یاسرعرفات سے فضل الرحمن تک : تحریر سید اقبال چشتی

سید اقبال چشتی معروف صحافی ہیں ، کثیر الاشاعت روزنامے میں مستقل کالم نگاری کرتے ہیں - پاکستان کے داخلی اور خارجی امور پر اپنا موقف دیتے ہیں کشمیر کے حوالے سے تازہ ترین تجزیہ پیش خدمت ہے -( آپ کی رائے کا انتظار رہے گا - نجیب )
کئی سال پہلے کا قصہ ہے کہ میں بس میں آفس سے گھر آرہا تھا، ایک نوجوان نرسری اسٹاپ سے بس میں چڑھا اور ڈرائیور کی سیٹ کے پیچھے کھڑے ہو کر بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر اپنی گفتگو کا آغاز کرتا ہے ۔ سب مسافر یہی سمجھتے ہیں کہ کوئی بھیک ما نگنے والا ہوگا لیکن اگلے ہی لمحے جب نوجوان بولنا شروع کرتا ہے تو سب کی توجہ اس کی طرف ہوجاتی ہے ۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ کہا تھا لیکن پاکستان کی یہ شہہ رگ جنت نظیر وادی کشمیر بھارت کے قبضے میں ہے ، مظلوم کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم کی داستان کا یہ عالم ہے کہ روز نوجوان پکڑے اور شہید کیئے جارہے ہیں ، ماوں اور بہنوں کی عزت محفوظ نہیں ۔۔۔۔۔۔ اس کے با وجود مقبو ضہ وادی کشمیر میں '' پاکستان زندہ باد '' کا نعرہ لگ رہا ہے مگر ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔۔۔۔ خدارا اپنی شہہ رگ کو دشمن سے آزاد کرانے کے لئے کچھ کرو ،، ۔ نوجوان بول رہا تھا ۔۔۔۔۔ سب سن رہے تھے ۔ مقبوضہ وادی کشمیر میں بھارتی مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے نوجوان رونے لگتا ہے مگر اپنی گفتگو جاری رکھتا ہے اور ایک بات کہتا ہے کہ میں آپ سے اور اپنے حکمرانوں سے کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑنے کی بھیک مانگتا ہوں اور روتے ہو ئے بس سے اُتر جاتا ہے شاید اگلی بس کے لئے۔ یہ نوجوان کون تھا ۔۔۔ ؟ کس تنظیم سے اس کا تعلق تھا ۔۔۔ ؟ کیوں یہ پاکستان کے لوگوں کو مقبوضہ وادی کشمیر میں ہو نے والے بھارتی مظالم سے اگاہ کر رہا تھا ۔۔۔؟ کیوں وہ دوسروں کے لئے آنسو بہا رہا تھا ۔۔۔۔؟ نوجوان نے کچھ پوچھنے کا موقع ہی نہیں دیا لیکن اگلی صبح اخبار کو بغور دیکھا کہ کون کشمیر کے لئے مہم چلا رہا ہے تو معلوم ہوا کہ '' ہفتہ یکجہتی کشمیر '' کے نام سے اسلامی جمعیت طلبہ مہم چلا رہی ہے اور کشمیر میں ہونے والے مظالم سے پاکستانی عوام کو آگاہی فراہم کر رہی ہے ۔ بلا شبہ اسلامی جمعیت طلبہ نے ہر محاذ پر جدوجہد کی ہے، افغانستان سے کشمیرتک اس تنظیم کے شہید ہو نے والے نوجوانوں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے حکمران آج تک کشمیر کامقدمہ صحیح طریقےسےنہیں لڑ سکے۔ پاکستانی حکمرانوں کی نا اہلی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوسکا ۔۔ حل ہو بھی کیسے ۔۔۔ کیو نکہ پاکستان نے جب بھی کشمیر کے معا ملے پر کسی فرد کو ذمہ دار بنایا اس نے صرف سیر سپاٹے اور اپنے تعلقات بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کیا ۔ کشمیر کمیٹی کی پہلی سربراہی نواب زادہ نصراللہ خان کے حصے میں آئی تھی جس کے 21 ارکان اسمبلی اور تین سینیڑز تھے ۔ کشمیر کمیٹی کے چو تھے چیئرمین مولانا فضل الرحمن ہیں جو 16 ستمبر 2008 سے اب تک اس عہدے پر براجمان ہیں اس کمیٹی کے 49 اراکین ہیں جن میں 36 قومی اسمبلی کے رکن اور 13 ممبران سینٹ ہیں ، چیئرمین کو وفاقی وزیر کا درجہ حاصل ہے اور وہ تنخواہ اور مراعات وفاقی وزیر کے برابر لیتے ہیں۔ کشمیر کمیٹی کے ذمہ جو کام ہیں شاید ہی کشمیر کمیٹی نے کیئےہوں کشمیر کے مسئلے کو کشمیریوں اور کشمیر کمیٹی کے باہر رہنے والی تنظیموں نے اجاگر کیا ہے گزشتہ آٹھ سال سے چیئرمین کشمیر کمیٹی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا ئے تو نتیجہ صفر ہی نکلے گا کیونکہ موصوف جس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اس جماعت نے آج تک کشمیر کے لئے کبھی کو ئی جلسہ ، مظاہرہ ، ریلی اور دیگر سیاسی پروگرامات نہیں کیئے بلکہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر ان کے مذمتی بیانات بھی سا منے نہیں آتے ۔ کشمیر کا مسئلہ دکھ اور درد کو سمجھنے کا معا ملہ ہے جو دکھ اور درد کو سمجھنے سے ہی قاصر ہوں وہ بھلا کیونکر اس مسئلے کے حل کے لئے آواز بلند کریں گے ۔ ایک نوجوانوں کی جمیعت ہے جو پاکستان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے لے کر پوری دنیا تک مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم کو اُجاگر کرتی ہے اور اپنے خون کے نذرانے اس کی آزادی کے لئے پیش کرتی ہے ، تو دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن تمام حکومتی وسائل رکھنے کے باوجود کشمیر کے مسئلے کو اُجاگر کرنے میں ناکام ہیں ۔ کشمیر کا مسئلہ مسکراہٹوں سے نہیں بلکہ جدو جہد کا متقاضی ہے۔ آٹھ سال کا عرصہ کم نہیں ہو تا ، اس عرصے میں کشمیر میں کیا کچھ نہیں ہواہوگا ، لیکن ہماری پالیسیوں کی وجہ سے اقوام متحدہ بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی کیو نکہ یہ مسلمانوں کا مسئلہ ہے، جس طرح مسئلہ فلسطین پر یاسرعرفات مسکرا کربات کرتے تھے اور کئی سال تک فلسطین کے صدر رہنے اور پوری دنیا میں تعلقات رکھنے کے باوجود مسئلہ فلسطین حل نہیں کراسکے۔ اسرائیل جتنا زیادہ ظلم انبیاء کی سر زمین پر بسنے والوں پر ڈھا رہا ہے اور ان پر عرصہ حیات تنگ کررہاہے اس پر اقوام متحدہ کی خاموشی معنی خیز ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ وہ لوگ فلسطین کی قیادت کرتے رہے جن کو مسئلہ فلسطین سے کوئی دلچسپی نہیں تھی شاید اسی لئے جب یاسرعرفات کا طیارہ صحرا میں گرد و غبار کے طوفان میں پھنس کر گرگیا تھا تو امریکی امدادی ٹیم نے فوراً انہیں سیٹلائیٹ کے ذریعے بحفاظت ڈھونڈ نکالا کیونکہ '' بڑی مشکل سے ہوتا ہے امریکا کا وفادار پیدا '' ۔
جبکہ دوسری جانب پتھروں کو ہاتھ میں لے کر جہاد کے ذریعے فلسطینیوں نے دنیا کے سامنے یہ بات باور کرائی کہ ہم حق پر ہیں۔ مسئلہ فلسطین جتنا جہاد کے ذریعے اُجاگر ہوا اتنا یاسر عرفات اپنی پوری زندگی میں نہ کرسکے۔ ایک دفعہ یاسرعرفات نے حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمت یار سے ملاقات کرنی چاہی تو حکمت یار نے یہ کہہ کر ملاقات سے انکار کردیا کہ '' جو شخص ہر وقت مسکراتا رہتا ہو وہ اپنی قوم کو آزادی نہیں دلا سکتا '' کچھ ایسا ہی معاملہ کشمیر کے حوالے سے ہمارے ساتھ بھی ہے۔ حکمران اپنے مخالف سے ایسے مسکرا کر ملاقات کرتے ہیں جیسے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیریوں نے دوریاں پیدا کررکھِی ہوں۔۔۔ زبانی جع خرچ کی وجہ سے ہم آگے نہیں بڑھ پاتے شاید یہی وجہ ہے کہ کشمیر کا معا ملہ 70 سال سے تصفیہ طلب ہے۔ میں نے اکثر دکانوں پریہ کتبہ لگا دیکھا ہے کہ '' کشمیر کی آزادی تک اُدھار بند ہے '' لیکن کشمیر ایک دن ضرور آزاد ہوگا کیو نکہ مقبوضہ وادی کے لوگ اور حُریت رہنما پُر اُمید ہیں اور 80 سالہ سید علی گیلانی کی ایک آواز پر لاکھوں لوگ باہر آجاتے ہیں۔ جب آپ کی کال پر مسلسل ہڑتال کی گئی تو بھارتی سرکار مذاکرات پر مجبور ہو گئی تو سید علی گیلانی نے کہا کہ بینک اتوار کے دن کھلیں گے جس دن پورے بھارت میں چھٹی ہو تی ہے اور ان کے کہنے پر اتوار کو مقبو ضہ وادی کے تمام بینک کھلے۔
عملی میدان میں کام کرنے والا کامیاب ہوتا ہے، عہدے لے کر کشمیر کی بات کرنے والوں نے اس قوم کو دھوکا دیا ہے اسی لئے ان کی بات میں اثر نہیں ہوتا۔ سردار عبدالقیوم سابق صدر آزاد کشمیر ایک دفعہ کشمیر کے لئے فنڈ جمع کرنے کراچی تشریف لائے اس موقع پر مقامی ہو ٹل میں '' مسئلہ کشمیر اور ہماری ذمہ داری'' کے عنوان سے تقریب رکھی گئی تھی۔ صدارتی خطاب سردار عبدالقیوم کو کرنا تھا لیکن جب انہیں دعوت خطاب دی گئی تو مجمع میں سے قاری عبدالعلیم عرف ابا میاں کھڑے ہو ئے ہیں اور کہا کہ '' آپ کس حیثیت سے کشمیر کے فنڈ لینے کی بات کرتےہیں ۔۔۔۔ آپ نے اب تک کشمیر کے لئے کیا کیا ہے ۔۔۔۔ کتنے دن آپ نے جہاد کیا ۔۔۔۔ آپ کے کتنے بیٹے اور کتنے رشتہ دار مقبوضہ وادی میں شہید ہو ئے ہیں ۔۔۔۔؟" ایک مختصر پُر اثر گفتگو نے وہاں موجود سامعین کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ جو شخص عمل سے خالی ہو وہ لاکھوں روپے کا فنڈ کا کیا استعمال کرے گا، جو دل عمل اور سوز سے خالی ہو تے ہیں ان سے کوئی جواب نہیں بن پاتا ، لیکن جس کے اپنے بیٹے مقبو ضہ کشمیر کی آزادی کے لئے کراچی سے جاکر کشمیر میں جام شہادت نوش کرتے ہوں اُس فرد کی بات میں اثر ہوتا ہے۔ ابا میاں کے دو بیٹے ایک افغانستان اور دوسرے نے کشمیر میں شہادت حاصل کی اس لئے تمام مجمع ابا میاں کے ساتھ ہولیا اور تمام ڈونرز ابا میاں سے رابطہ کرتے ہیں کہ اصل میں آپ کشمیر کی آزادی کے لئے کام کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ چار ماہ سے بھارتی ظلم و تشدد جاری ہے اور مسلسل کرفیو لگا کر حق خود اردیت کی آواز بلند کرنے والوں کو ریاستی جبر کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن کشمیر کی عوام نے تعلیم ، روزگار، بھوک اور پیاس کی قربانی دے کر اس بات کو ثابت کیا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت انہیں '' پاکستان زندہ باد '' کا نعرہ لگانے اور آزادی کی تحریک چلانے سے نہیں روک سکتی لیکن ادھر پاکستان میں صرف کانفرنس اور اقوام متحدہ سے زبانی جمع خرچ کے ذریعے کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور چیئرمین کشمیر کمیٹی سمیت 49 اراکین خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اسی لئے لا رڈ نذیر نے مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے کہا ہے کہ '' ان کو کشمیر کمیٹی کا چیئر مین بنانا سب سے بڑی غلطی ہے" جس طرح یاسرعرفات مسئلہ فلسطین کو حل نہیں کرسکے اسی طرح ہمارے کشمیرکمیٹی کے چیئرمین مولا نا فضل الرحمن مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر تو کیا پاکستان میں بھی صحیح طریقے سے اُجاگر نہیں کرسکے ظلم تو یہ ہے کہ جو کشمیر کے منصفانہ حل کے لئے عملی جدوجہد کر رہے ہیں ان کے پاس کبھی بھی کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ نہیں رہی شاید اس لئے کہ کہیں یہ مخلص لوگ واقعی ہی یہ مسئلہ حل نہ کرادیں مولانا فضل الرحمن سے بہتر تو فیض احمد فیض تھے جنھوں نے کشمیر کے معا ملے پر پاکساتان کا موئقف پیش کر کے مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلی کو آئیینہ دکھا دیا تھا ۔ قصہ یہ ہے کہ فیض احمد فیض اور ان کی اہلیہ بھارت گئے ہوئے تھے مقبو ضہ کشمیر کے وزیراعلی نے فیض صاحب کو فون کیا اور کہا کہ میں آپ کوسری نگر آنے کی دعوت دیتا ہوں یہاں آپ اپنی شادی کی سالگرہ منائیں اور گھومیں پھریں۔ فیض صاحب یہ بات سن کر مسکرائے اور وزیراعلی کو جواب دیا کہ بھئی یہ تو ٹھیک ہے مگر'' ہم وہاں کیسے آسکتے ہیں ہم تو کشمیر میں آپ کی حکومت کو مانتے ہی نہیں ہیں '' ایک ہمارے مشیر خارجہ ہیں جو بھارت کے دورے کے لئے بے چین رہتے ہیں اور جب بھارت میں ان سے ناروا سلوک ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی حیثیت کیا ہے شاید ہمارے مشیر خارجہ سمجھ رہے تھے کہ ششماء سوراج ان کو دیکھ کر کہے گی '' آپ آگئے سرتاج '' لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اسی لئے شاید پاکستان میں سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ ایک مستقل اور پُٰزعزم جوان ہمت فرد کو وزیر خارجہ بنایا جائے اور کشمیر کے درینہ تنازعے کے حل کے لئے بہترین سفارت کاری کی جائے۔ مقبوضہ وادی میں جاری مسلسل آزادی کی تحریک نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے اور امریکا اس درینہ مسئلے کے حل کے لئے ثالث بننے پر تیار ہے لیکن اگر اس مسئلے کو حُریت رہنماوں کو شامل کیئے بغیر حل کرنے کی کو شش کی گئی تو مسئلہ مزید گھمبیر ہو سکتا ہے مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادیں ہی ہیں لیکن ان قرادادوں پر عملدرامد کے لئے وزارت خارجہ اور کشمیر کمیٹی کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا اس کے لئے ضروری ہے کہ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین کسی مخلص فرد کو بنا دیا جائے ورنہ جس طرح آج کشمیری کشمیر کمیٹی کی کارکردگی پر لعنت بھیجتے ہیں کہیں یہ لعنت کا سلسلہ بد دعاوں میں تبدیل نہ ہو جائے ۔

Comments