شہادت امام حسین کااصل مقصد

ماہ محرم الحرام میں ہر سال دنیا بھرمیں رہنے والے تمام مسلمان شیعہ بھی اور سنی بھی ، امام حسین ؓ کی مظلومانہ شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں اور اپنی اپنی مجالس میں اپنے اپنے رنگ میں ا ن کی شہادت کا ذکر کرتے ہیں ۔ میں پاکستان کے تمام اہل نظر حضرات کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ آئیے ہم سب مل جل کر غور کریں کہ امام عالی مقامؓنے کس بلند مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اپنی جان عزیز قربان کی اور اپنے کنبے کے کئی قیمتی افراد جن میں پاکباز عورتیں اور معصوم بچے بھی شامل تھے، کی عظیم اور بے مثال قربانی بھی پیش کی ۔ کیا امامؓ حکومت حاصل کرنے کے لئے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اور اس کے لئے آپؓنے سردھڑ کی بازی لگائی تھی؟ہر وہ شخص جو امام حسین ؓکے بلند پایہ گھرانے اور ان کی اعلیٰ اخلاقی سیرت کو جانتا ہے، یہ بدگمانی نہیں کرسکتا کہ یہ حضرات اپنی ذات کے لئے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر مسلمانوں میں خونریزی کا خطرہ مول لے سکتے تھے۔ تاریخ اسلام کا بے لاگ جائزہ لینے والا ہر منصف مزاج شخص یہ تسلیم کرے گا کہ امام عالی مقامؓکی دور بیں و دوررس نگاہیں اس وقت مسلمان معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح ، اس کے مزاج اور اس کے نظام میں ایک بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں، جسے روکنے کی جدوجہد کرنا وہ بہت ضروری سمجھتے تھے۔ وہ تغیر کیا تھا، کیا لوگوں نے اپنادین بدل لیا تھا؟کیا مملکت کا قانون جس پر عدالتوں میں فیصلے ہوتے تھے، بدل دیا گیا تھا؟تاریخ کے غائر مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ نہ لوگوں نے اپنا دین بدل لیاتھا، نہ مملکت کا قانون بدل دیا گیاتھا۔ وہ تغیر یہ تھا کہ امیر معاویہؓ کے بعد یزید کی ولی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتداءہو رہی تھی ، وہ اسلامی ریاست کے دستور ، اس کے مزاج اور اس کے مقصد کی تبدیلی تھی۔ ایک صاحب نظر آدمی گاڑی کا رخ تبدیل ہوتے ہی یہ جان سکتا ہے کہ اب اس کا راستہ بدل رہا ہے اور جس راہ پر یہ مڑ رہی ہے ، وہ آخر کار اسے کہاں لے جائے گا۔یہی رخ کی تبدیلی تھی جسے امام عالیؓ مقام نے دیکھا اور گاڑی کو پھر سے صحیح پٹڑی پر ڈالنے کے لئے اپنی جان لڑا دینے کا فیصلہ کیا۔مولانا محمد علی جوہررحمتہ اللہ علیہ نے اسی لئے فرمایا تھا۔ قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد اسلامی ریاست کی اولین خصوصیت شروع ہی سے یہ رہی ہے کہ اس میں صرف زبان ہی سے یہ نہیں کہا جاتاتھا ، بلکہ سچے دل سے یہ مانا بھی جاتا تھا اور عملی طریقے سے اس عقیدہ و یقین کا پورا ثبوت بھی دیا جاتا تھاکہ : 1۔ ملک خدا کا ہے ۔ کوئی فرد ، ادارہ یا کوئی طبقہ مسلمانوں کے ملک کا مالک نہیں ہے۔ 2۔ اسلامی ملک کے تمام باشندے خدا کی رعیت ہیں ، کسی بادشاہ ،جرنیل یا ڈکٹیٹرکے غلام یا رعیت نہیں۔بلکہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو فرمایا کہ الخلق عیال اللہ ۔ یعنی مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ 3۔ مسلمانوں کی حکومت اپنی تمام رعیت کے معاملے میں خدا کے سامنے جواب دہ ہے ۔ خدا کے سامنے جوابدہی کا یہ احساس بہت اہم ہے۔ حکومت اس رعیت کی مالک نہیں ہے اور رعیت حکومت کی غلام نہیں ہے۔ حکمرانوں کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنی گردن میں خدا کی اطاعت، بندگی اور غلامی کا قلادہ ڈالیں ۔ اس کے بعد ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ خدا کی رعیت پر خدا کا قانون نافذ کریں ۔ اپنے بنائے ہوئے کسی قانون یا ضابطے کے بجائے خدا کے قانون کے مطابق حکمرانی کریں اور مکمل اسلامی قانون جاری کریں ۔پہلے سے جاری کسی اسلامی قانون کو نہ منسوخ کریں نہ اس میں ایسی ترمیم کریں کہ اس کا حلیہ ہی بگڑ جائے ۔ لیکن یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا ، اس سے خدا کی بادشاہی کا تصور صرف زبانی اعتراف تک محدود رہ گیا۔ عملاً اس نے وہی نظریہ اختیار کرلیا جو ہمیشہ سے ہر انسانی بادشاہی کا رہا ہے اور اس وقت دنیا کے دوسرے بادشاہوں کا جو نظریہ رائج تھا، یعنی ملک بادشاہ اور شاہی خاندان کا ہے اور وہ رعیت کی جان، مال ،آبرو، ہر چیز کا مالک ہے۔ ان میں سے جس چیز کو چاہے روند ڈالے،کوئی اسے پوچھنے والا نہ ہو۔ خدا کا قانون بعد میں مسلمان بادشاہوں کے زمانے میں نافذ ہوا بھی تو صرف عوام پر ہوا۔ بادشاہ اور ان کے خاندان اور امراءو حکام زیادہ تراس سے مستثنیٰ رہے۔ میری شیعہ مکتب فکر کے علمائے کرام اور ذاکرین حضرات سے یہ عاجزانہ گزارش ہے کہ اگر وہ محرم کی مجلسوں میں حضرت امام حسین ؓکی شہادت اور ان کی عظیم قربانی کے اس اصل مقصد کو بیان کیا کریں تو ان کے اس بیان سے نہ کسی شیعہ کو اختلاف ہوسکتا ہے اور نہ کسی سنی کو۔ پھر ملک میں محرم میں امن وامان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔حکومت کو کوئی غیر معمولی انتظامات نہیں کرنا پڑیں گے ۔ کسی جگہ سول انتظامیہ کی مدد کے لئے فوج طلب کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔اسی طرح میں سنی علمائے کرام سے بھی عرض کرتا ہوں کہ وہ امام حسین ؓ کی شہادت کا اصل مقصد بیان کرنے کے ساتھ اہل بیت کے فضائل اور ان کے ساتھ محبت کے تقاضے بھی بیان کریں ۔ آج وطن عزیز میں امن وامان کی خرابی جس حد تک پہنچ چکی ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی ذلت و خواری کی جو صورت پیدا ہوگئی ہے، افغانستان اورعراق کی تباہی کے بعد ایران کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ فلسطین کے مسلمان اسرائیل کے مظالم برداشت کر رہے ہیں۔ اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ غیر مسلم قوتیں مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ پڑرہی ہیں جیسے دسترخوان پر بھوکے ٹوٹ پڑتے ہیں۔میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے باہمی اتحاد، اجتہاد اور جہاد کو ترک کردیا ہے۔ اس لئے ہمارے اندر اندرونی افتراق اور باہمی جنگ و جدل کا مرض کینسر کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ مسلمان ، مسلمان کا دشمن بن گیاہے۔ اس کی عزت کی دھجیاں اڑا رہا ہے ۔ ہمیںپوری کوشش کرکے اس صورت حال کو بدلنا چاہیے ۔ سنت الٰہی یہ ہے کہ دنیا میں قوموں کو جو کچھ پیش آتا ہے وہ ان کے اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ ظلم و تعدی ،حدود سے تجاوز ،باہمی رسہ کشی ،دولت پرستی اور نفاق، یہ وہ اعمال ہیں جو قومو ں کو ہلاک کردیتے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں بلند مقاصد کے ساتھ لگن، اللہ ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و محبت اور اس کے دین کے ساتھ مکمل وفاداری ، انفرادی اور اجتماعی کردارکی پختگی ،اصحاب اقتدار کا بلااستثنیٰ اور بے لاگ احتساب ، خوداحتسابی ، نظم وضبط اور استقامت ، یہ وہ اعمال ہیں ،جن کو اختیار کرنے کے نتیجے میں اوپر سے بھی نعمتوں کی بارش ہوتی ہے اور نیچے سے بھی نعمتیں ابلتی ہیں۔ آئیے ہم عہد کریں کہ قوموں کو ہلاک کردینے والے اعمال کو ترک کرکے ہم ان اعمال کو اختیار کریں جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مستحق بنادیں۔ عاشورہ محرم کے دنوں میں ہمیں حضرت امام حسینؓکی شہادت کے اصل مقصد پر غور کرنا چاہیے ۔ نواسہ رسول اکرم،جگر گوشہ بتولؓکربلا کے شہید مظلوم ، خلق خدا کی مظلومیت اور اسلامی ریاست کے بنیادی دستور کی پامالی پر مغموم اور مضطرب ہونے والے حضرت امام حسینؓاور ان کے عالی مرتبہ کنبے کے افراد کی پاکباز عورتوں اور معصوم بچوں کی مظلومانہ شہادت کا واقعہ اپنے اندر قربانی اور استقامت علی الحق کا بہت بڑا درس رکھتا ہے ۔ہمیں اس درس پر غور کرنا چاہیے۔ سید ناامام حسین ؓکی سیرت، دین پر ان کی ا ستقامت ،مصیبت میں انتہائی صبر و برداشت ، ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دینے اور اللہ اور اس کے آخری رسول کی عزت و آبرو اور اسلامی ریاست کے بنیادی دستور کی پامالی پر اپنا سب کچھ نثار کردینے کا سبق ہمیں دیتی ہے۔ ہمیں اس سبق کو یاد رکھنا چاہیے ۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم غور و فکر کریں کہ حضرت امام عالی مقامؓنے جو عظیم قربانی دی تھی، اس قربانی کی اصل روح ہمارے اندر کس حد تک پیدا یا بیدار ہوئی ہے او رہم قربانی کے حقیقی مفہوم سے کس حد تک آشنا ہوئے ہیں ۔ کیا ہم موجودہ وقت کے یزیدوں کے مقابلے میں قربانی دینے کے لئے تیار ہیں ؟ کیا ہم اسلامی دستور کی پامالی پر اسی طرح مضطرب ہیں جس طرح حضرت امام حسینؓ مضطرب ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور عظیم قربانی پیش کرکے قیامت تک کے لئے سرخرو ہوگئے؟ 

Comments