اگلا وزیر اعظم کون ہوگا ؟ ; ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

میری شہباز شریف سے گذارش ہے کہ وہ عمران خان کے لیے نیازی صاحب کے الفاظ استعمال نہ کیا کریں۔ عمران خان نے کبھی اپنے آپ کو نیازی نہیں لکھا۔ لوگ میانوالی میں بھی اسے نیازی نہیں کہتے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ شہباز شریف عمران خان کو بار بار نیازی کہہ کر یہ چاہتے ہوں کہ عمران خان ہتھیار ڈال دے مگر اس کا امکان بہت کم ہے۔ جب ایک نازک اندام وکیل سے صحافیوں نے پانامہ کیس کے حوالے سے سوال پوچھا تو جواب کے لیے انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ مگر صحافی کہاں کسی کو معاف کرتے ہیں۔ ایک صحافی نے نعیم بخاری سے یہ بھی پوچھ لیا کہ کیا آپ اب بھی ”سٹپنی وکیل“ ہیں؟ پانامہ کیس کی سماعت کے دوران شیخ رشید کے خراٹے گونجتے رہے۔ اس کے علاوہ طاہرہ اورنگ زیب فیصل کریم اور نذر گوندل بھی نیند کے مزے لیتے رہے۔ کوئی آدمی خراٹوں کی زبان سمجھتا تو جا کے نواز شریف کو بتاتا کہ شیخ صاحب سوتے ہوئے بھی آپ کے خلاف باتیں کرتا ہے۔ طاہرہ اورنگزیب زیب خواب خرگوش کے مزے لیتی رہیں۔ کیا یہ توہین عدالت نہیں ہے؟ پھر نواز شریف اور چودھری نثار کے درمیان کشیدگی ختم کرانے کے لیے شہباز شریف متحرک ہو گئے۔ یہ تکلیف کوئی پچاسویں دفعہ انہیں کرنا پڑ رہی ہے۔ پانامہ کیس سے جس طرح چودھری نثار دور رہے نواز شریف ناراض تھے۔ انہیں ناراض ہونے کا حق نہ تھا کیونکہ پانامہ کیس سے چودھری نثار کا کوئی تعلق نہیں۔ تعلق تو شہباز شریف کا بھی نہیں مگر وہ نہیں چاہتے کہ چودھری نثار اور نواز شریف کے درمیان کوئی ناراضگی ہو۔ کیونکہ پھر اصل بوجھ شہباز شریف پر آ پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی افواہ ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد وزیراعظم چودھری نثار ہوں گے اگر یہ ہو جائے تو پاکستان اور پاکستان کے لوگوں کے وارے نیارے ہو جائیں گے اور یہ ملک دنیا کے بہترین ملکوں میں شامل ہو جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ کسی کو اعتراض نہ ہو گا۔ حتیٰ کہ اپوزیشن بھی راضی رہے گی۔ وہ سچے دلیر اور وفا حیا والے آدمی ہیں۔ دشمن بھی ان کی شفافیت کے قائل ہیں۔ اپوزیشن بھی چودھری صاحب کی معترف ہے۔ جتنا بدنام نواز شریف اور نواز شریف کا خاندان آج کل ہو رہا ہے تو نواز شریف کے لیے ضروری ہے کہ وہ استعفیٰ دے دے۔ لیکن شرط ہے کہ وزیراعظم کلثوم نواز کو نہ بنائے۔ کلثوم کی بہت عزت لوگوں کے دلوں میں ہے۔ میں خود بھی ان کا احترام کرتا ہوں۔ وہ خود بھی کسی صورت میں وزیراعظم نہیں بنے گی۔ مریم نواز ابھی اس کے لیے اہل نہیں ہے۔ وہ متنازع بھی ہو چکی ہے۔ وزیراعظم اب نواز شریف کی فیملی میں سے نہیں ہونا چاہیے۔ مگر نواز شریف اپنی فیملی سے باہر کسی کو وزیراعظم کبھی نہیں بنائیں گے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ چودھری نثار کو وزیراعظم ہونا چاہیے۔ برائے نام وزیراعظم کو اب قبول نہیں کیا جائے گا۔ نواز شریف کو اب کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔ اتنی باتیں پاکستان میں کسی وزیراعظم کے خلاف نہیں ہوئیں۔ جو نواز شریف کے لیے ہو رہی ہیں۔ ہماری یہ خواہش ہے کہ وہ اپنی عزت بچائیں تاکہ چوتھی اور پانچویں بار بھی وزیراعظم بنیں؟ مریم اپنے والد محترم کو سمجھائیں بھی کہ وہ وزیراعظم بنیں قائداعظم نہ بنیں۔ نواز شریف خود اعلان کریں کہ چودھری نثار وزیراعظم ہوں گے اور خواجہ آصف وزیراعظم نہیں ہوں گے۔ نواز شریف کے ساتھ چودھری نثار کی نئی کشیدگی صرف خواجہ آصف کو وزیراعظم بنانے کی خواہش ہے جبکہ خواجہ صاحب اس منصب کے لیے بالکل اہل نہیں ہیں۔ انہیں نہ پارٹی اور نہ عوام قبول کریں گے۔ چودھری نثار کو ایاز صادق کے لیے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ دوسری بار سپیکر بننے والے ایاز صادق ایک نوبل آدمی ہیں۔ وقار اور اعتبار کے امتزاج سے ان کا مزاج بنا ہے۔ انہوں نے سپیکر کے طور پر بڑی عزت بنائی ہے۔ تو کیوں خواجہ آصف کو وزیراعظم بنانے کے لیے ضد کی جا رہی ہے۔ نواز شریف اپنے ساتھ وفاداری کی بنیاد پر سارے فیصلے کرتے ہیں تو میرا خیال ہے بلکہ یقین ہے کہ وہ چودھری نثار کو وزیراعظم نہیں بنائیں گے۔ ان کی خودداری غیرت مندی اور دلیری نواز شریف کو پسند نہیں ہے۔ چودھری صاحب کی 30سال کی رفاقت نواز شریف کے ساتھ ہے۔ شاید اس سے بھی زیادہ ہو۔ چودھری صاحب پر کسی طرح کی کرپشن کا الزام نہیں ہے۔ کسی مخالف کو بھی کوئی بات کرنے کی ہمت نہیں ہو گی۔ شیخ رشید بے باک آدمی ہے۔ نواز شریف کے خلاف کوئی بھی اس طرح بات نہیں کر سکتا۔ نجانے انہوں نے یہ بات کس طرح کہہ دی کہ چودھری نثار میں پارٹی چھوڑنے کی ہمت نہیں ہے۔ پارٹی کے اندر رہتے ہوئے اختلافات کرنا اور ڈٹ جانا زیادہ بڑی بہادری ہے۔ اب شہباز شریف کے حق میں بینر لگ رہے ہیں۔ شہباز شریف کو آنے دو۔ نواز شریف کو جانے دو تو یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ چودھری نثار اور شہباز شریف میں بڑی دوستی اور مفاہمت ہے۔ اگر قیادت شہباز شریف اور چودھری نثار کے پاس آ جائے تو اس کے نتائج بہت مختلف ہوں گے۔ نواز شریف اگر نااہل نہ بھی ہوئے تو وزیراعظم نہیں رہیں گے۔ ورنہ اگلے وزیراعظم کے لیے باتیں شروع نہ ہوتیں۔ شہباز شریف ایم این اے نہیں ہیں۔ اس کے لیے وقت چاہیے۔ اس لیے کلثوم نواز کے وزیراعظم ہونے کی بات سامنے آئی ہے۔ وہ بھی ایم این اے نہیں ہیں۔ ان تکلفات اور تحفظات سے بچنے کے لیے چودھری نثار کو وزیراعظم بنا دیا جائے تو بہت اچھا رہے گا مگر نواز شریف یہ فیصلہ نہیں کرے گا کیونکہ شریف خاندان کے باہر کسی کے لیے کوئی سوچ کوئی خواہش نواز شریف کے ذہن میں پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔ نواز شریف تو مریم نواز کو وزیراعظم بنانے کے لیے کوشش کریں گے۔ خواتین کی نشستوں پر انتخاب بھی آسان ہے۔ جبکہ حمزہ شہباز بھی ایم این اے ہیں۔ حمزہ بھی نواز شریف کے لیے پسندیدہ ہیں مگر اب دونوں بھائیوں میں اختلاف کی باتیں نوشتہ¿ دیوار بن گئی ہیں۔ دیواروں پر بینرز لگ گئے ہیں۔ نواز شریف کو جانے دو شہباز شریف کو آنے دو۔ شہباز شریف وزیراعظم ہوں گے تو وزیراعظم پنجاب کون ہو گا؟ چند مہینوں کے لیے کوئی غیرضروری اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب الجھنوں سے بچنے کے لیے چودھری نثار پر اعتماد کیا جائے۔ وہ ہمیشہ اعتماد پر پورا اترے ہیں۔ ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ چودھری نثار نے کل تک کے لیے اپنی پریس کانفرنس ملتوی کر دی ہے۔ کل تک نواز شریف کے لیے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کی توقع ہے۔ چودھری نثار کو عوامی توقعات کا خیال رکھنا ہو گا۔

Comments