پاکستان، ہندوستان بٹوارے کی کہانی ( تیسرا حصہ ) برصغیر میں اسلام کے احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-79‎‎‎

برصغیر میں اسلام کے احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-79‎‎‎
پاکستان، ہندوستان بٹوارے کی کہانی ( تیسرا حصہ ) ٖ باؤنڈری کمیشن کے حوالے سے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کہتے ہیں کہ ” یہ واقعہ یوں ظہور میں آیا کہ اس منصوبے کو جو برطانیہ کی ہندوستانی سلطنت کو ختم کرنے والا اور ایشیا اور دنیا کے چہرے کو بدل دینے والا تھا، وائسرائے (ماؤنٹ بیٹن) کے ایک کانگریسی ذہنیت والے مشیر ”وی پی مینن“نے نہرو اور کرشنا مینن کی مدد سے مرتب کیا۔ قائدِ اعظم پر اعتماد کرنے کی ضرورت (ہی) محسوس نہیں کی گئی۔ ان کو کلیتاً نظر انداز کیاگیا۔“ (جدوجہدِپاکستان)“ بنگال کے علاقے مرشد آباد اور مالدا کے لوگوں کی اکثریت (70 فیصد) مسلما ن تھی اور ان کا یقینی گمان تھا کہ انہیں لازماً پاکستان کے ساتھ شامل کیا جائے گا اور وہ اس کے شدید خواہش مند بھی تھے۔ کیونکہ 17 اگست تک بھی وہ اپنے علاقوں میں جوش و خروش کے ساتھ پاکستا ن کے پرچم لہرارہے تھے۔لیکن نامعلوم وجوہا ت کی بنا پر ان کے علاقوں کو بھارت کے ساتھ ملا دیا گیا۔ ایسا ہی متحیر العقل معاملہ گورداسپور کے ساتھ ہوا برطانوی ہندوستان میں گو ر داسپو ر صوبہ پنجاب کا شمالی ضلع تھا۔ ضلع کو انتظامی طور پر چار تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ تحصیل شکر گڑھ، تحصیل گرداسپور، تحصیل بٹالا اور تحصیل پٹھان کوٹ۔ چار تحصیلوں میں سے صرف تحصیل شکر گڑھ جو دریائے راوی سے باقی ضلع سے جدا تھی پاکستان کو دی گئی۔ باقی تمام ضلع کو بھارت کے سپرد کردیا گیا ۔حالانکہ گورداسپو ر کی مسلم آبادی بھی 51فیصد کے حساب سے اکثریت میں تھی اور اس لحاظ سے گورداسپور کو مکمل حیثیت میں پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ایک خاص سازشی ذہن کے ساتھ اس کی تقسیم میں ناانصافی برتی گئی مردم شماری کے مطابق تقسیم کے وقت مسلمانوں اور غیر مسلموں کی تقسیم کچھ اسطرح تھی تحصیل شکر گڑھ میں مسلم آبادی 51% فیصد تھی ، اسی طرح تحصیل گرداسپور میں بھی مسلم آبادی 51% فیصد تھی ،تحصیل بٹالا میں مسلم آبادی کا تناسب قدرے زیادہ یعنی 53% فیصد اور تحصیل پٹھان کوٹ مسلم آبادی واضع اکثریت میں یعنی 77% فیصد تھی - اس طرح ضلع گورداسپور میں مسلم 50.6% فیصد قرار پائی ، ان حقائق کے باوجود یہ علاقہ بھارت کو دیا گیا جو کہ اقلیت میں تھے - کہنے والے کہتے ہیں کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور باونڈری کمیشن کے اس تقسیم کو جائز قرار دینے کے لئے جو دلائل رکھے گئے وہ یہ تھے - * اس تقسیم سے کشمیر کی ریاست بھارت کی رسائی میں رہے گی اور کچھ وقت گزرنے کے بعد کشمیر کی ریاست بآسانی بھارت کے ساتھ الحا ق کا اعلان کردے گی - * تحصیل پٹھان کوٹ اور اس سے منسلکہ علاقہ ہوشیارپور میں جو ریلوے اسٹیشن موجود تھا وہ کانگڑا ( بھارت ) کے علاقے کو باہم ملا رہا تھا - ترسیل کا ایک منظم نظام موجود تھا ۔ * بٹالااور گورداسپور کی تحصیلوں میں سکھوں کے مقدس شہر امرتسر کے لئے ایک سوفٹ حفاظتی زون بن سکتا تھا * دریائے را وی کا کچھ علاقہ مسلمانوں کو دے کر سکھ آبادی کی اکثریت (58 فیصد) کو مشرقی پنجاب میں شامل کردینے سے سکھ آبادی کو مطمئن کیا جاسکتا ہے - ریڈ کلف ایوارڈ میں ایک اور انتہائی درجے کی بددیانتی یہ دکھائی گئی کہ بنگال میں ضلع مالدہ جو مجموعی طور پر ایک مسلم اکثریتی علاقہ تھا اسے تقسیم کیا گیا اور زیادہ تر حصہ بشمول مالدہ شہر بھارت کو دے دیا گیا۔ یہ ضلع 15 اگست 1947ء کے بعد بھی 3-4 دنوں تک مشرقی پاکستان کی انتظامیہ کےما تحت رہا۔ ضلع کھلنا اور ضلع مرشدآ باد میں تو حد ہی ہو گئی ، مرشد آباد جو آبادی کے حساب سے 70 فیصد مسلم علاقہ تھا بھارت کی جھولی میں ڈالا گیا جبکہ ضلع کھلنا جس میں 52 فیصد ہندو تھے پاکستان کے مشرقی علاقے میں شامل کردیا گیا - ( مستقبل میں مسلسل انارکی پھیلانے کے سوا اس کا کوئی اور مقصد دکھائی نہیں دیتا ) اسی طرح آسام میں ضلع سلہٹ میں رائے شماری کے نتیجے میں پاکستان ملایا گیا مگر کریم گنج کا بڑا علاقہ جہاں مسلمان اکثریت میں تھے، اس علاقے کو سلہٹ سے نکال کر بھارت کو دے دیا گیا۔ تازہ ترین بھارتی مردم شماری کے بطابق( 2001ء ) کے مطابق اب بھی کریم گنج میں 52،3 فیصد یہ اکثریت برقرار ہے - برطانوی اور دیسی دانشور اس تاخیر کی توجیح یہ پیش کرتے ہیں کہ فسادات اور اعلان میں تاخیر سے بچنے کے لئے تقسیم کا اعلان خفیہ رکھا گیا - مگر اصل حقیقت جو بعد میں آشکار ہوئی یہ تھی کہ حتمی مسودہ 9 اگست اور 12 اگست کو تیار ہو چکا تھا لیکن اس کا اعلان آزادی کے دو دن بعد کیا گیا۔ کچھ شوا ہد اور واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ نہرو اور پٹیل کو راز داری کے ساتھ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کےہندوستانی اسسٹنٹ سیکرٹری”وی پی مینن“ نے 9 اگست اور 10 اگست کی درمیانی شب میں پنجاب کی تقسیم کے بارے ہونے والی حتمی حد بندی سےمطلع کردیا تھا - سوال یہ اٹھا یا جاتا ہے کہ اس ظالمانہ اور غیر منصفانہ تقسیم کو جس میں پاکستانی سرحدوں میں دانستہ بددیانتی کی گئی اور اکثریتی مسلم علاقے کاٹ لئے گئے ، قائدِ اعظم نے اسے خاموشی سے کیسے برداشت کر لیا اور بھارت کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہ کی؟ اس کے جواب میں کوئی فوجی کاروائی تو ظاہر ہے ممکن ہی نہیں تھی - ایک کمزور، مفلوک الحال، اقتصادی بدتری کا شکاراور فوجی سازوسامان سے یکسر محروم پاکستان ملا تھا اس وقت سوائے زبانی کلامی احتجاج کے اور دوسرا کوئی اقدام نہ اٹھا یا جاسکتا تھا۔عقل بھی تسلیم کرتی ہے تاہم ایوارڈ آنے کے بعد قائد اعظم نے اس پراحتجاج ضرور کیاتھا۔ اس ضمن میں برطانیہ میں پاکستانی سفارت خانے کے سابق سیکرٹری اطلاعات قطب الدین عزیز حقیقت ِ احوال سے واقف ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ نقشوں میں یہ تبدیلی مسز ایڈوِینا ماؤنٹ بیٹن اور نہرو کی پسِ پردہ سازشوں کے تحت ہوئی تھی۔ ( ان معاشقوں کا ذکر پہلے کی آجا چکا ہے ) ان دونوں کے خفیہ معاشقے مدت سے جاری تھے۔(جس کی تائیدڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے بھی اپنی کتاب میں کی ہے)۔ اسی دوستی کے تحت لیڈی ماؤنٹ بیٹن نے ایوارڈ میں تبدیلی کے لیے اپنے وائسرائے شوہرپر دباؤ ڈالا تھا۔ قطب الدین عزیز مزید کہتے ہیں کہ پنجاب کا علاقہ فیروزپور، ایک بہت بڑا فوجی ڈپو اور آبپاشی نظام کا ہیڈ ورکس تھا۔ا سی باعث یہ علاقہ بھی پاکستان کے نقشے سے واپس چھین لیا گیا تاکہ پاکستان کو ناقابلِ بیان نقصان پہنچایا جا سکے۔ قطب الدین عزیز بیان کرتے ہیں کہ " محمد علی جناح تک جب یہ فیصلہ پہنچایا گیا تو وہ سن کر اچنبھے میں رہ گئے۔ اس موقع پر راہنمائے قوم نے ردِعمل میں اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا۔”ہمیں اپنی ممکنہ حد تک سکیڑ دیا گیا ہے اور باؤنڈری کمیشن نے ہم پر یہ آخری وار کیا ہے۔اس ایوارڈ کو سراسر غیر منصفانہ، ناقابلِ تصور اور متعصبانہ فیصلہ ہی گردانا جائے گا۔لیکن چونکہ ہم نے باؤنڈری کمیشن کے قیام کے وقت (بھارت ہی میں) اس پر اپنی تائید و منظوری کا سرکاری اعلان کردیا تھا،اس لیے اب ہمارے پاس اسے تسلیم کرلینے کے سوا اور کوئی چارہ کاربھی نہیں ہے۔ اس آخری جھٹکے کو بھی ہم ان شاء اللہ استقلال، جذبے اور امید کے ساتھ باعزت سہہ لیں گے۔“( قطب الدین عزیز کی کتاب (Jinnah and the Battle of Pakistan) جوناگڑھ کے معاملے میں بھی انتہائی بھیانک کھیل کھلا گیا ، روایتی ہندو ذہنیت نے سازشوں کا جال پہلے سے ہی تیار کرلیا تھا - حیدرباد دکن اور جونا گڑھ کے حوالے سے بہت پہلے ہی ماسٹر پلان منظور کر لیاگیا تھا 1807ء میں اسے سرکار برطانیہ کی زیر حمایت ریاست کا درجہ ملا ۔ 1818ء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا - 15 اگست 1947ء میں ریاست کے نواب محمد مہابت خان جی سوم نے اپنے ریاستی اختیارات استمعال کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا- پاکستانی حکومت کی طرف سے (15 ستمبر، 1947ء) کو اس کی حتمی منظوری بھی دے دی گئی ۔ نواب محمد مہابت خان جی سوم کا کہنا تھا کہ اگرچہ ریاست جوناگڑھ خشکی کے ذریعے پاکستان کی سرحدوں سے نہیں ملتی مگر سمندر کے ذریعے یہ تعلق ممکن ہے کیونکہ اس جونا گڑھ ریاست کا کراچی سے سمند ری فاصلہ 480 کلومیٹر ہے۔اس ریاست جونا گڑھ کے ماتحت دوریاستیں تھیں (1)منگروال (2)بابری آباد۔ ان دو نوں ریاستوں نے نواب کے اس اعلان کے بعد اپنی خود مختاری کا اعلان کردیا -( یہ سب سازشی ہندو ذہنیت کا کمال تھا ) ان حالا ت میں نواب جونا گڑھ نےباغی ریاستوں کے خلاف عسکری کارروائی کا فیصلہ کیا ۔باغی ریاستوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں نے ہندوستان سے مداخلت اور مدد کی درخواست کی چناچہ پہلے سے تیار ہندوستانی فوج 9 نومبر، 1947ء کو ریاست جوناگڑھ پر حملہ آور ہوئی - اور پھرمہاتما گاندھی کے جلا وطن بھتیجے سمل داس گاندھی نے عارضی حکومت کے قیام کا اعلان کردیا - (حوالہ اردو ڈائجسٹ شمارہ -دسمبر -2016 ) (جاری ہے )






Comments