بر صغیر میں اسلام کے احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر85‎‎

پاکستان، ہندوستان بٹوارے کی کہانی ( نواں حصہ )
ہجرت کے اس پر خطر اور صبر آزما عمل میں دونوں نو آزاد مملکتوں کو مشکلات پیش آئیں مگر پاکستان کو اس کا زیادہ شدت کے ساتھ سامنا کرنا پڑا - بیک وقت تین مختلف راستوں سے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری تھا-آندھرا پردیش جس میں ریاست حیدرآباد دکن بھی شامل تھی یہاں سے جو لوگ ہجرت کرکے آرہے تھے ان کی بہت بڑی تعداد پہلے ہندوستان کے مرکز دلی جاتی اور پھر واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان داخل ہوتی - مشرقی پنجاب کی جانب سے مہاجرین بھی واہگہ بارڈر امرستر کراس کرتے ہوئے پہنچتے - تباہ حال خاندان اور بچھڑے ہوئے افراد اپنے عزیزوں اور خونی رشتوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہوتے - پاکستان کے مشہور صد ا کار اداکار اور معروف علمی و ادبی شخصیت جناب طارق عزیز کہتے ہیں کہ ان کے آبائی علاقے میں اس قدر قتل وغارت گیری ہوئی کہ دوچار دن گزرنے کے بعد جب قتل و فساد رک گیا تو سرکاری میونسپلٹی کا عملہ علاقے میں صفائی کے لئے ٹھیلے اور بیل گاڑیاں لیکر پہنچا - سب سے پہلے کھلے میدانوں میں پڑی ہوئی لاشوں کو اٹھانے کا کام شروع ہوا - یہ تمام افراد فسادات میں مارے جاچکے تھے اور ان کی لاشوں سے تعفن پیدا ہورہا تھا - عا لم یہ تھا کہ ملازمین منہ پر رومال باندھ کر ان لاشوں کو ٹھکانے لگا رہے تھے - طا رق عزیز صاحب کا کہنا ہے کہ اس وقت وہ بہت چھوٹے تھے اور بیل گاڑی کے پیچھے پیچھے بھا گ رہے تھے صرف یہ بتانے کے لئے کہ ان کی گلی میں بھی چند لاشیں موجود ہیں جن کو کوئی اٹھانے نہیں آسکا - لاہور میں والٹن گراونڈ پر مہاجرین کا کیمپ قائم تھا جہاں اہلیان لاہور ان کی ہر قسم کی داد رسی اور مدد کے لئے ہمہ وقت موجود رہتے - اسی جگہ جماعت اسلامی کے کارکن مہاجرین بھائیوں کے لئے کھانے پینے کا سامان لیکر ایک ایک خیمے میں جاتے - ایک بہت بڑا مسلہ صفائی ستھرائی کا تھا -لاکھوں افراد کے اچانک آجانے کی وجہ سے بلدیاتی کاموں میں شدید نوعیت کی مشکلات تھیں تمام نظام درہم برہم تھا - یہ کام بھی کارکنوں نے سنبھال لیا اور بیماریوں سے بچانے کے لئے میڈیکل کیمپ بھی لگانے شروع کردئیے تھے - مولانا مودودی کی خاص ہدایت تھی کہ مہاجرین کی ہر ممکن مدد کی جائے - چناچہ جماعت اسلامی پوری طرح سے ان کی امداد کے لئے کیمپوں میں موجود تھی - بچھڑے ہوئے افراد کی تلاش اور معلومات کے لئے کیمپ قائم ہوچکے تھے -
ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کا دوسرا راستہ میرپور خاص مونا بھاؤ کی طرف سے آتا تھا - جو سندھ کے علاقے میں داخل ہوتے بمبئی گجرات اور راجھستان سے آنے والے مہاجرین کے زیادہ تر قافلے اسی راستے سے پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے - معروف ماہر تعلیم انوا ر احمد یوسف زئی کہتے ہیں کہ وہ ان دنوں طالبعلم تھے اور اپنے استاد کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ان کے استاد خاندانی سندھی تھے اور اپنے علاقے کی معروف علمی شخصیت تھے وہ اپنے گاؤں سے نکل کر میرپور خاص ریلوے اسٹیشن پر ہی مقیم ہوگیے تاکہ مہاجر قافلوں کی میزبانی اور استقبال کرسکیں - جیسے ہی ریل گاڑی پاکستان کی حدود میں داخل ہوتی سندھ کے مسلمان ان کا استقبال کرنے کے لئے والہانہ انداز میں ڈبوں کے اندر داخل ہوجاتے ، کسی کے ہاتھ میں کھانے اور کسی کے پاس نمکین لسی اور ٹھنڈا پانی ہوتا جس سے وہ آنے والے مہاجرین کی توا ضع کرتے - ایک سمندری راستہ بھی تھا - ایک بڑی تعداد بمبئی کی بندرگاہ سے مال بردار جہازوں اور مسافر جہازوں میں سمندر کے راستے کراچی کی بندرگاہ پہنچ رہی تھی - جنہیں فوری طور پر خداداد کالونی کی جانب ایک وسیع میدان میں بسانے کا بندوبست تھا - بزر ڑتا لائن، سرکاری ملازمین کی رہائشی کالونیوں اور اس کے قرب و جوار کا تمام علاقہ ان مہاجرین کی خیمہ بستیوں میں تبدیل ہوتا جارہا تھا - لکڑی کے شہتیر اور بانس زمین میں گاڑ کر ان پر چادریں تان دین جاتیں اور یوں ایک کنبے کا عارضی مسکن تیار ہوجاتا - سمندری راستے سے ہجرت کا یہ سلسلہ کم و بیش تین سال تک قائم رہا - سندھ میں داخل ہونے والے قافلے نواب شاہ ، میرپور خاص ، محراب پور اور دیگر مقامات پر آباد ہونا شروع ہوگیے - اسی طرح مشرقی پنجاب سے آنے والوں نے پنجاب میں آباد ہونے کا فیصلہ کرلیا - مغربی بنگال اور خاص کر بہار کے مسلمان مہاجروں کے قافلے مشرقی پاکستان پہنچ رہے تھے - حکومت پاکستان کے ذمے ان کی آبادکاری کا ایک بہت بڑا چیلنج تھا - ساتھ ہی ساتھ انتظامی مسائل سر اٹھائے موجود تھے - وسائل نہ ہونے کے برابر تھے - یہاں تک کہ روز مرہ کے عام سرکاری معاملات کے لئے بھی فنڈ موجود نہ تھا - کراچی کو پاکستان کا دارلخلافہ بنا یا گیا - یہاں کا عا لم یہ تھا کہ سرکاری دفاتر کے لئے کوئی معقول جگہ نہیں تھی - پارکوں میں دفاتر قائم کے گئے - اس پر تماشہ یہ ہوا کہ بہت اہم سرکاری دستاویزات جو تبادلے کے نتیجے میں پاکستان منتقل کی جارہی تھیں اور جن ریل گاڑیوں میں یہ سامان آرہا تھا - بلوائیوں نے اسے راستے میں آگ لگادی - ہندوں کے اس حملے میں ان گنت جانیں ضا ئع ہوئیں اور قیمتی ریکارڈ بھی جل گیا - ان حالات میں بھی پاکستان کے سرکاری ملازمین مایوس نہیں ہوئے - بلکہ اپنی بساط سے بڑھ کر کام کرتے رہے - مہاجرین کے مسائل سے نمٹنا آسان ہدف نہیں تھا ہندو اور سکھ بلوائیوں نے ایک منظم سازش کے ذریعے مسلمان مہاجرین اور قافلوں کا جس طرح قتل عام کیا جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد ہلاک ہوگئے - روزانہ لاکھوں تباہ حال ، فا قہ زدہ زخمی مہاجرین پاکستان کی حدود میں داخل ہورہے تھے - مہاجرین کے ان قافلوں کے قیام ، طعام ، طبی امداد ، تعلیم ، روزگار اور مستقل آبادکاری کے لئے بے پناہ وسائل درکار تھے - مہاجرین کے عارضی قیام کے لئے کیمپ لگائے گئے وہ بھی ناکافی رہے - چنانچہ مہاجرین نے میدانوں ، فٹ پاتھوں اور سڑک کے کنارے کنارے اپنے خیمے لگا کر رہنا شروع کردیا -
تاریخ میں اتنی بڑی ہجرت اس سے پہلے کبھی بھی نہیں ہوئی تھی - مگر نوزائدہ پاکستان اور یہاں کے عوام نے نے ملکر ان حالات کا مقابلہ کیا - ایک محتاط اندازے کے مطابق دسمبر 1948 تک سوا کروڑ مہاجرین پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے - اثاثوں کی تقسیم میں بھی ہندو سرکار کی جانب سے بد دیانتی کا مظا ہرہ کیا گیا - ہندوستان کی تقسیم کے وقت اصولی طور پر یہ بات طے پا چکی تھی کہ متحدہ ہندوستان کے کل سرمائے کا جو 4 ارب بنتا تھا ، چوتھائی حصہ یعنی ایک ارب روپیہ پاکستان کو دیا جائے گا - اس میں بھی اس قدر بددیانتی دکھائی گئی کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے - ایک ارب روپے کے بجائے صرف بیس کروڑ روپے پاکستان حکومت کو ٹرانسفر کے گئے اور بقیہ کے بارے میں صاف انکار کردیا گیا - اس پر ظلم یہ کہ متحدہ ہندوستان کے کل قرضوں کابیس فیصد بوجھ بھی پاکستان پر لاد دیا گیا - یہ سب اسلئے کیاگیا کہ اثاثہ جات کی رقم روک کر پاکستان کو کشمیر کے مسلے پر دباؤ میں لیا جاسکے - یہی معاملہ افواج اورعسکری اثاثہ جات کی تقسیم کے وقت ہوا - یہ بہت نازک اور اہم مسلہ تھا - انگریز کمانڈر انچیف اس فوجی تقسیم کے خلاف تھا مگر قائد اعظم کی دلیل تھی کہ دونوں ممالک کی الگ خود مختار فوج ہونی چاہیے تاکہ سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی مدد لی جاسکے - افواج کی تقسیم کے لئے سات رکنی کمیٹی کا اعلان ہوا جس کا کا م یہ تھا کہ یکم اپریل 1948 تک افواج کی تقسیم کا عمل مکمل کیا جائے افواج کی تقسیم کا فارمولہ یہ طے پایا کہ متحدہ ہندوستان کے عسکری اثاثہ جات کا ایک تہائی پاکستان کو ملے گا اسلحہ بنانے والی تمام فیکٹریاں ہندوستان میں تھیں فوجی ذخائر اور ڈپو بھی بھا رتی علاقوں میں ہی تھے - - معاملات طے ہوجانے کے باوجود اس کام کو التوا میں ڈال دیا گیا - اسلحے کی تقسیم میں نہرو حکومت نے ایسے ایسے روڑے اٹکائے کہ عا جز ہوکر انگریز کمانڈر انچیف نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا - اس انگریز کمانڈر انچیف نے برطانیہ حکومت کو اپنی رپورٹ میں آگاہ کیا کہ نہرو حکومت کسی بھی طور سے پاکستان کو وسائل دینے پر آمادہ نہیں ہے اور وہ پاکستان کو خود مختار نہیں دیکھنا چاہتی - نہرو حکومت کی خواہش ہے کہ ہر ممکن طریقے سے پاکستان کو مضبوط بنیاد فراہم ہونے سے روکے - (جاری ہے )


Comments