پاکستان، ہندوستان بٹوارے کی کہانی ( دوسرا حصہ )بر صغیر میں اسلام کے احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-78‎




14اگست 1947 کو آزادی اور تقسیم کا عمل ساتھ ساتھ رونما ہوا - یہ تقسیم ہرچند کہ ایک مشکل ترین کام تھا -دنیا میں پہلے کبھی طرح کی تقسیم اتنے بڑے علاقے میں مسلم اور غیر مسلم آبادی کی بنیاد پر نہیں ہوئی تھی - تقسیم یا بٹوارے کی اس تمام تر کاروائی میں چند اہم ترین نکات سامنے آئے جن پر برصغیر پاک و ہند سمیت مغربی دنیا میں بھی سوالات اٹھائے گئے - خود بانی پاکستان اور قائدین پاکستان بٹوارے کے اس غیر منصفانہ عمل پر مطمئن نہیں تھے -
اس تقسیم کے حوالے سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے آزادی کی تاریخ جون 1948( جو بہت پہلے سے دی جا چکی تھی ) ، کس کے ایماء پر راتوں رات آگے بڑھائی ؟ اور نئی تاریخ ے 14 اگست 1947 کس حکمت کے نتیجے میں دی گئی ؟ دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن صاحب جو فروری1947 میں ہندوستان پہنچے تھے - سرکار برطانیہ نے انہیں پابند کیا کہ وہ جلد از جلد یہاں کے معاملات لپیٹ کر جتنی جلد ممکن ہو برطانیہ واپس آجائیں - وقت کی اتنی تنگی اور کام کو نمٹانے کے لئے اتنا کم وقت کیوں دیا گیا ؟ یہی نہیں ہوا بلکہ انتہائی عجلت میں دونوں ملکوں کا حتمی تعین کرنے کے لیے انگریز سرکار نے جس فرد کا انتخاب کیا وہ پیشے کے ا عتبار سے وکیل تھا جس کا سوشیالوجی اور ارضیات کے علم سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا - سر سرل ریڈکلف(Sir Cyril Radcliffe) نامی وکیل کو جو لندن میں پریکٹس کرتا تھا اور مزے کی کہ اس سمیت اس کے خاندان کے کسی بھی فرد نے کبھی ہندوستان کا دورہ تک نہیں کیا تھا - اس کو اس اہم ترین کام کے لئے کیونکر چنا گیا ؟ سر ریڈ کلف تنہا ہندوستان کے وسیع و عریض برصغیر کے بٹوارے کے لئے صرف سات ہفتے کی مہلت لائے تھے ، جس میں سے دو ہفتے ہندوستان کی شدید گرمی میں پیچش کی بیماری میں مبتلا رہے ۔( یہاں تک کہ ان کو ہندوستان سے واپس بھیجے جانے کے مشورے دے جانے لگے ) ریڈ کلف کو سرکار برطانیہ نے پابند کیا تھا کہ وہ کسی بھی فرد سے رابطہ نہ رکھے کام میں معاونت کے لئے ایک ہندوستانی ہندو سکریٹری کو ساتھ دے دیا گیا - اس ہندو سکریٹری کی اپنی سیاسی و مذہبی وابستگی اپنی جگہ خود ایک سوالیہ نشان ہے ؟ ریڈکلف نے برطانیہ واپس جاتے ہی اپنے سارے کاغذات جلا کر ضائع کردئیے۔ مگر یہ غیر قانونی کام کس کے کہنے پر ہوا یہ معلوم نہیں ہوسکا ؟ سرکار برطانیہ کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے تھا کہ تقسیم سے پہلے کے ہندوستان کا ایک ریکارڈ رکھے کیو نکہ یہ دستاویزات دونوں نئی حکومتوں کی مشترکہ ملکیت بننے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ریڈکلف کے برطانیہ واپس آتے ہی ان دستاویزات کو اس سے واپس لے کر قومی تحویل میں رکھ لیا جاتا ، مگر ایسا نہیں ہوا حکومت کو ان فسادات کا بہت پہلے سے ادراک تھا ، مگر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس سے نمٹنے کی کوئی موثر اور شعوری کوشش کی ہی نہیں گئی - جس کا نتیجہ ہزاروں افراد کی اموات اور ہزاروں ماؤں بیٹیوں کی بے حرمتی پر ختم ہوا - یہ تو اس بٹوارے کی کہانی کا صرف ایک پہلو ہے - آئیے اس کے دوسرے پہلو کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں - تاریخ جو خاموشی کے ساتھ اپنے آپ کو مرتب کررہی تھی - اس میں جابجا لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی بیوی اور جواہر لعل نہرو کے درمیان عشق کی کہی ان کہی کہانیاں قرطاس پر لکھی جارہی تھیں - تقسیم کے بعد جواہر لعل نہرو بھارت کا وزیراعظم بنا اس کے پرائیویٹ سکریٹری ایم او متھائی نے نہرو کے ساتھ گزارے گئے ایام پر "Reminiscences of the Nehru Age" کے نام سے یاد داشتیں لکھیں ۔ اس میں متھائی نے انکشاف کیا ہے کہ نہرو اور لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی بیوی ایڈوینا ماﺅنٹ بیٹن کے درمیان پاگل پن کی حد تک معاشقہ تھا وہ لکھتا ہے کہ مولانا ابولکلام آزاد نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کی پریشانی سے وا قف تھے اور نہرو کو اپنی دوستی اور خاندانی تعلقات کی بناء پر سمجھتے رہتے تھے کہ تعلقات میں اعتدال رکھو اور حد سے تجا وز نہ کرو - مگر نہرو عشق میں بہت آگے نکل چکا تھا - قریبی لوگ اس معاشقے کے بارے میں جانتے تھے یہاں تک کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن بھی ان معاملات سے آگاہ تھا ۔ایڈوینا آزادی کے بعد بھی اکثر ہندوستان آتی اور وزیر اعظم کی ذاتی مہمان کے طور پر وزیراعظم گیسٹ ہاﺅس میں ٹھہرتی۔ سرکاری اور نجی تقریبا ت میں دونوں ایک ہی صوفے پر ساتھ ساتھ بیٹھتے اور اس انداز میں ایک دوسرے کے کان میں سرگوشیاں کرتے کہ بوس و کنار کا شک گزرتا۔ نہرو بھی اکثر نجی دوروں پر انگلینڈ جاتے تو ایڈوینا ائیرپورٹ پر انتظار کرتی۔ جونہی نہرو جہاز سے اترتا وہ اسے ذاتی گاڑی میں لیکر فرانس چلی جاتی وہاں وہ اپنی خاندانی رہائش گاہ میں ٹھہرتے اور یہ سارا عرصہ دونوں باہر کہیں گھومنے پھرنے نہ جاتے۔ دونوں کی وفات کے بعد دونوں کے عشقیہ خطوط سیکس سکینڈل کی شکل میں سامنے آئے لیکن پیشتر اسکے کہ یہ سکینڈل بہت زیادہ رنگ پکڑتا دونوں طرف سے وضاحتی بیانات کے ساتھ معاملہ دبا دیا گیا۔ ان سچی حقیقی کہانیوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب ہندوستان کا بٹوارہ نہیں ہوا تھا اس سے چند ماہ پہلے جواہر لال نہرو کسی " خاص " مشن پر شیخ عبداللہ سے ملنے کے لیےکشمیر جانا چاہتے تھے‘۔شیخ عبداللہ اس وقت مہاراجہ ہری سنگھ کی قید میں تھے۔ اس موقعے پر ماؤنٹ بیٹن نے جواہر لال کو وہاں جانے سے منع کیا اور کہا ’’وہ علاقہ تو بہر حال پاکستان ہی میں شامل ہو گا۔ وہاں کا خیال چھوڑو۔‘‘ سر ریڈ کلف کی دستاویزات میں گورداسپور پاکستان کا حصہ تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں51 فیصد مسلمان تھے لیکن اچانک فیصلہ تبدیل کردیا گیا اور گورداسپور بھارت کو مل گیا۔ یہی معاملہ اور بے انصافی فیروز پور کے ساتھ ہوا - حا نلآنکہ بٹوارے کی لکیر کھینچنے سے پہلے جب پاک بھارت کے دو ممالک میں تقسیم کر دیے جانے کا ایک اصول طے کیا کر دیا گیا تھا تو وائسرائے لارڈ ماؤ نٹ بیٹن نے قائد اعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی و جواہر لال نہرو کو اعتماد میں لیکر ایک”نیشنل باؤنڈری کمیشن“ کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد دونوں ملکوں کی سرحدوں کی ٹھیک ٹھیک اور درست حد بندی کرنا تھا۔ اگر اسی طرح یہ تقسیمی عمل ہو جاتا تو ہمیشہ کے لئے سرحدی کشیدگی اور مار دھاڑ سے جان چھوٹ جاتی ۔ اس کے برعکس صورتحال یہ بنی کہ طے شدہ فارمولے کے برخلاف بٹوارے کی خونی لکیر کھینچ دی گئی - تھی۔ ماؤنٹ بیٹن اپنے "نیشنل باؤنڈری کمیشن“ کے اعلان میں سنجیدہ نہیں تھا - اگر وہ سنجیدہ ہوتا تو اس کمیشن کا قیام شروع میں ہی ہوجانا چاہیے تھا لیکن جون 1947ء کے آخر تک بھی اس کا قیام عمل میں نہیں آ سکا تھا۔ ریڈ کلف 8 جولائی 1947ء کو ہندوستان پہنچا کمرے میں بند ہوکر اس نے ناواقفیت اور سماجی اقدار کو جانے بنا جس عجلت میں اپنا ایوارڈ اس وقت سنایا اس وقت تک آزا دی کا اعلان کیا جا چکا تھا ہندوستان کی تقسیم عملی طور پر14اگست 1947ء کو عمل میں آ چکی تھی جبکہ ریڈ کلِف فیصلہ اس سے دو دن بعد 16 اگست 1947ء کو سامنے آیا تھا۔ ریڈ کلف ایوارڈ کے سلسلے میں معروف دانشور، محقق، مؤرخ،اور سابق وفاقی وزیرتعلیم ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی مرحوم اپنی کتاب ”جدوجہدِ پاکستان“میںکہتے ہیں کہ ”ایسا کوئی ایک علاقہ بھی، جس پر ہندو اپنا کوئی جھوٹ موٹ کا حق جتا سکتے تھے، مسلمانوں کے حصے میں“(نہیں آنے دیاگیا)۔ ”ایسے علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی، ہندو ؤں کو چلے گئے۔جو نہریں پاکستان کو سیراب کرتی تھیں،ان کی سرابہ گاہیں (سرچشمہ) ہندوؤں کو مل گئیں …… اورسب سے زیادہ یہ کہ مسلم اکثریت کا ضلع گرداسپور ہندوؤںکے پاس چلاگیا تاکہ انھیں ریاستِ جموں و کشمیر میں داخل ہوجانے کا راستہ مل جائے۔“ اس متنازعہ معاملے کی مزید وضاحت تحریکِ پاکستان کے ایک کارکن اور ایوارڈ یافتہ مصنف قاضی عبدالحنان مرحوم کے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہے وہ لکھتے ہیں کہ ”جوناگڑھ کی ریاست کو، جس نے پاکستان سے الحاق کیا تھا، بزورِ شمشیر ہندوستان میں ضم کرلیا گیا۔ اس کے برخلاف ریاستِ کشمیر جہاں 85 فیصد اکثریت مسلمانوں کی تھی اور اسے سیاسی، جغرافیائی، معاشی، اورقدرتی لحاظ سے پاکستان میں ہونا تھا۔ نہرو، گاندھی اور ماؤنٹ بیٹن کی ”تگِڈم“کے نتیجے میں فوج کشی کے ذریعے ہندوستان میں شامل کرلیا گیا۔ یہ سب چالیں اسی لیے چلی گئیں کہ پاکستان کی بقا ناممکن ہو جائے۔“ (حوالہ ”میرِکاررواں محمد علی جناح۔“ قاضی عبدالحنان") ( جاری ہے)




Comments