بر صغیر میں اسلام کے احیاء اور آزادی کی تحا ریک پاکستان، ہندوستان بٹوارے کی کہانی ( پانچواں حصہ ) ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-‎81‎‎


ہندوستان پا کستان کے درمیان بٹوارے کی خونی لکیر جو ریڈ کلف ، انڈین کانگریس اور سرکار برطانیہ کی ملی بھگت سے شروع ہوئی اس کا انجام اب تک نہیں ہوپایا ہے کہنے کو تو اس کے نتیجے میں دو علیحدہ مملکتیں آگئیں لیکن اس خونی داستان میں چھپی ان گنت سچا ئیاں تاریخ کے صفحات پر نقش ہوچکی ہیں -اور ان میں سے ہر ایک سچ اس بات کی دلیل ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور اکا برین پاکستان کا دیا ہوا دو قومی نظریہ اپنی جگہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک مدلل سچ تھا ، جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا - کلمے اور ایمان کی بنیاد پر دنیا کی سب سے بڑی ہجرت اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے لاکھوں افراد نے اپنے اہل خانہ سمیت صرف تن کے اور پہنے کپڑوں، جوار ، گندم اور مکئی کے دانوں کے ساتھ رخت سفر باندھا وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کی یہ ہجرت محض کسی سفر کا نام نہیں وہ جانتے تھے کہ انہیں آگ خون مشکلات اور مسائل کے سمندر سے گزر کر " پاکستان " جانا ہے - ہجرت کے اس سفر میںنہ جانے کتنے ہی خاندان اپنے عزیز رشتہ داروں اور خونی رشتوں سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگیے ماؤں کی بھری گودوں میں بلکتے بچے دودھ کی ایک ایک بانڈ کو ترس کر گود میں ہی جان دے گئے - ہزاروں بہن بیٹیاں اپنی عفت و عصمت لٹا بیٹھیں - غیرت مند باپوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی پھول جیسی بیٹیوں کو بلوائیوں کے خوف سے کنوؤں میں دھکا دے دیا - لاکھوں کی جائیداد والے کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئے - خالی ہاتھ قلاش مخبریاں کرتے کرتے جاگیردار اور ساہوکار بن گئے - بلوائی کون تھے ؟ کیا چاہتے تھے ؟ کسی کو نہیں معلوم - یہ ہندو بھی تھے سکھ بھی اور مسلمان بھی ، جاگیرداروں کی ذاتی فوج کے ملازم سبھی بلوائیوں میں شامل تھے -
عبداللہ خان کی سرگزشت بھی ان لاکھوں مہاجرین میں سے ایک ہے جو ہجرت کے خونی دریا سے گزرے -ملتان کا نوے سالہ عبدالله کا کہنا ہے کہ 14 -اگست1947 میں میرے والد کو خبر ملی کہ پاکستان بن چکا ہے ہمیں ابو نے بھارت چھوڑنے اور پاکستان کی جانب ہجرت کا حکم دیا ، ہم نہیں جانتے تھے کہ اب ہمیں کہاں اور کس طرح جانا ہے - احتیاطا ہمارے گھر والوں نے قیمتی اشیاء زیورات اور نئے کپڑے زمین میں دفن کرد ئئے اس خیال سے کہ کچھ دنوں کے بعد واپس آجائیں گے ہاں البتہ گھر سے نکلتے ہوئے گندم کے دانے بھون کر ساتھ لے آئے ،حالات روز بہ روز بگڑتے جارہے تھے اور جب لڑائی جھگڑے اور فسادات زیادہ ہوگیے ان حالات میں والد صاحب نے خواتین کو الگ قافلے کے ساتھ بھیج دیا اور اسطرح میں اور والد صاحب الگ الگ قافلے کے ساتھ روانہ ہوئے 8 دن کے لگاتار پیدل سفر کے بعد ملتان پہنچے - ان 8 دنوں میں ایک پل بھی سکون سے نہیں گزرا ہجرت کا یہ سفر ظلم کی داستانیں لکھتا گیا کئی ماؤں نے اپنے بچے ذبح ہوتے ہوئے دیکھے کئی بہنوں کی عزتیں پامال کی گئیں پاکستان پہنچے تو معلوم نہیں تھا کہ گھر والے کہاں ہیں ؟ اب وہ لوگ بہت ہی کم رہ گئے جن کو اس ہجرت اور بٹوارے کے بارے میں معلوم ہو یا عینی شاہد ہوں - اس سلسلے میں ’1947 پارٹیشن آرکائیو‘ کے نام سے ایک بہت اہم کام ہورہا ہے جس میں ان داستانوں کو ایک جگہ مجتمع کیا جارہا ہے ۔ خواجہ محمد ذکریا اردو لٹریچر کے ریٹائرڈ پروفیسر ہیں۔ 70 برس سے زائد عمر کے پروفیسر خواجہ محمد ز کریا ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت ہجرت کی تھی۔ پروفیسر ز کریا کہتے ہیں کہ ان کے والد بہت عجلت میں گھر پہنچے اور گھر والوں کے بتایا کہ انہیں ہندو اکثریتی آبادی سے نکل کر ایک دوست کے گھر جانا ہو گا جن کا گھر مسلم اکثریتی علاقے میں تھا۔ ان کے والد کی ہدایت تھی کہ صرف رقم اور زیوارت ساتھ لیے جائیں اور باقی سب کچھ چھوڑ دیا جائے۔ ز کریا تقسیم ہند کے وقت پیش آنے والے خوفناک تشدد کے واقعات کے بارے میں اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’جس دن ہم وہاں سے نکلے۔۔۔ اسی دن اس علاقے پر حملہ ہو گیا۔ بہت سے لوگ ہلاک اور زخمی ہو گئے مگر ہم محض دو گھنٹے قبل وہاں سے نکل گئے تھے۔‘‘ تقسیم ہند کے وقت ہونے والی اس ہجرت کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت قرار دیا جاتا ہے۔ جتنی بڑی یہ ہجرت تھی اتنی ہی عظیم قربانیاں بھی تھیں اس ہجرت میں دونوں طرف کے کم وبیش ایک کروڑ افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی تقسیم ہند کے وقت ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خونیں فسادات ہوئے۔ ایسے ہندو جو کئی نسلوں سے ان علاقوں میں رہ رہے تھے جو پاکستان کا حصہ بن گئے انہیں راتوں رات اپنے گھر بار چھوڑ کر بھارت بننے والے حصے میں جانا پڑا جبکہ کئی ملین کی تعداد میں مسلمانوں کو سرحد پار کر کے پاکستان ہجرت کرنا پڑی۔ سرکار برطانیہ سے آزادی ملنے کے بعد برصغیر کو پاکستان اور ہندوستان میں تقسیم ہوگیا - اس تقسیم میں بلوائیوں کی جانب سے مذہب اور دھرم کے نام پر بڑے پیمانے پر فسادات اور بلوے شروع ہو ئے جن پر قابو پانا انتظامیہ ،پولیس اور فوج کے بس کی بات نہیں تھی۔ ان بلووں اور فسادات میں کم و بیش پندرہ لاکھ افراد کو اپنی جانوں کی قربانی دینی پڑی - ان داستانوں میں ایک اور داستان پٹیالہ شہر کی ہے جہاں شہر میں سکھ اکثریت میں تھے ایسے میں تقسیم کا اعلان ہوا -اس اعلان کے ساتھ ہی حالات نے خونی رخ اختیار کرلیا شہر میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین کشیدگی جنم لے چکی تھی۔ایک دن پولیس نےمسلمانوں کے گھروں میں تلاشی لی اور سبھی مسلمانوں کے گھر سے جو ہتھیار ملا، سمیٹ کر اپنے ساتھ لے گئی - حتیٰ کہ اس نے باورچی خانے کے چاقو، چھری اور کانٹے بھی نہ چھوڑے۔ غرض مسلمانوں کے پاس پاس اپنے دفاع کے لئے سوائے ڈنڈوں کے کچھ نہیں بچا - علاقے میں یہ افواہ پھیل گئی کہ مسلح سکھ حملہ کرنے والے ہیں۔ اس افواہ نے مسلمان گھرانوں کو خوفزدہ کردیا۔ شام تک محلے کی مساجد خوفزدہ مسلمانوں سے بھر چکی تھیں - کچھ لوگ قریبی دھوبی گھاٹ میں جا چھپے - سب نے رات آنکھوں میں کاٹی - صبح ہوئی تو وہ افواہ سچ نکلی اور رات نو بجے مسلح سکھوں نے مغل والی کھوئی پر حملہ کردیا مسلمان خوفزدہ ہوکر دھوبی گھاٹ میں چھپے رہے۔ رات کے اندھیرے میں چند مسلح افراد دھوبی گھاٹ بھی پہنچ چکے تھے ۔ ان کے ہاتھوں میں نیزے اور برچھے تھے ۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ سب ایک دوسرے کے جاننے والے سکھ محلے دار تھے۔ بمشکل تمام محصور مسلمانوں نے اپنا قیمتی سامان انہیں دے کر اپنی جان بچائی ۔ان حملہ آوروں کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا ۔ صبح ہوئی تو دیکھا کہ جن لوگوں نے مسجد میں پناہ لی تھی مسجد سے باہر گلیوں میں ان مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ کئی گھر وں کو آگ لگا دی گئی تھی ۔ ایک بہت بڑے کنویں میں نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کی اوپر تلے کئی لاشیں تھیں ۔ نوجوان سکھ لڑکیوں کو اغوا کرکے بے حرمتی کے مرتکب بھی ہوئے ۔ کتنی ہی مسلمان بچیوں نے عزت بچانے کی خاطر کنوؤں میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی - پھر اگلے دن چڑھے گلیوں میں پولیس کا گشت شروع ہوا - فساد کچھ دیر کو تھما ،لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھکر اپنے علاقے سے جان بچاکر نکلے ۔ قریبی قلعہ بہادر گڑھ کے مہاجر کیمپ پہنچ کر ان لٹے پٹے مھا جروں نے اپنا اندراج کروایا- یہ مہاجر کیمپ پٹیالہ شہر سے چھ میل دور واقع تھا کئی دن سے بھوکے مسلمانوں نے جو ملا کھا کر اپنی بھوک مٹائی - مہاجر کیمپ میں کھانا بس اتنا ملتا تھا کہ جسم و روح کا رشتہ برقرار رہ سکے۔ کھا نے کی کمی سے لوگ بیہوش بھی ہوجاتے - لہذا قریبی جنگل سے جنگلی پھل اور بوٹیاں کھا کر شکم کی آگ بجھانے کا بندوبست کیا جاتا - کئی کئی دنوں تک یہی جنگلی پھل مہاجرین کی خوراک ہوتے قریبی جنگلوں سے جنگلی پھل لا کر کھانے کے لئے بچا رکھتے -انہیں کھا ک بدن میں کچھ جان آتی ۔ آخر کا ر ایک ہفتے کے بعد ریاستی حکومت نے ایک وقت کھانے کا بندوبست کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پتوں اور جنگلی پھلوں کی وجہ سے جانیں بچ گئیں۔ پینے کے پانی کی بھی شدید قلت تو تھی ہی ایسے میں افواہ پھیلی کہ کنوؤں میں زہر ملا دیا گیا ہے۔ اس لیے اکثر لوگ تالابوں سے گندہ پانی پیتے رہے۔ گندہ پانی پینے کی وجہ سے مہاجر کیمپ میں کئی بیماریاں پھیل گئیں۔ علاج نہ ہونے کے برابر تھا۔ چناں چہ مہاجر کیمپ دن رات مریضوں کی کراہوں سے گونجنے لگا۔ کئی لوگ سکھوں یا ہندوؤں کے حملوں میں زخمی ہوگئے تھے۔ وہ بھی تکلیف کے مارے کراہتے رہتے۔ سبھی لوگ قریب ہی رفع حاجت کرتے تھے۔ لہٰذا کیمپ بدبو اور تعفن کا مرکز بھی بن گیا۔ کئی عورتوں کے سروں میں گندگی کی وجہ سے جوئیں پڑگئیں۔ انہوں نے اپنے سارے بال کاٹ ڈالے اور گنجی ہوگئیں۔ جلدہی مریض اور زخمی مرنے لگے۔ ان ہجرت کرنے والوں نے اپنے بہت سے لوگوں کو اپنے ہاتھوں دفن کیا۔ (جاری ہے




Comments