تاریخ خلافت عثمانیہ - خلافت کا سورج غروب ہوگیا قسط نمبر60 -61 ( بیسواں ا ور آخری حصہ )

بر صغیر میں اسلامی احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-61 تاریخ خلافت عثمانیہ - خلافت کا سورج غروب ہوگیا ( بیسواں ا ور آخری حصہ )
سلطان عبدا لعزیز کے قتل کے بعد عبدالمجید اول کے بیٹے اور عبدالحمید ثانی کے بھائی مراد خامس نے 31 اگست 1876عیسوی میں عثمانی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور صرف ایک ماہ اکیس دن خلیفه رہنے کے بعد 7ستمبر 1876عیسوی میں امور سلطنت سے معزول کردئیے گئے - سلطان مراد خامس نے کثیر تعداد میں شادیاں کیں۔ ان کے حرم میں نو ملکائیں موجود تھیں - ان کے مختصر عہد میں کوئی قابل ذکر واقعہ تاریخ میں موجود نہیں - سلطان مراد خامس کی معزولی کے بعد سلطاں عبدالحمید خان ثانی عثمانی سلطنت کے خلیفہ بنے -وہ سلطنت عثمانیہ کے 34ویں فرمانروا تھے-1876ء سے 27 اپریل 1909ء ( اپنی دست برداری تک ) خلافت عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالنے والا سلطان تھے۔ وہ سلطنت عثمانیہ کے 34ویں فرمانروا تھے۔ وہ 21 یا 22 ستمبر 1842ء کو استنبول میں پیدا ہوئے اور 75 برس کی عمر میں 10 فروری 1918ء کو فوت ہوئے۔
خلفائے بنو عثمان میں سلطان محمد فاتح کے بعد اگر کوئی خلیفہ تقوی و دینداری کے اعلی معیار پر اترتا ہے تو وہ تھے سلطان عبدالحمید خان ثانی - حافظ قرآن ، مدبر اور کئی زبانوں کے ماہر - حکمت و دانشمندی میں اپنی مثال آپ - ہندوستانی مشاہیر میں سے مولانا شبلی نعمانی مرحوم نےسلطان عبدالحمید خان ثانی سے ملاقات کی اور اپنے شہرہ آفاق سفرنامہ روم و شام میں اس کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے - سلطان عبدالحمید خان ثانی نے مولانا کو علم و فضل کی بناء پر علمی ایوارڈ تمغۂ نشان مجیدی عنایت کیا - اسی دور کی بات ہے جب مسلسل جنگوں اور لڑا ئیوں کی وجہ سے ترکی کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا تھا - یورپ کے یہودیوں نے دنیا بھر کے یہودیوں سے رقم جمع کی تاکہ فلسطین میں یہودیوں کے لئے زمین خرید سکیں - رقم جمع ہوجانے کے بعد فرانس کے سفیر کی سربراہی میں ایک اعلی سطحی وفد لیکر سلطان کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ انہیں اس رقم کے بدلے میں فلسطین میں زمین دے دی جائے تا کہ وہ اپنی عبادت گاہ بنا سکیں - سلطان چاہتا تو عثمانی سلطنت کے اس بدترین معاشی بحران میں اس خطیر رقم کو قبو ل کرلیتا مگر سلطان نے اس رقم کو حقارت سے ٹھکرا تے ہوئے تاریخی جملہ ادا کیا کہ "خلیفہ زمین کا ملک نہیں صرف منتظم ہوتا ہے- نہ مجھے اس کا ا ختیار ہے نہ ہی میرا ایمان یہ بات گوارا کرتا ہے کہ میں اس ترغیب کو قبول کروں "- سلطان کے انکار کے بعد فرانس اور برطانیہ سے تعلقات مزید خراب ہوتے چلے گئے - سلطان غازی عبدالحمید کی غیرت مسلم نے گوارا نہ کیا کہ فلسطین کی ایک انچ زمین بھی یہودیوں کے پاس جائے - چاہے سا ری دنیا ہی سے مخالفت کیوں نہ مو ل لینی پڑے - سلطان غازی عبدالحمید حقیقی معنوں میں نہ صرف اپنی سلطنت و رعایا بلکہ تمام علم اسلام کے لئے ہمدردی رکھتے تھے - اپنی ذاتی آمدن سے حبشہ کے دارلحکومت ادیس ابابا اور چین کے دارلحکومت پیکنگ میں قرآن ،عربی اور علوم اسلامیہ سکھانے کیلئے مدارس قائم کئے اور ان پر ہونے والے تمام تر اخراجات اپنی جیب خاص سے ادا کرتے - علماء کے قدردان تھے - ان کے وظائف اور معاونت کے لئے گراں قدر وظائف جاری کرتے - خاص طور پر علمائے مکہ و مدینہ پر ان کا خاص اکرام ہوتا تھا - 1897 عیسوی میں قبرص نے ترک مقبوضہ علاقوں پر حملہ کیا اور معاشی طور پر مقروض ترکی پر جنگ مسلط کردی - جس کا عثمانیوں نے بھرپور جواب دیا اور قبرصیوں کو مار بھگایا - اس جنگ میں قبرص کو شکست فاش ہوئی تھی - جس کا خمیازہ چالیس کروڑ پاؤنڈ کی صورت میں قبرصیوں کوادا کرنا پڑا -
یہ ان کا آخری زمانہ تھا جب یورپ کے مسیحی حکمرانوں نے خطیر رقم خرچ کرنے کے بعد ترکی کے نوجوان طبقے میں مغربی طرز کی جمہوریت شوشہ چھوڑا اور نوجوانوں میں انجمن ترقی و اتحاد کے نام پر ترقی پسند نوجوانوں کو اکھٹا کرنا شروع کیا - انجمن ترقی و اتحاد کے باغیانہ افکار جب تشدد کا راستہ اختیار کرنے لگے تب غازی سلطان عبدا لحمید نے خون خرابے سے بچنے کے لئے دست بردار ہونے کا فیصلہ کیا - اور اسطرح 1909 عیسوی میں حکومت سے دست بردار ہو گیے - انھوں نے 33 سال آٹھ ما ہ حکومت کی - مستعفی ہونے کے بعد نو سال زندہ رہے اور 1918 عیسوی میں انتقال فرمایا -غازی سلطان عبدالحمید عثمانی سلطنت کے چونتیسویں حکمران اور پچیسو یں خلیفہ تھے - یورپی ناقدین نے ان کو جابر اور متشدد حکمران قرار دیا مگر حقیقت اس کے برخلاف ہے - مشھور شا می محقق ڈاکٹر احسن حقی نے تاریخ دولتہ العلیہ میں تحقیق سے ثابت کیا کہ یہ پروپیگنڈا یورپی نقادوں نے محض مذہبی دشمنی کی بناء پر پھیلایا ہے - ان کے دستبردار ہونے پر سلطان محمد خامس رشاد نے خلافت کا منصب سنبھالا - یہ غازی عبدالحمید ثانی کے سا بق خلیفہ کے بھا ئی تھے سا بق خلیفہ دست بردار ہونے کے بعد سلوا نکیا چلے گئے تھے ایسے میں سلطان محمد خامس رشاد کے ہاتھوں پر بیعت لی گئی - سلطان محمد خامس رشاد نے نو سال کچھ ماہ حکومت کی اور جون 1918 عیسوی کو انتقال فرمایا - ان کے دور حکومت میں پارلیمانی نظام کو عملی طور پر نافذ کیا گیا -
سلطان محمد خامس رشاد کے عہد حکومت کا سب سے بڑا قا بل ذکر واقعہ دنیا کی پہلی خوں ریز عالمی جنگ تھا - یہ جنگ سات جولائی 1914 عیسوی سے لیکر نومبر 1918 عیسوی تک جاری رہی - آدھی سے زیادہ دنیا اس کی تباہ کاریوں سے براہ راست متاثر ہوئی - اس جنگ کی ابتداء جرمنی اور فرانس کے مابین شروع ہوئی جو دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھل گئی - عثمانیوں نے جرمنی کا ساتھ دیا اور کیونکہ اس جنگ میں جرمنی کو اتحادی افواج کے مقابلے پر شکست ہوئی اس لئے اس کی قیمت ترکی کو بھی چکانی پڑی - اس جنگ کے ساتھ ساتھ انگریزوں نے شریفحسین مکہ کو اپنے جال میں پھانس لیا اور عربوں میں قوم پرستی کا بیج بو دیا - جس کے نتیجے شریف حسین مکہ نے بغاوت کردی اور عرب ریاستیں آپس میں اقتدار کی بندر بانٹ میں مصروف ہوگئیں - ( اس کی مکمل تفصیل انیسوی صدی کے باب میں موجود ہے ) - شریف حسین مکہ نےانگریز سیکرٹ ایجنٹ لارنس آف عربیہ کے کہنے میں آکر اپنی خلافت کا اعلان کردیا - مگر شریف حسین کو سلطان عبدا لعز یز بن عبدا لرحمان کے ہاتھوں 1923 عیسوی میں شکست ہوئی - شریف حسین حجاز فرار ہوگیا - اسے آخر وقت تک انگریزوں سے یہ امید رہی کہ انگریز اس کو دوبارہ بادشاہ بنا دیں گے مگر انگریز اس کو خاطر میں نہیں لائے اور شریف حسین نہ صرف عرب دنیا کی نظروں میں خراب ہوا بلکہ نظربندی کی حالت میں 1931 عیسوی میں دار فانی سے کوچ کرگیا
- سلطان محمد خامس کے بعد شہزادہ وحید الدین محمد سا وس کے ہاتھ پر بعیت خلافت ہوئی - ترکی علمی جنگ میں شکست خوردہ ریاست تھی چناچہ یورپی اتحادیوں نے اس کے حصے بخرے کرتے ہوئےعثمانی سلطنت کے آپس میں حصے بانٹ لئے - یونان نے ترکی کے کچھ علاقے ہتھیالئے - فرانس نے شام پر قبضہ جما لیا - عراق پر برطانیہ نے قبضہ کیا ہوا تھا - ترکی بد انتظامی کی آگ میں جل رہا تھا - حکومت کی زمام کار مصطفیٰ کمال ترقی پسند کے ہاتھ میں آچکی تھی - یونان سے عثمانی سلطنت اب بھی برسر پیکار تھی - سلطاں صرف نام کا سلطان تھا - عملا تمام اختیارات مصطفی کمال کے پاس تھے - اس کے باوجود 1909 میں جو دستور حکومت نافذ ہوا تھا اس کے مطابق سلطان کے پاس اب بھی کچھ اختیارات باقی تھے - 1922 عیسوی میں یونان کے مقا بل جنگوں میں ترکی نے فیصلہ کن برتری حاصل کرلی تھی - اس طرح مصطفی کمال کو موقع مل گیا کہ وہ سلطان محمد خامس سے اقتدا ر کا مطالبہ کرے - اور ایسا ہی ہوا - مصطفی کمال نے سلطان سے لادینی حکومت کے قیام کا مطالبہ کردیا - مگر سلطان محمد خامس اس غیر آئینی مطالبے پر راضی نہ ہوئے - خانہ جنگی چھڑ چکی تھی - فوج نے اپنا مطالبہ بزور بندوق منوانے کا فیصلہ کیا اور مجبورا 1922 عیسوی کو سلطان محمد خامس کو برطرف کردیا گیا - اس برطرفی کے بعد سلطان عبدالمجید خان ثانی بن عبدا لعزیز ثانی کے ہاتھ پر بعیت کی گئی - مگر اس شرط پر کہ سلطان کو دنیا وی معاملات میں دخل اندازی کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا - اس کے دو ہی سال بعد 1924 عیسوی میں سلطان عبدالمجید الثانی کو معزول کرکے جلاوطن کردیا گیا - فرانس کے شہر نیس میں غربت وافلاس کے عالم میں 1933 میں عثمانی سلطنت کے آخری اور انتیسویں خلیفہ نے انتقال فرمایا - ان کے انتقال سے سلسلہ خلافت کی لڑی ٹوٹ کر ایسے بکھری کہ آج تک امت خلیفہ کے لئے ترس رہی ہے - خلافت کے ختم ہوجانے سے عالم اسلام میں سوگواری پھیل گئی - ترکی میں جدیدیت کا بھوت ناچنے لگا - مذہبی حلقوں میں سوگ کا سماں تھا - اسے میں عالم اسلام کے مذہبی و سیاسی زعما خلافت کی بحالی کے لئے تدابیر سوچنے لگے- مگر ان ہی کے حلقوں میں ایسے سیاسی عناصر بھی تھے جو درپردہ خلافت کی بحالی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے رہے - بالاخر 1926 میں مکہ مکرمہ کے مقام پر ایک کانفرنس میں بحالی خلافت مہم کا اعلان کیا گیا - اس اجلاس میں دنیا بھر سے معروف علماء و مشائخ نے حصہ لیا - جنھوں نے خادم الحرمین شریفین سلطان عبدا لعزیز بن عبدلرحمان کی صدارت میں ایک جلسہ کیا - اور ایک عا لمی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا اولین مقصد خلافت کی بحالی تھا- اس میں شریک ہونے والے تاسیسی اراکین میں خادم الحرمین شریفین سلطان عبدا لعزیز بن عبدا لرحمان آل سعود ، علامہ سید سلیمان ندوی ، رئیس عمر چکرنتو انڈونیشیا ، سید رشید رضا المصری ، مفتی امین الحسینی فلسطین ، مولانا محمد علی جوہر ہندوستان ، مفتی کفایت الله دہلوی ہندوستان ، موسی جار اللہ روس ، محمد علی علوبہ پاشا ، مصری شامل تھے - (جاری ہے )



Comments