( بادشاہ رنگون میں اور علماء کالا پانی میں )-بر صغیر میں اسلامی احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی)‎ قسط نمبر 23‎


یہاں یہ بتا نا ضروری ہے کہ یہ جنگ آزادی جس کی ابتدا ١١ مئی ١٨٥٧ بروز پیر کو ہوئی ، اس کے بعد چار مہینے چار دن انگریز فوج کو دلی سے باہر بھاگنا پڑا - چودہ ستمبر ١٨٥٧ کو انگریز دوبارہ دلی میں داخل ہوا چار دن کی شدید مزاحمت اور لڑائی کے بعد ١٨ ستمبر ١٨٥٧ میں دلی مکمل طور پر انگریزوں کے قبضے میں آگیا - قبضے کے چار ماہ بعد بہادر شاہ محمد ظفر پر ٢٧ جنوری ١٩٥٨ میں عدالت کے روبرو پیش ٢١ دن مقدمے کی کاروائی چلائی گئی اور بلآخر مقدمے کا مختصر فیصلہ آگیا جس میں بہادر شاہ ظفر پر تمام الزامات ثابت ہو گئے اور انہیں موت کی سزا سنائی گئی - جسے بعد ازاں عمر قید میں تبدیل کردیا گیا - انگریز کوبخوبی احساس تھا کہ جس طرح ١٨٥٧ میں باغی سپاہیوں نے علامتی طور پر بادشاہ کو قائد منتخب کرلیا تھا ،کہیں ایسا نہ ہو دوبارہ کسی مزاحمتی تحریک کے نتیجے میں بادشاہ کو استمعال کریں - لہٰذا فیصلہ کیا گیا کہ ان کو ہندوستان کے سیاسی مرکز دہلی سے دور کردیا جائے - چنانچہ سیاسی مرکز دلی سے برما ( میانمار )کی راجدھانی رنگون ( ینگون ) منتقل یا یوں کہئے کہ جلا وطن کردیا گیا - بادشاہ اپنی ملکہ ، شہزادے جوان بخت اور شہزادی کے ہمراہ پانی کے جہاز پر پابجولاں رنگو پہنچا دیئے گئے ، جہاں انگریز پلاٹون کے ایک افسر کے بنگلے میں کاٹھ کباڑ رکھنے کی جگہ جسے کبھی گیراج کے طور پر استمعال کیا جاتا تھا بطور سرکاری قیدی رکھا گیا - جہاں ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے - ٨٢ سالہ بوڑھے قیدی بہادر شاہ ظفر سے خائف انگریز نے اس گیراج میں کاغذ قلم دوات سمیت ہر اس چیز پر پابندی لگائی جس کی مدد سے کسی بھی نوعیت کے خیالات کو قرطاس پر منتقل کیا جاسکتا - اس کسمپرسی اور نا مساعد حالا ت میں بھی خیالات پر پہرہ نہیں لگایا جا سکا - بہادر شاہ ظفر نے گیرج کی دیواروں کو ہی غنیمت جانا اور اپنا کلام لکھنا شروع کیا - آپ کی مشہور غزل کوئلے کی مدد سے اسی دیوار پر ملی -

پڑھے فاتحہ کوئی آئے کیوں کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
                             کوئی آکے شمع جلائے کیوں وہ بے کسی کا مزار ہوں
کہنے کو تو انگریز نے بوڑھے قیدی کو ایک ڈاکٹر بھی دیا گیا تھا جو گاہے بگاہے ان کا میڈیکل چیک اپ کرنے پر مامور تھا - مگر جلاوطنی کے چار سالوں میں مرنے تک یہ ڈاکٹر صرف پانچ یا چھ مرتبہ ہی حاضر رہا - بالآخر مغلیہ سلطنت کا آخری چشم و چراغ بے بسی ، کسم پرسی اور جلاوطنی کی حالت میں رنگون میں 6،نومبر 1862 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے - آج بھی ہندوستان کی سرزمین پر بادشاہ کی ایک نشانی شہزادی سلطانہ کی صورت میں زندہ ہے ، جو کلکتہ میں دو کمروں کی ایک کٹیا میں بہادر شاہ ظفر کی چند تصاویر کو دیوار پر آویزاں کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے - سنا ہے کہ اس شہزادی کو ساٹھ پونڈ ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے - بادشاہ کا لال قلعہ اور ایک مسجد اب بھی موجود ہے جو محکمہ آثار قدیمہ کے قبضے میں ہے مقدمے کی تمام تر روداد پڑھنے کے بعد ہر پڑھنے والا اندازہ لگا سکتا ہے کہ کس قدر ظالمانہ انداز سے کاروائی کو نمٹایا گیا - محض دو کاغذی گواہوں جن میں ایک روزنامچہ نویس مکند چند لال اور دوسرا بادشاہ کے حرم کا خواجہ سرا ملازم جو دوران گواہی بادشاہ سے نظر بھی نہیں ملا پارہے تھے - مکند چند لال کی گواہی تو ثابت ہی نہیں ہوئی کہ انگریز سپاہیوں کے قتل کا حکم بادشاہ نے دیا - ان سب کے باوجود بادشاہ کو ملزم قرار دلو اکر سزا سنائی گئی- ( آج کے حالات میں اچھی طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انگریز کی اب بھی وہی روش ہے جو اس وقت تھی - ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا معاملہ ہو یا کسی اور مسلم رہنما کا ، ہر معاملے میں پہلے سے طے شدہ فیصلوں کا رسمی اعلان کیا جاتا ہے ) انگریز نے دلی پر دوبارہ قبضے کے بعد ایک ہی دن میں 24 شہزادوں کو سولی پر چڑھایا - 4ہزار انگریزوں کے قتل کا بدلہ 12 لاکھ ہندوستا نیوں کا خون بہا کر لیا گیا - یہی نہیں بلکہ اس کے بعد بھی قتل عام کا یہ سلسلہ جاری رہا اب نشانہ خاص طور پر وہ طبقہ تھا جن کو آج کی جدید اصطلاح میں شدت پسند یا جہادی کہا جاتا ہے - ڈھونڈھ ڈھونڈ کر ان افراد کو گرفتار کیا جانے لگا جن پر مولوی اور وہابی ہونے کا شبہہ ہوتا - " وہابی " کا شوشہ بھی انگریز کا چھوڑا ہوا تھا جس کی آڑ لیکر ممکنہ طور پر آنے والے دنوں میں جہادی مولوی اور علماء حضرات کا ناطقہ بند کیا جاسکے - سید احمد شہید کی تحریک مجاہدین میں دیوبند اور اہل حدیث مکتبہ فکر ایک ہی جھنڈے تلے جہاد کرتے نظر آتے ہیں - لیکن اس تحریک کے ختم ہوجانے یا مدھم ہوجانے کے ساتھ ہی بریلوی مکتبہ فکر کو سرکاری ( کپمنی ) کی پشت پناہی میں آگے بڑھایا گیا - اس مکتبہ فکر نے انگریز کی حکومت کو جائز قرار دینے کے علاوہ دیگر تمام علماء کرام کو وہابی اور دین اسلام سے خارج قرار دینے کا محاذ سنبھال لیا - دلی پر انگریز کے دوبارہ قبضے کے بعد سب سے زیادہ عتاب میں آنے والے مولوی ہی تھے - تفصیلات تو بہت اندوہناک ہیں اختصار کے ساتھ صرف ایک حوالہ دے رہا ہوں کہ مغل بادشاہوں نے نے جن کو مہمان سمجھ کر اپنے ملک میں تجارت کا اجازت نامہ دیا تھا اس مہمان نے کی سلوک کیا ،اس کی جھلک مدراس ہائی کورٹ کے انگرز جج کے ان خیالات سے ملتی ہے " ہم نے ہندوستانیوں کی ذاتوں کو تقسیم کیا -ان کے قانون وراثت کو منسوخ کیا شادی بیاہ کے قیدوں کو بدل دیا ،عبادت خانوں کی جاگیریں ضبط کر لیں - سرکاری کاغذات میں انہیں کافر لکھا -امراء کی ریاستیں ضبط کیں ، لوٹ کھسوٹ کر ملک کو تباہ کیا ، سب سے اونچے خاندانوں کو برباد کرکے انہیں آوارہ بنادیا " ہولناک سزاؤں کا ایک منظر یہ بھی تھا کہ پہلے ہلے میں ہزار لوگوں کو پھانسی دی گئی ، ٢٨ ہزار مسلمان قتل کے گئے - زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سلوا کر پکتے ہوئے تیل کی کڑ ھائی میں ڈلوایا گیا - شاہجہانی مسجد کے احاطے میں گھوڑے باندھے گئے - وضو کے حوض کو لید سے بھر دیا گیا - فتح پوری مسجد سے لال قلعہ تک درختوں پر علماء کی لاشیں جھولتی نظر آتیں - توپ کے منہ پر باندھ کر گولہ داغ دیا جاتا جس سے ان کے جسموں کے چیتھڑے فضا میں بکھر جاتے دلی سے بنگال تک علما کے ساتھ ایک ہی قسم کا معاملہ رہا - مراد آباد کے ایک مجاہد رہنما نواب مجید الدین عرف مجو میاں کو پیر میں گولی ما ری گئی پھر زخمی مجو میاں کو زندہ حالت میں چونے کی بھٹی میں پھینک دیا گیا ، پانی ، جب ابلنے لگا تو لوہے کےچمٹے سے مجو میاں کا ہاتھ باہر نکا ل کر چیک کیا ، مجو میاں زندہ تھا ، پر سسک رہا تھا ، اس کے جسم کو زندہ ہی باہر نکال کر ہاتھ پاوں بندھے گئے اور گلیوں میں گھسیٹا گیا - بالآخر جب وہ مر گیا تو اس کی لاش وہیں سڑک کنارے پھینک دی گئی - مولانا فضل حق خیر آبادی جنھوں نے انگریز کے خلاف جہاد کا فتوی دیا تھا ،مولانا فضل حق دہلی کے ہنگاموں تو بچ گئے تھے ، مگر مخبری کے نتیجے میں گرفتار ہوگئے - ١٩٥٩ میں مقدمہ چلا اور کالے پانی کی سزا ہوئی - انڈمان کی اسیری میں ہی انتقال فرمایا - مولانا کے فتوے سے متعلق خو رشید احمد رضوی لکھتے ہیں " علماء نے جس جس طرح بغاوت کو منظم کیا ، اس کو مفصل بیان کرنے کو تو ایک کتاب چاہیے ، مختصرا یہ کہ ان کی تحریر و تقریر کا بہت اثر ہوتا تھا ، چناچہ دہلی میں جنرل بخت خان کی تحریک پر مولانا فضل حق خیر آبادی اور دوسرے علماء نے جو جہاد کا فتوی دیا اس سے مذہبی جوش و خروش بہت بڑھ گیا تھا -" مورخ غلام رسول مہر لکھتے ہیں کہ " مولانا ( فضل حق ) کے دہلی پہنچنے سے پیشر ہی لوگوں نے جہاد کا پرچم بلند کر رکھا تھا - مولانا پہنچے تو لوگوں کو منظم کرنے کی غرض سے باقاعدہ ایک فتوی مرتب ہوا ، جس پر علمائے دہلی کے دستخط لئے گئے - میرا خیال ہے کہ یہ فتوی مولانا فضل حق ہی کے مشورے سے مرتب ہوا تھا اور انھوں نے ہی علماء کے نام تجویز کے جن کے دستخط لئے گئے " مولانا گنگوہی گرفتار ہوئے مظفر نگر جیل میں رہے پھانسی کا حکم ہوا - مگر کوئی غیبی مدد آگئی پھانسی اور جیل دونوں سے آزاد ہوگئے - شیخ الہند مولانا محمود حسن پر ایسے ایسے مظالم توڑے گئے کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے - ضعف، کمزوری ،بیماری ناتوانی میں لاکھوں میل دور جزیرہ مالٹا میں تین سال کی مشقت کی قید گزاری - وہیں انتقال ہوا - لاش کو کفناتے وقت جب غسل دیا گیا تو پتہ چلا کہ جسم ہڈیوں کا ہار بن چکا تھا - کھال جگہ جگہ سے جلی ہوئی تھی- قصہ یہ تھا کہ جیل میں انگریز افسر لوہے کی گرم سلاخ ہر روز رات کمر پر لگاتا کہ کھال جل کر رہ جاتی - انگریز افسر کا اصرار یہ ہوتا کہ " مولوی - انگریز کے حق میں فتویٰ دو " مولانا کو جب ہوش آتا آپ یہی کہتے " میں بلال کا وارث ہوں میرا جسم پگھل سکتا ہے مگر انگریز کے حق میں فتوی نہیں دونگا " انگریز مصنف ٹا مسن کا بیان ہے کہ دلی کے چاندنی چوک سے لیکر پشاور تک درختوں پر علماء کے جسم لٹکتے نظر آتے - روزانہ تقریبا اسی عالم پھانسی پر لٹکائے جاتے - یہی ٹامسن ایک جگہ لکھتا ہے کہ ایک مرتبہ میں خیمے میں تھا کہ کچھ جلنے کی بدبو آیی ، نکل کر دیکھا تو کمپاونڈ میں آگ پر علماء کو جلایا جارہا ہے ، تعداد گنی ، چالیس تھے -ان کو ننگا کرکے لٹیا جاتا اور کھا جاتا کہ انگریز کی حمایت کا علان ،چھوڑ دیں گے . علما ایک ایک کرکے جلتے رہجے مگر کسی نے بھی حمایت کا اعلان نہیں کیا - اس مقام پر یہ بتا چلوں کہ کالا پانی نامی جزیرے کو تاریخ میں جو اہمیت حاصل ہوئی شاید اس سے پہلے کسی اور عقوبت خانے کو حاصل نہیں تھی - اردو ادب کے افسانوں اور مضامین میں بھی اس پر بہت تفصیل سے لکھا جاچکا ہے - سلیم شہزاد اپنے ا افسانے ”سفید رنگت کا کالاپانی " میں ایک سچا واقعہ لکھتے ہیں " کہ ایک بہت بڑے عالم دین اور مجاہد کو جب کالے پانی کی سزا ہوئی تو جیلر نے دیکھا کہ تمام تر ظلم و ستم کے باوجود اس شخص کے چہرے پر کسی طرح کی کوئی پریشانی نہیں دکھائی دیتی۔ تو اس نے اس کے مذہبی جذبات سے کھیلنا شروع کیا اس کی داڑھی منڈوا دی ۔ مگر پھر بھی وہ مطمئن دکھائی دیتا تھا حالانکہ اسے کھانے کیلئے صرف ایک وقت گھاس ابال کر دی جاتی تھی اور بھاری آہنی زنجیریں پہنا کر اس سے دن بھر انتہائی سخت مشقت لی جاتی تھی۔جیلر نے ایک دن ایک فاحشہ عورت کو بلا کرنیم برہنہ حالت میں اس کے ساتھ اس کی کوٹھڑی میں بند کردیا مگر جب جیلر کو ایک سپاہی نے آکر بتایا کہ وہ عورت تو اس کوٹھری میں نماز پڑھ رہی ہے تو اس نے دونوں کو قتل کرادیا۔" کا لے پانی کے حوالے سے ایک اور افسانہ جو شہزاد خلیق نے لکھا تھا جس کا عنوان” 87ویں پھانسی “تھا ۔یہ اس واقعہ کے پس منظر میں لکھا گیا تھاجب کالے پانی سے 238قیدیوں نے فرار ہونے کی کوشش کی تھی جنہیں دوبارہ ایک ماہ کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا ان میں سے ایک قیدی سانپ کے کانٹے کی وجہ سے ہلاک ہو گیا تھا ایک قیدی نے گرفتار ہوتے ہوئے خودکشی کر لی تھی اور باقی قیدیوں میں سے وہاں کے انچارج نے 87 قیدیوں کو پھانسی دلوادی تھی۔ (جاری ہے )


Comments