تاریخ کا ایک بھولا ہوا سبق : گردشِ ایّام ۔۔۔ سلیم خان

ولیم الڈوس نے سچ کہا تھا کہ ‘تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ انسان تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا’ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تاریخ سے جو لوگ برضا و رغبت سبق نہیں سیکھتے تاریخ انہیں بزورِ قوت سبق سکھا دیتی ہے۔ اور ایسا کرنے کے لیے تاریخ بس اپنے آپ کو دوہرا دیتی ہے۔ انسان اپنی ناقص بصیرت سے ماضی قریب کے محدود واقعات پر غائر نگاہ ڈالتا ہے اور اس کا انطباق ساری انسانی تاریخ پر کر دیتا ہے۔ اس کی جسارت اس جرمِ صغیربس نہیں کرتی بلکہ وہ اس غلط فہمی کا شکار بھی ہو جاتا ہے کہ اب قیامت تک حالات میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو گی حالانکہ خود انسانی تاریخ اس مفروضہ کے خلاف شہادتوں سے اٹی پڑی ہے بقول اقبال ؎ جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہو گا، یہی ہے اک حرفِ محرمانہ قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ یہ ایک خیالِ خام ہے کہ گلوبلائزیشن کی ابتدا گذشتہ صدی کے اواخر میں ہوئی حالانکہ آج سے تقریباً چار ہزار سال قبل بابل یعنی موجودہ عراق کے شہر اُر میں جب اللّٰہ رب العزت نے حضرتِ ابراہیمؑ کو آزمایا اور وہ اس میں پورا اترے تو انہیں سارے عالم کا امام بنا دیا اس کے بعد بابا ابراہیمؑ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا وہ اپنے فرضِ منصبی کو ادا کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ عراق سے نکل کر جنوبی ترکی میں حنان نامی مقام پر پہونچے پھر وہاں سے ملکِ شام ہوتے ہوئے فلسطین کا رختِ سفر باندھا اور وہاں کچھ مدت قیام کرنے کے بعد مصر جا پہونچے لیکن پھر واپس آ کر کنعان کو اپنا مرکز بنایا مگر اپنے بڑے بیٹے اسماعیلؑ کو لے جا کر مکہّ مکرمہ میں آباد کیا اور وہاں اس کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کو تعمیر کیا اپنے بھتیجے لوطؑ کو سدوم کے علاقے میں بسایا اور تینوں تو حید پرست مذاہب کے پیشوا کہلائے لیکن تاریخ اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ اُن کے ماننے والے تینوں اہلِ کتاب گروہوں کے اندر امن و امان کی کیفیت کم ہی پائی گئی یروشلم جس کے معنیٰ ‘گہوارۂ امن’ کے ہوتے ہیں اکثر و بیشتر جنگ و جدال میں الجھا رہا الاّ یہ کہ کبھی مسلمانوں نے تو کبھی ایرانیوں نے یہودیوں کو امان فراہم کر دی ورنہ مغرب نے تو عیسائیت کے قبول کرنے سے پہلے اور اس کے بعد بھی اس سر زمین کو یہودیوں کے خون سے لالہ زار ہی رکھا۔ یہ ایسی تاریخی حقیقت ہے کہ اس پر اس دور کے لو گوں کو یقین کرنا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہماری دقّت اپنی جگہ اور تاریخ کی شہادت اپنی جگہ۔ موجودہ دور کے صیہونی رہنما یہودیوں پر ہٹلر کے ذریعہ ہونے والے مظالم کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ اپنی سفاکی پر پردہ ڈا ل سکیں لیکن اس میں شک نہیں کہ یہودیوں ساری تاریخ ان پر ہونے والے مظالم سے بھری پڑی ہے فی زمانہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ جرمنی سے اپنی زمینوں اور جانوں کا معاوضہ دولت کی شکل میں وصول کرنے پر اکتفا کر رہے ہیں اور خود فلسطینیوں کو ان کے اپنے ملک بدر کر کے ان کی زمینوں پر قبضہ کرتے ہیں نیز انکے ساتھ وہی قتل و غارتگری کا معاملہ کرتے ہیں جو نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ روا رکھا تھا۔ ویسے یہودیوں پر ہونے والے مظالم کی ذمہ داری بڑی حد تک خود ان پر آتی ہے۔ ان کا مزاج اور رویہ انہیں گوں ناگوں مسائل میں گرفتار کر دیتا ہے۔ یہودیوں کی نفسیات کا اندازہ لگانے کے لیے حضرت یوسفؑ کے بھائیوں پر نظر ڈالیں تو ساری بات واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ یہ لوگ حضرت یعقوبؑ جیسے جلیل القدر نبی کے بیٹے ہیں حضرت اسحاقؑ کے پوتے اور حضرت ابراہیمؑ ان کے پردادا ہیں اس کے باوجود بچپن ہی میں خود اپنے بھائی سے حسد اور اس کے بعد اس کے قتل کی سازش خود اپنے والد کو دھوکہ اور کذب بیانی اور تو اور اپنے والد کے بارے میں یہ گمان کہ بڑھاپے میں ان کا دماغ چل گیا ہے۔ ابن الوقتی کا یہ عالم کہ جب حضرت یوسفؑ نے بہانہ بنا کر بن یامن کو روکا تو اپنے بھائی کا دفاع کرنے کہ بجائے فوراً یہ تہمت جڑ دی کہ اس کا بھائی یعنی یوسف بھی چور تھا اور اس قدر نا عاقبت اندیشی کہ اسی پر الزام تراشی کی جا رہی ہے جس کے آگے مدد کے لیے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں اور پھر ایک خاص مرحلے میں جا کر یہ لوگ اپنے اسی بھائی کے سامنے بصد احترام سجدہ ریز بھی ہو جاتے ہیں۔ یہودیوں کی اجتماعی داستانِ حیات میں ان تمام صفات و حرکات کا مظاہرہ وقتاً فوقتاً اور موقع بہ موقع نظر آتا ہے ان کے نت نئے مسائل میں الجھتے رہنے کی یہی بنیادی وجوہات ہیں۔ یہودی نفسیات کا ایک نمائندہ قارون بھی ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ مصر میں فرعون نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اس کے باوجود قارون اپنی قوم کے خلاف اس سے جا ملا، یہ لوگ جہاں کہیں جس حال میں بھی رہے مال کی محبت اور اس پر اترانا ان کا خاصہّ رہا۔ قبطیوں سے لڑائی جھگڑا کر کے حضرت موسیٰؑ سے قتل کروا دیا آزمائش کی گھڑی میں ان کا ساتھ دینے کے بجائے لعنت ملامت شروع کر دی، کہنے لگے تمہارے آنے سے قبل بھی ہم مصیبت میں مبتلا تھے اور بعد میں بھی۔ جب دریائے نیل اور فرعون کے لشکر کے درمیان اپنے آپ کو پایا تو وقت کے نبی پر بگڑ گئے اور کہا تم نے تو ہمیں مروا ہی دیا۔ بے یقینی کا یہ عالم کہ دریا کے پھٹنے کا معجزہ اور اس میں فرعون کے غرق ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجودموسیٰؑ سے کہہ دیا ہم کنعانیوں سے نہیں لڑ سکتے جاؤ تم اور تمہارا خدا لڑو۔ حضرت موسیٰ ؑ کو کوہ طور پر بلایا گیا تو ان کی غیر حاضری میں حضرت ہارونؑ کے موجودگی میں سامری کے طلائی بچھڑے کی عبادت کرنے لگے۔ سبت کے قانون کی خلاف ورزی، اللّٰہ کی آیات کو سستے داموں بیچ ڈالنا، حق و باطل کو خلط ملط کر دینا، انبیاء کی نہ صرف کردار کشی بلکہ قتل تک کی جرأت کر گذرنا۔ یہ اور اس طرح ک ارویہ ان پر سارے عالم پر حاصل ہونے والی فضیلت کے باوجود ذلّت و مسکنت کا سبب بنتا رہا یہاں تک نبی آخر الزماں ؐ کے انکار نے انہیں اس مقامِ عالیہ سے ہمیشہ کے لیے معزول کر دیا۔ بنی اسرائیل کو اس سے پہلے اصلاح کے مواقع برابر حاصل ہوتے رہے۔ طالوت کی قیادت میں ان کو تابوتِ سکینہ واپس مل گیا۔ حضرت داودؑ جالوت کو قتل کرنے کے بعد بادشاہ ہوئے اور انہوں نے فلسطین میں باقاعدہ حکومت قائم کی جسے ان کے فرزندِ رشید حضرت سلیمانؑ نے بامِ عروج تک پہونچایا۔ لیکن اس کے بعد پھر ان کے درمیان اختلاف رونما ہوا اقتدار دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور پھر ایک بار داستانِ الم کا آغاز ہو گیا۔ قرآنِ مجید میں اشارتاً بنی اسرائیل کی جانب سے برپا کیے گئے دو عظیم فسادات کا ذکر اس طور پر ملتا ہے : پھر ہم نے بنی اسرائیل کو اس بات سے متنبہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں عظیم فساد برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے (الا اسراء ۴) قرآن حکیم کے اندر تو چند آیات میں مختصر تبصرہ کیا گیا ہے لیکن تورات، زبور اور انجیل میں اس کی ساری تفصیلات موجود ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان واضح پیشن گوئیوں اور تنبیہات کے باوجود کوئی عبرت حاصل نہیں کی گئی۔ فرعون سے نجات کے بعد ۴۰ سالہ صحرا نوردی کا جب خاتمہ ہوا اور بنی اسرائیل کو فتح سے نوازا گیا توان لوگوں نے اپنی متحدہ حکومت قائم کر کے فلستیوں سمیت دیگر لوگوں کا صفایا کرنے کے بجائے جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا اپنی چھوٹی چھوٹی قبائلی حکومتیں قائم کر لیں (با لکل اسی طرح جیسی کہ آجکل مسلمانوں کی حالت ہے )نتیجہ یہ ہوا کہ تکمیلِ غلبہ کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ اس زمانے میں فلسطین کے علاقے میں آباد دیگر قوموں کے حالات بعثت محمدی ؐسے قبل مکہ میں بسنے والے کفار اور مشرکین سے بہت حد تک مماثلت رکھتے تھے۔ بت پرستی اور بداخلاقی کا دور دورہ تھا۔ ایسے میں بجائے اس کے کہ بنی اسرائیل ان میں دعوت و اصلاح کا کام کرتے خودان سے متاثر ہونے لگے (ایسا ہی کچھ آجکل ہمارے ساتھ بھی ہو رہا ہے )اس انتشار و بے راہ روی نے تقریباً ایک ہزار سال تک انہیں مغلوبیت کا شکار رکھا یہاں تک تابوتِ سکینہ بھی ان سے چھن گیا اور پھر انہیں ہوش آیا (مسلمانوں کو بھی بیت ا لمقدس کے ہاتھ سے نکل جانے پر کسی قدر ہوش آیا ہے )بیداری پیدا ہوئی سب لوگ جمع ہو کر نبی سموئیل کے پاس گئے اور انہیں بادشاہ مقرر کرنے کی درخواست کی تاکہ اس کی قیادت میں جنگ کی جا سکے۔ طالوت کی قیادت میں پہلی بار بنی اسرائیل کو۱۰۲۰ق م میں غلبہ نصیب ہوا اس حکومت کو حضرت داودؑ نے ۱۰۰۴ق م سے ۹۶۵ ق م کے درمیان استحکام عطا کیا اور پھر حضرت سلیمانؑ کا سنہری دور ۹۲۶ ق م تک جاری رہا لیکن افسوس کے حضرت سلیمانؑ کے نا اہل بیٹوں نے سلطنت کودو حصوں میں تقسیم کر دیا شمالی فلسطین اسرائیل کہلایا اور جنوبی حصہ کو یہودیہ کے نام دیا گیا جس کا دارالخلافہ یروشلم تھا ( یہ حسنِ اتفاق ہے کہ آجکل کا ٹوٹا پھوٹا فلسطین جو کسی قدر صیہونیوں کے تسلط سے آزاد ہے مغربی کنارہ اور غزہ کے درمیان منقسم ہے )۔ تقسیم کے بعد دیگر طاقتوں کو حوصلہ ملا ۷۲۱ ق م میں آشوریوں نے سارگون کی قیادت میں یروشلم پر قبضہ کر لیا۔ ۵۹۸ ق م میں بابل کے بخت نصر نے یہودیہ پر حملہ کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہیکل سلیمانی کو مسمار کر دیا گیا۔ بنی اسرائیل پربے شمار عذاب توڑے گئے اور ان کو تتر بتر کر دیا گیاجس کا ذکر قرآنِ حکیم پہلے فساد کے طور پر کچھ اس طرح کرتا ہے : پھر جب ان دونوں میں سے پہلی مرتبہ کا وعدہ آپہنچا تو ہم نے تم پر اپنے ایسے بندے مسلّط کر دیئے جو سخت جنگ جُو تھے پھر وہ (تمہاری) تلاش میں (تمہارے ) گھروں تک جا گھسے، اور (یہ) وعدہ ضرور پورا ہونا ہی تھا (بنی اسرائیل ۵) بنی اسرائیل کو ملک بدر کیا جا چکا تھا اور وہ اس فتنہ کے خلاف بالکل بے دست و پا تھے کہ مشیتِ ایزدی نے ایک اور احسان کیا ۵۳۹ ق م میں ایرانی بادشاہ خسرو نے بابل کو شکست سے دوچار کر دیا۔ ایرانیوں نے یہودیوں کے ساتھ اسی طرح کا ہمدردانہ سلوک کیا جیسا کہ یوروپ اور امریکہ فی الحال ان کے ساتھ کر رہے ہیں اور اس کی مرہونِ منّت یہ لوگ وطن واپس لوٹے اور اسی زمانے میں ہیکل کی دوبارہ تعمیر عمل میں آئی ۵۲۲ ق م میں ایرانی بادشاہ دارا نے آخری یہودی بادشاہ کے پوتے ردو بابل کو یہودیہ کا گورنر نامزد کر دیا (کاش کہ اسرائیل کو ایران کا یہ احسان آج یاد ہوتا؟ اور وہ احسان فراموش نہ ہوتے )اس امن وسلامتی کے دور کا بھر پور فائدہ حضرت عزیرؑ نے اٹھایا اور بڑے پیمانے پر اصلاح کا کام کیا لیکن اس کے باوجود یہودیہ اور اسرائیلی ریاستوں میں اتحاد قائم نہ ہوسکا اس بیچ سکندر اعظم نے ایران کو ہرا دیا اور یہودی پھر بے یارو مددگار ہو گئے۔ اسرائیل کو چاہئے کہ خود اپنی تاریخ سے سبق لے فی زمانہ اس کی ناؤ یوروپ اور امریکہ کے سہارے تیر رہی یوروپ خود تیزی سے ڈوب رہا ہے اور امریکی جہاز میں بھی بہت بڑا سوراخ ہو چکا ہے ایسے میں جب مغرب کا سورج غروب ہو جائے گا تو پھرسے اسرائیل میں اسی طرح اندھیرا چھا جائے گا جیسا کہ ماضی میں ایران کی شکست کے بعد چھا گیا تھا اور ممکن ہے پھر یہ خانہ بدوش قبیلہ روشنی کی تلاش میں دربدر بھٹکنے پر مجبور ہو جائے۔ ۱۹۸ ق م میں یونانی بادشاہ اینٹوکس (سوم) نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا ۱۷۵ ق م میں اینٹوکس (چہارم) اقتدار پر فائز ہوا اور اس نے یہودیوں پر مظالم کا بازار گرم کر دیا۔ اس نے یہودی عقائد کے مطابق ہر مذہبی رسم کو ادا کرنے والے کے لیے موت کی سزا تجویز کر دی اور نہ صرف معاشرہ سے یہودیت کی بیخ کنی کی بلکہ ہیکل سلیمانی کے اندر بھی بتوں کو نصب کر دیا اس ظلم و زیادتی کے خلاف حضرت عزیرؑ نے زبردست تحریک چلائی جسے مکابّی بغاوت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تقریباً ایک ہزار سال کے بعد پھر ایک بار بنی اسرائیل کے عروج کا زمانہ لوٹ آیا اور یہودیہ، اسرائیل اور فلسطیہ کے وہ علاقے جو اس سے پہلے کبھی بھی ان کے قبضہ میں نہیں آئے تھے ہاتھ آ گئے اور ایک عظیم سلطنت قائم ہو گئی جو سچے ّنبی کی قیادت میں غلبہ حق کی خاطر جان و مال کی بازی لگانے کا بہترین انعام تھا۔ قرآن مجید اس صورتحال کو اس طرح بیان فرماتا ہے : پھر ہم نے ان کے اوپر غلبہ کو تمہارے حق میں پلٹا دیا اور ہم نے اموال و اولاد کے ذریعے تمہاری مدد فرمائی اور ہم نے تمہیں افرادی قوت میں (بھی) بڑھا دیا (بنی اسرائیل ۶) لیکن یہ کامیابی دیر پا ثابت نہ ہوسکی۶۳ ق م میں خود لادین یہودیوں نے رومی بادشاہ پومپی کو حملے کی دعوت دی اور اس کا تعاون کر کے غلامی کا طوق از خود اپنے گلے میں ڈال لیا (یہودیوں کی اس طرز عمل کو مسلمانوں نے گذشتہ صدی کے اوائل میں دوہرانے کی غلطی کی اور برسوں تک کے لیے ذلت و رسوائی کو اپنے اوپر مسلط کر لیا) بنی اسرائیل کے اس دورِ غلامی میں ہیرود نامی ایک ذہین یہودی قیصر کے زیرِ نگیں گورنر بنا اس نے ایک جانب اپنے دین کے تحفظ و ترویج کا کام کیا اور دوسری جانب قیصر کو بھی خوش رکھنے کی بھر پور کوشش کی (جیسا کہ آجکل ترکی کے حکمراں کر رہے ہیں ملت اور مغرب کے درمیان ایک توازن قائم رکھنے کی جد و جہد میں لگے ہوئے ہیں )۔ ہیرود اعظم ۴۴ سالہ دور۴ ق م میں ختم ہو گیا اور اس کی موت کے بعد پھر ایک بار اس کے بیٹوں نے سلطنت کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا نتیجہ یہ ہوا کہ قیصرِ روم آگسٹس نے ۲ ق م میں انہیں برخواست کر کے نے اپنا گورنر مقرر کر دیا انتشار و افتراق کا نتیجہ اس کے سوا کچھ اور ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ یہی وہ دور تھا جس میں حضرت عیسیٰؑ کو بنی اسرائیل کی جانب مبعوث کیا گیا تھا۔ یہودیوں نے حضرتِ مسیح ؑ کو ماننے کے بجائے ان کی مخالفت شروع کر دی اور عیسیٰؑ اور ان کے حواریوں پرظلم و ستم کرنے میں رومیوں کے ساتھ ہو گئے۔ اسی دور میں حضرت یحییٰؑ کو شہید کرنے کا جرمِ عظیم بھی ان ناعاقبت اندیشوں سے سرزد ہوا۔ ۴۱ عیسوی میں جب قیصر روم نے ہیرود کے پوتے کو سارے علاقے کا گورنر بنا دیاتو وہ یہودیوں کے لیے اصلاحِ ذات کا آخری موقع تھا جسے ان لوگوں نے گنوا دیا اور مسیحؑ اور ان کے حواریوں کے زبردست دشمن بن گئے۔ اس دوران ایک روز پونتس پلاطس نے پوچھا کہ آج عید کا دن ہے اس لیے ضابطہ کے مطابق ایک موت کے سزا یافتہ شخص کو رہا کرنے کا میں مجاز ہوں بولو یسوع کو چھوڑ دوں یا مشہور زمانہ ڈاکو براّبا کوتو سارے مجمع نے ایک آواز ہو کر براّبا کا نام پکارا۔ گویا حاکم اور عوام دونوں وقت کے نبی کے خلاف متحد ہو گئے جو خود ان کی اپنی اصلاح کے لیے مبعوث کیا گیا تھا۔ اس طرح ان بد بختوں اپنے خلاف اتمامِ حجتّ کا سامان کر دیا اس کے بعد رومیوں سے یہودیوں کے تعلقات بگڑنے لگے اور ۶۴سے ۶۶ عیسوی کے دوران یہودیوں نے دوسری بغاوت کی رومی بادشاہ ٹائٹس نے ۷۰ عیسوی میں اسے بری طرح کچل کر رکھ دیا۔ اس مہم میں ایک لاکھ ۳۳ ہزار یہودی مارے گئے اور ۶۷ ہزار کوغلام بنا کر بیچ دیا گیا جس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح ملتا ہے : اگر تم بھلائی کرو گے تو اپنے (ہی) لیے بھلائی کرو گے، اور اگر تم برائی کرو گے تو اپنی (ہی) جان کے لئے، پھر جب دوسرے وعدہ کی گھڑی آئی (تو اور ظالموں کو تم پر مسلّط کر دیا) تاکہ (مار مار کر) تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور تاکہ مسجدِ اقصیٰ میں (اسی طرح) داخل ہوں جیسے اس میں (حملہ آور لوگ) پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے اور تاکہ جس (مقام) پر غلبہ پائیں اسے تباہ و برباد کر ڈالیں، (بنی اسرائیل ۷ ) بنی اسرائیل کے حوصلے ابھی پوری طرح پست نہیں ہوئے تھے ۱۳۲ ء میں بر کوشبا تحریک کے تحت یہودیوں نے ایک اور بغاوت کی جسے قیصرہڈریانس نے ناکام بنا دیا اور یہودیوں کو پوری طرح فلسطین سے نکل جانے کا حکم دے دیا یہی زمانہ تھا جب یہودیوں نے حجاز کا رخ کیا اور ان کے مختلف قبائل مدینہ میں آ کر بس گئے۔ اس دوسری سرکشی کے بعد بھی ان کے لیے ایک اور موقع ہنوز باقی تھا وہ جانتے تھے کہ ایک اوررسول کی آمد قریب ہے۔ ان کی اپنی کتابوں میں اس کا ذکر پایا جاتا تھا۔ وہ کس مقام پر مبعوث ہو گا اس کے بھی اشارے موجود تھے۔ اس کی صفات سے بھی وہ پوری طرح واقف کار تھے اب ان کے سامنے دو متبادل موجود تھے ایک تو اس پر ایمان لا کر اپنے سارے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا جائے دوسرے اس کا انکار کر کے ہمیشہ کے لیے دنیوی و اخروی خسارے کو گلے لگا لیا جائے۔ ارشادِ ربانی ہے ؎ امید ہے (اس کے بعد) تمہارا رب تم پر رحم فرمائے گا اور اگر تم نے پھر وہی (سرکشی کا طرزِ عمل اختیار) کیا تو ہم بھی وہی (عذاب دوبارہ) کریں گے، اور ہم نے دوزخ کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا دیا ہے (بنی اسرائیل ۸) نبی امیّ ﷺ کی بعثت سے قبل جب رومیوں نے ۳۱۳ء میں عیسائیت کو قبول کیا اور وہ قیصر کا دین بن گیا تواس نئی صورتحال نے یہودیوں کو ایک مشکل دوراہے پر کھڑا کر دیا اس لیے کہ کل تک حضرتِ مسیح کے خلاف جو یہودیوں کا دوست تھا اب وہ حضرت عیسیٰؑ کا پیروکار بن گیا تھا اور وہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھا کہ ان لوگوں نے ان کے رسول( بلکہ جسے اب وہ نعوذ باللّٰہ خدا کا بیٹا ماننے لگے تھے )کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ حضرت عیسیٰؑ کے حوالے سے افراط و تفریط نے ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک مستقل عداوت ڈال دی اس لیے کہ ایک تو انہیں سرے سے نبیؑ تک ماننے کے لیے تیار نہیں تھا بلکہ ان کی پیدائش کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرتا تھا اور دوسرا ان کو فوق البشر خدا کا بیٹا قرار دیتا تھا جو پہلے کے لیے شرک کے درجے میں شمار ہوتا تھا۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان کی بہترین عقیدے کا علمبردار دینِ محمدی ہے جو حضرتِ مسیحؑ کو نبی بھی تسلیم کرتا تھا اور ربوبیت میں ان کی حصہ داری کا انکار بھی کرتا ہے ایسے میں چاہئے تو یہ تھا کہ یہ دونوں اس گروہ اس دینِ حنیف کی جانب دوڑ کر آتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سورہ آل عمران میں ارشادِ خداوندی ہے : تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللّٰہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقیناً ان کے لیے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔ ان دونوں نے اسلام کے خلاف محاذ کھول دیا اور اپنے اپنے انداز میں ریشہ دوانیاں کرنے لگے۔ اللّٰہ رب اّلعزت نے مسلمانوں کو یہودیوں کے طرزِ عمل سے اس طرح آگاہ فرما دیا اور یقین دہانی کر دی کہ یہ لوگ کیا کچھ کر سکیں گے اور کس حالت میں مبتلا رہیں گے : یہ لوگ ستانے کے سوا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، اور اگر یہ تم سے جنگ کریں تو تمہارے سامنے پیٹھ پھیر جائیں گے، پھر ان کی مدد (بھی) نہیں کی جائے گی، وہ جہاں کہیں بھی پائے جائیں ان پر ذلّت مسلط کر دی گئی ہے سوائے اس کے کہ انہیں کہیں اللّٰہ کے عہد سے یا لوگوں کے عہد سے (پناہ دے دی جائے ) اور وہ اللّٰہ کے غضب کے سزاوار ہوئے ہیں اور ان پر محتاجی مسلط کی گئی ہے، یہ اس لیے کہ وہ اللّٰہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے، کیونکہ وہ نافرمان ہو گئے تھے اور (سرکشی میں ) حد سے بڑھ گئے تھے، (آل عمران ۱۱۱) مندرجہ بالا آیت اصل میں بنی اسرائیل کی باقی ماندہ تاریخ پر نہایت جامع تبصرہ ہے جس میں ان کے زوال کی داستان کے ساتھ ساتھ رسوائی کی وجوہات بھی بیان کر دی گئی ہیں۔ اس تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوے بے ساختہ نبی کریمؐ کی وہ حدیث یاد آ جاتی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ: تم بھی آخرکار پچھلی امتوں ہی کی روش پر چل کر رہو گے حتیٰ کہ اگر وہ کسی گوہ کے بِل میں گھسے ہیں تو تم بھی گھسو گے۔ صحابہ نے پوچھا :یا رسول اللّٰہ، کیا یہودو نصاریٰ مراد ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا اور کون؟ اس داستانِ شکست و ریخت میں گویا امت مسلمہ کے لیے سامانِ عبرت ہے اگر ہم نے بھی جانتے بوجھتے وہی طرز عمل اختیار کر لیا جو اللّٰہ واحد القہار کے غضب کو دعوت دینے والا ہے تو ہمارا انجام بھی کچھ مختلف نہ ہو گا اس لیے کہ ؎ فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

Comments