برصغیر میں اسلامی احیاء اور آزادی کی تحا ریک : خلافت عثمانی پہلی قسط: قسط نمبر-42‎




تاریخ خلافت عثمانی اور آ ل عثمان : نجیب ایوبی( پہلی قسط )
 


چنگیز خان اور اس کےخونی لشکر اپنے آبائی علاقوں یعنی صحرائے گوبی کی سرحدوں سے باہر نکلے تو ان پر ایک نئی دنیا آشکار ہوئی - چین اور منگولیا کے سب سے بڑے صحرا جس کے شمال میں کوہ التائی اور منگولیا کے لق و دق میدان مغربی جنوب میں پہاڑوں اور وادیوں کی سرزمین تبت اور مشرقی جنوب میں شمالی چین کا وسیع ترین میدانی علاقہ اور ان سب پر مشتمل ایشیا کا سب سے بڑا صحرا " صحرائے گوبی "- انسانی سروں کی فصل کاٹنے والے چنگیزی لشکر میدانی اور صحرائی علاقوں میں انسانی زندگی کے کشت و خون سے دل بھر جانے کے بعد متمدن دنیا کی تلاش میں خوارزم اور ایرانی علاقوں کی طرف بڑھے جہاں ان کا پہلا نشانہ بننے والے ترک قبائل تھے جو ترکستان ،خوارزم خراسان اور فارس کی سرزمین پر پھیلے ہوئے تھے - محنت کش ، نڈر اور جری قوم کی صورت میں ایک بہت بڑا علاقہ ان ہی کے قبائل میں تقسیم تھا - صحرائے گوبی جو کہ ہمیشہ ہی سے منگول سلطنت کا حصّہ رہا ہے - تاتاری منگولوں کے ایک قدیم قبلیے " تاتا منگو " کی نسبت سے تاتاری کہلاتے ہیں بعد میں تمام منگول جن میں چنگیز خان کا قبیلہ بھی شامل تھا تا تا ری کہلائے جانے لگے
 علاقوں کو فتح کرنے اور لوٹ مار کا جنون تاتاریوں کو ترکستان کھینچ لایا - تہذیب و تمدن سے عاری یہ تاتاری خانہ بدوش قبیلے مختلف علاقوں میں بھٹکتے رہتے تھے - ان کا مال و اثاثہ مویشی بار بردار جانور ہوتے تھے جن کو ریوڑ کی شکل میں لے کر موسم کے اعتبار سے کبھی پہاڑوں پر لے جاتے اور سخت سرد موسم میں میدا نی علاقوں میں لے آتے - ان تاتاریوں کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہ تھا - 1219 میں یہ تاتاری ترکستان کو روندتے اور سروں کے مینار کھڑے کرتے ہوئے ایشا ئے کوچک تک آگئے - سلطان شمس الدین التمش کے زمانے میں جبکہ تاتاریوں نے چنگیز خان کی قیادت میں سارے ایشیا میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ جلال الدین خوارزم کے تعاقب میں یہ تاتاری منگول افغانستان کو تباہ و برباد کرتے ہوئے پشاور تک پہنچ گئے۔
 جلال الدین سلطنت خوارزم کا بادشاہ تھا۔ جو تاتاریوں کے حملے کے وقت جان بچا کر سندھ کی جانب نکل گیا تھا ۔ چنگیز خان کی افواج اس کا پیچھا کرتے کرتے دریائے سندھ تک پہنچ چکی تھی - جلال الدین خوارزم شاہ کے پیچھے اس کے خون کے پیا سوں کی فوج تھی ، سامنے وسیع ترین بپھرے ہوئے دریا کا چوڑا پاٹ تھا - خوارزم شاہ نے اپنے سواروں کو حکم دیا کہ گھوڑوں کو دریا میں ڈال دو ہم دریا کا سینہ چیر کر دوسرے کنارے جا پہنچیں گے - سالار کا حکم ملتے ہی لشکر نے اپنے گھوڑوں کو دریا میں اتار دیا - پلک جھپکتے ہی سینکڑوں گھوڑے مع سواروں کے دریا میں اتر چکے تھے - پیچھے دریا پر چنگیزی فوجیں ان بہادروں کو دیکھ رہی تھیں جو اپنے سپہ سالار کے حکم پر دریا میں اتر چکے تھے - بہت دیر بعد دریا کے دوسرے کنارے پر زندہ پہنچنے والے محض سات سوار تھے جن کی قیادت جلال الدین خرزم شاہ کرر ہا تھا - چنگیزی لشکر حسرت کے ساتھ ان سواروں کو دیکھتا ہی رہ گیا اور اس کے ساتھ منگولوں کی فوج بھی واپس چلی گئی۔ ترکستان کا ایک عسکری قبیلہ جو نسلا ترک ارطغل تھا اس نے ایشیا ئے کوچک میں اپنا ٹھکانہ کیا
 وسط ایشیا اور ایران میں ایک سنی مسلم بادشاہت تھی جو پہلے سلجوقی سلطنت کے ماتحت تھی - یہ ترک ارطغل جب ہجرت کرکے یہاں پہنچے تو دیکھا کہ دو لشکروں کے درمیان خونی معرکہ درپیش ہے - ایک لشکر تعداد میں بہت زیادہ ہے اور دوسرا بہت مختصر - اپنی فطری بہادری اور نرمم مزاجی کے سبب انہوں نے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر تماشہ دیکھنے کے بجائے کم تعداد والے لشکر کی مدد کا فیصلہ کیا اور میدان جنگ میں کود پڑے - شکست کے قریب پہنچنے والے مختصر لشکر کو جب بیرونی غیبی امداد ملی تو ان کے حوصلے آسمان کو چھونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے میدان جنگ کا نقشہ پلٹنے لگا - اب کامیابی اس لشکر کے حصے میں آئی جو مختصر تھا - کامیاب ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ جو لشکر جیتا ہے وہ درحقیقت سلاجقہ روم کا لشکر تھا جو عیسایوں سے برسر پیکار تھا - سلجوقی سلطان نے اس کی بہادری اور شجاعت کو سراہتے ہوئے حسب مرتبہ سرحدی علاقوں پر مشتمل بہت بڑی جاگیر عطا کی - 1281ء میں ارطغرل کی وفات کے بعد اس جاگیر کی سربراہی عثمان اول کے ہاتھ میں آئی جنہوں نے 1299ء میں سلجوقی سلطنت سے خودمختاری کا اعلان کر کے عثمانی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔
 عثمان اول نے اس چھوٹی سی سلطنت کی سرحدیں بازنطینی سلطنت کی سرحدوں تک پھیلا دیں اور فتح کے بعد بروصہ کو دارالحکومت کا درجہ دیا - یہ شمال مغربی ترکی کا شہر ہے اور اسی نامم سے صوبہ بروصہ کا اہم ترین شہر ہے - اس ابتداء کے ساتھ ہی عثمانی سلطنت نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اور جغرا فیائی اعتبار سے یورپ کے سنگم پر ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھا یا- ان کی فتوحات یورپ کے اندر پھیلتی تھیں - یہاں تک کہ 1453 عیسویں میں عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطینہ پر اسلام کا جھنڈا گاڑ دیا اور اسطرح حضور نبی کریم ( ص ) کی خوشخبری کو عملی جامہ پہنایا جس کے مطابق آپ نے فرمایا تھا کہ " ایک دن آئے گا جب مسلمان قسطنطینہ کو اپنے زیر نگیں کر لیں " گے - آبنائے باسفورس کے دائیں بائیں کنارے - ایشیا اور یورپ کا سنگم پر قسطنطینہ کا یہ قدیم شہر 600 B C قبل مسیح میں یونا نیوں نے آباد کیا اس کا قدیم نام BYZANTIUM رکھا - بازنطین یونانیوں کی بازنطین سلطنت کا قدیم ترین شہر جس کو مذہبی مقام بھی حاصل تھا ۔ چوتھی صدی عیسوی میں سلطنت روم دو حصوں ، مغربی اور مشرقی میں تقسیم ہوگئی۔ مشرقی حصہ اپنے دارالحکومت بازنطین کے نام پر بازنطینی سلطنت کہلایا جانے لگا ۔ ایرانیوں اور پھر سکندر اعظم کے ہا تھوں اجڑتا تاراج ہوتا یہ قدیم شہر بالآخر رومن امپائر ( سلطنت ) کا حصّہ بنا 330ء میں بازنطینی رومن شہنشاہ قسطنطین نے بازنطیم کا نام اپنے نام سے منسوب کرتے ہوئے قسطنطنیہ رکھ دیا -اور مشرقی رومن ایمپائر کا دارلحکومت قرار دے دیا - رومن شہنشاہ نے عیسائیت کو سرکاری مذھب کا درجہ دیتے ہوئے دیگر مذاہب کے ماننے والوں پر زندگی تنگ کردی - اس بازنطینی سلطنت میں شام ، ایشیائے کوچک ، مصر ، تھریس اوریونان کے ممالک شامل تھے۔ پانچویں صدی عیسوی میں بلقان کے سلاؤ قبائل اور جرمنی کے ونڈال قوموں نے قسطنطنیہ پر کئی حملے کیے- ساتویں صدی میں یہ بازنطینی سلطنت زوال کا شکار ہوئی اور شمالی اطالیہ کے میدان لمبارڈی میں بسنے والوں ، ایرانیوں اور عربوں نے اس پر پے درپے حملے کیے جس کے باعث یہاں طوائف الملوکی اور انتشار کا دور دورہ رہا۔ ساتویں صدی کے اختتام پر شمالی افریقہ ، مصر، شام ، فلسطین اور قبرص وغیرہ عربوں نے فتح کرلیے اور پھر بازنطینی سلطنت حقیقت میں صرف یونانی سلطنت بن کر رہ گئی۔ آخر 1453ء میں سلطنت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان محمد فاتح کی افواج نے قسطنطنیہ فتح کرلیا اور آخری بازنطینی بادشاہ قسطنطین یاز دہم مارا گیا۔ فتح قسطنطنیہ سے زمانہ وسطی کا خاتمہ اور یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا۔ فا تح قسطنطنیہ محمد ثانی محمد ثانی 1444ء سے 1446ء اور 1451ء سے 1481ء تک سلطنت عثمانیہ کے سلطان رہے۔ محض 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ فتح کرکے بازنطینی سلطنت ( رومن ایمپائر )کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا۔ سلطان محمد فا تح نے بازنطینی سلطنت کا ہزار سالہ غرور خاک میں ملا یا - اسی قسطنطنیہ قلعے کی فصیل کے نیچے صحابی رسول میزبان رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہکا مقبرہ موجود ہے جس پر اب تک سبز ہلالی پرچم لہرارہا ہے - سلطان محمد فاتح نے اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اینز، گلاتا اور کیفے کے علاقے فتح کرکے عثمانی سلطنت میں شامل کئے جبکہ محاصرہ بلغراد میں بھی حصہ لیا جہاں وہ شدید زخمی ہوئے۔ 1458ء میں انہوں نے موریا کا بیشتر حصہ اور ایک سال بعد سربیا فتح کرلیا۔ 1461ء میں اماسرا اور اسفندیار عثمانی سلطنت میں شامل ہوئے انہوں نے یونانی سلطنت طربزون کا خاتمہ کیا اور 1462ء میں رومانیہ، یائچی اور مدیلی بھی سلطنت میں شامل کرلئے۔ سلطان محمد فاتح اپنی فتوحات کو وسعت دیتے ہوئے یورپ کے قلب تک جا پہنچے تھے - حضور نبی پاک کی پیش گوئی کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے اس قسطنطنیہ شہر کے کم و بیش 24 مرتبہ محاصرے ہوئے - پہلی مرتبہ کامیابی عیسائیوں کو ملی جب 1204 عیسویں میں چوتھی صلیبی جنگ کے دوران یورپ کے عیسائیوں نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور دوسری مرتبہ 1453ء میں اس وقت جب سلطان محمد فاتح کی زیر قیادت عثمانی افواج نے اسے فتح کیا۔ مسلمانوں نے اس شہر کا پہلا محاصرہ 674ء میں اموی خلیفہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) کے دور میں کیا۔ جبکہ دوسری مرتبہ محاصرہ اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے دور میں 717ء میں کیا گیا جس کی قیادت خلیفہ کے بھائی مسلمہ بن عبدالملک نے کی۔ اس ناکام محاصرے کو عیسائی مشہور جنگ بلاط الشہداء کی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں ناکامی کے باعث اگلے 700 سال تک یورپ میں مسلمانوں کی پیش قدمی رکی رہی اور بنو امیہ کی فتوحات کو بھی زبردست دھچکا پہنچا۔ محاصرے کے دوران ہی سلیمان بن عبدالملک وفات پا گئے اور ان کے بعد عمر بن عبدالعزیز نے تخت سنبھالا اور ان کے ہی حکم پر شہر کا محاصرہ اٹھا لیا گیا۔ اس محاصرے میں مسلمانوں نے کمزور حکمت عملی کے سبب زبردست جانی نقصان اٹھا یا - جبکہ عثمانی حکمرانوں نے بھی تین مرتبہ محاصرہ کیا - جن میں پہلا محاصرہ 1396ء میں کیا گیا جو سلطان بایزید یلدرم کی قیادت میں ہوا تاہم تیموری حکمران امیر تیمور بیگ گورکانی، صاحب قرن کی سلطنت عثمانیہ کے مشرقی حصوں پر حملوں کے باعث بایزید کو یہ محاصرہ اٹھانا پڑا۔ دوسرا محاصرہ 1422ء میں عثمانی سلطان مراد ثانی نے کیا تاہم بازنطینی شہر کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔ 1453ء میں شہر کا آخری محاصرہ سلطان محمد فاتح نے کیا جس میں مسلمانوں نے محیر العقل کارنامہ انجام دیتے ہوئے شہر کو فتح کرلیا۔ محمد فاتح کے دور میں عثمانی سلطنت کا رقبہ کافی وسیع ہوا۔اسلام اور عثمانی خلافت کے یہ عظیم قائد، سپہ سالار سلطان محمد فاتح 3 مئی 1481ء کو انتقال کرگئے ۔ ان کا مزار استنبول میں فاتح مسجد کے برابر میں ہے۔ آبنائے باسفورس پر قائم کیا جانے والا دوسرے پل کو انہی کے نام پر "سلطان محمد فاتح پل" کا نام دیا گیا ہے۔

جاری  ہے



Comments