( مقدمے کی کاروائی -تیسرا - آخری حصہ ) " عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے "1857 کی جنگ آزادی


1857  
کی جنگ آزادی گزشتہ قسطوں کا خلاصہ ( مقدمے کی کاروائی -تیسرا - آخری حصہ ) " عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے " "
ایف جے ہیریٹ کے ان بودے دلائل اور ثبوتوں کے بعد عدالت نے مزید پانچ دن ان دلائل پر بحث میں صرف کئے - اس دوران غلام عباس ( وکیل صفائی ) کو موقع دیا گیا کہ وہ اگر اس کے جواب میں کچھ کہنا چاہتے ہیں تو ان کو وقت دیا جاسکتا ہے - تاہم بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے اس سہولت کو لینے سے انکار کردیا اور وکیل صفائی کو ہدایت دیتے ہوئے کہا " کہ اگر ہمیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہوا تو ہم تمام تر ثبوت اور استغا ثہ کے دلائل مکمل ہونے پر بات کریں گے - ہم نے جو کچھ کہنا تھا وہ ہم جواب دعوی کی صورت میں دے چکے ہیں ، ہر ایک الزام کا ترکی بہ ترکی جواب دینا ہمیں زیبا نہیں دیتا " عدالت نے بہا در شاہ ظفر کے اس بیان کو کافی سمجھا اور وکیل استغا ثہ کو ایک موقع اور فراہم کیا کہ وہ اگر کوئی دلائل مزید بھی دینا چاہتا ہے تو عدالت کے سامنے رکھے - ایف جے ہیریٹ نے اپنے دلائل کی روشنی میں اب کی مرتبہ پھر اپنے الزامات کو نئے رنگ میں پیش کیا ١- اس نے کہا کہ میرے فراہم کردہ ثبوت اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ بادشاہ باغیوں کے ساتھ پہلے سے ملا ہوا تھا - اور مناسب وقت کے انتظار میں تھا - ٢- دلی کے قلعہ میں جو انگریز مارے گئے تھے وہ بھی بادشاہ کے حکم سےقتل کئے گئے تھے - صورت حال یہ تھی کہ مقدمے میں اب تک کی تمام تر بحث ان ہی دو نکات کے گرد گھوم رہی تھی ، کبھی کس رنگ میں تو کبھی کسی زاویے سے بادشاہ کو ان ہی نکات پر پھنسا نے کی کوشش کی جاتی رہی - اور بہت سے ایسے ثبوت جن سے بادشاہ کی برات ہوتی نظر آتی ان کو زیر بحث لیا ہی نہیں گیا یا پھر بات کا رخ کسی اور جانب موڑ دیا گیا - اب تک کی کاروائی میں جو بھی شہا دتیں فراہم کی گئیں ان سے قطعی طور پر یہ ثابت نہیں ہوتا تھا کہ بادشاہ سازش میں شریک تھا یا ان کا باغیوں سے پہلے سے رابطہ تھا -
سرکاری وکیل کی دلیل سنئیے جو اس نے اس الزام کو سچ ثابت کرنے کے لئے پیش کی ، کچھ یوں تھی- " باغیوں نے جس شخص کی طرف سب سے پہلے رجوع کیا ، وہ " بادشاہ" تھا- جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بادشاہ سازش میں شریک تھا -" کئی اور گواہوں کی طرف سے بھی یہی بات مختلف انداز میں پیش کروائی گئی - اور قابل غور بات یہ کہ ہر گواہی کے جواب میں یہی تاثر گہرا ہوا کہ بادشاہ کی شرکت ان کی قلبی رضامندی سے نہیں بلکہ بحالت مجبوری تھی ، کہ اگر بادشاہ ایسا نہ کرتے تو باغیوں کی جانب سے جان کے نقصان کا اندیشہ تھا - وکیل صفائی غلام عباس کی جانب سے جب بطور گواہ ان کا بی لیا گیا تب بھی یہی بات سامنے آئی کہ " جب باغی فوجیں وہاں پہنچیں تو بادشاہ نے با غیوں کو مخا طب کرتے ہوئے کہا " میں نے تمہیں بلایا ، تم نے بہت بری بات کی ہے - اس پر میرٹھ کے سو سوار مزید آگئے ،اور غل غپاڑہ کرتے سیڑھیوں کے راستے دیوان خاص پہنچ گئے اور بادشاہ سے کہا کہ تم اگر ہمارے ساتھ شامل نہ ہوئے تو سب کا خاتمہ یقینی سمجھو ،اور اس صورتحال میں جو ہمارے دل میں آیا ہم وہ کرگزریں گے " (اہم ترین بات : مندرجہ بلا جملے پر ذرا غور فرمائیں یہ بہت عجیب جملہ ہے - اگر اس کو سوالیہ انداز میں بولا جائے تو یہ اسطرح ہوگا " میں نے تمہیں بلایا ؟ " اور ایک دوسرے زاویے سے کہا جائے تو " میں نے تمہیں بلایا " یہ اقراری تائیدی انداز ہوگا - بادشاہ نے حیرت کے ساتھ سوالیہ انداز میں پوچھا تھا کہ میں نے تمہیں بلایا ؟ مطلب میرے کہے بناء یہاں محل میں کیوں چلے آئے ہو ؟ ) ایک اور اہم گواہ رسالدار جان ایورٹ تھا ، اس کی شہادت کچھ اسطرح تھی ، جب اس سے سوال کیا گیا کہ سوال : " دہلی میں جو تم نے دیکھا یا سنا کیا اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ا س قیدی (بادشاہ) نے باغیوں کے ساتھ اپنی منشاء و مرضی کے خلاف شمولیت اختیار کی ؟ جواب یہ تھا " میں نے جو دیکھا اور سنا اس کے مطابق بادشاہ پہلے سے رضامند نہیں تھا -لیکن جب اس نے دیکھا کہ اس کا چھٹکارہ ممکن نہیں تو دو ہفتوں بعد وہ ان کے ساتھ شامل ہوگیا " ایک اور اہم گواہ سر تھیو فلس مٹکاف تھا - اس سے پوچھا گیا کہ " کیا تم جانتے ہو کہ بادشاہ یا اس کے کسی عزیز رشتہ دار کی باغیوں کے ساتھ کوئی خط و کتابت تھی یا فوجیوں کے متعلق اور بغاوت کے حوالے سے کوئی گفتگو یا تحریر تمہاری نظر میں آئی "؟ مٹکاف نے سیدھا سا جواب دیا " میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا " ان گواہوں کے علاوہ کوئی اور گواہ نہیں تھا جس نے اس الزام پر کوئی بات کی ہو ، اور آپ کے سامنے ان کے تمام الزامات اور شہا دتیں بھی آچکی ہیں - ( ان سے کوئی بھی الزام بہرحال ثابت نہیں ہورہا ) لیکن وکیل سرکار نے ان ہی بودے ثبوتوں کے ساتھ بادشاہ کو مجرم ثابت کروایا اور عدالت نے بھی اس کی بات تسلیم کرلی - دوسرا الزام جس پر وکیل سرکار نے سا ری جان لگادئ تھی وہ یہ تھا کہ بادشاہ نے حکم دیا تھا کہ انگریز سپاہیوں کو قتل کیا جائے . اس کے لئے جو گواہ پیش کیا اس کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے ، وہ تھا قلعہ کا روزنامہ نویس مکند لال ، جس سے جب سوال کیا گیا کہ " انگریزوں کا قتل کس کے حکم سے ہوا تھا ؟ " اس کا جواب ملا حظہ کیجئے " ظاہر ہے اس طرح کا حکم اور کون دے سکتا ہے " ؟ ( یعنی محض مفروضے کی بنیاد پر کہہ دیا گیا کہ اس طرح کا حکم بادشاہ ہی دے سکتا ہے - ) سرکاری وکیل نے ایک اور گواہ جاٹ مل کو پیش کیا - اس نے کہا " کہ پہلے دن جب باغی یوروپی قیدیوں کو پکڑ کر لائے تو بادشاہ سے ان کے قتل کی اجازت چاہی - بادشاہ نے سختی کے ساتھ منع کردیا - میں نے سنا کہ دوسرے دن بادشاہ کے مقرب خاص بسنت علی خاں (جو اپنی وحشیا نہ حرکتوں کی وجھہ سے مشہور تھا ) خود چل کر باغیوں کے پاس گیا اور ان کو قیدیوں کے قتل پر اکسایا - اور میں نے دیکھا کہ قتل کے روز بالکنی پر کھڑے ہوکر چیخ کر منادی کررہا تھا کہ بادشاہ نے یورپنیوں کا قتل منظور کرلیا ہے " سوال " تمہارے خیال میں اگر بادشاہ چاہتا توقیدیوں خصوصا عو رتوں اور بچوں کا قتل رکوایا جاسکتا تھا ؟" جواب:" شہر میں مشھور تھا کہ بادشاہ ان کو مروانا نہیں چاہتا تھا ، مگر باغیوں کے آگے بادشاہ کی ایک نہ چلی ، قیدی باغیوں کی ہٹ دھرمی کی وجہہ سے قتل ہوئے " محل کے روزنامچے کے مطابق جو مکند لال خود لکھتا تھا ایک جگہ تحریر ہے کہ " ١٦ مئی ،قتل کی رات مرزا مجھلی باغیوں کو سمجھا رہا تھا کہ اس طرح عورتوں بچوں کا قتل اسلام میں جائز نہیں - اس کام سے باز رہو جس پر باغیوں نے شہزادے کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا -اور شہزادے نےبمشکل بھا گ کر اپنی جا ن بچائی " مکند لال جو روزنامچہ نویس ہی نہیں سکریٹری کا درجہ بھی رکھتا تھا درحقیقت انگریزوں سے ملا ہوا تھا - اس نے اس حقیقت کو آخر تک عدالت سے چھپائے رکھا - اس کے سوا کوئی ایسا ثبوت نھیں تھا جس سے بادشاہ کو مجرم ثابت کیا جاسکتا - اب آئیے اس بات کی جانب کہ بادشاہ سے یا وکیل صفائی سے کہاں کہاں غلطی ہوئی یا انھوں نے مناسب جواب پیش نہیں کیا ١- جب کمپنی کے نمک خوار / پنشن گزر اور سرکار انگلشیہ کا ملازم ہونے کا الزام لگا -اور بغاوت پر اکسانے کی بات کی گئی تو بادشاہ کا موقف سخت ہونا چاہیے تھا کہ وہ حکومت برطانیه ہند کی رعا یا نہیں بلکہ حکومت برطانیه ہند خود اس کی رعا یا ہے - کیونکہ وہ اس وقت تک ہندوستان کا بادشاہ ہے - یہ بات دبے لفظوں میں تو ضرور کہی گئی تھی کہ کس قانون کے تحت جواب منگا جارہا ہے ؟ مگر اس موقف پر اس طرح جم کر بات نہیں کی گئی جیسا کرنی چاہیے تھی - ١٨٥٧ سے پہلے کمپنی کو جو بھی اختیارات حاصل تھے وہ ١٨٠٣ سے چلے آرہے تھے ، وہ بادشاہ کی طرف سے ددئے گئے تھے لہٰذا ہر اعتبار سے بادشاہ ہی قانونی بادشاہ تھا - جب لارڈ لیک نے دہلی میں قدم رکھا ، اور شاہ عالم کو اپنے قبضے میں کیا اس وقت کے بعد سے اگرچہ کمپنی حکومت کررہی تھی ، مگر اصل اختیارت بادشاہ کو ہی حاصل تھے -١٨٥٧ تک سرکاری طور پر بادشاہ کو ہی شنھنشاہ ہند کہا جاتا تھا - چناچہ اس بات کا نہ تو کوئی قانونی جواز بنتا تھا نہ ہی اخلاقی کہ ١- بادشاہ کو بادشاہ کہلوانے پر مجرم گردانا جائے ٢- اور اسے حکومت ہند کی رعایا سمجھا جائے ٣- اور اس کے اس خیال کو کہ کمپنی کو ہندوستان سے باہر نکل دیا جائے ، نا قابل معافی جرم سمجھا جائے یہ وہ حالا ت تھے جب بادشاہ کے پاس نہ ہی طاقت تھی نہ ہی وسائل کہ وہ اپنی منشاء و مرضی سے کچھ زیادہ کرسکتا - جہاں تک سمجھا بجھا کر باغیوں کو روکا جاسکتا تھا ، اس نے روکا - حقیقت تو یہ ہے کہ انگریز کے پاس اس مقدمے کی کمزوریوں اور بودے پن کے دفاع میں کوئی جواب نہیں ہے - ہاں ان کو اس بات کا بڑ ا قلق ہے کہ ١٨٠٣ میں جب ولزلی نے بادشاہ شاہ عالم کو گرفتار کیا تھا - تب ہی کیوں نہ مار دیا - اس لئے کہ شاہ عالم کو زندہ چھوڑنے کی وجہہ سے ہی بادشاہت اب تک کسی نہ کسی صورت میں موجود تھی اور باغی گروہوں کو موقع مل گیا کہ وہ بادشاہ کو اپنا قائد بنا لیں - ایک اور بد ترین بد دیا نتی یہ کہ بادشاہ کو جو وکیل دیا گیا ، اس کو ہی بطور گواہ بھی استمعال کیا گیا اس کو جوابی بیان دینے سے کئی مرتبہ روکا گیا - سرکری وکیل کو ہی بار بار موقع ملتا رہا - آخر وقت جو بادشاہ نے اپنے جوابات کے لئے مخصوص کروالیا تھا - اس سے انکار کردیا گیا - ان تمام حقائق کی روشنی میں کیا یہ نتیجہ نکا لنا کوئی بہت مشکل کام ہے کہ یہ فیصلہ پہلے سے طے شدہ تھا - صرف رسمی کاروائی نمٹائی گیی- عدالت نے اس تاریخی مقدمے کا جو اکیس دن چلایا گیا مختصر فیصلہ سنایا "عدالت با اعتبار شہادت کی رو سے اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ محمد بہادر شاہ سا بق بادشاہ دہلی کے خلاف تمام الزامات ثابت ہوگئے ہیں " (جاری ہے )


Comments