بر صغیر میں اسلام کے احیا ء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-‎‎94‎::آزادی کے بعد - قائد اعظم - پاکستان پر سازشوں کے جال ( ساتواں حصہ )

ہندوستان کے باسیوں نے انگریز کی غلامی میں جانے کے بعد انڈین نیشنل کانگریس کے نام سے بنائی گئی جماعت ( جس کا قیام دسمبر 1885ء میں عمل میں آیا تھا )میں شامل ہونا شروع کیا -ابتداء میں نیشنل کانگریس پر متمول ہندؤں کا قبضہ تھا - مسلمان اس میں نہ ہونے کے برابر تھے - یہ جماعت ہندوستانی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے قائم ہوئی -اس میں زیادہ تر تعداد ہندؤں کی تھی جبکہ مسلمانوں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا - انگریز بھی مسلمانوں سے خائف تھا -جس کی وجہ بظاھر تو یہ سمجھ میں آتی تھی کہ مسلمان کسی بھی وقت انگریز کے مقابلے پر کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں -کیونکہ ان کا مذھب بھی کسی غیر اللہ کی غلامی سے روکتا ہے - انگریز یہ بات اچھی طرح سمجھتا تھا کہ آٹھ سو سال سے زیادہ عرصے تک چونکہ مسلمانوں کی ہندوستان پر حکومت رہی ہے جس نے مسلمانوں کے لا شعور میں بٹھا دی ہے کہ حکمرانی کا حق صرف مسلمانوں کو ہے
-
سرسید اور ان کے رفقاء نے انگریز کے ساتھ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے نام پر انگریز کی قربت حاصل کی -اور انگریز اور مسلمانوں کے مابین حائل خلیج کو پاٹنے میں اہم کردار ادا کیا - جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ مسلمان سرمایہ دار اور پڑھے لکھے افراد جو ولایت پلٹ تھے انڈین کا نگریس کا حصہ بننے میں کامیاب ہوئے -جن میں مولانا ابوا لکلام آزاد اور خان عبدالغفار خان بھی شامل تھے -<
/b> جب محمد علی جناح ولایت میں تعلیم کی غرض سے موجود تھے اسی وقت سے ان کی دلچسپی کانگریس میں تھی - انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ ملکر دادا بھائی نوروز جی کو ممبر پارلیمنٹ بنوانے کی مہم میں بھرپور کردار ادا کیا تھا - اگرچہ دسمبر 1904ء میں بمبئی میں کانگریس کے بیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کر کے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ مگر اس کا با ضابطہ آغاز اور اعلان 1906 میں کیا - 1905 میں انگریزوں نے بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تو پورے بنگال میں شروع ہوگئی - اس تقسیم پر مشرقی بنگال میں رہنے والے مسلمان خوش تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ آسام کا علاقہ مشرقی بنگال میں آ تا تھا -اور اس صوبے میں مسلمانوں کی اکثریت تھی -مسلمانوں کا خیال تھا کہ اب سرکاری نو کریوں میں مسلمانوں کو بھی ان کا حصه ملے گا -مگر پورے ہندوستان بالخصوص بنگال میں اتنی خطرناک تحریک چلی کہ انگریز نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا - کانگریس میں شامل ہندوں نے اس تحریک کو اس قدر تعصب آمیزی کا رنگ دیاکہ مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ ان کی اپنی بھی کوئی سیاسی جماعت ہونی چاہیے جس کی بدولت مسلمان بھی کانگریس کی طرز پر مسلمان اپنے حقوق کی بات کرسکیں -
اس خیال کے ساتھ ہی مسلمانوں میں اپنی جماعت بنانے کا خیال زور پکڑتا گیا -اور اسی کے نتیجے میں 1906ء میں مسلمانوں کی پہلی سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا - سر آغا خان اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے -اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھنے والے آغا خان سوم کا اصلی نام سلطان محمد شاہ بن امام آغا علی شاہ تھا - (۔1906ء سے 1912ء تک مسلم لیگ کے صدر رہے)- 1906میں آغا خان سوم اور دیگر مسلمان قائدین نے نے گورنر جنرل ہندوستان لارڈ منٹو سے ایک ملاقات کی اور انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہوئے ان سے دریافت کیا کہ کیا انگریز حکومت کی مجوزہ سیاسی اصلاحات میں انہیں یعنی مسلمانوں کو "بے رحم اکثریت یعنی ہندوں" سے بچایا جائے گا؟ ۔ آغا خان سوم اور مسلم لگی مسلم رہنماؤں کے اس استفسار سے اختلاف کرتے ہوئے محمد علی جناح نے ایک گجراتی اخبار کہ مدیر کو خط لکھا کہ یہ مسلمان رہنما کس طرح مسلمانوں کی قیادت کر رہے ہیں؟ حالانکہ مسلمانوں نے انہیں منتخب ہی نہیں کیا ہے بلکہ یہ اپنی تئیں ہی رہنما بن بیٹھے ہیں ۔ دیکھا جائے تو محمد علی جناح اور مسلم لیگ کا سیاسی سفر تقریبا ایک ساتھ ہی شروع ہوا - محمدعلی جناح 1904میں کانگریس کے بیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کر کے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز تو کر ہی چکے تھے اور 1906 میں آل انڈیا کانگریس کے باقاعدہ ممبر بن گئے مسلم لیگ کے قیام کے اعلان کے بعد بھی قائد اعظم نے مسلم لیگی رہنماؤں سے اختلاف رکھا - تاہم ان اختلافات کو بنیاد بنا انہوں نے ڈائیلاگ نہیں روکے اور مسلمانوں کی بہتری اور حقوق مشترکہ پلیٹ فارم کی ضرورت پر زور دیتے رہے - حقیقت یہ تھی کہ اس وقت کے انگریز حکمران اور وائس رائے ہند بھی نوزائدہ مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ماننے کو تیار نہیں تھے - اس مخالفت کی وجہ تو ظاہر ہے تقسیم بنگال کے معا ملے پر مسلمانوں کا اصولی موقف تھا جس میں ان مسلمان قائدین نے اس تقسیم کی منسوخی سے اختلاف کیا تھا - اور دوسری وجہ یہ تھی کہ لیگ باوجود کوشش کے ایک عوامی جماعت کے روپ میں دکھائی نہیں دے رہی تھی - پیسے والے عناصر یا پھر سر سید کے خیالات کے حامل افراد نے اس پر اپنا کنٹرول حاصل تھا - قائد اعظم محمد علی جناح نے بیرسٹری میں نام کمانے کے بعد ہندوستانی سیاست میں با ضابطہ طور پر اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور آل انڈیا کانگریس کے پلیٹ فارم سے ہندو مسلم اتحاد کے لئے جدوجہد شروع کی -۔ میثاق لکھنؤ کے موقع پر جو 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین تھا اس کو مرتب کرنے میں بھی آپ نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کی خاطر چودہ نکات پیش کیے - مگر چند ہی سالوں میں آپ نے انڈین گانگریس اور ہندو رہنماؤں کی دل کی بات سمجھ لی کہ وہ کسی بھی طور مسلمانوں سے مخلص نہیں ہیں -گاندھی جی نے جب ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ کیا تو ہندو رہنماؤں پر سے آپ کا ا عتماد مکمل طور پر آٹھ گیا- گاندھی کے ستیاگرا مہم کو "سیاسی انارکی" سے تشبیہ دی- محمد علی جناح اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ خودمختار حکومت کا حصول قانونی طریقوں سے حاصل کیا جا نا چاہیے - 1920ء میں ناگپور شہر میں ہونے والے کانگریس کے سالانہ اجلاس میں کانگریسی رہنماؤں نے محمد علی جناح کے خیالات پر ان کی مخا لفت کی اور سخت ترین نوٹس لیتے ہوئے آڑے ہاتھوں لیا -کانگریس کی جانب سے گاندھی جی کی ستیاگرا مہم کی مسلسل حمایت اور اجلاس کی کاروائی کی وجہ سے قائد اعظم آل انڈیا کانگریس سے علیحدگی کا فیصلہ کیا - کانگریس میں رہتے ہوئے محمد علی جناح کو اندرونی فیصلوں اور مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں کانگریس کی سرد مہری اورہندو رہنماؤں دوغلی پالیسی کو اچھی طرح قریب سے دیکھنے کا موقع ملا - آپ نے کانگریس میں رہتے ہوئے مسلم لیگ اورکانگریس کے درمیان میں خلیج کو پا ٹنے کی اپنی سی کوششیں جاری رکھیں - 1911 میں تقسیم بنگال کے فیصلے کی منسوخی سے مسلمان پہلے ہی پریشان تھے اور انگریز سرکار سے بدظن دکھائی دیتے تھے -ایسے حالات میں طرا بلس اور بلقان کی لڑائیاں چھڑ گئیں جس میں بلقان میں موجور ریاستوں نے ترکی کے خلاف بغاوت کردی -مسلمانوں کی تمام تر ہمدردی ترکی کے ساتھ تھی کیونکہ ترکی کی خلافت اسلامیہ تمام مسلمانوں کی نمائندہ خلافت تھی - یوروپ میں ترکی کی خلافت کے خلاف عیسائیوں کی اس بغاوت نے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکا دیا - اٹلی نے طرابلس کا علاقہ چھین لیا - ہندوستان کے مسلمان سمجھتے تھے کہ اس تمام تر سازش اور پس پردہ کاروائیوں کے پیچھے انگریز حکومت( برطانیہ ) کا ہاتھ ہے - اگرچہ کھل کر برطانیہ نے یورپ اور ترکی میں سے کسی کا بھی ساتھ دینے کا اعلان نہیں کیا تھا , اس کے باوجود ہندوستان کے مسلمان سازش کرنے والوں کے خلاف اپنی انفرادی محافل اور نشستوں میں اس پر کھل کر اپنی رائے زنی کرتے تھے - میثاق لکھنؤ میں جو کردار قائد اعظم نے ادا کیا اس وجہ سے آپ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کے ہی مشترکہ رہنما کے طور پر سامنے آئے - آپ ہی کی کوششوں سے ہندوستان میں کانگریس اور مسلم لیگ کے مشترکہ جلسے بھی منعقد ہوئے - جس میں دونوں جانب کے چوٹی کے رہنما اپنا موقف پیش کرتے تھے - دونوں جانب کی قیادتوں کو قریب لانے کا سہرا قائد اعظم کے ہی سر جاتا ہے - ہوم رول کی تحریک میں قائد اعظم کی سیاسی بصیرت اور قائدانہ جوہر کھل کر سامنے آئے - (جاری ہے )


Comments