تاریخ خلافت عثمانی - ( تیسرا حصّہ ): برصغیر میں اسلامی احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-44

تاریخ خلافت عثمانی - ( تیسرا حصّہ
 تھوڑا سا پیچھے چل کر ان حالات کو دیکھنا ضروری ہے جب خلافت عثمانی خاندان میں منتقل ہو رہی تھی - یہ بات ہے1289 عیسویں کی جب عثمان الاول بن ارطغل بن سلمان شاہ الترکمانی بانی دولت عثمانیہ اپنے باپ ارطغل کی وفات کے فورا بعد سلطاں علا الدین سلجوقی کی جانب سے جاگیردار مقرر ہوئے تھے - جاگیردار کا مطلب تھا اس علاقے کے حکمران جس کو اپنی جاگیر کے معاملات کا مکمل اختیار حاصل ہو - جا گیر دار مقرر ہونے کے ایک سال کے اندر انہوں نے من تونیہ کے قریب قلعہ قرہ الحصار کو فتح کیا اور اپنی جاگیر میں شا مل کیا ، اس بہادری اور فتح کے صلے میں سلطان علا الدین سلجوقی نے ان کو " بک" کا لقب عطا کرتے ہوئے اپنے نام کا سکہ جاری کرنے کی اجازت دی - اس کے ساتھ ہی جمعہ کے خطبے میں ان کا نام لیا جانا شروع ہوگیا - آپ ایک طرح سے اپنی جاگیر میں غیراعلانیہ بادشاہ ہوگئے تھے مگر بادشاہ کا لقب اختیار نہیں کیا تھا - 1300 عیسویں میں تاتاریوں کی یورشیں بڑھنے لگیں اور انھوں نے ایشیا ئے کوچک پر حملے شروع کئیے - اسی دوران سلطان علا الدین کا انتقال ہوا اور ان کا بیٹا سلطان غیاث الدین سلجوقی تخت نشین ہوا - جو تاتاریوں کے حملے میں مارا گیا - جس کا بدلہ عثمان الاول نے تاتاریوں کو شکست فاش دے کر لیا - اس کے بعد بادشاہ کا لقب اختیار کرتے ہوے بورصہ شہر سے شمال مشرق تک کا علاقہ اپن سلطنت میں لے لیا اور اس سے آگے کچھ فاصلے پر نیا شہر آباد کیا جو ینی شہر کہلایا - اس شہر کے اطراف فصیل اور قلعہ تعمیر کیا -پھر یہی نیا شہر اس کا دارلسلطنت قرار پایا - سلجوقی سلطان کی اولادیں ایشیاۓ کوچک کے علاقے میں مختلف جگہوں پر اپنی اپنی حکومتیں چلا رہی تھیں - مرکزیت ختم ہوچکی تھی - عملا متعدد حکومتیں بیک وقت چل رہی تھیں ان حکومتوں میں سے کچھ رومیوں کے پاس بھی تھیں -جن پر رومی بادشاہوں کا حکم چلتا تھا -ان رومن حکومتوں کا مذھب عییسا ئیت تھا - ان رومن عیسا ئی حکومتوں نے اپنی مدد کے لئے اس وقت کی سپر قوت یعنی تاتاریوںسے مدد کی اپیل کی - مختلف قبائل میں بٹے ہوئے تاتاری قبائل ان رومن عیسا ئیوں کی مدد کے لئے مجتمع ہوئے اور ایک لشکر عظیم تیار کرلیا - ان کی کاروائیوں کا مرکز بورصہ شہر تھا -جہاں سے انھوں نے عثمان الاول کے خلاف حملے شروع کئیے - ان تاتاری افواج کو مقامی رومن امراء اور عیسائی مذہبیرومن دربار قسطنطنیہ کی مدد بھی حاصل تھی - اس عظیم تاتاری لشکر سے مقابلے کیلئے عثمان اول نے اپنے بیٹے اور خان اول کو آگے بھیجا یہ لڑائی 1315 عیسویں میں لڑی گئی - رومن ریاستوں میں بہت سے مسلمان فوجی بھی شامل تھے جنھوں نے میدان جنگ میں لڑائی کے وقت اپنی وفاداری تبدیل کرتے ہوئے خان اول کا ساتھ دیا - خونریز معرکے کے بعد دو سال بورصه شہر کا محاصرہ کئے رکھا اس طرح مسلمانوں کے لشکر نے تاتاریوں کو شکست فاش سے دوچار کیا - تاتاریوں کی طاقت کا نشہ ہرن ہوچکا تھا ، بہت سے تاتاری مارے گئے ، بہت سے جان بچا کر بھاگ نکلے - بورصہ شہر مکمل طور سے مسلمانوں کے قبضے میں تھا - عثمان اول کی فوج نے ان سے بے انتہا اچھا برتاؤ رکھا جس کے نتیجے میں بورصہ شہر کا حکم جو رومن عیسائی تھا مسلمان ہوگیا - بانی عثمانی سلطنت عثمان بن اول نے اپنی موت سے کچھ پہلےاپنے بیٹے غازی خان اول بن عثمان اول کو اپنے پاس طلب کیا غازی خان اول باپ کی خدمت میں حاضر ہوئے یہ وہی وقت تھا جب عثمان اول اپنے آخری سفر پر روانہ ہورہے تھے -عثمان اول نے غازی خان اول کو اپنا ولی عہد مقرر کیا -اور اس دنیا سے کوچ فرمایا - غازی خان اول کے ایک بڑے بھائی بھی تھے جن کی ان کی ولی عہدی پر کوئی ا عتراض نہ تھا دونوں بھایئوں نے انتہائی خوش اسلوبی سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے حکومتی معاملات چلائے - اس اتحاد کا فائدہ یہ ہوا کہ وسط ایشیا کی تمام ریاستوں پر ان ترک مجاہدوں کی دھاک بیٹھ گئی اور وسط ایشیا کی ریاستوں کو اطاعت پر مجبور کردیا - عثمانیوں نے بڑی بڑی فتوحات حاصل کیں - رومن ایمپائر سلطنت بازنطینی قسطنطنیہ ہر جگہ ان ترک عثمانیوں سے شکست کھاتی رہی -

 غازی خان اول نے 35 سال تک نہایت کامیابی کے ساتھ سلطنت چلائی اور انتقال کے بعد بورصہ شہر میں ہی مدفون ہوا - اس کے بعد1360 عیسوی میں اس کا بیٹا غازی مراد خان اول بن اور خان اول تخت نشین ہوا - یہ بھی اپنے باپ کی طرح نہایت بہادر نکلا ، اس نے سب سے پہلے انقرہ شہر کو فتح کیا اور اپنی افواج کو اورنہ شہر پر حملے کا حکم دیا - قسطنطنیہ کی رومن حکومت پہلے ہی زخم خوردہ تھی شکستوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکا ر بازنطینی حکومت نے اورنہ شہر کا قبضہ غازی مراد خان اول کے حوالے کردیا - غازی مراد خان اول نے اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اشیاۓ کوچک اور جنوبی یورپ کے بہت سے علاقے تا راج کئے بازنطینی قسطنطنیہ سلطنت سے چھڑا کر دولت عثمانی میں شامل کئے - یہاں تک کہ صرف ایک علاقہ باقی بچا تھا جو ایشیاۓ کوچک میں مسلمانوں کو دعو ت مبازرت دے رہا تھا یہ الا شہر ( فلدلفیا ) تھا - جسے مراد خان اول کے بیٹے اور جانشین بایزید خان اول نے 1391 عیسویں کو فتح کرکے اشیاۓ کوچک سے رومن ایمپائر کا نام و نشان مٹا دیا -  
غازی مراد خان اول میدان میں انتہائی بہا دری سے لڑتا اور اپنے ساتھ اپنی فوجوں کو بھی بڑھ بڑھ کر حملے کرنے ابھارتا رہتا - اس کا انتقال بھی میدان جنگ میں ہوا - 1389 عیسوی میں قوص اوہ کی جنگ میں محا ذ جنگ پر جب وہ خود ایک بلند پہاڑی سے پسپا ہوتی ہوئی دشمن کی فوج کو بھاگتا دیکھ رہا تھا ایسے میں ایک دشمن فوجی نے نہایت قریب سے زہر آلود خنجر پھینک کر غازی مراد کو گھائل کردیا - جس کی وجہہ سے چند دنوں میں آپ کا انتقال ہوگیا - غازی مراد اول نے بیس سال حکمرانی کی اور 65 سال کی عمر پائی - سلطاں غازی بایزید خان اول ( بایزید یلدرم ) غازی مراد خان اول کی وفات کے بعد غازی بایزید خان اول تخت نشین ہوا - اس نے ایک حکمت عملی کے تحت سردیائی ریاست کو داخلی آزادی اور جزوی خودمختاری دیتے ہوئے ریاست پر جزیہ مقرر کیا اور وہاں کے سا بق بادشاہ سردیا اسٹیفن کو دوبارہ حکمران مقرر کیا- مگر اس کے بدلے اس کی بہن الویرا کو اپنے نکاح میں لیکر اپنے حرم میں داخل کیا - حکمت یہ تھی کہ اسطرح بایزید یورپ کی ریشہ دوانی سے محفوظ رہے گا - جس کے بعد بایزید نے ایشیا کی جانب توجہ دی اور 1391 میں الا شہر کو فتہ کرکے رومن سلطنت کی آخری نشانی بھی چھین لی - بایزید کے نام کے ساتھ یلدرم کا لاحقہ بھی حیران کن ہے - ترکی زبان میں یلدرم کا مطلب بجلی ہے ، بایزید کی شان یہ تھی کہ وہ نہایت پھرتی اور تیزی کے ساتھ دشمن پر حملہ اور ہوتا کہ دشمن کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا - یہی وجہ تھی کہ اس کا نام بایزید یلدرم پڑ گیا - اور بایزید اپنے اصل نام کی بجائے یلدرم کے نام سے زیادہ مشھور ہوا - اس کے بعد بایزید نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا اور اس کا محاصرہ کرلیا - قریب تھا کہ قسطنطنیہ فتح ہوجاتا ، مگر تیمور لنگ نے اسی اثنا میں ایشیائے کوچک پر حملہ کرکے ترکوں کے لئے نیا محاذ کھول دیا -تیمورکا تعلق بھی ترک قبیلے برلاس سے تھا جس کا چنگیز خان کے خاندان سے قریبی تعلق تھا۔ تیمور سمرقند کا رہنے والا تھا - اپنے وقت کا عظیم جرنیل تھا -تیمور نے اپنی زندگی میں 42 ملک فتح کئے ۔ تیمور کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ایک وقت میں اپنے دونوں ہاتھوں سے کام لے سکتا تھا۔ وہ ایک ہاتھ میںتلوار اُٹھاتا تھا اور دوسرے ہاتھ میں کلہاڑا۔ تیمور لنگ کے اس بے وقت حملے نے قسطنطنیہ کی فتح کو کچھ عرصے کے لئے مؤخر کردیا - کہ قسمت میں یہی لکھا تھا - تیمور لنگ کی فوج نے شہر سیواس پر حملہ کرنے کے بعد نہ صرف بایزید کے بیٹے ارطغل کو گرفتا ر کیا بلکہ قتل کروادیا - اس کے بعد اپنی فوج کو آگے بڑھاتا ہوا انقرہ کے نزدیک پہنچ گیا - اس مقام پر اس کا مقابلہ بایزید یلدرم سے ہوا - بیٹے کے قتل کا غم اور انتقام کی آگ نے یلدرم کو آتش فشاں میں تبدیل کردیا تھا - دنیا کے دو خطرناک جرنیل ایک دوسرے کے مقابل تھے - ایک وہ تھا جس نے ایشیا کوچک میں فتح کے جھنڈے گاڑنے کا عزم کیا ہوا تھا ، دوسرا وہ جو بچپن سے ہی قسطنطنیہ کو فتح کرنے کی خواہش لئے ہوئے تھا - دونوں کے مابین خوفناک جنگ شروع ہوگئی ، بایزید نے شجاعت کے جوہر دکھائے کہ دنیا حیران ہے - شومئی قسمتکہ عین وقت لڑائی آئدین صرو خان اور کریمان کے بہت سے عیسائی سپاہی بایزید کی فوج سے نکل کر تیمور کی فوج سے جاملے اور جنگ کا پانسہ پلٹنے لگا - بایزید پر تیمور کے سپاہیوں نے رسیوں کا جال پھینکا جس میں وہ الجھ کر رہ گیا اور گرفتار ہوا - اس کا بیٹا موسی خان بھی تیموری فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوا - اس شکست کے بعد بایزید اور اس کا بیٹا موسی دونوں تیمور لنگ کی قید میں تھے - یورپی مؤرخین نے اس پر بےانتہا افسانے تراشے کہ تیمور لنگ بایزید یلدرم کو اہنی پنجرے میں قید رکھتا تھا اور اپنے ساتھ ہے جگہ لئے لئے گھومتا تھا وغیرہ وغیرہ - یہاں اس غلط فہمی کی دور ہوجانا چاہیے کہ اس طرح کا کوئی واقعہ کبھی پیش ہی نہیں آیا کہ تیمور ان قیدی باپ بیٹے کو آہنی پنجرے میں قید کرکےگھماتا پھراتا نظر آیا ہو -ہاں یہ ضرور ہوا تھا کہ ان قیدیوں کو تخت رواں یعنی پانی کی کشتی پر قید کرکےفوجی نگرانی میں سفر کیا گیا تھا - جس کو اہنی پنجرے کا نام دیدیا گیا - بایزید کا انتقال قید کے دوران ہوا ، اس وقت بایزید کی عمر 44 سال تھی - بایزید کی وصیت کے مطابق تیمور لنگ نے اس کی میت کو عزت و احترام کے ساتھ بور صہ شہر منتقل کروایا اور تدفین عمل میں لائی گئی - بایزید کا مقبرہ سلطان مراد کی قبر کے قریب ہے - بایزید یلدرم کی وفات کے بعد سلطنت عثمانیہ میں طوائف الملوکی پھیل چکی تھی جس کا تیمور لنگ نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بہت سے شہزادوں کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا حکمران بنا دیا - (جاری ہے )



Comments