سپریم کورٹ کا فیصلہ- العظیم کو ہدیہ تبریک

"
آئین کی دفعہ 62-63 اور اینٹی کرپشن مہم کے پس پردہ حقائق پر سینئر کالم نگار اسد غالب نے آج بہترین انداز میں روشنی ڈالی ہے -اور یہ سب ہوا ہے جب تیسری مرتبہ منتخب ہونے اعظم میں نواز شریف کی پنامہ پیپرز کے الزامات پر ناا ہلی کا فیصلہ سنایا گیا ہے - اس حوالے سے یہ آرٹیکل بہت اہمیت کا حامل ہے "
حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔آج سپریم کورٹ کے فیصلے کا ہر کوئی کریڈٹ لے رہا ہے، کوئی نوافل ا دا کرتے ہوئے تصویرجاری کرتا ہے، کوئی مٹھائیاں بانٹتا پھرتا ہے ۔ بعض سیاستدان اپنے قد کاٹھ سے ا ونچی چھلانگیں لگا رہے ہیں، اور وکلا صاحبان بھی بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں مگر ملک میں یہ جو ایک تاریخی لمحہ آیاہے، اس کا خاموش مگر حقیقی خالق امیر العظیم ہے۔(امیر العظیم جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی سکریٹری اطلا عات ہیں ) میں ان کی صلاحیتوں کے بارے میں تفصیل سے لکھ چکا ہپوں کہ وہ اب تک کتنی بڑی تحریکوں کے پس پردہ اصل قوت متحرکہ تھے۔ یہ ساری باتیں پڑھ کر خود امیر العظیم کو بھی ایسے لگا جیسے میںنے ان کی ذات کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔ظاہر ہے عجز و انکسار کی خاصیت سے مزین شخص اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتا ہے۔ جن لوگوں کو امیرالعظیم کے والد گرامی فضل عظیم سے ملنے کا موقع ملا ہے، وہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ خاصیت انہیں ورثے میںملی ہے، فضل عظیم سے زیادہ منکسر المزاج شخص اور کون ہو گا، متانت ، تحمل اور بردباری کا سراپا مجمسہ ۔ تو آپ سوچ رہے ہوں گے کہ موجودہ عدالتی فیصلے سے میں امیر العظیم کو کیسے جوڑتا ہوں۔ اس کے لئے میں سال ڈیڑھ سال پیچھے لئے چلتا ہوں۔ ایک ہوٹل میں چندا حباب جمع تھے، یہ محفل برخواست ہوئی ، تو میں اور امیر العظیم تنہا رہ گئے ، انہوں نے استفسار کیا کہ جماعت اسلامی کو آج تک ایشوز کی بنیاد پر سرگرم عمل رکھا گیا ہے، اب مشورہ دیجئے کہ ہم کس ایشو کو لے کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ جب یہ گفتگو ہو رہی تھی تو دنیا اور پاکستان میں پانامہ کا ہنگامہ شروع نہیں ہو اتھابلکہ یہ کسی کے خواب وخیال میں بھی نہ تھا۔ میںنے جواب میں کہا کہ میں کوئی سیاسی ایکٹوسٹ نہیں ہوں، ہاں ، کوئی ایشو سامنے آ جائے تو ایک صحافی کے طور پر اس پرحد سے بڑھ کر سرگرم ہو سکتا ہوں۔ اس لئے آپ فرمائیے کہ آپ کے ذہن میںکس ایشو کو لے کر چلنے کا خیال آ رہا ہے۔انہوںنے مسکراتے ہوئے کہا کہ اگر ہم کرپشن کے خلاف تحریک چلائیں تو ا سکی کامیابی کے امکانات کیا دیکھتے ہیں، میںنے مایوسی کے عالم میں کہا کہ صفر۔میرے اس خیال کی بنیاد یہ تھی کہ ہمارا معاشرہ نیچے سے اوپر تک کرپشن سے لتھڑا پڑا ہے، اس لئے کوئی صاف ستھرا ہو گا تو وہ کرپشن کے خلاف زبان کھول سکے گا۔محاورہ بھی ہے کہ پہلا پتھر وہ مارے جو خود شیشے کے گھر میں نہ بیٹھا ہو ۔امیرالعظیم نے میری بات سنی یا نہ سنی، میںنے دیکھا کہ جماعت اسلامی نے انٹی کرپشن تحریک چلا دی۔سراج الحق ٹھنڈے ٹھار انسان ہیں، اس لئے یہ تحریک بھی کچھوے کی رفتار ہی پکڑ سکی۔ مگر اس کی اپیل اس قدر زیادہ تھی کہ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوںنے اس نعرے کواپنا لیا۔ آج جب عدلیہ اپنا فیصلہ سنا رہی تھی تو میرے دل میں یہی بات ا ٓئی کہ سال ڈیڑھ سال قبل امیر العظیم نے ایک ہوٹل کے چھوٹے سے کمرے میں میرے کان میں جو بات پھونکی تھی، وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک سونامی کی شکل اختیار کر گئی۔ایساسونامی کہ سب کچھ اتھل پتھل ہو کر رہ گیا ہے۔ آپ نے کسی دریا کی طغیانی ضرور دیکھی ہو گی، بار ہا دیکھی ہوگی مگر آپ نے وہ پہلا قطرہ کبھی نہیں دیکھا جو کسی پہاڑ کے اوپر منجمد گلیشیئر کی آنکھ سے ٹپکا ہو۔ اور پھر قطرہ قطرہ مل کر دریا بن گئے اوریہ دریامیدانوںمیں آکر بپھر گئے۔ امیرالعظیم بھی اسی پہلے قطرے کی مانند ہیں جو کسی آنکھ کو تو نظر نہیں آتا مگر جو وقت کے ساتھ ایک بڑے سونامی کا باعث بن جاتا ہے۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ جماعت اسلامی کا کام آج ختم نہیں ہوابلکہ شروع ہوا ہے۔اس لئے کہ حالیہ کیس میں جماعت اسلامی کے علاوہ جو جماعتیں فریق بنی ہوئی ہیں اور سینہ تان کر کھڑی نظر آتی ہیں، ان کے عمرانوں، جہانگیر خانوں ، زرداریوں اور بعد از شہادت محترمہ بے نظیر بھٹو کا بھی اسی شد ومد سے احتساب ہو گا۔ آپ ذرا ذہن پر زور ڈالئے۔ کرپشن کا الزام پاکستان میںنیا نہیں، تقسیم کے فوری بعد متروکہ جائیدادوں کے قبضے ا ور بند ر بانٹ سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور پھر ا سکی کوئی انتہا نہ رہی، پٹواری، دفتری بابو، عدالتی اہل کار،جج ، جرنلسٹ ا ور جنرلز سبھی نے بہتی گنگا میں اشان کیا۔ جو بھی حکومت برطرف ہوئی،ا س پر کرپشن کے ہی الزام لگے، ملک میں یہ نعرے بہت سننے کو ملے کہ پہلے احتساب ، پھر انتخاب۔میں نے ذاتی طور پر اگر کسی پر کرپشن کا الزام نہیں سنا تو وہ جماعت اسلامی کی قیا دت ا ورا س کے کارکن ہیںمگر حالیہ دنوں میں رانا ثنااللہ نے سراج الحق کے بارے میں نازیبا گفتگو ضرور کی اور وہ بھی کشمیر فنڈ کے نام پر،مجھے پچاس کے عشرے کا ایک واقعہ یا دآتا ہے، ہمارے گاﺅں فتوحی والہ میں ایک تحصیل دار دورے پر آیا، ایک دکاندار حاکم علی کو حکم ملا کہ ان کے لئے مرغی پکا کر لاﺅ۔ یہ اتفاق کی بات ہے پورے گاﺅں میں ان کا واحد گھر تھا جس نے مرغیاں پال رکھی تھیں۔ مگر حاکم علی نے یہ سمجھ کر کہ تحصیل دار صاحب رشوت کے طور پر مرغی کھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، ایساکرنے انکار کر دیا، اسی تحصیل دار نے جو کرپشن پر مبنی مطالبہ کر رہا تھا، ا سنے حاکم علی پر کرپشن کا ایک مقدمہ درج کر لیا، یہ کیس برسوں تک چلتا رہا، مقدمے کے دفاع پر حاکم علی کی ساری مرغیاںبک گئیںمگرا سنے ہار نہیںمانی آخر یہ کیس خارج کر دیا گیا۔ یہ ہے جماعت کے لوگوں کامزاج ، یہ ہے ان کے اخلاق کا ڈی این اے ٹیسٹ ہے۔ قاضی حسین احمد نے اختیارات کی کرپشن کے خلاف شد ومد دے تحریک چلائی اور بالا دست طبقات کی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی، شایدیہی وہ وقت ہے جب امیر العظیم کے ذہن نے ملین مارچ کی اصطلاح سو جھی اور پھر اس ملین مارچ کا رواج چل نکلا، یہی امیر العظیم تھے جنہوںنے قاضی حسین احمد کو کشمیریوں کے ساتھ یوم یک جہتی منانے کی تجویز پیش کی، اس بات کوبیس برس ہو چلے ہیں ، کشمیریوں کے ساتھ ہر سال یوم یک جہتی منایا جاتا ہے۔ امیرالعظیم کے والد گرامی کے ساتھ برسوں کام کرنے کا موقع ملا مگر امیر العظیم سے ملاقات ایک جیل کے اندر ہوئی، میںنوائے وقت کے لئے جیلوں پر ایک فیچر لکھنے کے لئے کوٹ لکھپت جیل گیا۔جیل خانہ جات کے ایک سینیئر افسر حافظ محمد قاسم میری رہنمائی کر رہے تھے۔ قصوری چکی میں چند نوجوان جمع تھے جو چائے اور ہانڈی بنانے کی تیاری کر رہے تھے، ان نوجوانوںمیں امیرالعظیم بھی تھے۔ اس دن سے ان کے ساتھ قربت کا رشتہ قائم ہوا جسے دونوں نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا ذہن بے حد زرخیز ہے ا ور وہ اپنی جماعت کا ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔ حالیہ انٹی کرپشن مہم کے پیچھے انہی کی پلاننگ کار فرما تھی ۔یہ پہلا قدم ہے۔ جماعت اسلامی کی تحریک اپنی سست رفتاری کے باوجود اس ملک سے ہر قسم کی کرپشن کی جڑیں کاٹنے میںکامیاب ہو گی ا ور اس کا سہرا میں امیر اعظیم کے سر رکھوں گا۔ اس کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ، وہ نظریاتی آدمی ہے، وہ اس مملکت کو ایک فلاحی،اسلامی۔ ماڈرن جمہوری مملکت کا نمونہ بنانے کا خواب دیکھتا ہے جس کے لئے بانیان پاکستان نے جد وجہد کی تھی اور جس کے لئے لاکھوں شہدا نے قربانیاں دی تھیں۔ آج بہت سے لوگ بغلیں بجا رہے ہیں مگر جو حقیقی خوشی اور الوہی مسرت امیر العظیم کے حصے میں آئی ہے، وہ کسی اور کے نصیب میں نہیں ہے، ایسے خاموش کارکن کو دل کی گہرائیوں سے سلام!

Comments