دہشت گردی کی موجودہ فضاء اور دال میں کالا

دہشت گردی کی موجودہ فضاء اور دال میں کالا [ نجیب ایوبی ]
اس وقت پورا پاکستان خوف و دہشت کی فضاء میں ہے - پے در پے بم دھما کوں کے با عث ہر چھوٹے بڑے شہر کے عوامی مراکز اور مذہبی و تفریحی مقامات پر سخت ریڈ الرٹ جاری کیا جاچکا ہے - جس کے سبب سماجی و شہری سرگرمیاں ماند پڑتی جارہی ہیں - حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تحفظ و امن و امان کو بہتر سے بہتر بنانے اور قانون کی بالادستی کی ضمانت دیتے دکھائی دے رہے ہیں - سیاسی فضاء اس سے بھی زیادہ ہولناک ہے - وزیر اعظم کے پنامہ اسکنڈل اور بدعنوانی ریفرنس پر عدالتی فیصلہ محفوظ کیا جا چکا ہے - حکومتی حلقوں میں دو نمبر یعنی متبادل وزیر اعظم کے نام پر غور شروع ہوچکا ہے - بہت سے سینئرز اپنی نجی مصروفیات کے سبب بیرون ملک جانے کے پروگرام ترتیب دے رہے ہیں - امکانی یا حادثاتی تبدیلی کی آس ملتے ہی سیاسی انارکی اور قبل از انتخابات کے آسرے میں دو نمبر رنر اپ سیاسی جما عت پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد دبئی سے کراچی تشریف لے آئے ہیں - ہم عوام کا مسلہ یہ بھی ہے کہ ہماری نظریں حالات اور منظر پر ہوتی ہیں اور ہم وہی کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں جو ہمیں دکھایا جارہا ہوتا ہے - ظاہر ہے دھماکہ ہوتا ہے تو دھماکہ اور اس سے وابستہ خبریں ہی الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنتی ہیں - چوبیس گھنٹے اس ایک دھما کے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر بات ہوتی رہتی ہیں - تمام چینلز کے ٹاک شوز میں خود کش حملہ آور کے بارے میں ملنے والی تمام جزیات تفصیل کے ساتھ مسلسل نشر کی جارہی ہوتی ہیں - ظاہر ہے اس تمام تر میڈیا مہم کے بعد عام شہری وہی کچھ سوچے گا جو اس کے دماغ میں فٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے -
حالات و واقعات کو کچھ مختلف انداز سے سوچنے اور پرکھنے والے گو کہ کم کم ہیں مگر موجود ہیں - ان کو میڈیا پر آکر بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا - ایک آدھ مرتبہ اگر غلطی کے ساتھ کسی چینل نے ان کو بلا کر ان کا موقف پبلک کرنے کی کوشش بھی کی ہے تو بعد میں چینل مالکان کو بہت سوفٹ انداز میں توجہ دلادی جاتی ہے کہ" ذرا قومی مفا دات کا خیال رکھا جائے " نامعلوم نمبر سے آنے والی معلوم کال کا مطلب چینل مالکان خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں - اور پھر اینکر کو پابند کردیا جاتا ہے کہ اس طرح کا پروگرام کرنے کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں ؟
حالیہ
اچانک جنم لینے والی دہشت گردی کی لہر کے پیچھے کے عوامل پر بات چیت ہوتی رہی ہے ، مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس کو میڈیا اور اخبارات میں دانستہ طور پر بلیک آوٹ کیا جارہا ہے - کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہما رے پڑوسی ملک افغانستان میں امریکہ اپنی طویل مدتی جنگ ہارتا جارہا ہے - اور مجبور ہوکر وہاں کے اسلامسٹ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں کابل کے اقتدار میں گلبدین حکمتیار کو اس کا حصہ دینے پر اپنی آمادگی ظاہر کرچکا ہے - جس کا مطلب یہ ہوگا کہ افغانستان میں گلبدین حکمتیار حکومتی ایوان میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے -
دوسری جانب داخلی طور پر پاکستان اپنے ہی پیدا کردہ ملیٹنٹ گروپوں کے ہاتھوں پریشان ہے - اور ہمارے عسکری ادارے کراچی اور وزیرستان میں آپریشن کے بعد پورے پنجاب میں آپریشن کی اجازت حاصل کرچکے ہیں - پیپلز پارٹی نے بہت شدت کے ساتھ سندھ کے میں رینجرز کے آپریشن کی مخالفت کی تھی - اسی طرح نواز شریف نے سختی کے ساتھ ان عسکری اداروں کو پیغام دیا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے لاہور اور شہری پنجاب اس آپریشن کی زد میں نہیں آنے چاہئیں - اب حالات بدلتے بدلتے یہاں آچکے ہیں کہ پنجاب میں فوجی آپریشن کی منظوری بھی مل چکی ہے اور سیاسی جما عتوں نے فوجی عدالتوں کے قیام پر بھی رضامندی کا عندیہ دے دیا ہے - اسی طرح دہشت گردی کا قلع قمع کرنے اور اس کی کمر توڑنے کے لئے
راتوں رات تھانوں ، عقوبت خانوں سے زیر حراست اور لاپتہ افراد کو درجنوں کی تعداد میں حراست سے نکال کر پولیس مقابلوں میں ما را جارہا ہے- کسی بھی جانب سے کوئی موثر آواز بلند نہیں ہو پارہی -
افغانستان میں پاکستان اپنی تمام تر ہمدردیاں کھو چکا ہے - جس کی وجہ ظاہر ہے ہماری ایڈہاک ا زم پر مبنی خارجہ پالیسی ہی ہے - ایک طرف ہم نے اپنی تمام تر اسلامی اخوت کے جذبے کے تحت کی جانے والی مدد اور بھائی چارگی کی فضاء کو جو پاکستانی قوم کے ایثار قربا نی کا شاندار مظہر تھا ، اسے برباد کیا - دوسری جانب وزیرستان آپریشن کے نام پر عام قبائلی اور پختون کو مشکوک بنا کر دہشت گرد کا لیبل چسپاں کردیا - برسوں سے رکی ہوئی آپریشن کی اجازت اور فوجی عدالتوں کا قیام اگر دوچار دھماکوں کے بعد اتنی جلدی عمل میں آجائے تو " دال میں کالا " سمجھنا مشکل نہیں رہتا -

Comments