"بر صغیر میں اسلامی احیاء اور آزادی کی تحا ریک: -فتح قسطنطنیہ (بلاد روم/ استنبول)--- ( نجیب ایوبی) قسط نمبر-43‎

تاریخ خلافت عثمانی -فتح قسطنطنیہ (بلاد روم/ استنبول) ( دوسرا حصہ قسط )

عثمان اول درحقیقت وہ بہت ہی اعلٰی اوصاف کے حامل تھے - وہ دن کے مجاہد اور رات کے عابد کے ساتھ ساتھ انتہائی شریف النفس، سادگی پسند، مہمان نواز، فیاض اور رحم دل انسان بھی تھے۔ ان کا دور حکومت سلطنت عثمانیہ کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا سبب بنا۔ یہ عثمان اول کی ڈالی گئی مضبوط بنیادی ہی تھیں کہ ان کے انتقال کے بعد ایک صدی کے اندر عثمانی سلطنت مشرقی بحیرہ روم اور بلقان تک پھیل چکی تھی - عثمان اول کے بعد سلطنت کی فتوحات کا یہ عظیم سلسلہ عثمان اول کے جانشینوں نے جاری رکھا- لیکن 1402ء میں تیمور لنگ نے اناطولیہ پر حملہ کر دیا اور فتوحات کا سلسلہ کچھ وقت کے لئے تھم گیا -

عثمانی سلطان بایزید یلدرم شکست کھانے کے بعد گرفتار ہو گیا- مگر عثمانیوں نے ہمت نہیں ہاری اولوالعزمی تھی کہ انہوں نے اپنی ختم ہوتی ہوئی سلطنت کو نہ صرف بحال کیا بلکہ چند ہی عشروں میں فتح قسطنطنیہ جیسی تاریخ کی عظیم ترین فتح حاصل کی۔ اس سے عثمانیوں کا وقار دنیا بھر میں بلند ہوا۔ سلطنت عثمانیہ کی دوبارہ بحالی کا سہرا بایزید یلدرم کے بیٹے محمد اول کے سر ہے جو اپنے اعلٰی اخلاق و اوصاف کے باعث ترکوں میں "محمد چلبی" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ فتح قسطنطنیہ ترکوں خصوصاً عثمانیوں کی تاریخ کا سنہرا ترین باب ہے۔عثمانیوں سے ہٹ کر امت مسلمہ کے لئے اس سے زیادہ فخر کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ نبی پاک ( ص ) کی پیشن گوئی پوری ہو چکی تھی - سلطان محمد دوئم کی قسمت کا ستارہ عروج پر تھا - فاتح کا لقب ہمیشہ کے لئے انکے نام کے ساتھ منسوب ہونا مقدر ہوچکا تھا قسطنطنیہ پر سب سے پہلا حملہ
ویسے تو قسطنطنیہ پر حملے کی منصوبہ بندی کا حکم خلیفہ حضرت عثمان ابن عفان (رضی اللہ عنہ) نے دیا تھا اور یہ تجویز حضرت معاویہ بن ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) کی تھی، مگر خلافت راشدہ کے سیاسی حالات نے کسی ایسے بڑے پیمانے پر کئے جانے والے حملے کا موقع نہ دیا۔ لیکن اب چونکہ ایک نئی خلافت قائم ہوئی تھی اور وہ اس وقت کسی بڑے مسئلےسے دوچار بھی نہ تھی- اور پھر ایسے میں اموی خلیفہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) نے حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے بیٹے حضرت عبدالرحمان ابن ابی بکر (رضی اللہ عنہ) کو (اور بعض سنی مورخوں کے مطابق اپنے بیٹے یزید بن معاویہ کو یا شاید دونوں کو) شام کے ایک بھاری فوجی دستے کا سپہ سالار مقرر کیا اور قسطنطنیہ کی جانب روانہ کیا۔ یہلشکر بحیرہ روم میں اپنے جہاز ڈال چکا تھا - نعرہ تکبیر بلند کرتے مجاہد سخت جاڑوں کے ایام میں یخ بستہ سمندروں کا سینہ چیرتے قسطنطنیہ کی جانب روانہ ہوئے -  
پہلا پڑاؤ سمیرنا میں ہوا پھر یہ لشکر کلیکیا کی جانب روانہ ہوا ۔ یہاں سے تازہ دم مزید فوجی دستے لے کر اپریل 674ء " در دانیال" پہنچے۔ بحیرہ مرمرہ کے دو اہم زاویہ نما ابھاروں کے قریب پہنچ کر اموی بیڑے رومیوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے آہستہ آہستہ یہ جنگی جہاز قسطنطنیہ کے قلعے کے "سنہرے دروازے" (گولڈن ہارن ) کے قریب آچکے تھے ۔ یہ جنگی جہاز کئی مہینوں راستے سے گزرتے بازنطینی بیڑوں اور دیگر دفاعی کشتیوں پر گولے داغتے رہے۔ قسطنطین چہارم نے حفظ ماتقدم کے طور پر پہلے سے ہی جنگ کے لئے دفاعی حکمت عملی بنا لی تھی - اس نے دو اہم اقدامات کئیے - ایک یہ کہ مسلمانوں کی اس پیش رفت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے پہلے سے ہی ایک لمبے محاصرے کے لیے دفاعی انتظامات کئے ، جن میں نہ صرف قلعے کی دیواروں اور برجوں کو مضبوط کرنا اور کئی ماہ کیلئے کھانے پینے کا سامان اکٹھا کرنا تھا- اس سے آگے بڑھتے ہوئے ایسے بحری بیڑے بھی خصوصی طور پر تیار کروائے جو نالی یا خم دار نلکی کے ذریعے آگ پھینکتے تھے، جسے یونانی آگ کا نام دیا گیا تھا ۔ اس کا موجد ایک عیسائی جس کا نام کالینیکوس تھا - یہ بعلبک (موجودہ لبنان) کے پناہ گزین خا ندان سے تعلق رکھتا تھا ۔ اس کا تاریخ میں پہلی بار استعمال، اسی جنگ میں ہوا اور اموی بیڑوں کو بہت بھاری نقصان پہنچایا
 یہ محاصرہ چھ ماہ تک جاری رہا لیکن شہر کی مظبوط فصیل صحابہ کرام اور شہر کے درمیان حائل رہی۔ چھ ماہ تک معاملات نتائج خیز نہ رہے اور سردیاں بھی قریب تھیں تو حضرت عبدالرحمان ابن ابی بکر (رضی اللہ عنہ) نے وہاں سے کوچ کیا اور سائیزیکس کو اپنا سردیوں کا قیام مرکز بنایا۔دریں اثنا، عرب افواج کو موسم سرما میں بھوک کا بھی شدید مسلہ تھا۔ اور اگلے پانچ سال ہر موسم بہار میں قسطنطنیہ پر حملے کئے اور قسطنطنیہ کے محاصرے کو جاری رکھا۔ مگر قلعے کی دیواریں بہت اونچی اور مضبوط تھیں اور ہر سال بازنطینی بحری بیڑے یونانی آگ کے ذریعے مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے جس کی وجہ سے وہ پھر بغیر حتمی نتیجے کے لوٹ جاتے۔ بالآخر 678ء میں، عربوں کو محاصرے کو ختم کرنے کے لئے مجبور کر دیا گیا اور وہ واپس چلے گئے۔ راستے میں بازنطینی رومیوں نے پھر لیکیہ میں مسلمان لشکر پر حملہ کیا اور ان کو شکست دی۔ اس طرح رومی قسطنطنیہ کو بچانے میں کامیاب رہے ناکامی کے باوجود مختلف ادوار میں کوششیں جاری رہیں۔ ( جس کی تفصیل گزشتہ قسط میں آچکی ہے ) بایزید یلدرم کے پڑ پوتے اور سلطان مراد اول 29 مئی1453ء میں 21 سالہ نوجوان سلطان محمد ثانی کی زیر قیادت اس لشکر نے محیر العقول کارنامے انجام دیتے ہوئے اس عظیم شہر کو فتح کیا اور اسے اپنا دارالحکومت بنایا۔ اس طرح محمد قیصر روم بن گیا اور یہ لقب اس کے ان ارادوں کو ظاہر کرتا تھا کہ عثمانی جلد روم پر بھی قبضہ کر لیں گے اور انہی مقاصد کے حصول کے لیے 1480ء میں عثمانی افواج جزیرہ نما اطالیہ پر اتریں اور اوٹرانٹو اور اپولیا کے شہروں پر قبضہ کر لیا لیکن 1481ء میں محمد فاتح کی وفات کے ساتھ ہی فتح اطالیہ کی مہم کا خاتمہ ہوگیا۔ فتح قسطنطنیہ (بلاد روم/ استنبول
--------- 29 مئی 1453ع مسلمانوں کی تاریخ کا روشن ترین دن جب یہ شہر مسلمانوں کے زیر نگین آیا - 54 روز کی مسلسل محاصرے کے بعد قلعے کی دیواریں ملیامیٹ ہوچکی تھیں - قلعے کی دبیز اور مضبوط دیواریں ان خندقوں کو دیکھ ہی نہیں پائیں جو راتوں رات قلعے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر چکی تھیں - پورے عالم اسلام میں خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئی، عثمانیوں کے عزت و احترم میں زبردست اضافہ ہوا اور سلطان فاتح ایک بہادر اور جہاندیدہ رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ اس جوش و خروش کی بنیادی وجہ شہر سے متعلق سرکارِ دو عالم ﷺ کی متعدد احادیث اور بشارتیں تھیں- سلطان محمد فاتح اپنے باپ سلطان مراد دوئم (عثمانی) کی وفات پر 855ھ مطابق 1451ء میں تخت سلطان پر بیٹھا۔ بچپن ہی سے سلطان محمد خاں کو قسطنطنیہ فتح کرنے کی خواہش نے مضطرب رکھا - یہ صرف اسی کی خواہش نہیں تھی بلکہ اس کے اجداد میں سے ہر ایک کا خواب تھا اور سب ہی قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے آرزو مند تھے ۔ مشہور انگریز مورخ لین پول کہتا ہے کہ ’’ترکوں کے دل میں اس عظیم شہر پر قبضہ کرنے کی خواہش اس وقت سے چٹکیاں لے رہی تھی جبکہ عثمان نے خواب میں اسے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے دیکھا تھا۔ " سلطان بایزیدیلدرم شہر کا محاصرہ کرچکا تھا - عثمانی سلطان نے فتح کی صورت میں جشن کا پروگرام بھی بنایا لیا تھا۔ گویا دوسرے لفظوں میں اولاد عثمان کی یہ خاندانی خواہش تھی جسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اس نسل کا ہرفرمانروا پوری پوری جدوجہد کرتا تھا۔ سلطان محمد فاتح نے تخت نشینی کے فوراً بعد ہی قسطنطنیہ پر حملہ کی تیاریاں شروع کردیں جس میں اسے دو سال لگ گئے - آبنائے باسفورس 6 اپریل 1453ء مطابق 26 ربیع الاول 857ھ کو اس کا محاصرہ کرلیا۔ یہ محاصرہ تقریباً 53 دن تک جاری رہا۔ اس دوران میں مسلمانوں نے شجاعت و بہادری کے خوب جوہر دکھائے- سلطان نے آبنائے باسفورس کی ایک جانب جو مشرقی علاقے میں تھا ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا - جہاں جنگی سازو سامان ذخیرہ کیا جاتا رہا - سمندر میں خلیج حائل تھی - جس میں رومیوں نے اپنی مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے عظیم آہنی زنجیر ڈال رکھی تھی - جس کو عام حالت میں ڈھیلا چھوڑ دیتے تاکہ جہاز بلا روک ٹوک آ جا سکیں - اور جب حملے کا خطرہ ہوتا تو بڑی بڑی چرخیوں کی مدد سے اس آہنی زنجیر کو کھینچ دیا جاتا - قلعے تک رسائی کی یہی صورت تھی کہ کسی طرح آہنی زنجیر سے بچ بچا کر بحری بیڑے کو خلیج سے بحفا ظت گزارا جائے - جو کہ تقریبا ناممکن تھا - قلعے پر بازنطینی افواج چوکنا تھیں ، آہنی زنجیر پر طاقتور فوجی تعینات تھے کہ جیسے ہی خطرہ محسوس کریں زنجیر کھینچ دیں - سلطاں محمد فا تح نے یہ حالات دیکھے تو اپنی افواج کو مزید تھکانا مناسب نہ سمجھا اور سب کو حالت امن میں آجانے کا مشورہ دیتے ہوئے خشکی پر آنے کا حکم دیا - افواج بحری بیڑوں سے نیچے آچکی تھیں - سلطاں نے عظیم کام یہ کیا کہ اپنے ساتھ جانوروں کی چربی کے دو جہاز بھی لیا تھا - جن میں صرف چربی اور شہتیر تھے - اب تاریخ کا حیرت انگیز کام ہونے جا رہا تھا - مشرقی زمین پر لکڑی کے شہتیر بچھائے گئے جن پر چربی کا لیپ ہوتا رہا - کئی دن یہ کام جاری رھا- خشکی کا حصہ پہاڑی تھا ، گھنا جنگل حائل تھا - مگر یہی سلطان کی حکمت عملی تھی کہ جنگل میں درخت کاٹ کر راستہ بناؤ اور دشمن سے پوشیدہ رہتے ہوئے جنگی جہاز خشکی پر کھینچ لو - تمام فوج کو حکم دیا کہ "بحری بیڑے خشکی پر تختوں پر کھینچو اور اسی طرح جنگل میں گھسیٹے ہوئے لے آؤ - یہ کام آج نہیں تو پھر کبھی نہیں ہوگا -" یہ کہہ کر اس نے فوج کو حکم دیا کہ بلا جھجک اور بناء کسی توقف کے حکم کی تعمیل کی جائے - سلطاں کا حکم ملتے ہی فوج نے چھ سے سات میل تک کا افقی پہاڑی علاقہ بحری بیڑوں کو گھسیٹتے گزارا اور رات کی تاریکی میں بارہ بحری بیڑے آہنی زنجیر کے دوسری جانب بآسانی پانی میں اتا ر دئے - صبح سویرے بازنطینی حیران تھے کہ یہ کیا جادو ہوگیا کہ زنجیر خاموش رہی اور دیو ہیکل بحری بیڑے ھمارے منہ کے سامنے آچکے ہیں ۔ آخر 29 مئی کی صبح تھی جب سلطان نے فوج کو شہر پر آخری حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اس دن تمام لشکر نے روزہ رکھا۔ اور صبح کی نماز کے بعد فتح کیلئے دعائیں مانگی گئیں۔ صبح کی سپیدی پھیلنے سے پیشتر ہی خشکی اور سمندر دونوں طرف سے قسطنطنیہ پر آخری حملہ شروع کر دیا گیا۔ حملے سے پہلے تمام رات مسلمانوں نے (مع سلطان) تسبیح و تہلیل میں گزاری۔ ایک مورخ لکھتا ہے کہ آخری حملے کی رات پوری ترک فوج اور خود سلطان معظم رات بھر عبادت کرتے رہے۔ اس دفعہ مسلمانوں کی کوشش رائیگاں نہیں گئی اور قسطنطنیہ اسی روز فتح ہوگیا۔ سلیم اور سلیمان کے ادوار میں عثمانی بحریہ دنیا کی عظیم ترین بحری قوت بنی جس نے بحیرہ روم کے بیشتر علاقوں کو فتح کیا۔ ان فتوحات میں اہم ترین کردار عثمانی امیر البحر خیر الدین پاشا باربروسا کا رہا جس نے سلیمان کے دور میں کئی شاندار عسکری فتوحات حاصل کیں۔ جس میں اسپین کے خلافتیونس اور الجزائر کی فتوحات اور سقوط غرناطہ کے بعد وہاں کے مسلمانوں اور یہودیوں کی بحفاظت عثمانی سرزمین تک منتقلی اور 1543ء میں مقدس رومی سلطنت کے خلاف نیس کی فتح قابل ذکر ہیں۔ 16 ویں صدی میں مغربی یورپی قوتوں خصوصاً پرتگیزیوں کی خلیج فارس اور بحر ہند میں بڑھتی ہوئی قوت نے عثمانی بحریہ کے لیے شدید مشکلات پیدا کیں۔ عثمانیوں کی جانب سے مشرق اور جنوب کے راستے بند کر دینے کے باعث یورپی قوتیں ایشیا کے لیے نئے راستوں کی تلاش میں نکل پڑیں۔ اور ہند و چین کے لیے نئے راستے دریافت کیے۔ (جاری ہے )





Comments