قا ئد اعظم کی پہلی سیاسی کامیابی -معاہدہ لکھنو ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-72‎

قا ئد اعظم کی پہلی سیاسی کامیابی -معاہدہ لکھنو بر صغیر میں اسلام کے احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-72‎
جہاں تک انگریز سے آزادی حاصل کرنے کا تعلق تھا تو اس پر آل انڈیا کانگریس اور مسلم لیگ ایک نکتے پر متفق تھے - اس سلسلے میں اہم ترین پیش رفت معاہدہ لکھنؤ تھا جو 1916ء میں طے پایا - اس سیاسی معاہدے کی اہمیت اسلئے بھی بہت اہم تھی کہ یہ غیر منقسم ہندوستان کی تاریخ کا پہلا اور آخری سیاسی سمجھوتہ تھا - ہندوستان کے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اگر ہندو ، مسلم اتحاد برقرار رہے گا تو آسانی کے ساتھ انگریز سے آزادی ممکن ہو سکتی ہے - اسی نظرئیے کی بنیاد پر بہت سے رہنماؤں نے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی دونوں جماعتوں میں ایسے رہنما موجود تھے جو اس خیال کے حامی تھے - انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز تک ہندوستان ایسے بین ا لاقوامی حالات اور اندرونی مسائل سے دوچار ہوا کہ جس نے ہندوستان کی سیاسی فضاء کی یکلخت تبدیل کردیا - ایسے میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان مفاہمت پیدا ہونے کے لیے حالات سازگار ہو نا شروع ہوئے ۔ انگریز سرکار کی جانب سے تریپولی میں اٹلی کی کاروائی کی حمایت ، کانپور میں بڑے پیمانے پر قتل عام اور بلقان کی جنگوں میں انگریز کی اسلام دشمن سرگرمیاں اور پالیسوں نے اسلام مخالفت فضاء کو پروان چڑھایا - جس کے نتیجے میں مسلمانوں میں تیزی سے انگریز سرکار کے خلاف نفرت کا جذبہ پروان چڑھنے لگا۔ معاہدہ لکھنو کے پس منظر میں ہندوستان کے سیاسی حالات کا ذکر تو کردیا گیا ہے مگر ان کے علاوہ چند امور ایسے تھے جن پر آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی تھی ۔ ان میں * سیکرٹری آف اسٹیٹ کی کونسل کو ختم کرانا، * ایمپرئیل لیجسلٹیو کونسل اور بڑے بڑے صوبوں میں صوبائی لیجسلٹیو کونسلز کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ حق انتخاب کا دائرہ وسیع کرانا شامل تھا مسلم ہند اتحاد کے لئے حالات سازگار تھے- ا ن سیاسی حالات میں پہلی عالمی جنگ کی ابتداء ہوئی - اس شدت پسندی نے ے ہندو ۔ مسلم اتحاد کے نظریے کو مزید تقویت پہنچائی ۔ اب دونوں قومیں(ہندو اور مسلمان) اپنے مشترکہ دشمن انگریز کے خلاف برسرپیکار ہوگئیں اور کوئی مؤثر اور مربوط لائحہ عمل اختیار کرنے کے لیے موقع کا انتظار کرنے لگیں - بہرحال مذاکرات کی کوششیں بارآور ثابت ہوئیں جس کے نتیجے میں 1915ء میں دونوں جماعتوں کے اجلاس ممبئی میں ایک ہی مقام پر منعقد ہوئے جہاں دونوں پارٹیوں کی طرف سے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں تاکہ دونوں جماعتوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور مفاہمت کے کسی فارمولے پر باالمشافہ بات چیت ہو سکے ۔نومبر 1916ء میں ان کمیٹیوں کا ایک مشترکہ اجلاس لکھنو میں منعقد ہوا اس اجلاس میں کافی غور وخوص کے بعد ایک معاہدہ طے پایا ۔دسمبر 1916ء میں آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ دونوں نے اپنے اجلاس منعقدہ لکھنو میں اس معاہدے کی توثیق کر دی ۔ معاہدہ لکھنو کے حوالے سے جن امور و نکات پر اتفاق رائے ہوا ، کچھ یوں ہے۔ 1۔ کانگریس نے مسلم لیگ کا اولین مطالبہ برائے جداگانہ انتخاب تسلیم کر لیا۔ 2۔ مرکزی قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کے لیے ایک تہائی نشستیں مخصوص کرنے سے بھی کانگریس نے اتفاق کر لیا۔ 3۔ ہندوؤں کو پنجاب اور بنگال میں توازن بخشا گیا۔ ان صوبوں میں ہندو نشستوں میں اضافے کے ساتھ مسلم لیگ نے اتفاق کر لیا ۔ 4۔ جن جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت نہیں تھی وہاں مسلم نشستوں میں اضافہ کر دیا گیا ۔ 5۔ اس بات سے بھی اتفاق کیا گیا کہ کوئی ایسا بل یا قرارداد جس کے ذریعے اگر ایک قومیت متاثر ہو سکتی ہے اور اسی قومیت کے تین چوتھائی اراکین اس بل یا قرارداد کی مخالفت کرے تو ایسا کوئی مسودہ قانون کاروائی کے لیے کسی بھی اسمبلی میں پیش نہیں کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ انگریز کی پالیسی “Divide and Rule”کے خلاف ایک مؤثر اور بہترین حکمتِ عملی تھی ہم اسے (Be united and get ruined the British Imperialism in India)کا نام دے سکتے ہیں۔ اس حکمت عملی کو اپنانے اور اسے عملی جامہ پہنانے میں جن رہنماؤں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے ان میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا نام سرفہرست ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کو ان کی اپنی خدمات کے اعتراف کے طور پر Ambassador of Hindu Muslim unityکے خطابات سے نوازا گیا۔ علاوہ ازیں اس یادگار واقعے کی یاد میں آپ ہی کے نام پر بمبئی میں ’’جناح ہال‘‘ بھی تعمیر کیا گیا۔ یہ قائداعظم کی سیاسی زندگی کا پہلا دور تھا اس پہلے دور میں آپ ہندو ، مسلم اتحاد کے داعی تھے۔ یہ معاہدہ آپ کی طرف سے ہندو مسلم اتحاد کا پہلا تجربہ تھا۔ لیکن بعد کے حالات و واقعات اور خاص کر ہندوؤں کے رویے نے آپ کو اس نظریے سے منحرف کر دیا۔ اس معاہدے کی شرائط پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ معاہدہ قائداعظم اور ان کے ساتھیوں کی ایک بہت بڑی سیاسی کامیابی تھی۔ اس کی رو سے انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو ایک علیحدہ اور کامل قوم منوایا بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت بھی تسلیم کروایا۔ انہوں نے مسلمانوں کے لیے اس معاہدے کے ذریعے ویٹو کا حق حاصل کیا وہ بلاشبہ ان کے بہترین مفاد میں تھا کیونکہ اس کے ذریعے وہ ہر ایسے بل کو ویٹو کر سکتے تھے جو ان کے مذہب ثقافت یا روایات پر اثر انداز ہو سکتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معاہدے کی رو سے ہندوؤں کی کوشش یہ تھی کہ کسی طریقے سے مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان نفاق کے بیج بو دیئے جائیں۔ ان کے خیال میں اس کا جو بھی نتیجہ برآمد ہوگا وہ ہندوؤں کے مفاد میں ہوگا لیکن جب پہلی جنگ عظیم کے بعد حالات تبدیل ہو گئے تحریک ہجرت اور تحریک خلافت کے ذریعے انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان براہ راست تصادم کا آغاز ہوا تو اس صورتِ حال میں ہندوؤں کے لیے معاہدہ لکھنو کی اہمیت ختم ہو گئی اس لیے کانگریسی لیڈر شپ نے اس معاہدے کو پس پشت ڈال دیا۔ معاہدہ لکھنو ہندو ، مسلم اتحاد کے لیے ایک آزمائش تھی لیکن ہندو مسلم اتحاد کا نظیرہ اس آزمائش سے سرخرو ہو کر نہیں نکلا۔اسطرح یہ معاہدہ ہندوؤں کی تنگ نظر ذہنیت کی بھینٹ چڑھ گیا- اسی طرح ہندو ذہنیت نے مزید گل بھی کھلائے ہیں جن میں ہندو بنانے کی تحریک کا بھی بہت عمل دخل ہے - یہ تحریک ایک ہندو رہنما سوامی شردھانند نے شروع ک جس کو مہاتما گاندھی کی پوری حمایت حاصل تھی - 1923ء میں ''بھارتیہ ہندو شدھی مہا سبھا'' نامی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی 'بھارتیہ ہندو شدھی مہا سبھا'' نامی تنظیم کا بنیادی مقصد یہ بتایا گیا کہ اس کا مقصد ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان ہونے والے لوگوں کو شدھی یعنی ''پاکیزہ'' کرنا اور انہیں دوبارہ ہندو مذہب میں داخل کرنا ہے۔ اس مفروضے کو سچ ثابت کرنے کے لئے جو تاویلات پیش کوئی گئیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ مسلمان اور ان سےپہلے عیسائی اس خطے میں جب داخل ہوئے تو وہاں بسنے والے ہندو مت کے ماننے والے تھے - لہٰذا ان سب کو دوبارہ ہندو بنانا ضروری ہے۔ اس تحریک کو ہندو اکثریت کے خطے ہندو رہنمائوں کی بھرپور تائید حاصل ہوئی تو ہندوئوں نے غریب اور لاچار مسلمانوں کو دھونس اور دبائو کے ساتھ پیسے کا لالچ دے کر ہندو بنانا شروع کر دیا۔ میو آبادی کا علاقہ میوات شدھی تحریک کا خاص نشانہ بنا۔لگ بھگ تین سال بعد تحریک نے بتایا کہ کئی ہزارمسلمانوں کو ہندو بنا دیا گیا ہے غیرت مسلم جاگ اٹھی اور پھر 23دسمبر 1926ء کو عبدالرشید نامی مسلمان نوجوان نے دہلی کے نیا بازار میں واقع سوامی شردھانند کے گھر میں داخل ہو کر سوامی شردھانند کا فتنہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیا -
 ( جاری ہے )




Comments