بر صغیر میں اسلامی احیاء اور آزادی کی تحا ریک - تاریخ خلافت عثمانیہ -دسوا ں حصہ ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-51‎‎

تاریخ خلافت عثمانیہ - شہزادہ جمشید کی بے بسی ( دسوا ں حصہ )
 عثمانی سلطان بایزید اور شہزادہ جمشید کے مابین اقتدار کی یہ جنگ نہ صرف عثمانی سلطنت بلکہ عالم اسلام کے لئے بھی بیحد نقصان کا سبب بنی - واضح رہے کہ اس وقت مسلمانوں کی خلافت بنو عباس کے پاس تھی جس کا مرکز مصر تھا اور عباسی خلیفہ بھی مصر میں مقیم تھا - شہزادہ جمشید اپنے بھائی سلطان بایزید کے مقابلے میں ایشیائے کوچک اور بروصہ شہر میں شکست دوچار ہوا اور چند جان نثار شہہ سواروں والدہ اور بیوی کو ساتھ لیکر مصر کی جانب روانہ ہوگیا - قسمت کی خرابی دیکھئے کہ ابھی شہزادے کا شکست خوردہ قافلہ عثمانی سلطنت کی حدود میں ہی تھا کہ ایک ترک سردار نے اس قافلے پر حملہ کردیا - بمشکل تمام شہزادہ اپنے قافلے کو بچانے میں کامیاب ہو پایا - مگر اس کا سارا مال لٹ چکا تھا - مصر میں مملوک خاندان کی حکمرانی تھی جو خاندان چراکسہ کے نام سے مشہور تھا - بادشاہ کا نام ابو سعید قائد بیگ تھا
 
جیسے ہی شہزادہ جمشید لٹا پٹا بے سرو ساماں شکست خوردہ قافلہ مصر کی حدود میں داخل ہوا تو مصر کے حا کم ابو سعید قائد بیگ نے اس کا شاہی مہمان کے طور پر استقبال کیا - اور نہایت تکریم کے ساتھ اپنے شاہی محل میں جگہ دی - بایزید کو جب اس بارے میں علم ہو ا تو اس نے سعید بیگ سے خط و کتابت کے ذریعے رابطہ رکھا اور والدہ کی خیر خیریت بھی معلوم کرتا رہا - اس دوران سعید بیگ نے عسکری اور مالی اعتبار سے شہزادہ جمشید کی ہر ممکن مدد فراہم کی - یہاں تک کہ بہت جلد شہزادہ جمشید اپنی فوج بنانے میں کامیاب ہوگیا - اس مرحلے پر ایشیا ئے کوچک کے کچھ سرداروں نے بھی جمشید کو بھرپور مدد کی یقین دہانی کروائی - چناچہ شہزادہ جمشید ایک بار پھر مصر کی عسکری و ما لی امداد کے زور پر عثمانی سلطنت پر قبضے کے خواب دیکھنے لگا - 1482 عیسوی میں شہزادہ جمشید اپنے لشکر کے ساتھ ایک بار پھر عثمانی سلطنت میں داخل ہوا - بہت سے قبائلی ترک سردار شہزادہ جمشید کے ساتھ مل گئے ابتداء میں شہزادہ جمشید کو کامیابیاں ملنی شروع ہوئیں - مگر سلطان بایزید نے اس بار اس کے تدارک کے لئے اپنےسپہ سالار احمد قیدوق کو روانہ کیا- دونوں جانب سے خونی معرکہ ہوا - مگر اس دوران قبائلی ترک سرداروں نے اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے سلطان بایزید کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا اور عین میدان جنگ میں جمشید کی فوج تنہا رہ گئی - شہزادہ جمشید کے لشکر کا خاصہ جانی نقصان ہوا - بمشکل تیس جانثار اور شہزادہ جمشید جا ن بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوسکے - مارے شرمندگی کے جمشید نے مصر واپس جانے سے گریز کیا اور نہایت عجلت میں روڈس کے عیسائی حکمران کو خط لکھا کہ اگر تم مجھ کو پناہ دے سکتے ہو تو میں عثمانی سلطنت پر قبضہ کرنے کے بعد تمہارا بہت خیال رکھوں گا - روڈس کے عیسائی حکمران نے اس تجویز پر فورا ہامی بھر لی اور اندروں خانہ ایک معاہدہ طے پایا جس کی رو سے جب جمشید عثمانی سلطنت پر قبضہ کرلے گا تو روڈس کے حکمران اور حکومت کے لئے مالی امداد فراہم کرنے کا پابند ہوگا اور تجارتی راستوں سے محصول اٹھا لیا جائے گا - ان شرائط کے طے پا جانے کے بعد شہزادہ جمشید اپنے تیس جاں نثاروں کے ساتھ روڈس کی جانب چلا گیا - اس دوران مصر کے سعید قائد بیگ ، جمشید کی والدہ اور بیوی نے بہت اصرار کیا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے - مگر قسمت کو یہ منظور نہ تھا - اور شہزادہ جمشید روڈس کے حکمران کا مہمان بن گیا - یہاں آکر معلوم ہوا کہ شہزادہ شاہی مہمان نہیں بلکہ شاہی قیدی بن چکا ہے - روڈس کی پارلیمنٹ کے سربراہ ڈی آبسن نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عثمانی سلطان بایزید کو مراسلہ بھیجا کہ تمہارا بھائی ہماری قید میں ہے - اگر تم چاہتے ہو کہ ہم اس کو تمہارے حوالے کردیں تو اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ تم سلطنت عثمانی کی تمام بندر گاہوں کو ہماری تجارت کے لئے راہداری دو اور محصولات کو یکسر ختم کردو - اس کے علاوہ سالانہ 45 ہزار روپیہ شہزادے کے اخراجات کی مد میں بجھوانے کا وعدہ کرو - ورنہ ہم اس کو تمہاری سلطنت کی جانب بھیج دیں گے جہاں یہ تم سے خانہ جنگی کرتا رہے گا - سلطان بایزید نے اس کی ان مکروہ شرائط کو منظور کرتے ہوئے سالانہ رقم بھجوادی اوررا ہداری کھولنے کا اعلان کیا- اس مکار حکمران نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیابلکہ مصر میں شہزادے کی والدہ کو خط لکھا کہ اگر اپنے بیٹے کی زندگی عزیز ہے تو ہم کو اخراجات اور شہزادے کی حفاظت کے صلے میں ڈیڑھ لاکھ سالانہ ہم کو دیتی رہو - اس کے بدل میں ہم شہزادے کی زندگی کی ضمانت دینے کو تیار ہیں - ماں آخر کو ماں تھی اس نے جیسے تیسے کرکے اور سعید قائد بیگ سے مالی مدد حاصل کرکے کسی طرح ڈی آ بسن کی پیسوں کی ہوس کو نہ صرف پورا کیا بلکہ ہر سال دیتے رہنے کا وعدہ بھی کیا - ادھر ڈی آبسن عثمانی سلطان بایزید اور مصر میں شہزادے کی ماں دونوں سے پیسہ بٹورتا رہا - دونوں بھائیوں کے درمیان اقتدار کی اس چپقلش نے عثمانی سلطنت کے وقار اور دبدبے کو اتنا بڑا نقصان پہنچایا جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا - شہزادہ جمشید عیسائی حکمرانوں کے ہاتھوں میں " سونے کی چڑیا " بن چکا تھا - شہزادے کی قید اور ذلت کی داستان نہایت عبرت انگیز ہے - ڈی آبسن پیسے وصولنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا ادراک بھی رکھتا تھا کہ کسی بھی وقت سلطان بایزید بلیک میلنگ سے تنگ آکر اس کے علاقے پر حملہ کرکے شہزادہ کو بازیاب کروالے گا - لہٰذا اس نے فوری طور پر شہزادہ جمشید کو فرانس کے شہر نائس بھیجنے کا ارادہ کیا - اور اس مقصد کے لئے پوپ سے مدد لی - فرانس کے حاکم کو پاپ نے رضامند کیا اور مالی مدد کا بھی وعدہ کیا - ڈی آبسن نے راتوں رات شہزادہ جمشید کو اس قلعے میں پہنچایا جو فرانس کے بادشاہ نے نائس شہر میں پناہ گاہ کے لئے خاص طور پر تیار کروایا تھا -یہی نہیں بلکہ شہزادے کی حفاظت کے لئے سپاہیوں کا ایک چاق و چوبند دستہ بھی مامور کیا - جمشید اب ایک حکمران کی قید سے نکل کر دوسرے عیسائی حاکم کی قید میں جاچکا تھا - اس کے تیس جانثاروں کو بھی اس کے ساتھ قید کیا گیا - جن کو علیحدہ رکھا گیا تھا - اور بعد میں ان سب کو قید کے دوران زہر دے کہ ہلاک کردیا گیا - نائس کے حکمران کے دل میں بھی پیسوں کی لالچ آچکی تھی چناچہ اب اس نے ڈی نائس سے شہزادے کی حفاظت کے لئے زیادہ رقم کا مطالبہ کردیا - اس مطالبے نے ڈی آبسن کے کان کھڑے کردئیے اس کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ فرانس کا بادشاہ شہزادے کی جان کی حفاظت کے لئے بایزید سے الگ رقم مانگ لے - ادھرحا کم مصر ابو سعید نے نے ڈی آبسن کے پاس اپنا سفیر بھیجا جو نذرانے اور سلطان کا خصوصی پیغام لیکر پہنچا تھا کہ حسب وعدہ جمشید کو مصر کے حوالے کیا جائے - ابھی سفیر ڈی آ بسن کے محل میں ہی مقیم تھا کہ پوپ جس کا نام شینوس تھا وفات پا گیا - اس پوپ کی جگہ جو دوسرا پوپ آیا وہ اس کی نسبت زیادہ خبیث ثابت ہوا - اس پاپ کا نام اسکندر تھا - ڈی آبسن ابو سعید قائد بیگ کے مطالبے پر آنا کانی دکھانے لگا - کیونکہ حوالگی کے لئے فرانس کے بادشاہ کی رضامندی ضروری تھی - اور فرانس کا بادشاہ کسی طور پر سونے کی چڑیا شہزادہ جمشید کو حوالے کرنے پر تیار نہیں تھا -اس آنا کانی میں وقت گز رتا رہا اور حا کم مصر ابو سعید کا سفیر ناکام واپس آگیا - نیا پوپ اسکندر بہت شاطر نکلا -اس نے سلطان کے پاس اپنا نمائندہ جارج نامی سفیر کو بھیجا جس نے سالانہ رقم کے علاوہ تین لاکھ ڈاکٹ یکمشت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ رقم ملتے ہی ہم تمہارے دشمن یعنی جمشید کا خطرہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیں گے - جس کا مطلب یہ تھا کہ شہزادے کو مار دیا جائے گا اور عثمانی سلطنت کے سر سے یہ بوجھ اتر جائے گا - ابھیعثمانی سلطان بایزید فیصلہ نہیں کرپایا تھا کہ اسکندر کو کیا جواب دیا جائے - الله کا کرنا یہ ہوا کہ1495 عیسوی میں جس دوران اسکندر کا سفیر سلطان کے دربار میں ہی تھا کہ فرانس کے بادشاہ چارلس ہشتم نے اٹلی پر حملہ کردیا - حملے کا مقصد یہی تھ اکہ فرانس شہزادے کو اپنے قبضے میں لینا چاہتا تھا - پاپ اسکندر اس حملے کے ساتھ ہی روما سے بھگ کر سینٹ انجیلو کے قلعے میں پناہ لے چکا تھا - وہ اپنے ساتھ شہزادہ جمشید کو بھی لے آیا تھا - فرانس کے بادشاہ چارلس ہشتم اور اسکندر کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے جس میں طے پایا کہ شہزادہ جمشید چارلس ہشتم کی پناہ میں رہے گا - اس کی رو سے شہزادہ اٹلی کی قید سے نکل کر فرانس کی قید میں چلا گیا - جہاں نیپلز کے عقوبت خانے میں قید کردیا گیا - ڈی آبسن نے ایک اور چال چلی کہہ شہزادے کی ماں کو لکھا کہ اگر ڈیڑھ لاکھ روپیہ فورا ادا کیا جائے تو شہزادے کی بحفاظت مصر پہنچانے کی ضمانت لیتا ہوں - شہزادے کی ماں یعنی سلطان محمد فاتح کی بیوہ نے بیٹے کی رہائی کے عوض یہ رقم کسی طرح ڈی آبسن کے حوالے کی جس کے بعد ڈیآ بسن نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اب شہزادے کی اٹلی لے آیا جائے - حانلا نکہ وہ یہ بات جانتا تھا کہ فرانس کا بادشاہ کسی طور بھی شہزادے کو آزاد نہیں کرے گا - ایسا ہی ہوا - فرانس کے بادشاہ نے انکار کیا- پوپ نے دو عیسائی حکمرانوں میں بات بگڑتے دیکھی تو فوری طور پر مداخلت کرتے ہوئے با ہم تصفیہ کروایا کہ دس ہزار کی ضمانت دیتا ہوں کہ ڈی آبسن شہزادے کو اپنے پاس رکھے گا اور کسی مسلمان حا کم کے حوالے نہیں کرے گا - اس ضمانت کے بعد شہزادے کو اٹلی کی جانب روانہ کردیا گیا- اس حوالگی کے دوران فرانس کا سفیر اور پوپ اسکندر دونوں موجود تھے - پوپ اسکندر نے شہزادے کو مشورہ دیا کہ ایک صورت میں تمہاری آزادی ہو سکتی ہے کہ تم ہنگری کے بادشاہ کے مہمان بن جاؤ - مگر اس کی شرط یہ ہے کہ تم کو عیسائی مذھب اختیار کرنا ہوگا - میں تمہاری زندگی کی ضمانت دینے کو تیار ہوں - یہ وہ لمحہ تھا جہنا ایک طرف مسلسل قید و بند کی صعوبتیں اور دوسری جانب آزادی کی پیشکش - ایک لمحہ کی تاخیر کے بناء شہزادے نے پوپ اسکندر کی یہ پیشکش رد کردی اور اپنی قید پر مطمئن رہا - اس کے بعد شہزادے کو اٹلی کی جیل میں بند کردیا گیا - جہاں اس کو ایک مرتد حجام کے حوالے کیاگیا - جس نے شہزادے کے سر کے بال اتارے اور گنجا کیا - مرتد حجام درحقیقت پوپ کا آدمی تھا جو ہر ہفتے زہر آلود استرے سے شہزادے کی حجامت کرتا اور زخم لگا دیتا - اس طرح چند دنوں بعد زہر پورے جسم میں سرایت کر گیا اور شہزادہ جمشید اپنے انجام کو پہنچا - 14 فروری 1495 عیسوی کو انتقال ہوا اور گا ٹیا شہر میں تدفین عمل میں آئی - عبرت کا پہلو یہ ہے کہ سلطان بایزید اور شہزادہ جمشید کے باپ یعنی سلطان محمد فاتح نے جس دبدبے کے ساتھ یوروپ کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور فتوحات کا سلسلہ شروع کیا تھا -سلطان محمد فاتح کی موت کے بعد بھائیوں کی آپس کی جنگ اور کشمکش نے ان فتوحات کا سارا رعب و دبدبہ خاک میں ملا دیا - کہاں وہ وقت تھا کہ سلطان فاتح نے عیسائی حکمرانوں کو ملیامیٹ کرنے کے لئے لشکر جرار تیار کیا - روما اور ایران کی مملکتوں مینن بے چینی پھیل گئی تھی اور ان کو اپنی حکومتیں بچانی مشکل تھیں - اور کہاں یہ وقت کہ اب عثمانی شہزادہ عیسائی حکمرانوں کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہورہا تھا - ( جاری ہے )

-

Comments