بر صغیر میں اسلامی احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-63 ؛ مولانا محمد علی جوہر اور ہندوستان کی سیاسی بیداری

مولانا محمد علی جوہر اور ہندوستان کی سیاسی بیداری ( دوسرا حصہ ) مولانا کو اردو شعر و ادب سے بھی دلی شغف تھا-مولانا نے نثر اور شاعری میں بھی اپنا منفرد مقام بنایا -اپنا تخلص جوہر رکھا ۔ ۔ بے شمار غزلیں اور نظمیں لکھیں جن میں مجاہدانہ رنگ نمایاں دکھائ دیتا ہے قتلِ حسین اصل میں مَرگِ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد یہ مولانا کا ھی شعر ہے جو مقبولیت کی انتہاؤں تک پہنچا - بچپن میں والد کا انتقال ھوگیا اور آپ اپنی والدہ محترمہ بی اماں کی زیر تربیت آگئے -ابتدائی تعلیم رام پور اور بریلی میں پائی۔ اعلی تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ بی اے کے امتحان شاندار کامیابی حاصیل کی آپ آلہ آباد یونیورسٹی میں اول آئے۔ آئی سی ایس کی تکمیل آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی۔ واپسی پر رام پور اور بڑودہ کی ریاستوں میں ملازمت کی مگر جلد ہی ملازمت سے دل بھر گیا۔ اور کلکتہ جا کر انگریزی اخبار کامریڈ جاری کیا۔ مولانا کی لاجواب انشاء پردازی اور ذہانت طبع کی بدولت نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہند بھی کامریڈ بڑے شوق سے پڑھا جاتا جاتا تھا۔ انگریزی زبان میں کامریڈجیسا ہفتہ وار شائدہی آج تک اس براعظم سے نکلا ہو۔ لارڈ ہارڈنگ وائسرائے ہند ہر شب جمعہ کو کامریڈ کا بے چینی سے منتظر رہتے تھے ۔ ان کی مجلس انتظامی کے رکن مالیات سرگائی فلیٹ ووڈولسن ملازمت سے فراغت پانے کے بعد جب ولایت جانے لگے تو مولانا انہیں رخصت کرنے گئے ۔ سر ولسن نے مولانا سے کہا کہ میں اپنے ایک رفیق و شفیق دوست جو انگلستان کے مزاحیہ اخبار’’ پنچ‘‘ کے ایڈیٹر تھے ہندوستان کا ایک بے نظیر تحفہ لئے جارہا ہو ں۔ مولانا نے پوچھا ’’ وہ کیا تحفہ ہے ؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ کامریڈ‘‘ کے پرچے جن میں ’’گپ شپ‘‘ کے مضامین شائع ہوتے ہیں۔ مجھے یقین کامل ہے کہ میرا دوست اس تحفہ کو ضرور پسند کرے گا ‘‘۔ مولانا محمد علی کا خیال تھا کہ ان کی یہ تحریک محض ترکی میں خلافت کا تحفظ کے لئے نہیں بلکہ عالم اسلام کے لیے ایک ایسی خلافت کے ادارہ کے قیام کی تحریک ہے جو آگے چل کر خلافت راشدہ کی جانشین ہو۔ بظاہر تو یہ تحریک خلافت اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام دکھائ دی اور نہ تو ترکی میں خلافت کو برقرار رکھ سکی اور نہ اس کی جگہ حجاز میں ’خلافت راشدہ کی جانشین خلافت‘ قائم کرنے میں کامیاب ہوئ لیکن اس تحریک نے برصغیر میں یہاں کے مسلمانوں کے مستقبل کے لیے ایک جدوجہد کا راستہ متعین کردیا - 1914 میں لندن ٹائمز نے ایک اشتعال انگیز مقالہ شایع کیا جس میں ترکوں کو دھمکیاں دے کر کہا گیا تھاکہ وہ اتحادیوں کے خلاف اعلان جنگ نہ کریں ورنہ ان کے حق میں اچھا نہ ہوگا- اس کے جواب میں مولانا محمد علی جوہر نے اسی عنوان ’’چوائس آف ترکس‘‘ کے تحت ایک طویل مضمون سپرد قلم کیا جس میں برطانوی حکومت کی ترکوں کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا - اس کی اشاعت پر" کامریڈ" کی ضمانت ضبط ہوگئی اور اخبار بند کرنا پڑا۔ 1914 میں پہلی عالمی جنگ چھڑی، ترکوں کی حمایت میں انگریز سرکار نے مولانا محمد علی جوہر کو گرفتار کرکے قید کردیا۔ 1913میں دلّی سے اُردو کا اخبار ’’ہمدرد‘‘ جاری کیا۔ ’’کامریڈ‘‘ اور ’’ہمدرد‘‘ دونوں اخباروں نے مسلمانان پاک و ہند کا سیاسی تصور بیدار کرنے میں بڑی مدد دی۔اس سے پہلے 1912 میں کامریڈ بھی دہلی لے آئے تھے۔ اب محمد علی جوہر صرف ایڈیٹر ہی نہ تھے بلکہ صحیح معنوں میں لیڈر تھے۔ اب قوم ان کی نہ تھی وہ قوم کے تھے۔ مولانا کا قلم سچائی اور بے باکی میں اپنی مثال آپ تھا - اں کے مقابل جو بھی آیا چاہے وہ انگریز سرکار ہو یا آمر اعظم مصطفی کمال پاشا ، یا پھر افغانستان کا امیر امان اللہ خان ان کا قلم سچ اگلتا رہا - مولانا کو اسی سچ کی پا دا ش میں اپنے رفقاء کے ہمراہ گرفتار کیا گیا 22 دسمبر 1921 کو کراچی کے خالقدینا ہال میں مقدمے کی سماعت ہوئی اور تمام گرفتار شدگان کو دو سال کے لیے قید میں ڈال دیا گیا - شوگر کے پرانے مریض تھے - جیل کی سختی اور تفکرات نے مزید بیمار کردیا ،مگر پایہ استقامت مےں ذرہ بھر لغزش نہیں آئی بیماری اوور کمزوری کے باوجود 1930 میں پہلی گول میز کانفرنس لندن میںشریک ھوئے ۔ گول میز کانفرنس میں انھوں نے انگریزوں کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے أخری یادگار خطاب میں انگریزوں کء چہرہ ساری دنیا کے ساہمنے عیاں کردیا - انھوں نے حکومت برطانیہ کے بڑے بڑے ارکان کی طرف دیکھتے ہوئے نہایت جرات مندانہ تقریر کی اور بے باکی کے ساتھ گرجدار آواز میں کہا ’’ہمیں تجاویز کی ضرورت نہیں اور نہ اس بات کی پروا ہے کہ آپ ہمارے لیے کس قسم کا آئین تیار کرتے ہیں ہمیں انسانوں کی ضرورت ہے۔ کاش سارے انگلستان میں ایک فرد بھی ایسا ہوتا جو انسان کہلانے کا مستحق ہوتا۔ میں ہندوستان کو آزاد کرنے کے لیے لندن آیا ہوں اور آزادی کا پروانہ لے کر واپس جانا چاہتا ہوں۔ میں ایک آزاد ملک میں تو مرنا پسند کروں گا لیکن غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا‘‘۔4 جنوری 1931 کو گول میز کانفرنس کی ایک کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کے دل نے أخری مرتبہ سانس لی اور پھر دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا ، مفتی اعظم فلسطین الحاج سید امین الحسینی کی درخواست مولانا محمد علی جوہر کی آخری خواھش کء احترام کرتے ہوئے ان کی نعش فلسطین لے جائی گئی اور ان کے جسم خاکی کو سرزمین انبیاء بیت المقدس کے گوشے میں امانتا دفن کردیا گیا - جیتے جی توکچھ نہ دکھلایا مگر مر کے جوہر آپ کے جوہر کھلے مولانا عبدالماجد دریابادی کا کہنا ہے ’محمد علی زندگی بھر کچھ نہ کرتے صرف جامعہ ہی کی بنیاد ڈال جاتے تو یہ ہی ایک کارنامہ سرمایہ عمل ہونے کے لئے کافی تھا‘۔ مولانا نے جامعہ ملیہ کے تعلیمی نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا ’جامعہ کا پہلا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو حق دوست و خدا پرست مسلمان بنایا جائے اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ ان کو وطن دوست و حریت پرور ہندوستانی بنایا جائے- از کلید دین در دنیا کشاد‘۔ اسی طرح کُل ہند مسلم لیگ کے قیام کے وقت جب 1906ڈھاکہ کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی - ڈھاكہ اجلاس كی صدارت نواب وقار الملك نے كی۔ نواب محسن الملك٬ مولانامحمد علی جوہر٬ مولانا ظفر علی خاں٬ حكیم اجمل خاں٬ اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت بہت سے اہم مسلم اكابرین اجلاس میں موجود تھے۔ مسلم لیگ كا پہلا صدر سر آغا خان كو چنا گیا۔ مركزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا۔ تمام صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں۔ برطانیہ میں لندن برانچ كا صدر سید امیر علی كو بنایا گیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کء مقصد ہندوستاں میں موجود مسلمان آبادی کے حقوق کء تحفظ تھا - وہاں کی اکثریت ہندو آبادی مسلمانوں کے خلاف ایک منظم منصوبے کے تحت مسلمانوں کے خلاف محاذ بنا رہے تھے ہندؤوں کے خیال میں مسلمانوں نے ان پر چونکہ کئی سو سال حکومت کی تھی اور ھندوؤں کو ان کے اکثریتی حق محروم رکھا تھا ، اس لیے اب وہ مسلمانوں سے بدلہ لے سکتے ہیں ۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک الگ سیاسی جماعت مسلم لیگ بنائی۔ اس سیاسی پلیٹ فارم کے مزید ذیلی مقاصد اور بھی تھے جیسے کہ * مسلمانوں کے درمیان حکومت سے وفا داری کا احساس پیدا کرنا اور حکومت کے اقدامات اور ارادوں کے حوالے سے مسلمانوں کے ذہنوں میں موجود اختلافات اور غلط فہمیوں کی تصحیح کرنا ؛ * ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور مفادات کو بڑھانا اور حفاظت کرنا، اور حکومت کے آگے انکی ضروریات اور خواہشات کی نمائندگی کرنا ؛ * اپنے مقاصد پر سمجھوتہ کئے بغیر مسلمانوں اور دیگر قومیتوں کے درمیان کسی قسم کی عداوت کو بڑھنےسے روکنا۔ (جاری ھے )


Comments