے ان ہی پر پڑے جو حالات کے کوڑے کھا کھا کر مائل بہ جرائم ہوگئے تھے ۔ اور پھر صحافیوں کو تو اختلاف فکر و نظر کی بنیاد پر کوڑوں کی سزا دینے کا کہیں سے کوئی جواز ہی نہیں نکلتا۔ اپنے انکسار ، وضعداری اور دین داری کے باوجود جنرل ضیاء الحق بہر حال ایک ڈکٹیٹر تھے۔جن کی اسلامائزیشن کی پالیسی میں دردمندی ، خلوص، خوف خدا وندی اور حکمت و بصیرت کا فقدان تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس پالیسی کا آگے چل کر بہت نقصان پہنچا۔ کیا عجب کہ پروفیسر غفور کو مستقبل کا ادراک اس درجے پر نہ ہو لیکن وہ تو سیدھے سبھاؤ جمہوریت پر ایما ن رکھتے تھے۔ جنرل ضیاء کا ساتھ کیسے دے سکتے تھے، جس کی حکومت کی بنیاد بندوق کی نال تھی۔ ایک ایسا آمر وقت جس کی شرافت طبع اور انکسار و عاجزی کے ہر طرف چرچے تھے مگر پروفیسر غفور ایک شخص کی انفرادی خوبیوں اور اوصاف کو سراہنے سے اس لیے انکاری تھے کہ نظام تو وہی گلا سڑا بوسیدہ تھا، فرامین تو اسی طرح جاری ہوتے تھے جیسے سیاہ و سفید کے مالک شہنشاہ وقت عہد مغلیہ میں فیصلے کیا کرتے تھے ۔ تو ہونا وہی تھا جس کی طرف اس زمانے میں کسی ظریف شاعر نے اشارہ کیا تھا؎ یہ جو کبھی کبھی نظر آتی ہے روشنی یہ سلسلہ بھی ختم ہے جنرل ضیاء کے ساتھ اور پھر یہ ’’کبھی کبھار‘‘نظر آنے والی روشنی کی حقیقت کیا تھی، وہ جرنیل جو جنرل ضیاء کی آنکھوں تلے منشیات کے گھناؤنے کاروبار میںملوّث تھے، جو افغانستان کے لیے آنے والی امریکی امداد اور امریکی ڈالروں سے راتوں رات کروڑ پتی اور ارب پتی بن گئے تھے اور اسٹیبلشمنٹ کے وہ طاقت ور عناصر جنھوں نے امریکی فوجی امداد میں ہیر پھیر پکڑے جانے کے خوف سے اوجھڑی کیمپ کا نہایت بے رحمی سے سانحہ کراکے اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں کو جہّنم بنادیا تھا، ان عناصر کو وزیر اعظم جونیجو نے بے نقاب کرنے کا عندیہ دیا تو جنرل ضیاء نے اپنے چہیتوں کو تحفّظ فراہم کرنے کے لیے جونیجو کو ایوان وزیر اعظم سے دھکیل کر گھر بھیج دیا جس پر کسی ستم ظریف نے کیا غضب کا تبصرہ کیا کہ ’’جونیجو کا جرم یہ تھا کہ وہ جنرل ضیاء کی موجودگی میں خود کو سچ مچ کا وزیر اعظم سمجھنے لگا تھا‘‘ لہٰذا جنرل ضیا ء کے نام نہاد ’’اسلام‘‘سے پروفیسر غفور احمد کیسے اس دام فریب میں آسکتے تھے، جنہوں نے ایک عظیم عوامی تحریک کی قیادت کی تھی، جو عوام کے درمیان رہتے سہتے تھے اور اسلامائزیشن کے نام پر جو اصلاحات کی جارہی تھیں اور جو قوانین نافذ کیے جارہے تھے، ان کے ثمرات سے مظلوم طبقات کو محروم پاتے تھے۔ انھوں نے ایک جمہوری ڈکٹیٹر سے مذاکرات کی میز پر پنجہ آزمائی کی تھی، لہٰذا وہ کسی فوجی ڈکٹیٹر کو کیسے برداشت کرسکتے تھے جو اخلاق و انکسار میں جمہوری ڈکٹیٹر سے بدرجہا بہتر ہونے کے باوجود آزاد مکالمات اور مذاکرات پر یقین ہی نہیں رکھتا تھا ۔ جس نے پروفیسر غفور کے سامنے ہاتھ باندھ کر بھٹو حکومت سے وفادار رہنے کی قسم کھائی تھی اور اس کے چند ہی دن بعد اپنی قسم توڑ کر اسلحے اور طاقت کے زور پر بھٹو کو سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظر بند کردیا تھا۔ پروفیسر غفور اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ بھٹو اپنی تمام خرابیوں کے باوجود ایک سیاسی اور عوامی طاقت تھا، اس سے سیاسی میدان میں لڑائی کی جاسکتی تھی جبکہ جنرل ضیاء کی تمام قوّت کا سرچشمہ مسلح افواج تھیں اور مسلّح افواج سے تصادم کے معنی ملک کی تباہی تھی اور اس سے سمجھوتے کا نتیجہ قومی اداروں اور جمہوری نظام کی بربادی تھی۔ اس لیے جنرل ضیاکی طرف جھکاؤ ان کے لیے ناپسندیدہ تھا مگر جماعتی ڈسپلن کا تقاضا تھا کہ اعلانیہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار نہ کیا جائے۔ جنرل ضیاء کی حکومت میںعارضی وزارت کا طوق انھوں نے مجبوراً و مصلحتاً پہن تو لیا تھا لیکن یہ طوق ان کے ضمیر پر ایک بھاری بوجھ تھا، جس کا مشاہدہ میں نے اپنے انٹرویو کے دوران کرلیا تھا۔ پھر جنرل ضیا کے عہدہی میں اس وقت کے سندھ کے وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ کے ذریعے کراچی جماعت کو (جو جنرل ضیاء کی مخالف تھی اور پیپلز پارٹی سے جنرل ضیاء کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد کی حامی تھی) سزا دینے کے لیے ایم کیو ایم کو بڑھاوا دیا گیا۔ کراچی سے جماعت کے اثر و رسوخ کا خاتمہ کرنے کے لیے شہر کے میئر عبدالستار افغانی کے موٹر وھیکل ٹیکس کے معاملے پر احتجاج کو بنیاد بنا کر بلدیہ عظمیٰ کراچی توڑ کر میئر افغانی کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا۔ اور یوں شہر کو ایک نوزائدہ پارٹی ایم کیو ایم کے حوالے کردیا گیا۔ غوث علی شاہ اس حقیقت کو آج بھی چھپاتے نہیں ہیں بلکہ فخریہ بیان کرتے ہیں کہ کراچی میں ایم کیو ایم کی بے تاج بادشاہی دراصل ان کی سرپرستی کا نتیجہ ہے۔ اور ظاہر ہے یہ سرپرستی جنرل ضیاء کی مرضی اور اشارے کے بغیر تو نہ ہوگی۔ پھر یہ ہوا کہ عروس البلاد کراچی جو پروفیسر غفور احمد، محمود اعظم فاروقی اور مولانا احمد شاہ نورانی اور مولانا عبدالمصطفیٰ از ہری کا شہر تھا، جہاں علماء اور مذہبی طبقے کو سیاسی قیادت کا شرف حاصل تھا۔ اس عروس البلاد کونسل پرستوں اور عصبیت کا جادو جگانے والوں کے حوالے کردیا گیا۔ نتیجے میںکیا ملا؟ آگ، خون اور لاشوں کے انبار در انبار۔ آج بھی اگر سالانہ اس شہر میںتین ‘چار ہزار افراد اوسطاً قتل کردیے جاتے ہیں تو ان مقتولوں کے لواحقین کی آہ و بکا سے جنرل ضیاء کی روح ــفیض یاب نہ ہوتی ہوگی؟شہر کراچی سے جماعت بے دخل کیا ہوئی، بدترین فسطائیت مسلط ہوگئی۔ پروفیسر غفو ر احمد جیسے نستعلیق ، بردبار اور باتکّلف رہ نما کو شہر کی تباہی و بربادی کا چشم دید گواہ بھی بننا تھا، یہ تو انھوں نے سوچا بھی نہ ہوگا۔ تب انھوں نے سیاسی سرگرمیوں سے خود کو الگ تھلگ تو نہ کیا، البتہ کتاب سازی میں خود کو مصروف کرلیا۔ اخبارات کی فائلوں کی مدد سے وہ بے نظیر اور نواز ادوار حکومت کے واقعات کو کرانولوجیکل آرڈر میں درج کرتے گئے اور اس میں کہیں کہیں اپنے تجربات و مشاہدات کی آمیزش بھی کردی تاکہ کتاب محض مطبوعہ واقعات کی کھتونی بن کر نہ رہ جائے۔ چوں کہ میں پیشہ ورانہ صحافت کو خیر باد کہہ کر درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوگیا تھا اور تقریبات اور جلسے جلوسوں میں جانا چھوٹ گیا تھا، اس لیے مدتوں پروفیسر غفور احمد سے ملاقات کی نوبت نہ آئی۔ کبھی کبھار کسی شادی یا ہوٹلوں کی تقریبات میں آمنا سامنا ہوجاتا تھا تو میں اس گمان کی وجہ سے محض سلام پر اکتفا کرتا تھا کہ پتا نہیں پہنچانا بھی ہے یا نہیں۔ وہ ہلکی سی مسکراہـٹ کے ساتھ جواب ضرور دیتے تھے لیکن جواب میں کوئی اشارہ ایسا نہ ملتا تھا جس سے صورت آشنائی کی مہک آتی ہو۔ چناں چہ معاملہ سلام تک ہی رہتا تھا، کلام کی نوبت نہ آتی تھی۔ ویسے بھی انھیں جتنی بار دیکھا اور جتنی بھی ان سے ملاقاتیں ہوئیں، ان میں ان کی تمام تر شفقت اور تواضع کے باوجود انھیں اپنے دل سے دور ہی پایا۔ ایسا لگتا تھا وہ نہ اپنے دل کے پاس کسی کو پھٹکنے کی اجازت دیتے ہیں اور نہ کسی کے دل میں اپنے داخلے کو روا جانتے ہیں۔ جو کچھ تعلق تھا، اس تعلق کے تمام ضروری تقاضوں کی تکمیل ہوتی تھی، کوئی ایسی کمی وہ چھوڑتے نہ تھے جس پر انگلی اٹھائی جاسکے لیکن تعلق میں جو ایک گہرائی ہوتی ہے کہ جس میں دل کا دل سے سمبندھ ہوجاتاہے۔ وہ چیز میں نے ان کے اندر کبھی نہ پائی۔ ان سے جب بھی ملا، مل کر یہی ایک خلش اپنے اندر پاتا تھا ۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو ان باتوں کا تذکرہ کچھ بے محل سا محسوس ہوتا ہے لیکن اگر اپنی کیفیت قلبی کو چھپاؤں تو کیا عجب کہ ان کی محبت اور ان سے تعلق میرے اندر نفاق کی شکل اختیار کرلے۔ اس لیے تذکرہ ضروری معلوم ہوا۔ پروفیسر غفور احمد ایک ایسا بیج تھے جس کے زمین کے سینے سے سر نکالنے ، ایک پودا بننے اور پودے سے گھنا درخت بننے کے لیے ایک سازگار اور ہموار معاشرتی فضا کی ضرورت ہوتی ہے۔ پچھلا معاشرہ ایسا ہی تھا ، اس لیے معاشرے کو ان جیسی شخصیات میّسر ہوئیں۔ آج کا معاشرہ ان خصائص سے محروم ہوگیا ہے۔ اس بات کی امید اور امکان بہت کم ہے کہ اب ہمارے درمیان پروفیسر غفور احمد جیسی شخصیات پھل پھول کر معاشرے میںتحّمل، بردباری، برداشت اور ایمان داری کی ویسی روایات قائم کرسکیں گی۔ہمیں پروفیسر صاحب کی مغفرت کے ساتھ معاشرے کی نجات کے لیے بھی دعا کرنی چاہئے۔

Comments