نظریہ پاکستان - پان اسلامک سازش یا اقبا ل کی شرارت

بر صغیر میں اسلام کے احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-74 نظریہ پاکستان - پان اسلامک سازش یا اقبا ل کی شرارت 1930ء تک کی صورتحال یہ تھی کہ ھندوستان کے مسلمانوں کی سیاست ایک تاریک گلی میں بند ہو کر رہ گئی تھی- ان پر یہ احساس غالب آتا جارہا تھا کہ وہ اقلیت ہیں اور ان کے مفادات کا تحفظ اسی صورت ممکن ہے جب تک وہ ہندو اکثریت کی ہاں میں ہاں نہ ملائیں
- سائمن کمیشن کی رپورٹ کے بعد برطانوی سرکار نے لندن میں گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس کانفرنس کے تین دور 10 نومبر 1930ء تا 24 نومبر 1932ء تک منعقد ہوئے۔ ہندوستان سے شریک ہونے والے رہنماؤں نے پہلی گول میز کانفرنس میں شریک مسلمان مندوبین نے بھی ہندووں کے زیر اثر آتے ہوئے متحدہ ہندوستانی قومیت کی بنیاد پر اکھنڈ بھارت کے لئے آزاد ہندوستان کا آئینی خاکہ منظور کر لیا تھا۔ مگر ایسے میں ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنے خطبہ الہ آباد میں اپنے پرزور دلائل کی بنیاد پر یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان ایک اقلیت نہیں‘ بلکہ ایک علیحدہ قوم ہیں۔ اس امت اور آزادی کے تصور نے برصغیر کی مسلمان سیاست کو اقلیت کی سیاست کی اندھی گلی سے نکال کر مستقبل کے آزاد پاکستان کی جدوجہد کے راستے پر گامزن کردیا - ڈاکٹر محمد اقبال کے اس بروقت اعلان نے سرکار برطانیہ کے ایوان اقتدار میں ایک زلزلہ برپا کر دیا ۔
’’دی ٹائمز‘‘ لندن نے اگر اپنے ایڈیٹوریل میں اس آزاد مملکت کے اس تصور کو " پان اسلامک سازش" سے تعبیر کیا - جبکہ اس وقت کے انگریز وزیراعظم سرریمزے میکڈونلڈ نے اس خیال کو ڈاکٹر اقبال کی ایک خطرناک شرارت قرار دیا ۔ جس کے جواب میں ڈاکٹر محمد اقبال نے انگلستان کے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: The prime minister of England refused to see that the problem of india is international and not national. Obviously he does not see that the model of British democracy cannot be of any use in a land of many nations. اور پھر دس سال بعد لاہور میں قرار داد پاکستان منظور کرنے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے بھی اسی خیال کو کم و بیش انہی لفظوں میں یوں پیش کیا: The problem in india is not of an international character but manifestly of an international one,and it must be treated as such. آل انڈین نیشنل کانگریس کی پوری کوشش تھی کہ مسلمانوں کو قوم اور نیشن کے مفہوم کی من مانی تشریحات اور تعبیرات میں الجھا کر متحدہ ہندوستانی قومیت میں پھانس لیا جائے -
اس کے لئے مذہبی فتوؤں اور علمائے کرام کا سہارا بھی لیا گیا - اور مسلمانوں کو مذہبی دلائل کی بنیاد پر متحدہ ہندوستانی قومیت پر ایمان لانے کے مشورے دیئے جانے لگے۔ ان حالا ت میں ڈاکٹر محمد اقبال سینہ سپر ہوکر عقلی استدلال کے ساتھ سامنے آئے اور انہوں نے خطبہ الہ آباد (1930ء) میں دو ٹوک اعلان کیا کہ مسلمان جدید معنوں میں ایک الگ قوم ہیں۔ جدید معنوں میں یوں کہ جدید تصور قومیت کے مطابق قومیں جغرافیائی اشتراک سے نہیں بلکہ روحانی یگانگت سے وجود میں آتی ہیں۔ قا ئد اعظم محمد علی جناح کے چودہ نکات اور مطالبے کی روشنی میں صوبوں کو خود اختیاری گئی اور صوبائی محکمے وزراء کے حوالے کردئیے گئے - اسی مہم کے نتیجے میں سندھ کو صوبہ بمبئی سے نکال کر علیحدہ مکمل صوبے کا درجہ دے دیا گیا اور سرحد میں دیگر صوبوں کی طرح سیاسی اصلاحات نافذ کردی گئیں - 1937 میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے - مسلم لیگ کی کوشش تھی کہ برصغیر کے عظیم تر مفاد میں کانگریس کے ساتھ سمجھوتہ ہو جا ئے - اسی خیال سے ان انتخابات میں مسلم لیگ نے کانگریس کے ساتھ اشتراک کیا - اس الیکشن میں کانگریس نے گیارہ میں سے آٹھ صوبوں میں اپنی وزارتیں قائم کیں - مسلم لیگ اپنے اشتراک کی بدولت یہ سمجھ رہی تھی کہ کا نگریس اسے بھی وزارتوں میں شریک کرے گی - مگر ایسا نہ ہوسکا اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد کانگریس ہندو ذہنیت کے زیر اثر آگئی مسلم لیگ سے عجیب و غریب مطالبہ کیا کہ ہم اسی صورت میں ہی مسلم لیگ کو اقتدار میں شریک کرسکتے ہیں کہ جب تک مسلم لیگ اپنی سیاسی شناخت ختم کرکے کانگریس میں ضم ہونے کا اعلان نہ کردے - کانگریس کی اقتدار میں آنے کی ہوس کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں اس کو اکثریت حاصل تھی وہاں اس نے کسی کو بھی اپنے ساتھ شریک کرنا گوارا نہیں کیا- اور جہاں اکثریت نہیں تھی وہاں دوسروں کی مدد سے حکومت بنائی - اسطرح کی صورتحال کانگریس کو آسام اور صوبۂ سرحد میں پیش آئی - کانگریس متعبانہ طرز عمل اور متکبرانہ سوچ کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھی - اسی نشے میں اس نے ایسے اقدامات تسلسل کے ساتھ جاری رکھے جس سے مسلمانوں کی دل آزاری اور ہتک ہورہی تھی - بندے ماترم کو قومی ترانہ قرار دیا جاچکا تھا - جبکہ یہ ہندو گیت سراسر مسلم دشمنی پر مبنی کتاب سے ماخوذ تھا - یو پی کے مسلمان پڑھے لکھے تھے اس لئے سرکاری ملازمتوں پر فائز تھے - وہاں سے ان کو بیدخل کرنے اور رکاوٹیں ڈالنے کا کام کیا گیا - اردو کو ختم کرکے ہندی کو فروغ دیا جانے لگا - یھاں تک کہ جو تعلیمی منصوبہ نافذ ہوا اس کو " ودیا مندر " کہا گیا - مسلمان بچوں کو اسکولوں میں بندے ماترم گانے اور گاندھی کی تصویر کو پوجنے کا حکم دیا جاتا - کانگریس اس متعصب سوچ نے ہندوستانی مسلمانوں کو کانگریس سے مایوس کردیا اور ہندو راج کے اس کڑوے تجربے نے مسلمانوں کی بروقت آنکھیں کھول دیں - اس کے نتیجے میں مسلمان مسلم لیگ کے جھنڈے تلے مجتمع ہونے لگے - اسطرح مسلم لیگ دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی نمائدہ جماعت بن گئی اور قائد اعظم کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا - سندھ علیحدہ صوبہ بن چکا تھا 1938 میں مسلم لیگ سندھ کے اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں مسلم حکومت قائم کی جائے - اس طرح مسلمانوں کی قیادت نے جو اب تک محض آئینی تحفظات کو یقینی بنانے کا مطالبہ کر ر ہے تھے پہلی مرتبہ مسلمانوں کی آزاد مملکت کے بارے میں سوچنے لگے - دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا تب کانگریسی وزارتیں مستعفی ہوگئیں - اس فیصلے پر مسلم لیگ نے حاضر دماغی کا ثبوت دیتے ہوئے 1939 دسمبر میں یوم نجات منانے کا اعلان کیا- اب آل انڈیا مسلم لیگ ایک عوامی تحریک میں تبدیل ہوچکی تھی - کانگریس کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ ہندوستان میں رہنے والی مسلم اکثریت کیا سوچ رہی ہے ؟ گھانس میں پانی کی طرح پھیلتے ہوئے مسلم لیگ کی عوامی تائید روز افزوں بڑھتی ہی چلی جارہی تھی - کو 1939میرٹھ میں مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا گیا جس میں آئینی تجا ویز کو قا بل عمل بنانے کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی جس کی سربراہی قا ئد اعظم محمد علی کے حصے میں آئی - کمیٹی نے دن رات ان تجاویز کو قا بل عمل بنانے کے لئے کام جاری رکھا اور بالآخر 23 مارچ 1940 کو لاہور میں ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے تاریخی جلسے کا اعلان کیا - پورے ہندوستان کے چپے چپے میں 23 مارچ کا انتظار کیا جانے لگا - ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے صا حب مقتدرت لاہور پہنچنا شروع ہوچکے تھے - قرب و جوار کے لوگ پہلے سے ہی اپنے عزیز رشتہ داروں کے ہاں مقیم ہوگئے اور اسطرح آخر کار 23 مارچ 1940 کی صبح امید و یقین کی کرنوں کے ساتھ ہندوستان کے افق پر نمودار ہوئی - ( جاری ہے )

Comments