بر صغیر میں اسلامی احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-- 50- تاریخ خلافت عثمانیہ - سلطنت ڈگمگا نے لگی -(نواں حصہ )

تاریخ خلافت عثمانیہ - سلطنت ڈگمگا نے لگی (نواں حصہ ) سلطان محمد خان ثانی فا تح قسطنطنیہ الله کے حضور پیش ہو چکا تھا - اس عظیم فاتح نے اپنا تمام دور حکومت مسلسل جنگ و پیکار میں گزارا - اپنے دور حکومت میں بارہ عیسائی رومن ریاستیں اور دو سو سے زیادہ چھوٹے بڑے شہر عثمانی سلطنت میں داخل کئیے - جنگ و جدل میں آٹھ لاکھ مسلمان مجاہد شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے - حیرت کی بات یہ ہے کہ سلطان کی باقائدہ افواج کی تعداد لاکھ سوا لاکھ سے زیادہ تجاوز نہیں کر پائی - ان میںبارہ ہزار ینگ چری فوج کے وفادار دستے بھی شامل تھے - یہ ینگ چری افواج باڈی گارڈ یا وفادار فوج کہلاتی تھی - جنگ کے میدان میں سلطان کا میمنہ و میسرہ ان ہی کمانڈروں کے سپرد ہوتا تھا - سلطان محمد فاتح نے فوج کو انتظامی اور نظم و ضبط کے مضبوط نظام میں باندھ دیا تھا- اگرچہ سلطان کے پہلے دور حکومت میں ینگ چری فوج نے بغاوت کا مظا ہرہ بھی کیا تھا - مگر ان کو سخت ترین سزائیں دے کر نشان عبرت بنا دیا گیا - سلطان کے جاری کردہ قوانین سے سلطنت عثمانیہ کو استحکام حاصل ہوا - اور ایک لحاظ سے سلطنت عثمانیہ نے فتوحات کے حوالے اپنا عروج حاصل کرلیا تھا - بیشتر یورپ میں رومن عیسائی علاقوں میں مسلمان ترک اپنی سلطنت مستحکم کر چکے تھے - سلطان محمد خان ثانی کے حوالے سے حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ اس کا تمام تر دور جنگوں اور معرکوں میں گزرا مگر اس کے باوجود اس کی انتظامی صلا حیتوں کا معترف ہوئے بناء نہیں رہا جاسکتا - سلطان نے اپنے دربار میں علماء کونسل کو سب وزیروں اور امراء پر فوقیت دی - اور عثمانی سلطنت کا دستور اسلامی تقاضوں کے عین مطابق ترتیب دیا جس میں قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلے صادر کے جاتے اور علماء کونسل کو ان سب پر فوقیت حاصل رہی - سلطان کی شاندار حکمت عملی یہ بھی رہی کہ اس نے رومیوں اور عیسایوں سے حاصل کردہ علاقوں میں دینی مدارس کا جال بچھا دیا تھا - تاکہ مفتوحہ علاقوں کے نومسلم اسلامی تعلیمات سے بہرہ مند ہوسکیں - ان مدارس کا نصاب بھی سلطان اور علماء کونسل کا تجویز کردہ تھا - سال میں دو مرتبہ مدارس میں امتحان ہوتا جس کے بعد کامیاب طلباء کو اسناد جاری کی جاتیں - ان اسناد پر قابلیت کے مطابق سرکار کی جانب سے وظیفہ مقرر کیا جاتا اور سرکاری نوکری پیش کی جاتی - آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سلطان خود ایک عالم دین تھا اور علوم جدید کا جاننے والا بھی - طبیعات ریاضی اور قران و حدیث کے علوم پر بہت مہارت حاصل تھی - یہی وجہ تھی کہ سلطان کے دور حکومت میں بہترین نصاب درسگاہوں میں متعارف کروایا گیا - سلطان کی زبان دانی کا عالم یہ تھا کہ وہ کئی زبانوں پر عبور رکھتا تھا جن میں ترکی کے علاوہ عربی ، فارسی ، لاطینی ، یونانی اور بلگیرین زبانیں شامل تھیں - سلطان کے عہد میں علماء کو یہ اختیار حاصل تھا کہ اگر سلطان کا کوئی فیصلہ قرآن و حدیث سے متصادم دکھائی دیتا تو علماء اس کو منسوخ کرنے کی سفارش کرسکتے تھے - اور سلطان پابند تھا کہ اپنے فیصلے کو واپس لے - سلطنت کے انتظامی معاملات کو کنٹرول کرنے کے لئے کمشنری اور اضلا ع کا نظام رائج کیا - جس سے اتنی بڑی مملکت کا اچھا انتظام ممکن ہوسکا - حسب مراتب ضلعی افسر کو بیگ ، کمشنر کو سنجق اور صوبیدار کو پاشا کا سرکاری لقب جاری کیا - دربار عثمانی کو باب عالی کا نام دیا گیا تھا - باب عالی میں باقائدہ امراء و وزراء و علماء کا مشترکہ اجلاس ہوتا جن میں سلطنت کے تمام امور پر کھل کر بات ہوتی - باب عالی کے اجلاس سنجیدہ اور متانت سے لبریز ہوتے - کسی قسم کا لعو و لعب کا شائبہ تک نہ تھا - دین کے معاملات میں سخت ترین رویہ اختیار رکھتا اور خود بھی پنج وقتہ نمازی عبادت گزار تھا - عالم دن کے ساتھ ساتھ شعر و شاعری سے بھی خاص انسیت تھی اور خود بھی بہت عمدہ شعر موزوں کرتا - ان سب کے ساتھ ساتھ سلطان اپنی رعایا پر بہت مہربان تھا - فوج کے ساتھ اس کا برتاؤ ہمیشہ شفیقانہ رہا - سلطان کے ابتدائی دور میں عثمانی سلطنت میں جو شورشیں اٹھیں ان کو نہایت کامیابی کے ساتھ فرو کرنا اس کے ماہرانہ انتظامی معاملات کا منہ بولتا ثبوت ہیں -
سلطان نے اپنی وفات پر   پیچھے دو بیٹے چھوڑے جن میں ایک بیٹا بازید خان اور دوسرا بیٹا شہزادہ جمشید تھا - سلطان کی وفات کو وقت دونوں بیٹے اسلامبول ( موجودہ استمبول ) میں موجود نہیں تھے - بڑا شہزادہ بازید اماسیہ کا گورنر تھا اور چھوٹا شہزادہ جمشید صوبہ قرمان (کریمیا )کا گورنر تھا - سلطان کی وفات کے نو دنوں بعد شہزادہ بایزید اسلامبول پہنچا - اس وقت بایزید کی عمر 35 سال اور جمشید کی عمر لگ بھگ 22 سال کی تھی - جیسا کہ میں پچھلی قسط میں بتا چکا ہوں کہ سلطان مرحوم نے اپنے وزیر ا عظم قیدوق کو اٹلی کی جانب سپہ سالار بنا کر بھیجا تھا اور اس کی جگہ محمد پاشا کو وزیر اعظم مقرر کیا تھا - محمد پاشا نے جمشید کو تخت پر بٹھانے کی غرض سے بایزید سے سلطاں کی وفات کی خبر چھپائی اور جمشید کو خفیہ پیغام دے کر اسلامبول طلب کیا - مگر اس سازش کی اطلا ع وفاداروں تک پہنچ چکی تھی اور بایزید فورا اسلامبول کے لئے روانہ ہوگیا - ینگ چری افواج نے محمد پاشا کو قتل کردیا اور اسحاق پاشا کو وزارت عظمی پر فائز کردیا - جانثار افواج کی خود سری نے مرکز میں بد انتظامی کی حد عبور کرتے ہوئے مختلف محکموں پر اپنا قبضہ جما لیا- ادھر دوسری طرف سپہ سالار قیدوق جو اٹلی کے محا ذ پر تھا اپنی جگہ کسی اور کو کمان دے کر الٹے پیروں اسلامبول کی جانب پلٹا تاکہ بد انتظامی پر قابو پایا جاسکے - بایزید جب اماسیہ سے روانہ ہوا تو اپنے ساتھ چار ہزار کا لشکر بھی لیکر آیا تھا - اس نے آتے ہی سلطنت کا انتظام سنبھالا اور جمشید سے سخت لڑائی ہوئی - شہزادہ جمشید کو پاپائے اعظم اور یوروپ کے کئی سرداروں کی درپردہ حمایت بھی حاصل تھی - ادھر ینگ چری افواج نے شہزادہ بایزید کی حکومت سے مزید شاہی خزانے سے امداد کا معاہدہ کیا اور اپنے لئے مزید مراعات منظور کروالیں - محمد پاشا شہزادہ جمشید کو حکومت دینا چاہتا تھا جبکہ ینگ چری فوج مراعات کے بدلے میں بایزید کو سلطان تسلیم کر چکی تھیں - ایسے میں قیدوق بھی اٹلی کے محاذ سے واپس آچکا تھا اس نے بھی حالات دیکھتے ہوئے شہزادہ بایزید کی بیعت منظور کرلی - مگر عثمانی سلطنت میں بغاوت کی چنگاری ابھی بجھی نہیں تھی - چھوٹے شہزادے جمشید نے ایشیائے کوچک کے علاقوں میں گڑ بڑ مچانی شروع کی اور بہت سے علاقوں کا انتظام سنبھال لیا - شہر بروصہ کا انتظام شہزادہ جمشید اور اس کی وفادار فوج کے ہاتھ لگ چکا تھا - شہزادہ جمشید نے بروصہ سے اپنے بڑے بھائی سلطان بایزید کے نام ایک مکتوب بھیجا جس میں انتہائی عزت و احترام کے ساتھ بڑے بھائی کی مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ " بھائی ہم دونوں نے انتہائی کرب کے ساتھ ابا جان کی جدائی اور موت کا غم برداشت کیا ہے - میرے علم میں نہیں کہ ابا جان نے اپنی زندگی میں آپ کو یا مجھ کو اپنی ولی عہد نامزد کیا ہو - اسلئے آپ تنہا اس سلطنت کے وارث نہیں قرار پاتے - با ادب اور با احترام ہوکر آپ سے درخوا ست کرتا ہوں کہ ایشیائی مقبوضات میرے ماتحت رہنے دیں اور آپ خود یوروپ کے مفتوحہ علاقوں کی حکمرانی سنبھال لیں -" اس مکتوب کا جواب بایزید نے یہ کہہ کر دیا کہ " ناممکن ! یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک نیام میں دو تلواروں کی جگہ پیدا کی جاسکے " قسطنطنیہ میں سلطان محمد فاتح کی بہن موجود تھیں اس نے بایزید کو سمجھایا کہ دونوں بھایوں کا آپس میں لڑنا اچھا نہیں - اس سے عیسائی اور رومن فائدہ اٹھاسکتے ہیں ،منا سب یہی ہے کہ جمشید کو اشیاۓ کوچک کا انتظام دے دو اور با قی سلطنت تم اپنے ہاتھ میں رکھو - بایزید نے پھوپھی کی بات کا بھی پاس نہ رکھا اور اتنا کہا کہ " میں زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہوں کہ اس کی بیت المقدس معہ عیال کے جانے دیا جاسکتا ہے اور کرییمیا کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ مستقلا اس کے نام کیا جاسکتا ہے -" بہر حال دونوں شہزادوں کے درمیان مصلحت کی کوئی سبیل نہ نکل پائی اور بلآخر جون 1481 عیسوی میں دونوں کے درمیان جنگ ہوئی اور اس لڑائی میں شہزادہ جمشید کو شکست ہوئی اور وہ یوروپ کے مختلف ممالک میں در بدر رہا آخر کار اٹلی کی جانب فرار ہوگیا - جہاں اس نے زندگی کے تیرہ سال گزارے - اور 36 سال کی عمر میں انتقال کیا اور شہر گاٹیا میں دفن ہوا - سلطان بایزید نے481 عیسوی سے 1512 عیسوی تک عثمانی سلطنت پر حکرانی کی - دونوں شہزادوں کے مابین اس اقتدار کی اس خونی کہانی کا انجام نہایت بھیانک نکلا - جس وقت ان کے مابین جنگ جاری تھی اٹلی کے شہر اٹرانٹو جہاں ترک قبضہ کرچکے تھے اور روما پر حملے کی پوزیشن میں تھے - روما کے پوپ نے سلطان کے مرنے اور دونوں بھائیوں کے درمیاں قبضے کی جنگ کا احوال سنا تو یوروپ کے عیسایوں کو صلیبی جنگ کے لئے آمادہ کرلیا کہ آخری موقع ہے کہ اٹلی کو مکمل آزاد کروالیا جائے - چناچہ پو پ روما کی اپیل پر اٹرانٹو پر حملے کی تیاری کرلی گئی - ترک سپہ سالار نے قسطنطنیہ سے مدد طلب کی مگر بے سود - دونوں شہزادے آپس میں برسر پیکار تھے مدد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا - سپہ سالار نے جب عثمانی مرکز سے مدد نہ ملنے کا یقین ہوگیا تو اس نے عیسایوں سے دب کر صلح کی شرائط پیش کیں کہ ہماری جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائے تو ہم اٹرانٹو کا قبضہ چھوڑنے پر تیار ہیں - چناچہ صلح نامے پر دستخط ہوئے اور ترک افواج نے اٹرانٹو کا قبضہ ختم کرکے مرکزی دروازہ کھول دیا - ابھی ترک افواج شہر سے نکلنے کی تیاری میں تھیں کہ عیسائیوں نے صلح نامے سے روگردانی کرتے ہوئے ترک افواج پر بڑا حملہ کردیا اور ترکوں کا بےدریغ قتل عام شروع ہوگیا ، یہاں تک کہ شہر اٹرانٹو کی گلیاں بازار ترک فوج کے خون سے لبریز ہو گئے - وزیر اعظم قیدوق جس نے اٹلی اور روما کی فتح کے لئے اٹلی کے دل اور مرکز اٹرانٹو پر قبضہ کیا تھا - وہ باب ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا -قیدوق پلٹ کر اٹرانٹو نہیں جا سکا کہ ترک قبضے کو مستحکم کرتا اور یوں آپس کی اقتدار کی ہولناک جنگ نے اٹلی کو عثمانی سلطنت کا حصہ بننے سے محروم کردیا - (جاری ہے )



Comments