جنگ آزادی1857 ہارے ہوئے بادشاہ کے گھر والوں کا حال -( نجیب ایوبی)‎ قسط نمبر ‎17

جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ شہر کے بیشتر ہندو انگریز کی تابعداری قبول کرچکے تھے - سکھوں نے بھی اپنی مسلم دشمنی دکھانی شروع کردی - جہاں کوئی مسلمان خاندان دکھائی دیتا - ان کے خون سے ہاتھ رنگے جاتے - نوجوان لڑکیوں کو سرعام رسوا کیا جاتا - یہاں تک کہ خاندان کے سامنے ان کی عزت پر ہاتھ صاف کئے جاتے -

  کوئی مسلمان تندرست و صحت مند مرد زندہ نہ بچ پاتا- لارڈ رابرٹس دلی شہر میں اگلے دن کا احوال اپنے الفاظ میں کچھ اسطرح بیان کرتا ہے "ھم صبح لاہوری دروازے سے ہوتے ہوئے چاندنی چوک گئے تو ہمیں حقیقت میں یہ شہر مردوں کا شہر لگا - سناٹا اتنا کہ کوئی آواز ماسوا ئے ہمارے گھوڑوں کی ٹاپوں کے ،کان میں نہ پڑی - تا حد نگاہ کوئی زندہ آدمی ہمیں نظر نہیں آیا - ہر طرف مردوں ( لاشوں ) کا بچھونا بچھا ہوا تھا - ہاں چند ایک حالت نزاع میں تڑپتے ضرور دیکھے - ہم چلتے چلتے نہایت ہلکی آواز میں بات کررہے تھے ، خوف تھا کہ ہماری آواز سے مردے نہ چونک پڑیں - ہم ایک جگہ یہ دیکھنے رکے کہ لاشوں کے ڈھیر پر کتے اپنا پیٹ بھر رہے ہیں - وہ مردہ جسموں کو بھنبھوڑتے جاتے اور ہماری جانب گھور کر دیکھتے - دوسرے ڈھیر پر بہت سارے گدھ ہیں ، جو ہمیں دیکھ کر دور جاکر بیٹھ گئے ہیں ، -یہ سب دیکھ کر ہم کو بڑی عبرت ہوئی اور دل رنجور ہوا - ہم نے دیکھا کہ بہت سے لوگ پوری طرح مرے نہیں تھے - ان میں سے کچھ کے ہاتھ اوپر کی جانب اٹھے ہوئے تھے جیسے کسی کی جانب اشارہ کرتے ہوں - غرض ان مردوں کی کیفیت بیان نہیں ہوسکتی - جیسا کہ ان کو دیکھ کر ہمیں ڈر لگ رہا تھا ، ہمارے گھوڑے بھی ان لاشوں کے ڈھیر کو دیکھ کر ہنہناتے اور بدک جاتے تھے - مردوں کی لاشیں سڑی پڑتی تھیں ، ان لاشوں کے تعفن سے ہوا میں سخت بدبو پھیلی ہوئی تھی -" اس کے علاوہ بھی ایک اور انگریز نے لکھا " دلی کے باشندے اگرچہ سب نہیں مگر آدھے بےقصور شہر کے گرد و نواح ، جنگلوں ، دیہاتوں میں ہلاک ہورہے ہیں " محمد شفیع اپنی کتاب "پہلی جنگ آزادی - واقعات و حقائق میں لکھتے ہیں " یہ تھی اس دلی کی حالت جو ابھی ایک دو روز پہلے اپنی خوش با ش اور زندہ دل آبادی سے بھری پڑی تھی -اب اس میں خطا واروں کے ساتھ ہزاروں بیگناہ عورتوں بچوں کی لاشوں کے انبار لگے ہوئے تھے - سینکڑوں عیش پرست شہزادے اور شہری لمحوں میں دھر لئے گئے اور پھر جیل خانوں میں چکیاں پیس پیس کر مرے - جو وقتی طور پر بچ رہتا ، مخبروں کو مہربانی سے چھپ جانے اور دبک جانے والا جلد ہی گرفتار کرلیا جاتا - پھر کوتوال کے حکم سے گولی سے اڑا دیا جاتا ، سولی لٹکتا یا پھر عمر تمام جیل بھیج دیا جاتا " آئیے اب اپنا دل تھام کر بادشاہ سلامت بہادر شاہ ظفر کا احوال سنئے ،یہ منظر ہے شاہی محل کا مگر یہ شاہی محل اب وہ شاہی محل نہ تھا جہاں بہادر شاہ ظفر اپنا دربار لگاتے تھے ، محافل شعر و ادب میں جلوہ افروز ہوتے تھے -اب یہ شاہی محل کی ایک کوٹھری تھی جہاں کسی اچھے وقت میں شاہی حرم خاص کا ملازم خاص رہا کرتا تھا ، کوٹھری زیادہ کشادہ نہ تھی ، اس پر اندھیرا ، ماحول کو مزید وحشت زدہ کررہا تھا -سر ہنری لارنس نے بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ نقشہ اسطرح کھینچا" اس کوٹھری میں بادشا ہ سلامت اپنی بیگم کے ہمراہ کونے میں دبکے بیٹھا ہے - کوٹھری کے سامنے غلام گردشیں اور ملازمین کے کوا رٹر ہیں ہر کوارٹر کی کھڑکی کھلی ہے جہاں سے خلق خدا مظلوم بادشاہ کی بےبسی کا نظارہ کرتی ہے - بادشاہ کا عالم یہ کہ سر گھٹنوں پر دھرے کبھی ادھر کو کبھی ادھر کو دیکھتا ہے - انگریز سپاہی بادشاہ کو جھڑکیاں سناتے اور مغلصات بکتے ، بادشاہ حسرت و یاس کی تصویر بنے سنتا ہے - شہنشاہ بیگم بادشاہ کی آڑ میں اپنے جسم کو چادر میں چھپاتی کہ کسی نامحرم کی نظر نہ پڑ جائے- باہر انگریز سپاہی بادشاہ کو پھانسی دینے اور نہ دینے کی بحث میں جان بوجھ کر بلند آواز سے بات کرتے تاکہ بادشاہ زچ ہو " جب دلی ہزار ہا مسلمان مردوں کے خون سے رنگی جا چکی تو ان کی لاوارث بیویاں ، بےسہارا نوجوان لڑکیاں ،کنواری اور بیاہی بچیاں ، بہنیں اور مائیں اجڑی دلی کی وحشتوں میں مزید وحشت و رسوائی کا سبب بن گیئں - ان میں سے بہت سی عورتوں نے انگریز فوج کے مسلمان فوجیوں سے شادی کرلی - اور کچھ نے شکم کی آگ بجھانے کو غلط پیشہ اختیار کرلیا - شاہی خاندان کی بہو بیٹیوں کا حال یہ ہوا کہ بادشاہ کی بیٹی ربیعہ بیگم نے دلی کے مشہورحسینی باورچی سے نکاح کرلیا - ایک اور بیٹی فاطمہ سلطان نے عیسائییوں کے ایک اسکول میں لڑکیوں کو پڑھانے کی ملازمت اختیار کرلی -بادشاہ کی چہیتی بیٹی زمانی بیگم کا احوال خواجہ حسن نظامی " بنت بہادر شاہ میں اس طرح لکھتے ہیں "

بہادر شاہ ظفر کی چہیتی بیٹی زمانی بیگم اس دورِ ابتدا کا حال بتاتی ہےں کہ جس نے 1857ء کے المیے کے نتیجے میں شاہی خاندان کے افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کلثوم زمانی بیگم بتاتی هیں که جس وقت میرے ابا کی بادشاهت ختم هوئ اور تخت و تاج کے لٹنے کا وقت آیا تو همارے محل یعنی لال قلعه میں ایک کهرام مچا هوا تھا۔ تین وقت سے کسی نے کچھ نهیں کھایا پیا تھا۔ میری ڈھائ سال کی بچی زینب دودھ سے بلک رهی تھی۔ هم سب اسی پریشانی کے عالم میں بیٹھے تھے که ابا حضور نے همیں بلا بھیجا۔ هم ان کی خدمت میں حاضر هوۓ تو وه مصلے پر تشریف فرما تھے، اور تسبیح ان کے هاتھ میں تھی۔ مجھے دیکھ کر انهوں نے فرمایا که بیٹی میں نے تمهیں خدا کے سپرد کیا۔ تم اپنی بچی اور خاوند کو ساتھ لے کر یهاں سے فوراً کهیں دور چلے جاؤ۔ اگر تم لوگ میرے ساتھ رهے تو نقصان کا اندیشه هے۔ دور چلے جاؤ گے تو شاید الله کوئ بہتری کا سامان پیدا کردے۔ یه کہہ کر انهوں نے همارے لیے الله کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگی “یا الله ان لاوارث اور بے کس عورتوں کی آبرو بچایئو۔ تیمور کے گھرانے کی یه عورتیں جنهوں نے کبھی محل سے قدم باهر نهیں رکھا تھا میں تیرے حوالے کرتا هوں۔ تو ہی ان کی مدد فرما۔” اس کے بعد انھوں میرے خاوند مرزا ضیاء الدین کو کچھ جواهرات عنایت کیے اور بڑی حسرت و یاس سے همیں رخصت کیا۔

رات کے پچھلے پهر همارا قافله محل سے نکلا۔ همارے قافلے میں میرے خاوند اور بچی کے علاوه ابا حضور کی بیگم نور محل بھی تھیں۔ ابا کے بهنوئ مرزا عمر سلطان اور ابا کی ایک سمدھن تھیں۔ گویا همارے قافلے میں دو مرد اور باقی عورتیں تھیں۔ لال قلعے سے همیشه کے لیے جدا هوکر هم کورالی گاؤں پهنچے۔ اور اپنے رتھ بان کے مکان پر قیام کیا۔ وهاں پر همیں کھانے کو باجره کی روٹی اور پینے کو چھاچھ دی گئ۔ بھوک کی حالت میں یه چیزیں بھی همیں بریانی اور متنجن سے زیاده لزیز معلوم هوئیں۔ ایک دن تو هم نے وهاں پر امن و سکون سے گزارا۔ لیکن دوسرے دن علاقے کے جاٹ اور گوجر جمع هوکر همیں لوٹنے کے لیے آگۓ۔ ان کے ساتھ ان کی عورتیں بھی تھیں۔ وه هم لوگوں سے چمٹ گئیں۔ اور همارے تمام زیوراور کپڑے ان لوگوں نے اتار لیے۔ اس لوٹ مار کے بعد همارے پاس اتنا کچھ بھی نه بچا که هم ایک وقت کی روٹی هی کھا سکتے۔ میری ننھی سی بچی پیاس کی شدت سے تڑپ رهی تھی۔ سامنے کے ایک گھر سے زمیندار نکلا تو مین نے کها که بھائ تھوڑا سا پانی اس بچی کو پلا دے۔ زمیندار فوراً ایک مٹی کے برتن میں پانی لے آیا۔ اور کها که آج سے میں تیرا بھائ اور تو میری بهن۔ اس زمیندار کا نام بستی تھا اور یه اس کورالی گاؤں کا کھاتا پیتا زمیندار تھا۔ اس نے اپنی بیل گاڑی تیار کرکے هم کو اس میں سوار کیا۔ اور هم سے هماری منزل کا پوچھا۔ هم نے اجاڑه ضلع میرٹھ میں اپنے شاهی حکیم میر فیض علی کے هاں جانے کی خواهش ظاهر کی۔ وهاں پهنچے تو میر فیض نے هم سے ایسی بے مروتی کا اظهار کیا که همیں ایک لمحه بھی وهاں رکنے کے لیے نه کها۔ اس نے صاف کهه دیا که میں تم لوگوں کو اپنے پاس ٹھھراکر اپنا گھر بار تباه نهیں کرسکتا۔ هم سب بے حد مایوس هوۓ۔ لیکن آفرین هے اس بستی زمیندار پر که جس نے مجھے اپنی بهن کها تھا۔ اس نے آخر وقت تک همارا ساتھ نه چھوڑا۔ وهاں سے هم نے حیدرآباد کا رخ کیا۔ عورتیں بستی کی گاڑی میں سوار تھیں اور مرد پیدل چل رهے تھے۔ تیسرے روز ایک ندی کے کنارے پهنچے، تو وهاں کومل کے نواب کی فوج نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ انهوں نے جونهی سنا که هم شاهی خاندان کے افراد هیں۔ تو انهوں نے هماری بڑی خاطر مدارت کی اورهاتھی پر سوار کرا کر همیں ندی کے پار پهنچایا۔ اتنے میں سامنے سے انگریز فوج آگئ اور دونوں فوجوں میں لڑائ هونے لگی۔ نواب کے آدمیوں نے همیں فوراً وهاں سے کھسک جانے کو کها۔ سامنے کھیت تھے جن میں پکی هوئ فصل کھڑی تھی۔ هم لوگ اس میں چھپ گۓ۔ اچانک اس کھیت میں ایک گولی آئ جس سے وهاں پر آگ بھڑک اٹھی اور پورا کھیت جلنے لگا۔ هم سب وهاں سے بھاگے۔ لیکن همیں بھاگنا بھی نهیں آتا تھا۔ هم گھاس میں الجھ کر گرتے پڑتے تھے۔ سروں کی چادریں اتر گئیں۔ پاؤں زخموں سے خون آلود هوچکے تھے۔ پیاس کے مارے منه سے زبانیں باهر نکلی هوئیں تھیں۔ نور محل بیگم تو کھیت سے نکلتے هی چکرا کر گر پڑیں، بے هوش هوگئیں۔ هم سب پریشان تھے که اب کیا کریں اور کدھر کو جائیں۔ جب دونوں فوجیں لڑتی هوئیں دور نکل گئیں، تو بستی ندی سے پانی لے آیا۔ هم سب نے پیا اور نور محل بیگم کے چهرے پر چھڑکا۔ هوش میں آتے هی وه رونے لگ گئیں که میں نے خواب میں بادشاه حضور کو زنجیروں میں جکڑے دیکھا هے۔ سب نے ان کو تسلی دی اور هم پھر سے بستی کی گاڑی میں سوار هوگۓ۔ ایک گاؤں کے قریب رات هوگئ۔ تو هم نے وهیں رات گزارنے کا فیصله کرلیا۔ یه مسلمان راجپوتوں کی ایک بستی تھی۔ گاؤں کے نمبر دار نے همارے لۓ ایک چھپر خالی کروا دیا۔ جس میں سوکھی گھاس پھوس کا بچھونا تھا۔ اس طرح کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر سونے سے تو میرا جی الجھنے لگا۔ لیکن مجبوری تھی، کیا کرتے۔ رات کو پسوؤں نے بھی بھت تنگ کیا اور یوں روتے دھوتے هم نے وه رات وهاں بسر کی۔ اس کے بعد هم حیدرآباد پهنچ گۓ۔ اور سیتا رام کے علاقے میں ایک مکان کراۓ پر ره کر رهنے لگے۔ میرے خاوند کے پاس ایک قیمتی انگوٹھی تھی جو کورالی گاؤں کے جاٹوں کی لوٹ کھسوٹ سے بچ گئ تھی۔ جبل پور میں انهون نے اسے فروخت کردیا۔ اور اسی سے راستے کا خرچ چلاتے رهے۔ حیدرآباد میں بھی چند روز انهی پیسوں میں گزارا کیا، لیکن آخر وه بھی ختم هوگۓ۔ پیٹ بھرنے کے لیے گھر میں کچھ نه بچا تھا۔ میرے خاوند ایک اعلٰی درجے کے خوشنویس تھے۔ انهوں نے بڑے خوبصورت انداز میں درود شریف لکھا، اور بازار میں جار کر پانچ روپے میں اس کا هدیه وصول کیا۔ اسکے بعد انهوں نے یه کام باقاعدگی سے شروع کردیا۔ اور هماری گزر بسر اچھی هونے لگی۔ هماری رهائش کے نزدیک ایک ندی بهتی تھی۔ اس میں طغیانی آجانے کے خوف سے هم وهاں سے نظام حیدرآباد کے ایک ملازم داروغه احمد کے ایک مکان میں کراۓ پر آکر رهنے لگے۔ چند هی روز بعد شهر میں خبر مشهور هوگئ که نواب شکر جنگ جس نے شهزادوں کو اپنے پاس پناه دی تھی، انگریز کے زیرعتاب آگۓ هیں۔ ساتھ هی انگریزوں نے حکم دیا که کوئ بھی شخص شهزادوں کو پناه نه دے، بلکه انهیں گرفتار کرانے کی کوشش کرے۔ یه سن کر هم گھبرا گۓ۔ اور میں نے اپنے خاوند کو باهر جانے سے روک دیا۔ چند دن تو گھر پر بیٹھے رهے لیکن جب نوبت فاقوں تک پهنچی تو مجبوراً انهوں نے باره روپے ماهوار پر ایک نواب کے لڑکے کو قرآن کریم پڑھانے کی ملازمت اختیار کرلی۔ وه نواب میرے خاوند کے ساتھ ادنٰی ملازموں کا سا سلوک کرتا تھا۔ جس سے وه بے حد پریشان تھے۔ اسی اثناء میں کسی نے میاں نظام الدین صاحب کو همارے بارے میں بتادیا۔ میاں صاحب رات کے وقت همارے گھر تشریف لاۓ، بهت دیر تک همارے حالات دریافت کرتے رهے۔ اور اس کے بعد تشریف لے گۓ۔ صبح کو انهوں نے پیغام بھجوایا که هم نے تم سب کے خرچ کا انتظام کردیا هے، تم لوگ حج کے لیے مکه معظمه جانے کی تیاری کرو۔ یه خبر سن کر هم سب بے حد خوش هوۓ، اور مکه جانے کی تیاریاں کرنے لگے۔

حیدرآباد سے هم بمبئ کے لیے روانه هوۓ، میں نے اپنے منه بولے بھائ بستی کو خرچ دے کر رخصت کیا۔اور خود جهاز میں سوار هوگۓ۔ جهاز میں جو مسافر بھی همارے بارے میں سنتا تھا که هم شاهی گھرانے سے تعلق رکھتے هیں، همیں ملنے اور دیکھنے کا شوق ظاهر کرتا، مکه پهنچے تو الله نے هماری رهائش کا بهت هی اچھا بندوبست کردیا۔ عبد القادر نامی میرا ایک ملازم تھا، جسے میں نے آزاد کرکے مکے بھیج دیا تھا، یهاں آکر اس نے خوب دولت کمائ۔ اور زم زم کا داروغه مقرر هوگیا۔ اس کو همارے آنے کی اطلاع ملی تو وه دوڑا           هوا آیا۔ اور قدموں میں گر کر خوب رویا۔ اس کا مکان بهت اچھا اور آرام ده تھا۔ هم سب وهیں ٹھھر گئے ۔ چند روز بعد روم کے سلطان کے نائب کو جو مکے میں رهتے تھے، هماری آمد کی اطلاع ملی، وه خود همیں ملنے چلے آۓ، اور خواهش ظاهر کی که میں آپ کے آنے کی اطلاع حضور سلطان کو دینا چاهتا هوں۔ لیکن میں نے انهیں جواب دیا که هم ایک بڑے سلطان کے دربار میں آگئے هیں، اس لیے همیں کسی دوسرے سلطان کی پرواه نهیں۔ بہرحال نائب سلطان نے همارے اخراجات کے لیے ایک معقول رقم مقرر کردی۔ اور هم نو برس تک وهاں مقیم رهے۔ اس کے بعد ایک سال بغداد شریف اور ایک سال نجف اور کربلاۓ معلٰی میں بسر کیا۔ وطن سے دور هوۓ اتنی مدت هوگئ تھی، دهلی کی یاد نے بے چین کیا تو واپس دهلی آگئے ۔ یہاں پر انگریز سرکار نے ہم پر ترس کھاکر دس روپے ماهوار پینشن مقرر کی۔ اس رقم کا سنکر مجھے بے حد هنسی آئ، که میرے باپ کا اتنا بڑا ملک لے کر اس کا معاوضه صرف دس روپے دیتے هیں۔ لیکن پھر خیال آیا که ملک تو خدا  کا ہے  وه جس کو چاهے دے دیتا هے اور جس سے چاهے چھین لیتا هے۔ اسکے کاموں میں کسی انسان کو دم مارنے کی جرات نهیں۔"
دلی کا حال یہ تھا کہ کوئی اگر روٹی خیرات کرتا یا چنے بانٹا تو بھوکی عورتوں کا ٹھٹھ لگ جاتا ، اور ان میں سے اکثر بیبیاں وہ ہوتیں جو اچھے دنوں میں سال دو سال پہلے تک اپنے ہاتھوں سے ہزاروں روپے اور اس سے کہیں زیادہ صدقات و خیرات کرتیں - علامہ راشد الخیری "دلی کی آخری بہار" میں لکھتے ہیں "بہادر شاہ کی ایک صاحبزادی احمدی بیگم کے شوہر مرزا منجھو جو غدر میں کام آئے بڑے دبدے کے آدمی تھے ۔ ان کی سرکار بنی ہوئی تھی۔ بیسیوں آدمی ان کے دسترخوان پر بیٹھتے تھے ۔ دروازہ پر نالکی پالکی موجود تھی۔ جب مرزا مارے گئے اور شہر کی حالت بگڑی تو بڑی بیگم یعنی احمدی بیگم نے اپنا اور بہو بیٹیوں کا تمام زیور خانم کے بازار والی حویلی میں گاڑنے کا ارادہ کیا ۔ دو پتیلیاں زیور سے بھری تھیں ہزاروں کا مال تھا۔ شہر کی کیفیت لمحہ بہ لمحہ ردی ہورہی تھی۔ عین شب برأت کے روز یہ سب شہزادیاں نکل کھڑی ہوئیں ۔  
احمد ی بیگم کی ضعیفی میرا بچپن تھا۔ انہوں نے سو برس کے قریب عمر پائی ۔ آخری دنوں میں وہ باہر نکلنے کے قابل نہ رہیں ۔ اور بہت سخت تکلیفیں اٹھاکر یہ شہزای دنیا سے اس طرح رخصت ہوئی کہ کفن بھی وقت سے میسر نہ ہوا۔ فالج نے بالکل بے کار کر دیا تھا۔ چل پھر نہ سکیں تھیں اور کئی دموں کاگذارا اس ایک دم کی محنت پر تھا۔ میری عمر بارہ تیرہ بس کی ہوگی کہ میری والدہ مرحومہ نے احمدی بیگم کا پتہ دے کر مجھے ایک روپیہ دیا کہ دے آؤ۔ میں گیا اور مرزا شیشہ والے کے گھر پر جاکر جو بندریا والے مشہور تھے ۔ اس لیے کہ ان کے ہاں بندریا پلی ہوئی تھی۔
  ان کا گھر پوچھا ۔ اس وقت تو خیال بھی نہ ہوا ۔ مگر آج جب دھیان آتا ہے تو اس گھر اور گھر والوں کی تصویر آنکھ کے سامنے پھر جاتی ہے ۔
 شہزادی کے گھر میں کھانے کے واسطے مٹی کے ٹوٹے برتن تھے اور سردی کے موسم میں بادشاہ کی یہ اولاد دبکی اور سکڑی بیٹھی تھی۔ احمدی بیگم اس روپیہ کو دیکھ کر جس قدر خوش ہوئیں اور جو دعائیں ان کے دل سے نکلیں ان کٍا اظہار مشکل ہے ۔ اس وقت ہنستا ہوا گیا اور ہنستا ہوا آیا۔ مگر آج جب احمدی بیگم کی اس جھنگار چارپائی کا خیال آتا ہے تو تڑپ جاتا ہوں ۔" 
(جاری ہے )




Comments