پاکستان، ہندوستان بٹوارے کی کہانی (حصہ اول ) ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-77

پاکستان، ہندوستان بٹوارے کی کہانی (حصہ اول )
بر صغیر میں اسلام کے احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-77‎‎
پاکستان کی تقسیم کا اعلان تو ہوچکا تھا - مگر ہندوستان اور پاکستان کی نو آزاد مملکتیں ابھی تک اپنی حدود و جغرافیہ سے ناواقف تھیں - چودہ اگست 1947 کو پاکستان کی آزادی اور نئی مسلم مملکت کے قیام کا اعلان درحقیقت ہندوستان کے قیام کا بھی اعلان تھا - با ضابطہ طور پر پندرہ اگست 1947 بھارت کے قیام کی تاریخ قرار پایا - مگر المیہ یہ تھا کہ دونوں آزاد ممالک کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کی سرحدیں کہاں سے شروع اور کہاں پر ختم ہو رہی ہیں ؟
اصولی طور پر تو دونوں مملکتوں میں تقسیم کا فارمولہ پہلے سے ہی ترتیب پا چکا تھا - جس پر انڈین کانگریس اور مسلم لیگ کے رہنماؤں نے اپنی اپنی رضامندی کا اظہار بھی کردیا تھا برطانیہ کی پارلیمنٹ نے قانون آزادی ہند کے نام سے 15 جولائی 1947ء کو ایک بل منظور کیا جو اس بات کی تشریع کرتا تھا کہ متحدہ ہندوسنان پر برطانوی تسلط ایک ماہ بعد 15 اگست 1947ء کو اٹھا لیا جائے گا اس بل ( قانون ) یعنی قانون آزادی ہند 1947 کے مطابق ہندو ستان زیر نگرانی برطانیہ دو خود مختار علیحدہ ( ڈومنین ) مملکتوں ،مملکت پاکستان اور مملکت بھارت میں تقسیم کیا جائے گا - آزاد ہونے سے بہت پہلے اس بات پر فریقین ( مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس ) اور حکومت برطانیہ کے درمیان طویل ترین مبا حث اور آئینی و قانونی پیچیدگیوں اور آبادی کے سروے ، نوابین و مہاراجوں کی آراء کے نتیجے میں یہ بات طے ہوچکی تھی کہ مسلم اکثریتی علاقے مسلم مملکت میں شامل ہوں گے اور ہندو اکثریتی علاقے ہندوستان کی مملکت کا حصہ قرار پائیں گے - مسلم اور ہندو اکثریتی علاقوں پر بھی اتفاق رائے پیدا ہوگیا تھا - تقسیم سے پہلے کے ہندوستان کی صورتحال اور نوابی ریا ستوں کے جغرافیہ اور نوابوں / حکمرانوں کو بھی سمجھنا اس موقع پر از حد ضروری ہے قبل از تقسیم ( بٹوارہ )صورتحال کچھ اسطرح تھی کہ ہندوستان کا چالیس فیصد علاقہ خود مختار نوابی ریاستوں، جاگیروں پر مشتمل تھا ۔ یہ نوابی ریاستیں (Princely state) برائے نام خود مختار ریاستیں تھیں کہ جن پر برطانیہ براہ راست تو حکومت نہیں کرتا تھا مگر اس کی جگہ ان ریاستوں کو بھارتی ( مسلمان یا ہندو اور سکھ،مرہٹے - ) نوابوں / حکمرانوں کی بالواسطہ حکمرانی کے طور پر چلایا جاتا تھا۔ چونکہ یہ نوابی ریاستیں برطانوی راج کے زیر انتظام اتحاد کا حصہ تھیں اسی طرح یہ اپنے دا خلی و خارجی امور کی ذمہ دار بھی تھیں اس لیے یہ ریاستیں ہندوستان کی تقسیم کے اس فارمولے کا حصہ نہیں بنیں جو اکثریتی علاقوں کے حوالے سے تھا -اور حکومت برطانیہ ان ریاستوں کو ان کی مرضی و منشا کے بنا ازخود نہ تو انہیں آزاد کرسکتا تھا نہ ہی تقسیم کرنے کا حکم دے سکتا تھا ۔ البتہ یہ اختیار ان ریاستوں کے حکمرانوں کو ضرور حاصل تھا کہ وہ نئے بننے والے ڈومنین ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیں یا اپنی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھیں ۔ تقسیم سے قبل چھوٹی بڑی ان ریاستوں کی تعداد 562 تھی جو برطانوی ہندوستان کا حصہ نہیں تھیں۔ 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم کے فوری بعدان ریاستوں نے اپنے آپ کو یا تو پاکستان میں شامل کرلیا یا پھر ہندوستان کا حصہ بننا قبول کرلیا ، ماسوائے " سکم " کے - سکم کا علاقہ اپنی آزاد حیثیت میں موجود رہا - سکم بنیادی طور پر نیپالی علاقہ ہے - یہ پادری خانہ بدوش قوم ہے، تبتی اور بھوٹانی قبائل پر مشتمل ہے-مذہبی اعتبار سے بدھ مذھب کے پیرو کار ہیں سکم کا علاقہ اپنے بودھی خانقاہوں کے لئے جانا جاتا ہے. اس صورت حال میں تقریباً تمام نوابی ریاستوں نے فوری طور پر بھارت یا پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ جبکہ ایک مختصر تعداد نے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ ( مگر ان کا علیحدگی اور انفرادی ریا ست کا فیصلہ ان کی ریاست کی بربادی اور غلامی پر منتج ہوا - جیسا کہ ریاست آصفیہ ( حیدرآباد دکن ) کے معاملے میں ہوا - پاکستان ایک مسلم سر زمین کے طور پر سامنے آیا جبکہ بھارت ہندو اکثریت کے ساتھ ایک سیکولر ریاست تھی۔ شمال میں مسلم اکثریتی برطانوی صوبے پاکستان کا حصہ قرار پائے - برطانوی دور میں ہندو ستان کی نوابی ریاستیں جو آزادی کے وقت تک موجود تھیں ان کی تفصیل اسطرح ہے * مملکت آصفیہ حیدر آباد دکن کا علاقہ ، اورنگ آباد،و ا رنگل ، میڈک ،لاتور ، عثمان آباد ، گلبرگہ شریف ایک امیر کبیر اور ہر اعتبار سے عظیم الشان ریاست تھی (اس کے نواب نظام کہلاتے تھے) - جس کے نواب نظام الملک فتح جنگ برکات علی خان مکرم جاہ آصف جاہ ہشتم تھے - مسلمان اکثریتی ریاست تھی تقسیم کے بعد اور ریاست ختم کے جانے کے بعد ہندوں کو آباد کیا گیا مملکت آصفیہ (ریاستِ حیدرآباد دکن) کی اس عظیم ریاست کے بارے میں مختصر ترین الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ یہ وہ ریاست ہے جس کا جغرافیہ ہر دور میں تبدیل ہوتا رہا - 17ستمبر 1948 کو آپریشن پولو ، پولس ایکشن کے نتیجے میں ہندوستانی افواج نے نظام کی حکومت کا بزور قوت خاتمہ کیا -اس وقت تک بھی یہ ریاست ایک عظیم رقبہ پر پھیلی ہوئی تھی - 86ہزار مربع میل پر مشتمل یہ ریاست انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ تھی - 1923میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد اگرچہ کہ اسلامی مملکتیں جو اپنا وجود باقی رکھے ہوئے تھیں ، سعودی عرب' افغانستان و ایران وغیرہ پر مشتمل تھیں لیکن خوشحالی و شان و شوکت کے لحاظ سے ریاستِ حیدرآباد کو جو بین الاقامی مقام تھا اس کا ذکر آج بھی انگریز مصنفین کی تصانیف میں موجود ہے۔۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی سوانح حیات میں تذکرہ کیا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب انگلستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا ایسے وقت میں نواب میر عثمان علی خان کے گراں قدر عطیات نے بڑی حد تک سہارا دیا۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے پانی اور بجلی کے خرچ بھی ریاستِ حیدرآباد نے اپنے ذمے لے رکھے تھے اور اس عظیم مقصد کے لئے " مدینہ بلڈنگ " کے نام سے شان دار عمارتیں جو آج بھی باقی ہیں مکہ اور مدینہ کے لئے وقف تھیں جن کے کرایے مکہ اور مدینہ کو بھیجے جاتے تھے اس کے علاوہ حاجیوں کو رہنے کے لئےرباط کے نام سے نظام نے مکہ اور مدینہ میں حرمین سے قریب عمارتیں بنوادی تھیں۔ مملکت آصفیہ (ریاستِ حیدرآباد) کی تاریخ 13ویں صدی کے آخر میں علأ الدین خلجی کی آمد سے شروع ہو کر بہمنی' شاہی اور آصفجاہی دور تک بیسویں صدی کے نصف تک پھیلی ہوئی ہے۔ موجودہ حیدرآباد دکن تقریباً دو ہزار مربع میل پر مشتمل ایک شہر ہے جس کے باقی حصے اب ریاستِ آندھرا پردیش' کرناٹک اور مہا راشٹرا میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ بد قسمتی سے جن حالات میں سقوطِ حیدرآباد ہوا وہ نہ صرف مسلمانوں کی بد نصیبی کی تاریخ کا ایک المیہ ہے بلکہ خود ہندوستان کی تاریخ کا ایک بدنما داغ ہے جس کی ذمہ دار ایک طرف وہ ہندوستانی لیڈرشپ تھی جو تعصب اور نفرت کے ذریعۂ حیدرآباد کو بحیثیت ایک مسلم اسٹیٹ کے ختم کرنے کے در پئے تھی تو دوسری طرف وہ مسلمان قیادت تھی جو تعصب کا جواب تعصب اور نفرت کا جواب سے دینے کے جذباتی رویہ ٔ پر کھڑی تھی تیسری طرف سخی و عوام پرور نظام تھے جن کی سیاست نا عاقبت اندیشی اور خام خیالی پر مبنی تھی۔ بقول ابوالاعلی مودودی کے جنہوں نے سقوطِ حیدرآباد سے 9ماہ قبل قاسم رضوی کو ایک خط میں واضح طور پر لکھا تھا کہ " نظام کی حکومت ریت کی ایک دیوار ہے جس کا ڈھ جانا یقینی ہے رئس اپنی جان و املاک بچا لے جائگا اور عوام پس جائنگے ان حالات سے قبل ہر قسم کے تصادم کو روکا جائے اور ہر قیمت ہندوستان سے پر امن سمجھوتہ کر لیا جائے " ( حوالہ ' زوالِ حیدرآباد کی ان کہی داستان ' از مشتاق احمد خان لاہور ) لیکن افسوس کہ یہ خط قاسم رضوی صاحب نے جوش میں پھاڑ دیا جو اس وقت کی مسلمان قیادت کی سوچ' فکر و دانش کا رخ کے تعین میں ایک اہم ثبوت ہے ۔ اگرچیکہ امت کو نواب بہادر یار جنگ کی صورت میں ایک بار پھر تاریخ کو دہرانے والا انسان مل گیا تھا مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا ان کو زہر دیکر شہید کر دیا گیا ۔ آخری صدرِ اعظم لائق علی خان اپنی کتاب دی ٹریجڈی آف حیدرآباد میں لکھتے ہیں کہ " نواب بہادر یار جنگ کی موت پر اگر کسی کو خوشی ہوئی تو وہ نظام تھے ۔ ریاست جموں و کشمیر ، یہاں شریمان راجیشور ماہا راجہ دھیرج سری سر ہری سنگھ اندر مہندر بہادر, جموں و کشمیر کا راج چلتا تھا - یہ ریاست موجودہ آزاد کشمیر اور موجودہ بھارت جموں و کشمیر پر مشتمل تھی -گلگت بلتستان, اور موجودہ چین کا صوبہ سنکیانگ بھی اسی ریاست کا حصہ تھا - مسلمان اکثریتی ریاست تھی سلطنت خداداد میسور ، میسور (کرناٹک) بھارت - حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی ریاست جو ٹیپو سلطان کی شدت تک انگریزوں کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بنی رہی - یہ بھی مسلمان اکثریتی ریاست تھی-ریاست سکم یہاں کا راجہ چوگیال وانگچک نامگیال تھا - یہ نیپال ، تبت اور کے ٹو پہاڑی سلسلے کا علاقہ تھا ریاست تراونکور یہ مدراس کے ماتحت علاقہ تھا جو کیرا لا اور تامل ناڈو کی 5 تحصیلوں پر محیط تھا - سمندری گزرگاہ تھا - یہاں کا سربراہ مہاراجہ تراونکور کہلاتا تھا- ریاست قلات بلوچستان ایجنسی میں ایک بڑی اور مستحکم ریاست تھی- بگلار باگی آغا میر سلیمان جان, خان آف قلات کے زیر کنٹرول مسلمان ریاست تھی* ریاست خاران یہ ریاست بھی بلوچستان ایجنسی میں شامل تھی حبیب اللہ خان ریاست کا والی تھا - مسلمان ریاست تھی*ریاست لسبیلہ یہ ریاست بھی بلوچستان ایجنسی میں شامل تھی , ریاست کا سربراہ جام کہلاتا تھا* ریاست مکران یہ ریاست بلوچستان ایجنسی کا حصہ تھی , سربراہ کا تعلق بلوچ گکچی قبیلے سے تھا شمال مغربی سرحدی ریاستوں کا تعلق موجودہ خیبر پختون خواہ سے ہے * ریاست امب ،ریاست چترال ،ریاست دیر، ریاست پھلرا ،ریاست سوات - یہ سب مسلم اکثریتی ریا ستیں تھیں جہاں کے حکمران خوانین مہاتر ، مینگل اور سردار کہلاتے تھے گلگت ایجنسی میں ریاست نگر اور ریاست ہنزہ شامل تھیں - گلگت بلتستان اور پریوں کی سرزمین اور اپنے قدرتی حسن کی بنا پر کا فرستان کہلاتا تھا - موجودہ آغا خانی قبیلے کا علاقہ ہے - یہاں کے حکمران مسلمان ہی تھے صوبہ سندھ میں ریاست خیرپور شامل تھی مسلمان ریاست تھی - خطۂ پنجاب بھارت اور پاکستان میں موجود بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب میں منقسم ایک خطے کا نام ہے۔پنجاب تاریخی طور پر برصغیر کے اہم خطوں میں شمار کیا جاتا ہے۔پنجاب خطے کے مشرق میں ہماچل پردیش،ہریانہ اور راجستھان وغیرہ ہیں ، مغرب میں پشتونستان ،شمال میں کشمیر اور جنوب میں سندھ واقع ہے۔ یہ ایجنسی پنجاب کے تین چوتھائی مسلم آباد کردہ علاقے پر مشتمل تھی - اس کا ایک حصہ سکھوں کا آباد کردہ ہے۔ اس خطے کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ، ایک مشرقی پنجاب اور دوسرا مغربی پنجاب۔ مشرقی پنجاب علاقائی رقبے کے حساب سے چھوٹا علاقہ ہے اور بھارت کے نقشے میں ہے اور مغربی پنجاب پنجاب کا تین چوتھائی ہے جوکہ پاکستان کے حصے میں ہے۔ ریاست پنجاب ایجنسی میں بھی بہت سی ریاستیں شامل تھیں جس کی سب سے بڑی ریاست ریاست بہاولپور تھی -1947ء میں تقسیم ہند بننے کے بعد اس نے پاکستان سے الحاق کیا لیکن 1955ء تک اس کی ریاستی حیثیت برقرار رہی۔ بہاولپور ریاست دریائے ستلج اور دریائے سندھ کے کنارے پر واقع ہیں۔ریاست بہاولپور کی بنیاد 1690ء میں بہادر خان دوم نے رکھی۔ نواب محمد بہاول خان سوم نے برطانوی حکومت سے پہلا معاہدہ کیا جس کی وجہ سے ریاست بہاولپور کو خود مختار حثیت حاصل ہوئی۔ ( ریاست بہاولپور نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا - ریاست بیلاسپور ہماچل پردیش, بھارت کا حصہ تھی - یہاں کا حکمران راجہ صاحب کہلاتا تھا -ریاست فرید کوٹ نوابی ریاست تھی جس کا دار الحکومت فرید کوٹ تھا۔ یہ ریاست 1803 میں قائم ہوئی - ریاست جند نوابی ریاست تھی - موجودہ ہریانہ کا علاقہ اس میں شامل تھا - سکھوں کا اکثریتی علاقہ تھا -"پرنس سنی"مہاراجہ ستبیر سنگھ یہاں کا حکمران تھا - اسی سے متصل ایک اور ریاست کالسیا تھی راجہ ہمت شیر سنگھ صاحب بہادر یہاں کا راجہ تھا - قرب و جوار میں مزید ریاستیں ریاست کانگرہ تھی ،جہاں کا راجہ آدتیہ دیو چند کٹوچ تھا ، ریاست کپور تھلہ جس کا صدر مقام بھی کپور تھلہ تھا سکھ اور مسلم آبادی پر مشتمل علاقہ تھا -اب بھارت کا حصہ اور ضلع ک ادرجھ حاصل ہے ریاست لوہارو بھی ہریانہ میں شامل علاقہ تھا -ریاست لوہارو کا رقبہ 222 مربع میل کے علاقے (570 مربع کلومیٹر) تھا۔ 1901 میں ریاست کی آبادی 15229 افراد پر مشتمل تھی۔ تقسیم کے وقت ا مین الدین احمد خان دوم کی حکمرانی تھی - ریاست مالیر کوٹلہ ( پنجاب )بھی نوابی ریاست تھی ریاست مندی موجودہ ہماچل پردیش, (بھارت) یہاں کا راجہ سری اشوک پال سنگھ تھا ایک مشہور ریاست پٹیالہ ریاست تھی جو موجودہ مشرقی پنجاب کا حصہ ہے یہاں کا نواب مہاراجہ کہلاتا تھا - ریاست سیبا مقام ہماچل پردیش, موجودہ بھارت یہاں کا راجہ " ٹھاکر" کہلاتا تھا -سدھوال نامی ریاست بھی مغربی پنجاب کا حصہ تھی - سکھ راجاؤں کی حکمرانی تھی -ریاست سرمور ، ریاست سوکٹ/ سرندرنگر ( موجودہ ہماچل پردیش) ، مملکت گھروال اتراکھنڈ, (موجودہ سری نگر) - یہاں راجپوت خاندان کی حکمرانی تھی - سربراہ مہاراجہ کہلاتا تھا - مسلمان اور ہندو علاقہ تھا مگر بعد میں یہاں منصوبہ بندی کے ذریعے ہندوں کی آباد کاری کی گئی تھی -راجستھان ایجنسی کی نوابی ریاستوں کی تعداد 22 تھی - جن میں الور،بانسوارا، بھرتپور،بیکانیر، بندی،دھولپور، ڈونگرپور، جے پور، جیصلمیر، جھالاوار،جودھ پور،کرولی،کشن گڑھ،کوٹہ،خوشحال گڑھ ، لاوا ، میواڑ،توراوتی، پرتاپ گڑھ،شاہ پورہ،سروہی، اور ٹونک کی ریاستیں شامل تھیں -ٹونک ہندوستان کی سابقہ نوابی ریاست ہے جو راجھستان میں واقع ہے۔ آزادی سے قبل راجستھان کی 22 ریاستوں میں " ٹونک" کی ریاست واحد مسلم ریاست تھی۔ ٹونک شہر 1817 سے تک ریاست کا دارالحکومت تھا -جسے ایک مسلم حکمران نے آباد کیا تھا۔ "ٹونک" کی ریاست گو کہ راجستھان کی ایک چھوٹی سی ریاست تھی۔ مگر علم و فن میں اسے نمایاں مقام حاصل تھا ۔ اس ریاست نے مفتی عبداللہ ٹونکی، مفتی محمودالحسن، حافظ شیرانی، مولانا احمدعلی سیماب جیسے جید علماء اور نامی گرامی اردوزبان وادب کے شعراپیداکئے ۔ (جاری ہے )




Comments