بر صغیر میں اسلامی احیاء اور آزادی کی تحا ریک ( مقدمے کی کاروائی -دوسرا حصہ ) " فساد کی جڑ - مسلمان " ( نجیب ایوبی)‎ قسط نمبر ‎21‎


 1857 کی جنگ آزادی گزشتہ قسطوں کا خلاصہ

 ( مقدمے کی کاروائی -دوسرا حصہ ) " فساد کی جڑ - مسلمان "
برصغیر میں مجدد الف ثانی رح نے مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور میں گم شدہ اسلام اور اسلای تعلیمات کو ازسر نو زندہ کیا - اکبر کے بعد اس کا پڑ پوتا اورنگزیب عالمگیر تخت نشین ہوا اورنگزیب عالمگیر کے پچاس سالہ دور اقتدار میں اسلام کی نشاط ثانیہ کا عمل بہت تیز ہوا ، اورنگزیب عالمگیر کے انتقال کے بعد مخلوط ہندو تہذیب کے اثرات نے اپنا سر اٹھانا شروع کردیا - اس یلغار کو شاہ ولی الله نے اپنی اصلاحی دعوت اور لٹریچر کی بدولت روکا سولہویں صدی کے آغاز پر ہی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں تجارت کی غرض سے قدم رکھا ، بنگال میں ، کلکتہ اور دیگر علاقوں پر اپنا قبضہ جمانے کی کوششیں شروع کردیں ، سترھویں صدی کی ابتدا میں شاہ ولی الله کے خانوادے سے شاہ عبدا لعزیز کی شکل میں عظیم رہنما سامنے آئے ، جن کے مکتب سے دو عظیم مجاہدین شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید نے اصلاح کا بیڑا اٹھایا- بنگال میں نواب سراج الدولہ نے اور میسور میں سلطان ٹیپو نے بھرپور مزاحمت کی ، مگر میر جعفر اور میر صادق کی سازشوں کی بدولت جنگ پلاسی میں سراج الدولہاور میسور میں سلطان ٹیپو کو شکست ہوئی - اٹھارویں صدی میں سید احمد شید اور شاہ اسماعیل شہید نے مرہٹہ حکمرانوں کے خلاف جدوجہد شروع کی ، اور باقاعدہ فوج ترتیب دے کر جہاد کا آغاز کیا - سکھ راجہ رنجیت سنگھ ان کے مقابلے پر آیا - یہ مجاھدین ہندوستان کے مخلتف علاقوں سے جمع ہوئے ، سرحد میں جا کر جہاد کا آغا ز کیا - ابتدائی معرکوں میں کامیابی ہوئی اور بالا کوٹ کے آخری معرکے میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید ھوئے - تحریک مجاہدین کسی نہ کسی طرح جاری رہی تا ھم اس کا زور ٹوٹ چکا تھا - 1857 میں انگریز فوج میں سور کی چربی والے کارتوسوں کے خلاف اور تنخواہوں میں اضافے کے لئے دیسی سپاہی انگریز فوج کے خلاف ہوگئے - اور ملک بھر بھی انگریز کے خلاف بغا وت پھوٹ پڑی - باغی سپاہی دلی آگئے اور بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو اپنا رہنما بنا لیا - جنرل بخت خان ، فیروز شاہ دلی میں ، جھانسی میں رانی لکشمی بائی ، کانپور میں تا نیتا توپی ، اودھ میں بیگم حضرت محل سب نے بغاوت کا علم بلند کردیا - ساڑھے چار ماہ یہ کشمکش جاری رہی ، لکشمی بائی ما ری گئی - حضرت محل نے نیپال میں پناہ لی - انگریز اب دلی پر حملہ کرچکا تھا - ستمبر کے درمیانی ہفتوں میں قلعہ کا محاصرہ کرلیا گیا - مرزا الہی بخش کی مخبری اور ورغلانے پر بہادر شاہ ظفر کو ہمایوں کے مقبرے میں پناہ لینی پڑی - ہڈسن نے بادشاہ کو گرفتار کرلیا - شاہی گرفتارشدگان میں شہزادے بھی شامل تھے - تین شہزادوں کو برہنہ کرکے قتل کردیا گیا اور ان کی لاشیں واسطے عبرت کے کوتوالی کے آگے لٹکادی گئیں - بعد میں ان شہزادوں کے سر تن سے جدا کرکے بادشاہ کے سامنے لائے گئے - بہادر شاہ ظفر کو ان کی بیگم سمیت ایک کال کوٹھری میں منتقل کردیا گیا - جس کے بعد دلی کی تباہی و بربادی کی المناک داستان رقم ہونا شر وع ہوئی- انگریز بادشاہ کے خلاف مقدمہ تیار کرچکا تھا - اس موقع پر انگریز نے اس آزادی کی جدوجہد کو بدنام کرنے کیلئے لوگوں میں سے کچھ کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا تاکہ وہ اس تحریک آزادی کو ہنگامہ اور غدر ثابت کرسکیں اور یوں انگریز باوجود ظلم کرنے کےپوتر,بیگناہ ثابت ہو سکے - اور ایسا ہی ہوا - آزادی کی اس تحریک کو غدر اور ہنگامہ تعبیر کیا گیا - انگریز فوج بدمست ہاتھی کی مانند ہندوستان میں قتل عام کرتی پھرتی تھی - پھانسیوں اور سزاؤں کا ایک سلسلہ تھا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا - افراتفری کے عالم میں جس کا جدھر منہ اٹھا نکل کھڑا ہوا - اردو کے مایہ ناز شاعر مرزا غالب نے اپنے خطوط میں دلی کی تباہی کا بھرپور نقشہ کھینچا ہے - بالاخر ستائیس جنوری کو بادشاہ کو عدالت میں پیش کیا گیا - یہ کا روائی ٢١ دن جاری رہی -ایف جے ہیرٹ وکیل سرکار تھا جبکہ بادشاہ کی جانب سے غلام عباس وکیل صفائی مقرر ہوئے -
حکیم احسن اللہ کو جب بطور گواہ عدالت میں پیش کیا گیا ،( یہ حکیم احسن اللہ وہی تھے جو بادشاہ کا کلام خوش خطی کی غرض سے اپنے پاس لے جاتے - فسادات کے بعد بہادر شاہ ظفر کا بیشتر کلام ان کے ہاں سے غائب ہوگیا - جو آج تک نہیں مل سکا ) حکیم احسن اللہ نے بطور گواہ بیان دیا کہ بادشاہ انگریز حکا م کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے -لارڈ ایلن برا نے جس وقت بادشاہ کو نظر بند کیا تو بادشاہ برہم تھا - اور جب مرزا فتح الملک کی جگہ شہزادہ جواں بخت کو ولی عہد بنانے سے انگریز کی طرف سے انکار ہوا تب تو برہمی بہت بڑھ گئی تھی - اس نے یہ بھی بتایا کہ لکھنو کے شہزادے جب دلی آئے تب انگریز سرکار کے خلاف کاروائی کا بھی منصوبہ بنایا گیا تھا - تاہم یہ سچ ضرور منہ سے نکل گیا کہ بادشاہ نے انگریز فوج کے بچوں ،اور اہل خانہ کی مدد کیلئے توپ خا نه، سپاہی اور عورتوں کے لئے پالکیاں بھی روانہ کروائیں - ایک اور گواہ پیش کیا گیا جو دنیا کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ ہوا ہوگا کہ وکیل صفائی ہی کو ملزم کے خلاف گواہی کے لئے پیش کیا گیا ،غلام عباس نے عدالت کو بتایا " یہ غلط ہے کہ بادشاہ نے انگریز افسروں کو مروانے کا کوئی ارادہ کیا ہو ، اس کے برعکس مٹکاف ، ڈگلس اور فریئیرر کو بچانے کے لئے فوج ، خوراک اور دیگر نوعیت کی مدد فراہم کی - او ایک خط لیفٹننٹ گورنر آگرہ کے نام بھی قاصد خاص کے ذریعے بھیجا تھا - مجموعی ا عتبار سے غلام عباس کی شہادت بادشاہ کے حق میں گئی - کچھ غزلیں اور کلام بھی بطور ثبوت عدالت میں پیش کیا گیا جس میں باغیانہ الفاظ اور باغیوں کو ترغیب ملتی تھی - غالب گمان یہ ہے کہ بادشاہ کا یہ کلام بھی حکیم احسن الله نے عدالت کو فراہم کیا ہوگا - ان تمام الزامات اور وکیل صفائی کی جرح کے بعد " مکند لال کا یہ بیان کہ بادشاہ نے قتل کا حکم دیا تھا " کی قلعی کھل چکی تھی - کیونکہ دوران جرح اول تو یہ ثابت نہیں کرسکا کہ وہ بادشاہ کا معتمد خاص تھا ، دوسرے یہ بھی ثابت نہیں کرپایا کہ جس وقت بادشاہ نے مرزا مغل کو قتل کی اجازت دی تھی ،وہ موقه پر موجود تھا - ان تمام الزامات اور دعوی استغا ثہ کے بعد بادشاہ کی جانب سے تحریری جواب دعوی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا - بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا جواب : ١- پہلی بات تو یہ کہ جب باغی قلعے میں اور حرم میں داخل ہوئے تو میرے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا کہ میں ان کو اپنی مدد اور رضامندی کے سوا کچھ اور کرتا - میرے انکار کی صورت میں باغی مجھے قتل کردیتے - ٢- میری طرف سے جو احکامات عدالت میں دکھائے گئے ، میں ان کی صحت سے انکار کرتا ہوں - معاملہ یہ ہے کہ باغی میرے نام سے خود خط / حکمنامے لکھتے اور زبردستی دستخط لے لیتے تھے ٣- میں کسی بھی انگریز کے قتل کی سازش میں براہ راست یا بلا واسطہ ملوث نہیں ہوں - حقیقت یہ ہے کہ قلعے میں موجود انگریزوں کی حفاظت اور خدمت میں جو مجھ سے ہوسکتا تھا ،میں نے کیا - میری کوشش ہوتی تھی کہ وہ کسی قسم کی تکلیف نہ اٹھائیں - لیکن چونکہ میری باغیوں کے سامنے موثر آواز نہیں تھی لہذا باغیوں نے کچھ موقعوں پر حد سے تجا و ز کرتے ہوئے کچھ انگریزوں کو قتل کیا ٤- مرزا مغل کو دی جانے والی ہدایت بھی مجھ پر محض الزام ہے - الزام لگانے والا محض قیاس کی بنیاد پر مجھ پر الزام لگا رہا ہے - ٥- جب جب میں نے باغیوں کو تشدد سے روکا تو انھوں نے میرے معتمدین کے مکانات کا گھیراؤ کرلیا - زینت محل ، حکیم احسن ، محبوب علی خان اور مرزا الہی بخش کے مکانات کو جلایا گیا اور جان سے مارنے کی کوشش کی - بڑی مشکل سے ان لوگوں کو بچایا جا سکا - بادشاہ کے اس جوابی بیان کے بعد وکیل استغا ثہ ایف - جے - ہیرٹ نے اپنی بحث کے لئے عدالت سے اجازت طلب کی - اجازت ملنے پر بحث شروع ہوئی - ایف جے ہیرٹ نے تمام اخلا قیات کا جنازہ نکالتے ہوئے دریغ گوئی کی انتہا کردی - اس کی تمام تر بحث کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ کسی طرح بادشاہ کو مجرم قرار دلوایا جاسکے - اس نے انتہائی درجے کا جھوٹ بولتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ انگریزوں کے خلاف مسلح فسادات کے پیچھے صرف اور صرف مسلمان تھے - تاہم سادہ لوح ہندوؤں کو بھی انہوں نے اپنے ساتھ شامل فساد کرلیا تھا - اپنی اس لغو بات کی وضاحت میں اس نے ایک طویل بحث شروع کردی جس کی ابتداء یہاں سے ہوئی کہ بادشاہ نے سرکار انگلشیہ کے سرکاری اہلکاروں اور حفاظتی سپاہیوں کے قتل کا حکم دیا تھا - جو اس نے زور دیکر کہی کہ دنیا کی تاریخ میں کسی سرکار کے خلاف اتنی منظم مسلح فساد کی کوئی نظیر نہیں ملتی ، اس کے پیچھے یقیناً مذہبی شدت پسندی ہے - اور چونکہ اس خطے میں مسلمان صدیوں سے حکمران رہے ہیں لہٰذا اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ فسادات ان ہی کے لگائے ہوئے ہیں - پھر اگلے ہی دن دوسری دلیل کے ساتھ عدالت کو بتایا کہ ہوسکتا ہے کہ میں مذہبی شدت پسندی کے حوالے سے کچھ مبالغہ کر گیا ہوں مگر یہ بات طے ہے کہ کسی حد تک چھ مذہبی جذبہ تو کارفرما رہا مگر ساتھ ہی ساتھ سیاسی عوامل بھی اس کی پشت پر موجود تھے - جس کی مزید تشریح کرتے ہوئے کہا کہ " یہ سیاسی جدوجہد ابتداء میں ایک ایسی قوم کو وطن سے با ھر نکا لنے کے لئے تھی جو ان کی اقدار ، زبان اور مذھب سے متصادم تھی - اس سیاسی جذبے کو مذہبی جذباتیت نے خوب بھڑکایا -" بادشاہ کے حوالے سے کہا کہ " باوجود اس کے کہ بادشاہ بے اختیار تھا ، مگر پھر بھی صدیوں کی بادشاہت کا نمائندہ تھا اور جنونی مذہبی گروہ کے ہاتھوں یرغما ل تھا - کروڑوں آدمیوں کے نزدیک بادشاہ کی ذات ان کی آرزوؤں اور امیدوں کا مرکز تھی - اس میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی بادشاہ کو اپنا بادشاہ ہی سمجھتے تھے " فساد کی وجوہات اور اسباب بغاوت کا جب ذکر نکلا تو ایف جے ہیریٹ نے جو نکتہ نظر پیش کیا اس میں خاصا وزن تھا - مثلا کہ جب اس نے کہا کہ بالفرض یہ مان لیا جائے کہ سؤر کی چربی اور گائے کی چربی لگے کارتوس ہی تو فساد کی جڑ تھے تو سب سے پہلے جھگڑا میرٹھ میں شروع ہوا اور پھر دلی پہنچا - جب کہ میرٹھ اور دلی کے فوجیوں کو چربی لگے کارتوس فراہم ہی نہیں کئے گئے تھے - دوسری بات یہ کہ کارخا نے جہاں فوجی مشقوں کے لئے کارتوس تیار کے جاتے تھے ، وہاں ہندوستانی کاریگر تھے - اصولا سب سے پہلے تو ان کو انکار کردینا چاہیے تھا - یا فساد پر آمادہ ہوجانا چاہیے تھا - جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ نہ ہوا - تیسری بات یہ کہ جب باغیوں نے سرکاری اسلحہ خانہ لوٹا تو کیا چربی والے کارتوس وہیں رہنے دئیے ؟ اگر نہیں تو پھر اس بات کا جواب دیا جائے کہ ان کارتوسوں کو انگریز کے خلاف کیوں استمعال کیا گیا ؟ کیا اس وقت ان کا استمعال جائز ہوگیا تھا ؟ چوتھی بات یہ کہ کیا اس وقت کسی مسلمان یا ہندو باغی نے اپنے افسر سے وضاحت طلب کی تھی کہ ان کو انگریز کے خلاف لڑنے کو کون سے کارتوس دئیے جا رہے ہیں ؟ وکیل سرکار نے اس موقه پر سینکڑوں عرضیا ں عدالت کے سامنے پیش کیں جن میں انگریز کے مظالم اور نازیبا سلوک سے متعلق شکایات تحریر تھیں - ان میں سے بھی درخوا ست میں چربی والے کارتوسوں کے بارے میں ایک بھی شکایت تحریر نہ تھی - وکیل سرکار نے مزید کہا کہ اور اگر ایسی کوئی شکایت تھی بھی تو وہ افسر کے سامنے رکھی جاسکتی تھی یا ڈسچارج حاصل کرلینا تھا - مگر ڈسچارج کے حوالے سے بھی کوئی درخواست ہمارے ریکارڈ میں نہیں ہے - ایف جے ہیرٹ کی تمام تر بحث اور دلائل کا تعلق اس بات سے تھا کہ سؤر اور گائے کی چربی لگے کارتوسوں کا صرف بہانہ تھا اصل میں فساد کا مقصد کچھ اور تھا - نہایت ا علی و عظیم جذبے کے تحت اتنی بڑی بغاوت رونما ہوئی جس کی تحقیق کی جانی چاہیے وکیل سرکار نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے اس بات کا بھی ا عتراف کیا کہ " اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ان ہندو اور مسلمانوں کا آپس میں قابل رشک اتحاد تھا - فوج میں بھائی بھائی تھے - ایک دوسرے کے تہواروں میں شریک ہوتے تھے - سرکار کی غفلت نے اس بات کو نظر انداز کردیا تھا - ایف جے ہیرٹ نے اپنے دلائل کا اختتام اس بات پر کیا کہ سارا فساد مسلمانوں کا پھیلایا ہوا تھا ، کیونکہ ان کو اپنی سلطنت کے ختم ہوجانے کا دکھ اور خوف تھا - ان فسادات کے ذریعے مسلمان اپنی سلطنت کو دوبارہ قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے - بادشاہ کو کسی بھی طور سے ان تمام حالات سے الگ نہیں کیا جاسکتا - (جاری ہے )


Comments