اردو پر رحم کیجیے: وسعت اللہ خان( بی بی سی)

زبان کا علاقہ ہوسکتا ہے مذہب نہیں ورنہ مشرقِ وسطیٰ کے عیسائیوں کی مادری زبان عربی اور ایرانی یہودیوں کی مادری زبان فارسی اور پنڈت نہرو کی زبان ٹھیٹھ الہ آبادی اردو کاہے کو ہوتی اور وادیِ تیراہ کے سکھ گھر میں بھی پشتو ہی کیوں بولتے؟ باوا آدم سے آج تک جتنی بھی زبانیں ہیں سب کی سب عام آدمی کے ہاں پیدا اور جوان ہوئیں۔ کچھ کا قد کاٹھ زیادہ نکل گیا، کچھ ٹھگنی رہ گئیں اور بہت سی زمانے کے ہاتھوں معدوم ہوگئیں۔ خود ساختہ محلاتی سرپرستوں نے بس اتنا کیا کہ پلی پلائی زبانوں میں سے کچھ کو اپنی ریاستی ضروریات اور محکوموں سے روزمرہ رابطے کی خاطر گود لے لیا، اللہ اللہ خیر صلا۔ زبان کی چابی ماں کے پلو میں بندھی ہوئی ہے اور زبان کے مالک اس ماں کے بچے ہیں ۔اسی لیے نسل اور زبان ہمیشہ سے بہترین ہمسفر ہیں۔ تو پھر لوگ مادری زبان کے ہوتے دیگر زبانیں کیوں سیکھتے ہیں؟ دو ہی وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔ ضرورت یا پھر شوق۔ زیادہ تر لوگ ضرورت کے تحت سیکھتے ہیں یعنی رابطے، تعلیم اور روزگار کے لیے۔ گویا زبان بھی اجناس کی طرح طلب اور رسد کے اصولوں کی محتاج ہے اور طلب و رسد کا اصول بدلتے دور اور ضروریات کے مطابق لباس بدلتا رہتا ہے۔ کبھی یونانی، کبھی لاطینی، کبھی عربی، کبھی فارسی و ترک تو کبھی انگریزی، فرانسیسی و ہسپانوی و روسی اور آج کل چینی۔ مگر کئی سماجی اکائیاں نسلی و جغرافیائی اعتبار سے اتنی متنوع ہیں کہ باہمی رابطے معاشی تعلق اور نظم و نسق کے لیے بہت سے خطوں میں ایک سے زائد زبانیں سیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے جیسے شمالی برِصغیر کے لوگ تو آسانی سے ہندی اور اردو میں باہم سمجھ سمجھا سکتے ہیں لیکن اتر پردیش کے کسی بیورو کریٹ کو تمل ناڈو کے کسی سیاستداں سے بات کرنی ہو تو وہاں ہندی کی جگہ انگریزی خود بخود رابطے کی زبان ہو جاتی ہے۔ یہاں چین، ترکی اور پاکستان کے شاعر و شاعرات کو دیکھا جا سکتا ہے
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ کچھ زبانیں مقدس ہیں جیسے آرامی، عبرانی، لاطینی، عربی، فارسی اور سنسکرت وغیرہ۔ اس تاثر کے پیچھے حقیقت سے زیادہ عقیدت ہے۔ زبان کا علاقہ ہوسکتا ہے مذہب نہیں ورنہ مشرقِ وسطیٰ کے عیسائیوں کی مادری زبان عربی اور ایرانی یہودیوں کی مادری زبان فارسی اور پنڈت نہرو کی زبان ٹھیٹھ الہ آبادی اردو کاہے کو ہوتی اور وادیِ تیراہ کے سکھ گھر میں بھی پشتو ہی کیوں بولتے؟ جیسے جیسے کسی طاقت ور گروہ کا نظریاتی، سیاسی، ثقافتی و جغرافیائی دائرہ دیگر لسانی گروہوں اور خطوں تک پھیلتا جاتا ہے تو دوسری زبانیں بھی لاشعوری طور پر غالب گروہ کے ثقافتی و لسانی اثرات قبول کرتی جاتی ہیں۔ مثلاً وسطی ایشیا کی ترکی پر روسی اثر، فارسی و سندھی پر عربی اثر، پشتو اور بلوچی پر فارسی اثر، مغربی، وسطی و شمال مشرقی برِصغیر کی زبانوں پر سنسکرتی اثر اور اب ہر مشرقی زبان پر انگریزی کے اثرات۔ چنانچہ جب بنگالیوں کو ایک روز اچانک بزبانِ انگریزی بتایا گیا کہ آج سے سرکاری زبان اردو ہے تو ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کیونکہ ان کی زبان عربی و فارسی کی بجائے سنسکرت شاخ سے تعلق رکھتی تھی۔ اگر بنگالیوں کو بتایا جاتا کہ ان کے اور دیگر پاکستان کے درمیان رابطے اور نامہ بری کی زبان انگریزی ہوگی تو شاید بات اتنی آگے نہ بڑھتی۔ بنگالیوں کے برعکس پنجابیوں کو اردو بطور قومی زبان اپنانے میں یوں دقت نہیں ہوئی کیونکہ فاتحین کی لگاتار گذرگاہ ہونے کے سبب ترک، فارسی، عربی اور مقامی سنسکرتی لفظیات کے چبوترے پر بنی صوفی خانقاہوں میں عوامی میل جول اور کثیر نسلی اختلاط سے جنم لینے والی زبانِ اردو یا ہندوستانی ایک عام پنجابی کے لیے اجنبی نہیں تھی ویسے بھی پنجاب جغرافیائی لحاظ سے اردوِ معلی کی دیوار (دہلی) سے لگا بیٹھا تھا۔ سندھ کا سیاسی و ثقافتی تعلق چونکہ ہزار برس سے عرب، ایران و وسطی ایشیا کے فاتحین اور صوفیا سے جڑا ہوا ہے اور انگریزی دور میں انتظامی تعلق بمبئی سے رہا لہذا اردو کی لشکری لفظیات سے ایک عام سندھی کے کان مسلسل آشنا رہے۔ تصویر کے کاپی رائٹ AP Image caption ایک تاثر یہ بھی ہے کہ کچھ زبانیں مقدس ہیں جیسے آرامی، عبرانی، لاطینی، عربی، فارسی اور سنسکرت وغیرہ پچھلے 500 برس میں افغانوں نے شمالی و وسطی ہندوستان سے مشرق میں بنگال تک سینکڑوں بستیاں اور درجنوں چھوٹی بڑی ریاستیں اور تعلقے آباد کیے۔کابل، پشاور و ہزارہ کا کاروباری تعلق بھی دہلی اور بمبئی سے لگ بھگ 200 برس پر پھیلا ہوا ہے اس لیے پاکستان نہ بھی بنتا تو بھی پنجابیوں، پشتونوں اور سندھیوں کی دیگر دیسیوں سے رابطے کی زبان اردو یا ہندوستانی ہی ہوتی۔ لیکن فطری انداز میں پنپنے والے بین السانی درخت میں جب تقسیم کے بعد لاہوری و دہلوی احساس ِ برتری کے سرکاری چاقو سے اردو کی قلم لگانے کی کوشش کی گئی تو پھر رابطے کی فطری زبان کے مکالمہ میں ضد اور جوابی ہٹ دھرمی کا زہر گھل گیا۔ رہا سہا کام اردو کو مسلم ثقافت اور حب الوطنی سے غیر ضروری طور پر نتھی کرنے کی ذہنیت نے اتار ڈالا۔ یہ راز عام آدمی سے زیادہ کور چشم ریاستوں کو جاننے کی ضرورت ہے کہ زبانیں خودرو ہوتی ہیں ان کی فارمنگ نہیں کی جاسکتی۔ (اسرائیل میں عبرانی کی جدید فارمنگ کے تجربے کو عمومی ارتقائی مثال قرار نہیں دیا جاسکتا)۔ جس کو جس زبان کی ضرورت درپیش ہوگی وہ بلا ہدایت اسے رابطے کی زبان بنا لے گا جیسے چینی خود بخود انگریزی سیکھ رہے ہیں اور مغربی باشندے چینی سیکھنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ آپ میری زبان کی عزت کرو گے تو میں آپ کی زبان کو عزت دوں گا۔ اگر ریاست لسانی ڈنڈہ چلائے گی تو مضروب بھلے رابطے کی زبان سیکھے نہ سیکھے رابطے کی زبان میں پنہاں گالیاں سب سے پہلے سیکھے گا تاکہ تھوپنے والے تک ٹھیک ٹھیک جذباتی ابلاغ ہوسکے۔ ایک کہاوت ہے کہ پشتون کو آپ پیار سے دوزخ میں دھکیل سکتے ہو مگر زبردستی جنت میں بھی نہیں بھیج سکتے یہی کہاوت زبان پر بھی صادق ہے ، بھلے نفاذِ اردو ہی کیوں نہ ہو۔

Comments