تاریخ میں نام لکھوانے کی کوشش ;;;از -- متین فکری

ن لیگ کے ایک دوست کہہ رہے تھے کہ میاں نواز شریف نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ عمران خان کیس میں بھی انہیں ہی نااہل قرار دیا جائے گا اور وہی ہوا، عمران بچ گئے اور جہانگیر ترین پھنس گئے۔ ہمارے دوست کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین کے نااہل ہونے کی میاں صاحب کو اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنا عمران خان کے اہل ہونے پر دُکھ ہوا ہے۔ ان کا اصل مقابلہ عمران خان سے تھا۔ انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ اگر وہ نااہل ہوئے تھے تو ان کے حریف کو بھی نااہل کیا جاتا اور انصاف کے ترازو کو برابر رکھا جاتا۔ میاں صاحب اسے سراسر ناانصافی قرار دیتے ہیں اور اس مبینہ ناانصافی کے خلاف وہ ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ اگر عدلیہ عمران خان اور جہانگیر ترین دونوں کو نااہل قرار دے دیتی تو پھر بھی میاں صاحب ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا راگ ترک کرنے پر آمادہ نہ ہوتے ان کا موقف یہ ہوتا کہ عدلیہ نے ان کے حریفوں کو نااہل کرکے ایک اچھا قدم اُٹھایا ہے۔ اب ان کے ساتھ لی گئی ناانصافی کی بھی تلافی ہونی چاہیے اس طرح عدلیہ کے خلاف ان کا احتجاج برقرار رہتا۔ بہرکیف نااہل سابق وزیراعظم اب اپنی انتخابی مہم عدلیہ کے خلاف احتجاج سے شروع کرنا چاہتے ہیں اس مقصد کے لیے وہ لندن سے واپس آگئے ہیں اور احتساب عدالت میں پیشی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے احتساب کے خلاف عوام کی عدالت میں جانے کا اعلان کررہے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے گلہ کیا تھا کہ ’’ہر بار وزیراعظم ہی کو کیوں دبوچتے ہو، کسی اور کا گلا بھی پکڑو‘‘۔ اب جب کہ عدلیہ نے ان کے ایک حریف کا گلا پکڑ لیا ہے تو وہ اپنے موقف سے پلٹا کھا گئے ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ ایک نہیں دونوں حریفوں کا گلا پکڑو اور ان کا گلا چھوڑو کہ جب تک یہ نہیں کرو گے انصاف کا تقاضا پورا نہیں ہوگا۔ میاں صاحب یہ راگ الاپتے ہیں تو ان کے روئے سخن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک تیر سے دو شکار کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم کو دبوچنے اور اس کا گلا پکڑنے والی صرف عدلیہ ہی نہیں کوئی اور قوت بھی ہے جو ان کے نزدیک ماسٹر مائنڈ کا درجہ رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ برملا اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ ان کے خلاف فیصلے لکھے نہیں، لکھوائے جارہے ہیں اور ہدایات کہیں اور سے آرہی ہیں۔ میاں صاحب کے پرجوش وکیل طلال چودھری نے عمران کیس کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ اسکرپٹ کے عین مطابق ہے اور ہم اس فیصلے کی توقع کررہے تھے لیکن عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کہتے ہیں کہ عدلیہ پر دباؤ ڈال کر فیصلہ کرانے والا ابھی پیدا نہیں ہوا، ہم اپنے ضمیر کی روشنی میں آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کررہے ہیں اور اپنے ربّ کے حضور جوابدہ ہیں۔ چیف جسٹس نے اور بھی بہت سی باتیں کی ہیں اور عدلیہ کے فیصلوں میں سازش تلاش کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اب معاملہ کچھ یوں ہوگیا ہے کس کا یقین کیجیے‘ کس کا یقیں نہ کیجیے لائے ہیں بزم یار سے لوگ خبر الگ الگ یہ الگ الگ خبریں اور دونوں فریقوں کا الگ الگ اور متضاد بیانیہ ایک نیا سیاسی منظرنامہ ترتیب دے رہا ہے جس میں مزاحمت اور سیاسی محاذ آرائی کو اولین ترجیح حاصل ہے۔ میاں نواز شریف صاف کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ بے شک آئین و قانون کے مطابق فیصلہ سازی کا دعویٰ کرے لیکن اگر یہ فیصلہ ان کے خلاف اور ان کے حریف کے حق میں ہے تو وہ اسے تسلیم نہیں کریں گے اور اپنا کیس ’’عوام کی عدالت‘‘ میں لے کر جائیں گے۔ جہاں تک وزیراعظم کو دبوچنے کی بات ہے تو میاں صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کام عدلیہ نہیں کوئی اور قوت کرتی رہی ہے، وہ جب پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے تھے تو دو سال بعد انہیں کس قوت نے دبوچا تھا۔ وہ کہتے رہ گئے کہ ڈکٹیشن نہیں لوں گا، سرنڈر نہیں کروں گا، لیکن انہیں ڈکٹیشن بھی لینا پڑی اور سرنڈر بھی کرنا پڑا۔ اُس زمانے میں ’’وحید کاکڑ فارمولا‘‘ بہت مشہور ہوا۔ میاں صاحب دوسری بار وزیراعظم بنے تو ان کی پارٹی نے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی تھی۔ اس عددی اکثریت کے ساتھ ان کے پاس وہ اختیار آگئے تھے کہ وہ جس کی چاہے گردن دبوچ سکتے تھے اور جس کا چاہے گلا دبا سکتے تھے۔ چناں چہ ان اختیارات کے نشے میں انہوں نے سب سے پہلے آرمی چیف کی گردن دبوچنے کا فیصلہ کیا۔ وہی آرمی چیف جسے انہوں نے کئی سینئر جرنیلوں کو سپر سیر کرکے فوج کی کمان دی تھی لیکن اب وہ ان کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا تھا۔ چناں چہ انہوں نے اس کی جگہ اپنے ایک عزیز کو آرمی چیف بنانے اور حاضر سروس آرمی چیف کی گردن پیچھے سے دبوچنے کی منصوبہ بندی کی لیکن بری طرح ناکام رہے اور اس نے پلٹ کر ایسا وار کیا کہ سٹی گم ہوگئی۔ اگر کچھ غیر ملکی دوست ان کی مدد کو نہ آتے تو شاید پھانسی کا پھندا چوم چکے ہوتے اور تاریخ میں ان کا نام ’’سنہری حروف‘‘ میں لکھا جاتا لیکن خیر وہ اب بھی تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اب کی دفعہ فوج ہی نہیں عدلیہ بھی ان کے نشانے پر ہے۔ فوجی قیادت بار بار انہیں یقین دلارہی ہے کہ وہ آئین و قانون کی پابند ہے اور آئین سے ماورا وہ کوئی قدم اٹھانے کا ارادہ نہیں رکھتی لیکن میاں صاحب یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں وہ اس پر عدلیہ سے گٹھ جوڑ کا الزام لگارہے ہیں جب کہ عدلیہ کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ کسی دباؤ کے بغیر آئین و قانون کے مطابق آزادانہ فیصلے کررہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف عدالتی فیصلے کے نتیجے میں اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ملک کے موجودہ نظام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ اس نظام کو اپنے آگے سرنڈر کرانا چاہتے ہیں اور خود کو اس نظام کے آگے سرنڈر کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ لیکن اس طرح تو بات نہیں بنے گی۔ اگر خدانخواستہ موجودہ نظام نے سرنڈر کردیا تو ملک میں کیا بچے گا؟ البتہ میاں صاحب تاریخ میں اپنا نام لکھوانے کی کوشش میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔

Comments