جمہوریت کی گاڑی کا اسکریپ :تحریر -: عارف بہار

نوازشریف کی وزرات عظمیٰ سے نااہلی کے بعد جمہوریت کی گاڑی کا پہیہ رواں نہیں رہا۔ یوں لگتا ہے کہ گاڑی تو موجود ہے، انجن بھی چل ر
ہا ہے، ایک فرد کے ڈرائیونگ سیٹ سے ہٹتے ہی ایک اور شخص نے یہ سیٹ بھی سنبھال لی ہے مگر عملی طور پر جمہوریت کی گاڑی کے ٹائر پنکچر دکھائی دے رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ کسی روز گاڑی کو اسکریپ سمجھ کر راستے سے ہی ہٹا نہ دیا جائے۔ جس حادثے کے خدشات ظاہر اور سایے محسوس کیے جاتے ہیں وہ یہی ہے۔ جمہوریت کی گاڑی جس طرح بیٹھ گئی ہے اس سے پیدا ہونے والی جگہ کو کسی نہ کسی ادارے کو پُر کرنا ہے اور لمحۂ موجود میں فوج اس جگہ کو پُر کر رہی ہے۔ ملک کی معاشی صورت حال پر سیمینار سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خطاب نے حکومتی اور عسکری ترجمانوں کے درمیان غزل اور جواب آں غزل کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ دونوں طرف سے آئین کے حوالے بھی دیے جا رہے ہیں اور آئین کا علم بلند اور بالادست رکھنے کا عزم بھی ظاہر کیا جا رہا ہے مگر اس کے باوجود آئین کو معاملات کے حل کی بنیاد بنانے کی کوشش نہیں کی جا رہی جس کی وجہ سے معاملات اور مسائل کی ڈور اُلجھتی جا رہی ہے۔ مسلم لیگ ن میں ایک سخت گیر لابی کی پوری کوشش ہے کہ نظام کی بساط لپیٹ دی جائے تاکہ وہ اور عمران خان ایک ٹرک میں سوار ہو کر بحالیِ جمہوریت کی تحریک بھی چلائیں اور انہیں عمران خان کو خالص پنجابی لہجے میں ’’ہور چوپو‘‘ کہنے کا موقع ملے۔ کچھ یہی جذبات وہ پیپلز پارٹی کے بارے میں بھی رکھے ہوئے ہیں جو میثاق جمہوریت کی ڈور میں بندھے ہونے کے باوجود مشکل لمحوں میں مسلم لیگ ن کی مدد کو نہ آئی اور یوں ان کی حکومت اپنے سربراہ اور سرپرست سے محروم ہو گئی۔
یہ ایک انتقامی اور ردعمل پر مبنی رویہ ہے۔ نظام سے باہر نکل جانا یا نظام کی بساط لپیٹ دینا دونوں باتیں سیاسی جماعتوں کی موت ہوتے ہیں۔ جمہوری اور پارلیمانی نظام میں سیاسی جماعتیں اگر کچھ حاصل کر سکتی ہیں تو یہ نظام کے تسلسل کی صورت ہی میں ممکن ہے۔ مسلم لیگ ن تیسری بار اپنی حکومتی گاڑی کا حادثہ کروا بیٹھی ہے، اب اس جماعت کو جمہوریت کے حوالے سے سنجیدہ ہونا چاہیے۔ اصولی طور پر جماعتوں کو شخصیات سے وابستہ نہیں ہونا چاہیے چکہ جائیکہ جمہوریت کو شخصیات کے ساتھ مسقلاً وابستہ اور نتھی کر دیا جائے۔ جیسے میاں نوازشریف حکومت میں ہیں تو جمہوریت ہے اور شاہد خاقان عباسی آئے تو جمہوریت لولی لنگڑی ہوگئی اور کوئی دوسری جماعت آگئی تو جمہوریت کی لٹیا ہی ڈوب گئی۔ میثاق جمہوریت سے پہلے نوے کی دہائی میں پیپلزپارٹی بھی اسی رویے کا مظاہرہ کررہی تھی مگر آصف زرداری کی مفاہمتی پالیسی کے بعد اب پیپلزپارٹی اپنے حصے کے کیک پر گزارہ کرنا سیکھ چکی ہے۔ کراچی میں معیشت کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے پیدا ہونے والی لفظی توتکار سے یہ وضاحت سامنے آگئی کہ فوج سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں البتہ جمہوریت کو اس کے تقاضے اور عوامی امنگیں پوری نہ کرنے سے خطرہ ہے گویا کہ فوجی ترجمان نے اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا کہ جمہوریت کو خطرہ نہیں۔ خطرہ موجود ہے مگر اس کی وجوہ پر بحث ہو سکتی ہے۔ میجر جنرل آصف غفور کے بیان پر وزیر داخلہ احسن اقبال کے تبصرے اور پھر جوابی تبصرے نے ایک عجیب سماں پیدا کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ جب آئین موجود ہے اور سب فریق آئین کی دہائی بھی دے رہے ہیں تو پھر مسائل کیوں پیدا ہو رہے ہیں؟ آئین کی چھتری تلے غزل اور جواب آں غزل کا سلسلہ جاری ہے۔ پچھلے دنوں میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ ایک ملک میں دوپالیسیاں نہیں چل سکتیں۔ وزیر اعظم کا یہ فرمان اصولی طور پر درست تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ بہت سے ملکوں میں بیک وقت کئی پالیسیاں چل رہی ہوتی ہیں۔ اب جدید دنیا میں حکومتیں اور ریاستیں پرت در پرت ہو کر رہ گئی ہیں۔ دنیا کے سپر پاور امریکا ہی کو دیکھ لیں کہ جہاں بہت سے معاملات پر سیاسی طاقت کی علامت وائٹ ہاوس، فوجی طاقت کی علامت پینٹاگون اور سفارتی محاذ یعنی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ تین مختلف سمتوں میں سفر کرتے آئے ہیں۔ اپنے ملک کے حوالے سے شاہد خاقان عباسی کا اشارہ کس جانب ہے؟ یہ تو وہی بتا سکتے ہیں مگر اصولی طور پر ایک ملک میں ایک ہی پالیسی چلنی چاہیے جو ریاست کے تمام ستونوں کی تیار کردہ ہو اور جس پر پوری قوم کا اعتماد ہو اور جو قوم کی امنگوں اور ملک کے اسٹرٹیجک مفادات کی ضروریات اپنے اندر سموئے ہوئے ہو۔ کل تک تو یہی سننے میں آرہا ہے تھا کہ فوج اور حکومت ایک صفحے پر ہیں۔ اب نجانے دو پالیسیوں کا تاثر کہاں سے پیدا ہوا؟ پاکستان اس وقت شدید اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا کر رہا ہے۔ ان خطرات سے نکلنے کے لیے اجتماعی دانش کی ضرورت ہے۔ یہ کسی ایک ادارے یا نمبر اسکورنگ کا معاملہ نہیں اس خطرے کا مقابلہ مل جل کر کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کوئی بھی ہو اسے اپنی پالیسیوں کو اس قدر شفاف بنانا چاہیے کہ کوئی اس پر انگشت نمائی نہ کر سکے۔ فوج دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دے رہی ہے ان قربانیوں سے ملک میں امن کا ماحول بن رہا ہے۔ اس ماحول سے فائدہ اُٹھانا اور اپنی سیاسی گنجائش بڑھانا سیاست دانوں کا کام ہوتا ہے۔

Comments