مولانا ابو الکلام آزاد - آزادی کا متوالا - آزادی کا مخالف قسط 71 ( تیسرا اور آخری حصہ )‎

انڈین کانگریس اورآل انڈیا مسلم لیگ دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے ، انگریز سے آزادی کے لئے بھرپور سیاسی جدوجہد کا آغاز ہوچکا تھا - دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا تھا - اس کے جوا ب میں انڈین کانگریس نے متحدہ ہندوستان ( اکھنڈ بھارت ) کے نعرے کے ساتھ قیام پاکستان کی تجویز کی مخالفت میں سیاسی دورے شروع کئے - مولانا ابو الکلام آزاد اور گاندھی اس مخالفت میں پیش پیش رہے - ا
نگریز وائسرائے ہند لارڈ مونٹ بیٹن کو مولانا آزاد نے تجویز دی کہ وہ کسی طرح بنگال کی تقسیم کا اعلان کرے ، اسطرح بنگالی مسلمان مسلم لیگ کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں گے - مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا اور بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا - بنگال کے مسلمانوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور در حقیقت برصغیر کی تقسیم کی تحریک کی ابتداء ہی بنگال سے شروع ہوئی تھی - 30 دسمبر 1906 کو آل انڈیا مسلم لیگ نےڈھاکہ میں جنم لیا اور 1937میں پہلی حکومت بھی بنگال میں بنائی۔ مولانا آزاد کلکتہ سے تعلق کی بنیاد پر سپنے آپ کو بنگالیوں کے زیادہ قریب سمجھتے تھے - شیر بنگال مولوی فضل حق بنگالیوں کے مقبول رہنما تھے - کسی معاملے میں قائد اعظم سے اختلاف پیدا ہونے کے بعد انہوں نے 1936 میں اےکے فضل حق کے قائداعظمؒ سےاختلافات پیدا ہوئے تو انہوں نے کرشک پرجا پارٹی بنالی تھی اور 1937 کے الیکشن میں 40 نشستیں جیت لیں جبکہ مسلم لیگ کی 39اور کانگریس کی 54 تھیں۔ اے کے فضل حق بنگالی مسلمانوں کا لیڈر تھا لہٰذا مسلمانوں کے دبائو پر اس نے کانگریس کی بجائے مسلم لیگ سےاتحاد کیا جومولانا آزادکی بہت بڑی ناکامی تھی۔
انڈین کانگریس میں بھی نہرو گاندھی جی کے علاوہ بھی لیڈر شپ موجود تھی -خاص کر بنگالیوں میں ہندووں کا لیڈر سبھاش چندر بوس موجود تھا اور اس کی گاندھی اور نہرو سے نہیں بنتی تھی - سبھاش چندر کیونکہ متعصب ہندو رہنما کے طور پر جانا جاتا تھا لہذا مسلمان انڈین کانگریس کو ناپسند کرنے پر مجبور ہوئے - اسی کی وجہ سے کلکتہ میں ایک وقت وہ بھی آیا جب وہاں کے مسلمانوں نے مولانا آزاد کی امامت میں نماز عید ادا کرنے سے انکار کیا - حسین شہید سہروردی نے جو متحدہ بنگال کے وزیر اعظم تھے 1946میں قائداعظمؒ کی منظوری سے بھرپور کوشش کی کہ بنگال کی تقسیم نہ ہو۔ انڈین کا نگریس کے کئی ہندو بنگالی لیڈر متحدہ بنگال کو ایک علیحدہ مملکت بنانے کے لئے تیارتھے۔ ( حوالہ - کالم " ابوالکلام آزاد اور پاکستان" -قلم کمان - مصنف -حامد میر) قائداعظمؒ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے خلاف تھے لیکن گاندھی اور نہرو تیار نہ تھے لہٰذا بنگالی مسلمانوں نے آخری آپشن کے طور پر پاکستان کا حصہ بننا پسند کیا۔ 23مارچ 1940 کی قرارداد کے مطابق مسلمانوں کی ایک سے زائد مملکتیں وجود میں آسکتی تھیں لیکن کانگریس نے لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر ایک طرف متحدہ بنگال کا راستہ روکا دوسری طرف کشمیر کی آزادی کاراستہ روکا۔ (حوالہ ’بنگالی مسلمان اور تحریک ِ پاکستان‘‘زاہد چوہدری ) نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریے کے مخالفین مولانا آزاد کی پاکستان کے حوالے سے کی گئی پیشن گویوں کو پاکستان کے وجود کے خلاف ایک دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں - اس ضمن میں اور پاکستان کے ریفرنس سے مولانا آزاد کی ہر پیش گوئی کا جواب منیر احمد منیر کی تازہ تصنیف ”مولانا ابوالکلام آزاد اور پاکستان" ہر پیش گوئی حرف بہ حرف غلط“ میں بھرپور گیا ۔ مولانا آزاد کی پیش گوئی تھی کہ بنگالی بیرونی قیادت قبول نہیں کرتے اسی لئے مسٹر اے کے فضل الحق نے قائداعظم کے خلاف بغاوت کردی تھی۔ مصنف منیر احمد منیر نے تاریخی حوالوں سے اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اے کے فضل الحق نے قائداعظم کے خلاف کوئی بغاوت نہیں کی تھی۔ ان کی طرف سے پارٹی ڈسپلن کی مسلسل اور سنگین خلاف ورزیوں پر آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کی رو سے صدر مسلم لیگ قائداعظم نے انضباطی کارروائی کی۔ مولانا آزاد کی اس دلیل کہ بنگالی باہر کی قیادت کو مسترد کردیتے ہیں، کے جواب میں مصنف نے تاریخی حوالوں کی تفصیل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بنگال کے پہلے غیر بنگالی مگر مسلمان حکمران سلطان بختیار خلجی سے لے کر جنرل ایوب خاں تک بنگالیوں نے کسی بھی حکمران کو اس لئے مسترد نہیں کیا کہ وہ غیر بنگالی تھا۔ مولانا آزاد نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ پاکستان بن گیا تو نااہل سیاستدانوں کی وجہ سے یہاں بھی فوج حکمران رہے گی جس طرح کہ باقی کے اسلامی ملکوں میں ہے۔ ”مولانا آزاد کی ہر پیش گوئی حرف بہ حرف غلط“ کے تحت مصنف نے مولانا کی اس پیش گوئی کے ردمیں لکھا ہے کہ 1946ءمیں جب مولانا نے یہ انٹرویو دیا صرف چار مسلمان ملک آزاد تھے۔ سعودی عرب، ایران اور افغانستان میں بادشاہت تھی اور ترکی میں جمہوریت۔ باقی سارا عالم اسلام برطانیہ، فرانس، ہالینڈ وغیرہ کی غلامی میں تھا۔ کسی بھی اسلامی مملکت میں فوج کی حکمرانی نہ تھی۔ مولانا آزاد کی پیش گوئیوں میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ پارسی اور یہودی مذاہب کی طرح ہندو بھی موروثی مذہب ہے۔ جس کے جواب میں مصنف نےثابت کیا ہے کہ صرف پارسی اور یہودی موروثی مذاہب ہیں، ہندو ازم قطعاً موروثی نہیں۔ اگر ہندو موروثی مذہب ہوتا تو ہندو برہمن قیادت کو مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کے لئے شدھی کی تحریک شروع نہ کرنا پڑتی اور نہ گاندھی یہ کہتے کہ مسلمانوں کو یا تو ہندو بنا لیا جائے گا یا غلام۔ مولانا ابوالکلام آزاد کیبنٹ مشن پلان کے زبردست حامی تھے۔ یہ مشن ہندوستان آیا تو مولانا کانگریس کے صدر تھے۔ مولانا کی پیش گوئی تھی کہ ان کے جانشین جواہر لال نہرو کیبنٹ مشن پلان تسلیم کئے رکھیں گے۔ اس لئے مولانا کانگریس کی صدارت سے پنڈت نہرو کے حق میں دستبردار ہوگئے لیکن نہرو جب کانگریس کی کرسی صدارت پر بیٹھ گئے تو انہوں نے کیبنٹ مشن پلان مسترد کردیا۔ یوں مولانا کی یہ پیش گوئی بھی حرف بہ حرف غلط ثابت ہوئی جس کا مولانا کو عمر بھر افسوس رہا۔ مولانا نے یہ پیش گوئی بھی کی جو صوبے ہندوستان سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیں گے وہ بہت جلد ہندوستان میں واپس آجائیں گے۔ مولانا کی یہ پیش گوئی بھی حرف بہ حرف غلط ثابت ہوئی۔ حتیٰ کہ بھارت نے سوویت یونین، امریکہ اور اسرائیل کی بھرپور سیاسی، سفارتی اور عسکری مدد سے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش تو بنا دیا لیکن آج تک بنگلہ دیش نے بھی انڈین یونین کا حصہ بننے کی خواہش نہیں کی۔ مولانا آزاد نے پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبا رہے گا۔ اس کے جواب میں مصنف نے لکھا ہے کہ 2012-13ءتک پاکستان کے غیر ملکی قرضے ساٹھ بلین ڈالر تھے جبکہ بھارت کے 390 بلین ڈالر تھے۔ مولانا یہ پیش گوئی بھی کی کہ پاکستان میں اندرونی خلفشار اور صوبائی جھگڑے رہیں گے۔ اس کے جواب میں کتاب میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نہیں بلکہ بھارت اپنے اندرونی خلفشار اور صوبائی جھگڑوں کا خوفناک حد تک شکار ہے جس کے 29 صوبوں میں 14 میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ مولانا آزاد نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ پاکستان میں غیر ملکی کنٹرول رہے گا۔ مصنف منیر احمد منیر نے ریکارڈ اور شواہد سے تقابلی جائزہ لیتے ہوئے عیاں کیا ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت شروع دن سے غیر ملکی اثرات میں گھرا ہوا ہے۔ ”مولانا ابولکلام آزاد اور پاکستان.... ہر پیش گوئی حرف بہ حرف غلط“میں مصنف نے لکھا ہے کہ ایک طرف مولانا آزاد دو قومی نظریے کو پامال بحث قرار دیتے ہیں دوسری طرف جب اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آتا ہے تو بقول شورش کاشمیری مولانا آزاد خان عبدالغفار خاں اور صدر مجلس احرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کو اور ان کی وساطت سے احرار کو مسلم لیگ میں شامل ہونے کا مشورہ دیتے ہیں۔ گاندھی جی کو پتہ چلا تو انہوں نے مولانا آزاد کو بھی مسلم لیگ میں شامل ہونے کا مشورہ دے دیا۔ مولانا آزاد کے انٹرویو نگار شورش کاشمیری کے حوالے سے کتاب میں اسی کانگریسی روپے کی تفصیل بھی دی گئی جو 45ءاور 46ءکے انتخابات میں مسلم لیگ کا مقابلہ کرنے کے لئے نیشنلسٹ علما میں تقسیم کیا گیا۔ مقصد قیام پاکستان کو ناممکن بنانا تھا۔ معروف محقق رضی الدین سید نے اپنے مقالے " اگر مولانا قائد اعظم کا ساتھ دیتے " میں نہایت مدلل انداز میں اسطرح لکھا کہ "مولانا ابوالکلام آزاد ایک بہت بڑے عالم دین تھے اور دین کی انقلابی دعوت کا آغاز اس دور کے بھارت میں سب سے پہلے انہوں نے ہی کیا تھا۔ لیکن محض ایک ڈیڑھ سال کے عرصے کے بعد ہی صدا لگا کر وہ نہ جانے کیوں اچانک ’چانکیہ سیاست ‘کے گلی گوچے میں اس طرح جانکلے کہ اسلام کا تمام بوریا بستر بھی لپیٹ کر اپنے ساتھ لے گئے! اسی باعث مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ایک دور میںان کے بارے میں بہت خوبصورت اور جامع تبصرہ کیا تھاکہ ’’ مولانا نے نماز کے لیے اذان تو دی ، مگر اس کے بعد جاکرخود گہری نیند سوگئے‘‘۔ (مفہوم)۔ ملک کے عوام سے راقم کا سادہ سا سوال ہے کہ آخر کوئی وجہ تو ایسی ہوگی کہ اس دور کا مسلم سوادِ اعظم، قائدِ اعظم کے سوا دوسرے کسی بھی رہنما کی بات سننے کو تیار نہیں تھا؟ بلکہ سننا تو درکنار، پاکستان مخالف شخصیات کو وہ مسلمانوں کے مستقبل کا دشمن گردانتا تھا، خواہ اس شخصیت کا قد و قامت کتنا ہی بلند کیوں نہ پایا جاتا تھا! حیرت کی بات یہ ہے کہ مولانا نے مسلمانانِ ہند کے لیے سوادِ اعظم سے ہٹ کر’وطن کی بنیاد ‘ کو اسلام سے ہٹ کر ’’ سرزمین‘‘ کو قرار دیا تھا۔ (جاری ہے )




Comments