بر صغیر میں اسلامی احیاء اور آزادی کی تحا ریک; ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-‎; 62‎تحریک خلافت-- ( پہلا حصہ )

تحریک خلافت--" جان بیٹا خلافت پہ دیدو" ( پہلا حصہ )
" یا تو میرے ملک کو آزاد کیجئے یا مجھے کسی آزاد ملک میں زمین کا ایک ٹکڑا دیجئے جہاں مجھے دفن کیا جاسکے " یہ الفاظ تھے تحریک آزادی ہندوستان کے عظیم رہنما مولانا محمد علی جوہر کے جو پہلی گول میز کانفرنس میں ان کے منہ سے بےساختہ ادا ہوئے-
1926 میں مکہ مکرمہ میں بحالی خلافت تحریک کا آغاز ہوچکا تھا - مگر ہندوستان میں 1919 سے ہی اس تحریک کا آغاز کیا جا چکا تھا - مولانا محمد علی جوہر ہندوستان سے اس کانفرنس میں بطور تاسیسی ممبر شریک ہوئےتھے - تحریک خلافت جیسی عوامی تحریک کی مثال برصغیر کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ 1857 کی ناکام جنگ آزادی اور ہندوستان کی زمین پر فرنگی قبضہ مکمل ہوجانا اور ایسے میں مسلمانوں کی امیدوں اور آرزوؤں کا آخری سہارا یعنی اسلامی عثمانی خلافت کا یک لخت ختم ہوجانا اپنی جگہ ایک بہت بڑا المیہ تھا - ہندوستان سمیت تمام عالم اسلام پر سکتہ طاری تھا - اس پژمردگی کے عالم میں ہندوستان میں شروع ہونے والی تحریک خلافت موومنٹ نے ہندوستان کی سیاست اور مسلمانوں کی تاریخ پر گہرے نقوش مرتب کئے۔ چونکہ پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا۔ اور ادھر یعنی ہندوستان میں برطانیہ کی حکومت قائم تھی اس وجہ سے ترکی کا جنگ میں جرمنی کا ساتھ دینے کا فیصلہ ہندوستان کے مسلمانوں پر آزمائش بن گیا تھا ، ان کی پریشانی بجا تھی کہ اگر انگریز کامیاب ہو گیا تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ہندوستان کے مسلمان دو دھا ری تلوار پر تھے- اگر برطانیہ کا ساتھ دیتے ہیں تو برطانیہ کی فتح کی صورت میں ترکی کے مقابل لڑنا ہوگا - اور اس جنگ میں ایسا ہی ہوا - جن مسلمان فوجیوں نے ترکوں کے خلاف بندوق اٹھانے سے انکار کیا ان کو توپوں کے سامنے باندھ کر بم سے اڑا دیا گیا - پوری کی پوری مسلم ہندوستانی بٹالینز کو دیوار کے ساتھ کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دیا گیا - ان کربناک حالت میں ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کا ساتھ دینے کے لیے وزیراعظم برطانیہ لائیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں ہو گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ رہے گی۔ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست اور برطانیہ کو فتح ہوئی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے اپنی فوجیں بصرہ اور جدہ میں داخل کردیں۔ تحریک خلافت کے پیش نظر بڑے مقا صد تھے -ہندوستان کی سرزمین پر خلافت کے مسئلے پر رائے عامہ کو منظم کرنے اور متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے بمبئی میں آل انڈیا خلافت کمیٹی قائم ہوئی جس کے صدر سیٹھ چھوٹانی اور سیکرٹری حاجی صدیق کھتری منتخب ہوئے۔ تحریک خلافت کا مطالبہ تھا کہ : *ترکی کی خلافت برقرار رکھی جائے۔( ترکی کے جنگ ہار جا نے کی صورت میں ) *مقامات مقدسہ(مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ ) ترکی کی تحویل میں رہیں۔ * ترکی سلطنت کو تقسیم نہ کیا جائے۔
خلافت کمیٹی کا پہلا اجلاس نومبر 1919ء میں دہلی میں ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلمان انگریز کے جشن فتح میں شریک نہیں ہوں گے اور اگر ان کے مطالبات منظور نہ ہوئے تو وہ حکومت سے عدم تعاون کریں گے۔ اس اجلاس میں ہندوؤں سےبھی تعاون کی اپیل کی گئی۔ ہندوستان بھر میں خلافت کی بحالی اور مقامات مقدسہ کی حرمت کے حوالے سے بڑے پیمانے پر جلسوں اور مظاہروں کا آغاز ہوچکا تھا - خلافت اور امیر المومنین کے حوالے سے ہندوستان مسلم رعایا مذہبی زعماء کی جانب دیکھ رہے تھے - ایسے میں بنگال میں فروری 1920ء کو بنگال کی صوبائی خلافت کانفرس کے صدر کی حیثیت سے مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے خطبۂ صدارت میں مسلۂ خلافت کی شرعی حیثیت بر بحث کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسلام کا قانون شرعی یہ ہے کہ ہر زمانے میں مسلمانوں کا ایک خلیفہ و امام ہونا چاہئے ۔ اور خلیفہ سے مراد ایسا خود مختار مسلمان بادشاہ اور صاحب حکومت و مملکت ہے جو مسلمانوں اور ان کی آبادیوں کی حفاظت اور شریعت کے اجراء و نفاذ کی پوری قدرت رکھتا ہو۔ اور دشمنوں سے مقابلہ کے لئے پوری طرح طاقتور ہو۔ چونکہ صدیوں سے اسلامی خلافت کا منصب سلاطین عثمانیہ کو حاصل ہے اور اس وقت ازروئے شرع تمام مسلمانانِ عالم کے خلیفہ و امام وہی ہیں۔لہٰذا ان کی اطاعت اور اعانت تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ اسلام کا حکم شرعی ہے کہ جزیرۃ العرب کو غیر مسلم اثر سے محفوظ رکھا جائے اس میں عراق کا ایک حصہ بغداد بھی داخل ہے۔ پس اگر کوئی غیر مسلم حکومت اس پر قابض ہونا چاہے یا اس کو خلیفہ اسلام کی حکومت سے نکال کر اپنے زیر اثر لانا چاہے تو یہ صرف ایک اسلامی ملک سے نکل جانے کا مسئلہ نہ ہوگا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایک مخصوص سنگین حالت پیدا ہو جائے گی۔ یعنی اسلام کی مرکزی زمین پر کفر چھا جائے گا۔ پس ایسی حالت میں تمام مسلمانِ عالم کا اولین فرض ہوگا کہ وہ اس قبضہ کو ہٹانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ اسلام کے مقامات مقدسہ میں بیت المقدس اسی طرح محترم ہے جس طرح حرمین شریف- اسکے لئے لاکھوں مسلمان اپنی جان کی قربانیاں او یورپ کے آٹھ صلیبی جہادوں کا مقابلہ کر چکے ہیں۔ لہٰذا تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس مقام کو دوبارہ غیر مسلموں کے قبضے میں نہ جانے دیں۔ خاص طور سے مسیحی حکومتوں کے قبضہ واقتدار میں۔ اور اگر ایسا ہورہا ہے تو اس کے خلاف دفاع کرنا صرف وہاں کی مسلمان آبادی ہی کا فرض نہ ہوگا بلکہ تمام مسلمانانِ عالم کا فرض ہوگا‘‘
مولانا ابوا لکلام آزاد کا یہ خطاب دیکھتے ہی دیکھتے مذہبی فتوے کی صورت اختیار کرگیا اور بنگال کی صوبائی خلافت کانفرنس کا ا علامیہ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی آواز بن گیا - تحریک خلافت مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت سے علیحدہ کرکے دیکھنا ممکن ہی نہیں ہے - مولانا کی سحر انگیز اور پرجوش قیادت نے تحریک خلافت میں ایسی روح پھونک دی تھی کہ پورے ہندوستان میں خلافت تحریک پورے زور و شور سے شروع ہوگئی - تحریک کو عوامی قبولیت حاصل ہوتی جارہی تھی ایسے میں مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں 1920 ء کو ایک وفد انگلستان، اٹلی اور فرانس کے دورے پر روانہ ہوا- اس دورے کا مقصد وزیراعظم برطانیہ اور اتحادیوں کو ان کے وعدے یاد دلانا تھا- وفد کو یہ سن کر بہت مایوسی ہوئی جب وزیراعظم لائیڈ جارج نے کہا کہ "متحارب آسٹریلیا اور جرمنی سے تو خوفناک انصاف ہوچکا ہے - ان کا اتحادی ترکی اس سے کیونکر بچ سکتا ہے ؟ " خلافت وفد ابھی انگلستان میں ہی تھا کہ ترکی پر معاہدہ سیورے مسلط کردیا گیا۔ اس شرمناک معاہدے کے نتیجے میں تمام بیرونی مقبوضات ترکی سے چھین لئے گئے، اور ترکی پر فضائی فوج رکھنے پر پابندی لگا دی گئی اور درہ دانیال پر اتحادیوں کی بالادستی قائم رکھی گئی۔
 اس وفد نے اس کے بعد اٹلی اور فرانس کا بھی دورہ کیا مگر کہیں شنوائی نہ ہوئی- خلافت وفد کی ناکام واپسی اور معاہدہ سیورے کیشرمناک شرائط کے خلاف خلافت کمیٹی نے 1920ء میں تحریک ترک موالات کا فیصلہ کیا اور گاندھی کو اس تحریک کا رہنما مقرر کیا گیا- گاندھی جی ایک رہنماء کے طور پر اس ترک موالات کا اہم ترین جزو تھے تحریک ترک موالات کے اہم مطالبات تھے کہ
 * سرکار کی جانب سے عطا کئے جا نے والے خطابات واپس کر دئیے جائیں۔
 * تمام کونسلوں کی رکنیت سے استعفٰی دے دیا جائے۔
 *سرکاری ملازمتوں سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔
 *تعلیمی ادارے سرکاری امداد لینا بند کر دیں۔  

*مقدمات سرکاری عدالتوں کے بجائے ثالثی عدالتوں میں پیش کیے جائیں۔
 * انگریزی مال کا بائیکاٹ کیا جائے۔
  مولانا محمد علی جوہر اپنی ذات میں نہایت پرجوش اور ہمہ وقت متحرک رہنماء تھے - مگر وہ جذبات کے ساتھ عقل اور استدلال کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے - مولانا کی موجودگی سے خلافت تحریک قومیت اور فرنگیوں سے آزادی کی تحریک بن گئی - خلافت کے تحریک قومی دھا رے میں تبدیل ہوتی چلی گئی اور مسلمان اپنی خلافت اور ہندوستان میں اپنے تشخص کی بحالی کے لئے ایک پلیٹ فارم پر مجتمع ہونے لگے - 1919 سے 1924 تک خلافت کی تحریک پورے جوبن پر تھی - اور ان کی والدہ بی اماں کا حکم تھا کہ " بولیں اماں محمد علی کی۔۔۔۔جان بیٹا خلافت پہ دیدو " ساتھ میں تیرے شوکت علی بھی۔۔۔۔۔جان بیٹا خلافت پہ دیدو بوڑھی اماں کا کچھ غم نہ کرنا ----کلمہ پڑھ پڑھ خلافت پہ مرنا میرے ہو تے اگر سات بیٹے۔۔۔۔۔کرتی سب کو خلافت پہ صدقے " 1923 میں آپ کو گرفتار کرلیا گیا - الزام یہ تھا کہ تحریک کے ایک جلسے میں آپ نے حکومت مخالف باغیانہ خیالات کی تقریر کی تھی - مولانا محمد علی کے ساتھ اس مقدمے میں تحریک کے ایک اور رہنما پیر غلام مجدد ، مولانا شوکت علی ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ، ڈاکٹر کچلو ، اور نثار احمد کان پوری کو بھی ملوث کیا گیا - جن کو دو دو سال قید کی سزائیں دی گئیں - یہ مشہور مقدمہ کراچی میں چلایا گیا - جس پر یہ شعر بہت مشہور ہوا کہہ رہے ہیں کراچی کے قیدی ----ہم تو جاتے ہیں دو دو برس کو تحریک کے دوران میں کچھ علماء(مولانا عبدالباری، مولانا ابولکلام آزاد، علی برادران ) نےہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر یہاں سے ہجرت کرنے کا فتویٰ دیا۔ جس پر ہزاروں مسلمانوں نے اپنے گھربار چھوڑ کر افغانستان کی راہ لی۔ یہ ہجرت حکومت افغانستان کے عدم تعاون سے ناکام ہوگئی اور مسلمانوں کو کافی جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی نے ’’پرانے چراغ‘‘ حصہ دوئم میں لکھا ہے:۔ ’’تحریکِ خلافت کے رہنماؤں میں اصل روح مولانا محمد علی جوہر کی کام کر رہی تھی وہ شعلہ جوالہ بنے ہوئے تھے۔ گاؤں گاؤں قصبہ قصبہ پھر کر پورے ملک کو حرارتِ ایمانی اور جوشِ آزادی سے مخمور بنا دیا تھا۔ دراصل انھیں نے گاندھی جی کو ان کے گوشۂ عزلت سے نکالا اور ان کے ساتھ دورہ کر کے اور ان کی جے کارلگوا کر ان کو عوامی لیڈر اور ملک کا محبوب رہنما بنا دیا۔ تحریک خلافت و آزادی وطن کے ساتھ تحریک ترک موالات ضم کر کے غیر ملکی حکومت کے خلافت نفرت اور بغاوت کی آگ بھڑکادی اور آزادئ وطن کا صور اس بلند آہنگی سے پھونکا کہ سارے ملک میں یہاں تک فوج و پولس میں ایک جنبش اور مظبوط انگریزی فوج میں ایک ارتعاش پیدا ہوگیا‘‘ مہاتماگاندھی اس اعلان کے ساتھ تحریک خلافت میں شریک ہوئے تھے یہ مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے اور جب ہمارے مسلمان بھائی بے چین ہیں تو ہم کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ گاندھی جی نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں بار بار کہا تحریک خلافت کو مسلمانوں کا ایک مقدس معاملہ سمجھ کر اس میں شریک ہوا ہوں۔ عزل خلافت کے بعد مہاتما گاندھی نے کہا کہ اگر میں ایک نجومی یا غیب داں ہوتا اور مجھے معلوم ہوتا کہ ترکی میں خلافت توڑی جائے گی تب بھی میں اس میں اسی عزم و حوصلے کے ساتھ شرکت کرتا۔ ہندوستان کے تمام بڑے بڑے لیڈر پنڈت موتی لال نہرو ، سی آرداس،بپن چندر پال، لالہ لاجپت رائے، پنڈت مدن موہن مالوی وغیرہ اسی موقف کے حامی تھے۔ مسلمانوں میں ہر طبقہ خیال اور نقطہ نظر کے علماء و لیڈران خلافت ’’خلافت‘‘ کو خالص مذہبی معاملہ سمجھتے اور اسی کے مطابق استدلال کرتے تھے شائد کسی ایک مسئلہ پر علمائے ہندوستان کبھی اس طرح متفق نہیں ہوئے۔ ان رہنماؤں میں حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسرت موہانی، رہبرانِ علیگڑھ اور لیڈر ان مسلم لیگ سب مضطرب و بے چین اور خلافت تحریک اسلامی اور مقامات مقدسہ کے تحفظ کے لئے انگاروں پر لوٹ رہے تھے۔ تحریک خلافت ہی کے زمانے میں جمعیۃ العلماء کا قیام عمل میں آچکا تھا عثمانی خلافت کے بعد ہندوستان میں خلافت کمیٹیاں قائم رہیں اور اوریہ منصوبے بنتے رہے کہ حکومت انگورہ کو مشورہ دیا جائے۔ وہاں وفد روانہ کیا جائے کہ وہ خلافت قائم کریں لیکن یہ منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے مولانا محمد علی جوہر نے علی گڑھ کی انتظامیہ سے سرکاری امداد نہ لینے کی اپیل کی - مگر فرنگی امداد اور ان کی رضا مندی سے چلنے والے علی گڑھ کالج کےانتظامیہ نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ جس کے نتیجے میں مولانا محمد علی جوہر نے بہت سے طلبہ کو اپنے ساتھ ملا کر جامعہ ملیہ کی بنیاد رکھی۔ یہ ادارہ 1925ء میں دہلی منتقل کر دیا گیا۔ اسی تحریک ترک موالات کے درمیان ایک ایسا موقع آیا جب 5 فروری 1922ء کو تحریک خلافت کی حمایت میں لوگوں نے مشتعل ہو کر اترپردیش کے ایک گاؤں چورا چوری میں ایک تھانے کو آگ لگا دی جس میں 22 سپاہی جل کر ہلاک ہوگئے ۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر گاندھی نے اعلان کر دیا کہ چونکہ یہ تحریک عدم تشدد پر کار بند نہیں رہی اس لیے اسے ختم کیا جاتا ہے۔ مالابار کے سا حل پر مسلما نوں کی   موپلہ بغاوت بھی اس تحریک میں بہت اہم مقام رکھتی ہے اس علاقے کے مسلمانوں موپلہ مسلمانوں نے تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کو روکنے کے لئے ان پر شدید ترین تشدد کیا گیا ، اس کے نتیجے میں 1925ء میں موپلہ مسلمانوں نے بغاوت کر دی۔ حکومت نے اس بغاوت کو سختی سے کچل دیا اور ہزاروں موپلی مسلمانوں کو کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ تحریک کو سپوتاز کرنے اور اس کی عوامی مقبولیت کو کم کرنے کے لئے شد ھی سنگٹھن تحریک شروع کی گئی- یہ سب سامراجی حکومت کی جانب سے" لڑاؤ اور حکومت کرو " پالیسی کے عین مطابق ہورہا تھا - (جاری ہے )



Comments