پاکستان کیوں جیتا ؟؟؟ : خالد معین

پاکستان کیوں جیتا ؟؟؟ چیمپیئنز ٹرافی کا فائنل معرکہ تو ہوچکا ۔ دو چار دن بھی گزر گئے ۔اتوار کا دن یعنی بائیس رمضان اب سے بہت پہلے بھی پاکستان کے لیے ایک حیران کُن فتح کی نوید لاچکا ہے۔ستائیس رمضان یوں بھی پاکستان کی تخلیق کا دن ہے اور شاید شاہینوں نے اسی دن کی مناسبت سے پاکستانی قوم کو دوسری بار سرفراز کیا ہے ۔اس بار کی سرفرازی میں جہاں چند نمایاں شاہینوں نے اپنا نا قابلِ فراموش کردار ادا کیا ،وہیں پاکستانی ٹیم کے نوجوان کپتان سرفراز احمدکا مجموعی کردار بھی قابلِ ستایش ہے ۔ پاکستانی ٹیم کے سر خرو شاہین وطن پہنچ چکے ۔پاکستانی ابھی فتح کے جشن اور بھارتی ابھی ماتم کی فضاسے باہر نہیں نکلے ۔خیر ! یہ تو ہونا ہی تھا ۔اگر یہ نتیجہ الٹا ہوتا تو بھارتی میڈیا اور انتہا پسند عوام کے جذبات کی کم وبیش وہی صورت یہاں ہوتی ۔تاہم اس کی شدت شاید کچھ کم ہو سکتی تھی ۔اس کی وجہ آٹھویں نمبر کی پاکستانی ٹیم کا راؤنڈ کے پہلے ہی میچ میں بھارت سے بھاری شکست کھانے کے بعد ایک نئے جذبے کے ساتھ ٹورنامنٹ میں سنبھلنا۔ پھرجنوبی افریقا ،سری لنکا اور سیمی فائنل میں انگلینڈ جیسی مضبوط اور اوپر کے درجے کی ٹیموں کو ہرانا اور اپنی پر فارمنس کو بہتر سے بہتر کرتے چلے جانا تھا ۔ اب یہ اور بات کہ پاک بھارت کرکٹ میچ ایک عملی جنگ سے کچھ کم نہیں ہوتا اور جیسے کشیدہ حالات میں چیمپیئنز ٹرافی کے یہ دو میچ ہوئے ،وہ ایک الگ جذباتی اور دیوانگی کی سطح رکھتے تھے ۔اسی لیے ویرات کوہلی نے پاکستانی ٹیم کے فائنل سے قبل بیان داغا کہ کرکٹ لورزفائنل میں بھارت اور انگلینڈ کو دیکھنا چاہتے ہیں ۔یہ بیان دراصل بھارتی کپتان کی ذہنی پسپائی کا اشارہ تھا اور اس خوف کا اظہار کہ بھارتی ٹیم فائنل میں پاکستان کے مقابل آنے سے گریزاں ہے ۔بھارتی میڈیا نے حسبِ سابق پاکستانی ٹیم پر وہ تمام حربے استعمال کیے اور وہ تمام وار بھی کیے ،جو وہ اپنی یک طرفہ دوغلی پرفیشنل پالیسی کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں لیکن سہواگ اور رشی کپور نے اپنی حد سے تجاوز کیا اور انہیں پاکستانی کرکٹ لورز نے ایک ولن کے طور پر محسوس کیا ۔یہی نہیں سیمی فائنل کی یاد گار فتح پر سابق پاکستانی کھلاڑی عامر سہیل نے بھی ایک پچگانہ اور غیر ذے دارانہ بیان دے کر خود کو ولن بنایا ۔
سرفراز دھوکا نہیں دے گا ۔یہ جملہ ایک بھارتی فلم ’پی کے ‘ میں عامر خان نے ادا کیا ۔اتفاق سے سرفراز کا کردار ایک مبہم پاکستانی نوجوان کا تھا، جو فلم کے اختتامی لمحات میں اپنی وفا داری نبھاتا ہے اور یوں یہ جملہ ’سرفراز دھوکا نہیں دے گا ‘ اپنی معنویت اور گہرائی میں چار چاند لگا دیتا ہے ۔فلم کے بعد جب با صلاحیت سرفراز احمد نے کپتانی سنبھالی تو مشکل میچوں میں اُن کی عمدہ کار کردگی کے ساتھ یہ جملہ ایسا جڑا اور ایسا ہٹ ہوا کہ چیمپیئنزکے فائنل میچ تک آتے آتے سوشل میڈیا ،پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا کا مقبول ترین جملہ یہی تصور کیا جاسکتا ہے اور پھر فائنل میں بھارت کی عبرت ناک شکست اور پاکستان کی تاریخی فتح کے ساتھ اسی جملے کی بازگشت نے تمام پرانے ریکارڈتوڑ ڈالے ۔بھارتی میڈیا نے سرفراز کی انگلش کا بڑا مذاق اڑایا لیکن سرفراز کی ہر ادا پران دنوں پاکستانی دل وجان سے فدا ہیں ۔ بھارت کے انتہا پسندانہ ردِ عمل میں بھارتی مسلمان اور کشمیری مسلمان بھی پستے ہیں کیوں کہ پاکستان کی فتح پر ایک جشن تو بنتا ہی ہے اور یہی جشن بھارت کے جذباتی عوام کو قبول نہیں یقیناًسرکار کو بھی قبول نہ ہوگا ۔خیر ! سیاست کا معاملہ الگ ہی رہنا چاہیے۔البتہ معصوم عوام کی خودکشیاں ایک لمحہ ء فکریہ ہیں ،کھیل کو کھیل سے سوا بھی دیکھیں اور اپنی جذباتیت کو بھی سوا رکھیں مگر یہ سب ذاتی ،اجتماعی اور قومی نقصان کی صورت میں ہر گز نہیں ہونا چاہیے ۔’موقع موقع‘ کا جواب’ نو ایشو ،لے لو ٹیشو‘ تک تومعاملہ مناسب ہی لگتا ہے،تاہم ہمیں اپنے اخلاقی ،تہذیبی اور مذہبی دائرے سے باہر نہیں جانا چاہیے ۔اب بات کرتے ہیں نوجوان کھلاڑیوں حسن علی ،فخرزمان ،محمد عامرکی جنہوں نے سراہنا چاہیے ،جنہوں نے پورے ٹورنامنٹ میں اعلا پرفارمنس دیں ۔جب کہ بابر اعظم ،عماد وسیم اور شاداب کا مستقبل بھی یقیناًتاب ناک ہے تاہم انہیں مزید محنت اور اپنے کھیل کو بہتر کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔حسن علی اور فخر زمان کا سفر محتاط رہا تو بہت آگے جائے گا ۔عماد وسیم کے کالر ابتدائی کام یابیوں سے کھڑے ہیں،یہ کوئی اچھی علامت نہیں،شاید اسی لیے ان کا یہ ٹورنامنٹ کوئی خاص نہیں رہا ،آگے وہ خود سمجھ دار ہیں ۔اصل میں بہت سی شہرت ،بہت سا روپیا اور زندگی میں اچانک اونچی اڑان بڑوں بڑوں کو بھاری پڑتی ہے ۔نوجوان کھلاڑیوں کو فتح کے جشن کے بعد اپنی ذمے داریوں کا بھی احساس کرنا چاہیے ورنہ کرکٹ سین سے آؤٹ ہونے اور ہیرو سے زیرو بننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ۔ دوسری جانب کچھ کھلاڑیوں کا وقت اب پورا ہوچکا ہے ،ان کا متبادل نوجوان کھلاڑیوں کی صورت میں ضرور تلاش کرنا چاہیے،جن میں احمد شہزاد ، محمد حفیظ اور شعیب ملک سر فہرست ہیں ۔
پاکستانی ٹیم کی تاریخی فتح کو اگر ایک بات میں بیان کیا جائے تو وہ ہے ،روایتی بیک فٹ کے بہ جائے فرنٹ فٹ پر اٹیکنگ کرکٹ ۔یہ وہ نکتہ ہے ،جو بعض پاکستانی سابق کھلاڑی بار بار دہراتے رہے ہیں اور اسی نکتے میں پاکستانی ٹیم کے مستقبل کی فتوحات بھی شامل ہیں ۔خوبیِ قسمت کہ پاکستانی ٹیم کے نوجوان قائد سرفراز احمد میں ایک زبردست فائٹر موجود ہے ،جسے اپنی قیادت کو مزید بہتر کرنا ہے اور اپنی ٹیم کے نوجوان کھلاڑیوں کو مزید یک جا اور مزید فائٹر بھی بنانا ہے ۔ایسا ہو سکا تو چیمپیئنزٹرافی کے بعد بھی پاکستانی ٹیم ایک حقیقی چیمپیئن کی طرح دنیا ئے کرکٹ کو مزید حیران کر سکتی ہے ۔

Comments