پاکستان، ہندوستان بٹوارے کی کہانی بر صغیر میں اسلام کے احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-82‎‎( چھٹا حصہ )

بر صغیر میں اسلام کے احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-82‎‎ پاکستان، ہندوستان بٹوارے کی کہانی ( 
چھٹا حصہ )
اسی طرح کی ایک اور کہانی اس ریلوے افسر کی ہے جو ان دنوں بہاولنگر ریلوے اسٹیشن پر تعینات تھا- اس وقت تک بہاول نگر ریاست بہاول پور کا ایک ضلع ہوتا تھا۔ 14 اگست کی رات تمام ملازمین نے ریلوے اسٹیشن پر منعقد ایک تقریب میں سرکار برطانیہ کی نشانی یعنی "یونین جیک" اتار کر اس کی جگہ خوشی خوشی نعروں کی گونج میں سبز ہلالی پرچم لہرا یا۔ یہ ایک ناقابل فراموش منظر تھا چونکہ اس ریلوے اسٹیشن سے مہاجرین کے لٹے پٹے قافلوں کی آمد و رفت جاری تھی اور جو بھی ٹرین اس اسٹیشن پر رکتی اس میں زخمی مہاجرین اور ہلاک شدگان کی لاشیں اور ان کے ساتھ بین کرتے خاندان بھی ہوتے - دوسری ریاستوں کی طرح ریاست بہاول پور میں بھی فساد شروع ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ یہ فساد اس ظلم و قتل و غارت گری کا شاخسانہ تھا جو ہندوستان سے آنے والوں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا تھا - ان لاشوں اور زخمیوں کو دیکھ کر مسلمان نوجوان غصے سے بھڑک اٹھے - وہ سب انتقام کی آگ میں بیچ و تاب کھا رہے تھے - نتیجتا ان میں سے بہت سے نوجوانوں نے مقامی ہندوؤں اور سکھوں پر حملے شروع کردئیے چناچہ اپنے آپ کو غیر محفوظ جانتے ہوئے وہاں پر برسوں سے آباد ہندو اور سکھ اپنی جانیں بچانے کے لیے ہندوستان کی جانب دوڑ اٹھے۔ اب بدلے کی آگ دونوں جانب بھڑک اٹھی تھی - منقسم ہندوستان میں مسلمان اور پاکستان میں ہندو اور سکھ اس آگ کا ایندھن بن رہے تھے -
بہاولنگر ریلوے اسٹیشن پر ہندوستان سے آنے والی جو ریل گاڑی پہنچتی اس میں مردہ، زخمی اور نڈھال مسلمان اس حالت میں ہوتے کہ کسی کی ٹانگ کٹی ہوتی تو کسی کا بازو! اسٹیشن پر ان کے علاج کا کوئی بندوبست نہ تھا۔ مقامی مسلمان گھرانے اپنے طور پر راشن ،کھانا ، پانی اور علاج کی دیسی ادویات لیکر اسٹیشن پر آجاتے اور اپنے طور پر جو بھی ممکن ہوتا ان کی تیمار داری اور میزبانی کرتے - اس خونی اور دکھی فضاء میں ہندوستان جانے والے ہندو مہاجرین بھی اسٹیشن پر پہنچنے لگے۔ اسٹیشن میں موجود مسافر گاہ میں ان کے لیے علیحدہ جگہ بنادی گئی۔ وہ بہت خوفزدہ اور سہمے ہوئے تھے ۔ اگرچہ ریاستی حکومت نے ان کی حفاظت کے لیے فوج کا ایک دستہ بھی تعینات کردیا تھا ۔ ایک دو دن کے اندر اندر ہندو مسافروں کی ایک بڑی تعداد اسٹیشن پر آچکی تھی - علاقے میں مشہور ہوگیا کہ ہندو و سکھ ریلوے اسٹیشن پر پناہ لے رہے ہیں۔ اس رات بڑی تعداد میں بپھرے ہوئے ہجوم نے ان غیر مسلموں پرحملہ کردیا جو ریل گاڑی آنے کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ اسٹیشن ماسٹر اور اس کا جواں سال بیٹا مل کر بھی اس بےقابو ہجوم کو نہ روک سکے اور ان دونوں کو اپنے دفتر میں پناہ لینا پڑی۔ فوج کے دستے نے ہوائی فائرنگ کرکے مشتعل ہجوم کو بھگانے کی کوشش کی مگر وہ بھی ہجوم کو منشتر نہیں کرسکا۔ جلد ہی کچھ لوگوں نے انہیں محصور کیا، باقی ہندوؤں اور سکھوں کو مارنے پیٹنے لگے۔
بپھرے ہجوم کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو معاملہ کچھ قابو میں آیا اسٹیشن ماسٹر نے ان غیر مسلم مہاجرین کواسٹیشن میں موجود ٹیکنیشن کے روم میں پناہ دی ۔ اسطرح وقتی طور پر ان کی حفاظت کا بندوبست ہوگیا۔ اسی رات بہاولنگر شہر میں کرفیو لگا دیا گیا۔ ہجوم نے سبھی ہندو مہاجرین کو زخمی کردیا تھا۔ چناںچہ اب وہ ہسپتالوں میں زیر علاج تھے۔ ان میں سے بعض زخموں کی تاب نہ لاکر جاں بحق ہوگئے۔ تاہم مسلمانوں میں سے ہی بہت سے معتدل مزاج لوگوں نے ان ہندوؤں کو اپنے گھروں میں اس وقت تک چھپا کر رکھا جب تک حالات نارمل نہ ہوئے اور انہیں کھانا پانی دیتے رہے۔ چوتھے دن کوئٹہ سے ہندوستان جانے والی ایک ریل پانی لینے بہاولنگر رکی۔ وہ ریل ہندو مہاجروں سے بھری پڑی تھی۔ اس گاڑی پر ایک انگریز میجر کی قیادت میں انگریز فوجیوں کا دستہ حفاظت پر مامور تھا۔ ریلوے اسٹیشن پر پانی موجود نہیں تھا۔ مسلمان اسٹیشن ما سٹرنے انگریز میجر کو مشورہ دیا کہ دو کلو میٹر پیچھے ایک چشمہ بہتا ہے جس کا پانی صاف ہے۔ لہٰذا ریل پیچھے لے کر چشمے سے جتنا چاہو پانی لے لو۔ میجر کو یہ مشورہ پسند آیا۔ وہ ریل کو دو کلو میٹر پیچھے لے گیا۔ وہاں سبھی مسافر نیچے اترے، چشمے سے پانی پیا اور بہت سا اپنی چھاگلوں وغیرہ میں بھی بھرلیا۔جب ریل واپس اسٹیشن پر پہنچی تو میجر نے اتر کر اسٹیشن ماسٹر کا شکریہ ادا کیا۔ اس وقت ماسٹر کو ان پانچ ہندوؤں کے متعلق یاد آیا اور اس نے ان پانچ زخمی ہندوں کے لئے انگریز میجر سے سفارش کی کہ ان کو اپنی گاڑی میں سوار کروالو ، انگریز میجر رضامند ہوگیا ۔ چناں چہ مسلمان اپنی حفاظت میں پانچوں ہندو مہاجرین کو ریل گاڑی تک لے آئے اور یوںپانچ انسانوں کی جانیں بچ گئیں مشرقی پنجاب میں تو فسادات اپنے عروج پر تھے - انبالہ میں بھی مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین چھڑپیں ہونے لگیں۔ تقسیم کا اعلان ہوتے ہی بہت بڑے پیمانے پر فساد پھوٹ پڑے - پورا پنجاب آگ اور خون تھا مسلمان جان بچا کر کسی طرح نکلنے کی کوشش کرتے مگر بہت کم ہی اسٹیشن تک پہنچ پا تے گاؤں دیہات سے جان جوکھم میں ڈال کر جو اسٹیشن آنے میں کامیاب ہوجاتے تو اسٹیشن پر بھی سکھ بلوائی نیزوں اور کرپانوں کے ساتھ ان پر حملہ اور ہوجاتے - مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد تھی کہ مسافر گاڑیاں کم پڑ گئیں تھیں چناچہ مال گاڑیوں کو مسافر گاڑی میں تبدیل کردیا گیا تھا ۔ ان کے ڈبے بغیر چھت کے تھے اور ان میں کوئلہ اور جانوروں کا چارہ اور دیگر سامان رکھا جاتا تھا۔ بہت سے مسافر ایسے ڈبوں میں گھس گھسا کر بیٹھے جن میں کوئلہ بکھرا پڑا تھا۔ سبھی مسافروں کے چہرے کوئلے کی وجہ سے کالے سیاہ ہوچکے ہوتے - جیسے ہی یہ مال بردار مسافر گاڑیاں اندروں شہر کسی جگہ ہلکے ہوتیں تو سکھوں کا ایک بڑا ہجوم برچھے، نیزے اور کرپانیں لیے ساتھ ساتھ بھاگنے لگتا - مسافروں کی زبان پر آیت ا لکرسی کا ورد جاری رہتا ۔ ایسی ہی ایک گاڑی کے مہاجر نے اپنی روداد سفر بتاتے ہوئے کہا کہ وہ بھی اس ریل گاڑی میں سوار تھا - جب ٹرین سکھوں کے علاقے میں پہنچی تو مردوں نے فیصلہ کیا کہ خدانخواستہ ریل گاڑی رکتی ہے ، تو وہ سب اپنی اپنی عورتوں کو اپنے ہاتھوں سے مار ڈالیں گے تاکہ ان کی عزت محفوظ رہے۔ مگر خوش قسمتی سے ریل کی حفاظت پر تعینات حفاظتی دستے کا کمانڈر ایک انگریز تھا۔ اس کے حکم پر ڈرائیور نے ریل کی رفتار بڑھا دی اور بلوائی ریل پر نہیں چڑھ سکے ۔
مگر جن گاڑیوں پر ہندو یا سکھ حفاظتی گارڈ ہوتے تھے وہ ریل گاڑیاں خاص طور پر سکھ علاقے میں کسی نہ کسی بہانے روک لی جاتیں اور پھر ان میں سے کسی کا زندہ رہ جانا ایک معجزہ ہی ہوتا - جب یہ ٹرین تین دن بعد 19 اگست 1947ء کی رات دو بجے قصبہ بیاس کے اسٹیشن پہنچی۔ وہاں ہندو ڈرائیور نےاپنی خباثت دکھاتے ہوئے انجن کو دیگر ڈبوں سے علیحدہ کیا اور انجن لیکر فرار ہوگیا۔ نتیجتا سبھی ڈبے پیچھے رہ گئے۔ جب مسافروں کو یہ خبر ملی کہ انجن آگے جاچکا ہے اور ڈبے اسی جگہ پر موجود ہیں تو سبھی پریشان ہوگئے۔ مگر کیا کرتے؟ خاموشی سے ڈبوں میں بیٹھے رہے۔جب صبح سورج کی کرنیں نمودار ہوئیں تو معلوم ہوا کہ ریل کے دونوں اطراف مسلح سکھ موجود ہیں۔ انگریز کمانڈر نے اپنی کمپنی کو جوابی کاروائی کا حکم دیا - جونہی حفاظتی سپاہیوں نے بندوقیں سیدھی کیں تو مسلح سکھوں کی حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوسکی ۔وہ بس کھا جانے والی نظروں سے ہمیں گھورتے رہے۔ نو بجے انگریز کمانڈر نے سکھوں کووارننگ دی کہ اگر وہ فوری طور پر منتشر نہ ہوئے تو ان پر گولی چلوا دے گا۔ اس پر سکھ اِدھر اُدھر ہوگئے۔ انگریز کمانڈر کے حکم پر نیا انجن بلوایا گیا ۔ ہندو عملہ اس پر بھی آنا کانی کرتا رہا اور دو بجے تک انجن کے کہیں آثار دکھائی نہ دیئے۔ آخر انگریز کمانڈر نے عملے کو بھی دھمکی دی۔ گالیاں کھانے کے بعد ہندو عملہ حرکت میں آیا اور سہ پہر کو امرتسر سے نیا انجن آن پہنچا۔ اب ریل واہگہ بارڈر کی جانب روانہ ہوئی۔پاکستان کی سرحد پر لاہوریوں کی بڑی تعداد نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔ وہ ہمارے لیے بریانی پکاکر لائے تھے۔ مہاجرین پر خوف و دہشت کے جو سائے لہرا رہے تھے، وہ چشم زدن میں اڑن چھو ہوگئے۔ مسافر نے بتایا کہ پاک وطن پہنچنے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ اہل لاہور کی مہمان نوازی اور زندہ دلی نے ہمارے دل جیت لیے۔میں زندگی میں پہلی بار لاہور آیا تھا اور یہاں میرا کوئی واقف کار نہ تھا۔ تاہم میں لاہور سے نکلنے والا ایک اخبار ’’کوثر‘‘ باقاعدگی سے پڑھتا تھا۔ میں اخبار کا پتا پوچھتا پوچھاتا گوالمنڈی پہنچ گیا جہاں دفتر واقع تھا۔ اخبار کے مدیر نے مشورہ دیا کہ میں جماعت اسلامی کے مہاجر کیمپ میں قیام کروں۔ چناں چہ میں بتائی گئی جگہ پر پہنچا۔ جماعت اسلامی نے مہاجرین کے قیام و طعام کا عمدگی سے بندوبست کررکھا تھا۔ میں والٹن کیمپ سے اپنی بہن کو بھی وہاں لے گیا۔ اسی مہاجر کیمپ میں میری ملاقات مولانا ابوالاعلی مودودی سے ہوئی۔ (جاری ہے )



Comments