جنگ آزادی - 1857 جنرل بخت کے جانے کے بعد ! ( نجیب ایوبی)‎ قسط نمبر 16‎

بخت خان کےچلے جانے کا مطلب یہ تھا کہ اس بہادر جنرل کے ساتھ بریلی سے آئی ہوئی بارہ ہزار کی فوج بھی دہلی کے فرمانروا بہادر شاہ ظفر کی بزدلی سے مایوس ہوکر بخت خان کے ساتھ اودھ کی جانب چلی گئی - کیونکہ اب دلی میں روکنا سوائے موت کو دعوت دینے کے کچھ نہ تھا - اس موقع پر فیروز شاہ دلی میں ہی رکا رہا اور باقی بچ رہنے والے باغیوں کے ساتھ مل کر بد ستور انگریز فوج کے خلاف مزاحمت کرتا رہا -
ادھر غدار ملت رجب علی نے مرزا الہی بخش کو پابند کیا ہوا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے بادشاہ کو چوبیس گھنٹے تک کسی نہ کسی طرح ہمایوں کے مقبرے میں ہی روکے رکھنا - چناچہ الہی بخش نے بادشاہ کو مقبرے ہی میں روکے رکھا - انگریز جنرل نکلسن کے مارے جانے کی خبر سے انگریز فوج کی آنکھوں میں خون اترآیا تھا - دلی میں جہاں جہاں ان کا قبضہ ہوچکا تھا ہر طرف مقامی مسلمانوں کی لاشیں ہی لاشیں نظر آتی تھیں - میجر ہڈسن نے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے تھے - رجب علی کی مخبری پر ہڈسن بذات خود ہمایوں کے مقبرے پر آچکا تھا - ہڈسن نے اپنی ہائی کمانڈ سے بادشاہ کی گرفتاری کے سلسلے میں ضروری ہدایات حاصل کرلی تھیں - ہڈسن کے علاوہ سب ہی اس بات پر متفق تھے کہ بادشاہ کو گرفتار کرکے قتل کردیا جائے اور اسطرح نکلسن کی موت کا بدلہ لیا جائے - مگر ہڈسن کے خیال میں زندہ بادشاہ انگریز کے لئے زیادہ فائدہ مند ہے ، اس کی رائے میں کیونکہ پورے ہندوستان پر ابھی تک انگریز کا قبضہ نہیں ہوا ہے لہٰذا قبضہ مکمل ہونے تک بادشاہ کا زندہ رہنا بہت ضروری ہے - ہڈسن مقبرے کے مغربی دروازے پر کھڑا تھا ، ایک سپاہی کے ذریعے بادشاہ کو پیغام بھجوایا گیا کہ بادشاہ سلامت با ھر تشریف لے آئیں ، انگریز کمانڈر ہڈسن ملاقات کے متمنی ہیں - ظل سبحانی بھا در شاہ ظفر نے یہ پیغام سن کر اپنے برابر میں کھڑے مرزا الہی بخش کی جانب گھورتے ہوئے ناگواری کے ساتھ پوچھا " کیا ماجرا ہے ؟ ہمیں گرفتار کرنے کا حکم آیا ہے ؟ مگر تم تو کہتے تھے ایسا نہیں ہوگا ؟ تم نے مجھے بخت خان کے ساتھ جانے سے روکے رکھا ، تم نے کہا تھا کہ انگریز کو مجھ سے کوئی سروکار نہیں ، انگریز تو صرف باغیوں کا دشمن ہے - مجھ سے کوئی لڑائی نہیں ، مگر یہ کیا ہے ؟؟"
مرزا سر جھکائے خاموش کھڑا رہا - بادشاہ نے کوشش کی کہ بخت خان کو بلایا جائے ، مگر ملکہ نے جواب دیا ، حضور اب اس کا کوئی فائدہ نہیں ، بخت خان بہت دور نکل گیا ہوگا - اور بلاوجہہ خوں خرابہ ہوگا، بہتر ہے آپ اپنی ، میری اور جواں بخت کی جان بخشی کروالیں - چچا مرزا اس معاملے میں ہماری مدد کریں گے - ملکہ نے مرزا الہی بخش کو دیکھتے ہوئے دل کی بات کہہ ڈالی- اب بہادر شاہ ظفر کے پاس سوائے گرفتاری دینے کے کوئی اور راستہ نہیں تھا دو ڈھائی گھنٹے ہڈسن اور مرزا کے درمیان شرائط طے پانے میں لگ گئے - بالآخر بادشاہ سلامت ، ملکہ عالیہ اور شہزادی کی جان بخشی کا معاملہ طے پایا - شام ڈھلنے سے کچھ پہلے بادشاہ سلامت ہمایوں کے مقبرے سے بمعہ بیگمات و بچگان ،شہزادے اور ملازمین خاص کے ہمراہ باہر تشریف لائے - بادشاہ کے ساتھ تقریبآ با ننوے افراد گرفتار ہوئے - ہڈسن نے بادشاہ کو رتھ میں سوار کروایا - بیگمات کو پالکی میں بٹھایا اور سو فوجیوں کے قافلے کی نگرانی میں تمام شاہی گرفتار شدگان کو قلعہ کی جانب لیجایا گیا - اسی دوران      ﺷﮩﺰﺍﺩﮦ ﻣﺮﺯﺍ ﻣﻐﻞ، ﺷﮩﺰﺍﺩﮦ ﺧﻀﺮ ﺳﻠﻄﺎﻥ، ﻣﺮﺯﺍ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮﺍﻭﺭ ﻣﺮﺯﺍ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ - بادشا ہ کو ان شہزادوں کی گرفتاری کا کوئی علم نہیں تھا - ان شہزادوں کو رتھوں ( گاڑیوں ) میں سوار کرواکر شہر سے کوئی ایک میل کے فاصلے پر ٹہرا لیا گیا - جہاں ہڈسن کے آنے تک ان شہزادوں کو برہنہ رہنے کا حکم دیا گیا - ہڈسن بادشا ہ اور بیگمات کو کوٹھری میں پہنچانے کے بعد اس جگہ پہنچا جہاں شہزادوں کو رکھا گیا تھا - ہڈسن نے آتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ تینوں شہزادوں کو اپنے ہاتھ سے گولی مار کر شہید کیا - آنا فانا ان کے جسم زمین پی گر گئے - معروف تاریخ دان پرفیسرمجیب اشرف کے مطابق پرانی دلی میں دروا زہ خونی گیٹ پر ان شہزادوں کی لاشیں لٹکائی گئیں تاکہ اہلیان دلی بغا وت کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں - ایک اور روایت کے مطابق چاندنی چوک کوتوالی کے ئیں سامنے مرزا خضر سلطان ( سب سے چھوٹے شہزادے ) اور دوسرے بڑے بھائی کی لاشیں لٹکائی گئیں - شہزادہ مرزا مغل، مرزا خضر اور پوتےمرزا ابو بکر کی لاشوں کو لٹکانے کے بعد ان کے سروں کو کا ٹ دیا گیا اور بادشاہ کو زچ کرنے کی خاطر تینوں شہزادوں کے سر ایک چاندی کی تھال میں مخمل کے کپڑے میں ڈھک کر بادشاہ کے حضور پیش کیا گیا - کہا جاتا ہے کہ گرفتا ر بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے جونہی اس تھال سے مخمل کا کپڑا ہٹایا تو دو شہزادوں اور ایک جان سے زیادہ عزیز پوتے کا سر نظر آیا جن سے خون رس رس کر تھال میں جم چکا تھا - حسن نظامی مرحوم اپنے والد کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ ہڈسن نے ان شہزادوں کے خون کا گھونٹ پیا اور کہا کہ " اگر میں ایسا نہ کرتا تو پاگل ہوجاتا " اس دلخراش منظر اور سانحے پر بہادر شاہ ظفر آبدیدہ ہوگئے مگر ایک آنسو نہیں بہایا - بلکہ اور جوش میں آگئے اور کہا کہ " تیموری شہزادے اپنے باپ کے سامنے ایسے ہی سرخ رو ہوکر پیش ہوا کرتے ہیں۔" پروفیسر مجیب اشرف کی تحقیق کے مطابق خونی دروازہ کئی اور حوالوں سے بھی مشہور ہے - اس کی تعمیر شیر شاہ سوری کے دور میں ہوئی تھی - یہ قلعہ کا مرکزی داخلی دروازہ تھا -اس سے پہلے شہنشاہ جہانگیر نے عبدالر حیم خان خاناں کے دو لڑکوں کو اسی گيٹ پر پھانسی دی تھی، بعد کے دور میں اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے بھائی دارا شکوہ کو بھی وہیں قتل کیا تھا -اور اسطرح ہندوستان کا پایہ تخت دلی مکمل طور پر انگریزوں کی دسترس میں آگیا - آٹھ سو سالہ مسلمان سلطنت اور خاندان مغلیہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر تباہی و بربادی کی المناک داستان کے طور پر تاریخ کی کتابوں میں ہمیشہ کے لئے درج ہوگئی - ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہندوستان میں آمد درحقیقت صرف اور صرف ہندوستان پر قبضہ کرنے کیلئے ہی تھی - تجارتی منڈی ڈھونڈھنے کا تو محض ایک بہانہ تھا، جنگ پلاسی کے بعد سے حالات انگریزوں کے لئے ساز گار ہوتے چلے گئے - میر جعفر بنگال میں ، میسور میں میر صادق . دہلی میں مرزا الہی بخش . رجب علی حکیم احسن اور بہت سے دوسرے انگریزوں کے ساتھ مل چکے تھے ، غیروں کا کیا رونا ؟ گھر آگ لگانے کے لئے گھر کے چراغ ہی کافی تھے - لارڈ کلائیو سے لیکر لارڈ ڈلہوزی ایسٹ انڈیا کمپنی کے گٹھ جوڑ نے یہ بات ثابت کردی تھی کہ کمپنی کا مقصد ہندوستان پر قبضے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا - مغل بادشاہ شاہ عالم نے بھی انگریز کی بالادستی قبول کرلی تھی - اس کے بعد جب 1838 میں بہادر شاہ محمّد ظفر تخت پر بیٹھے تو انگریز گورنر جنرل لارڈ النبرا نے بادشاہ کو قلعہ چھوڑنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی ساتھ شاہی خطابات سے دست بردار ہونے کا حکم بھی دیا - اس لحاظ سے خاندان تیموریہ یعنی مغل حکومت کا عملا خا تمہ تو ہو ہی چکا تھا - بادشاہ سلامت ماہانہ ایک لاکھ کی پنشن پر تھے - بادشاہ سلامت کے نام کا سکہ ٹکسال میں صرف اس لئے ڈھالا جاتا تھا کہ ہندوستان کے عوام مشتعل نہ ہوں - لارڈ النبرا سے خفیہ معا ئیدے کی رو سے بادشاہ صرف نام کے بادشاہ رہ گئے تھے - جبکہ ولی عہد مرزا فخرو کے مرنے کے بعد مرزا قریش کو اس بنیاد پر ولی عہد بنایا گیا تھا کہ وہ ایک لاکھ پندرہ ہزار کی پنشن کے بجائے صرف پندرہ ہزار پنشن لیں گے اور ان سے شاہی خطاب بھی واپس لے لیا جائے گا - انگریزوں سے آزا دی کے لئے 1857 میں لڑی جانے والی آزدی کی تحریک ، واقعات و حالات کو پڑھنے والا قاری آخری مغل تاجدار ظل سبحانی شہنشاہ معظم بادشاہ سلامت شاہ محمد بہادر شاہ ظفر کی بہادری ڈھونڈتا ہی رہ جاتا ہے ، مگر کہیں بھی کوئی داستان ، کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں ملتا جسے بہادری کے عنوان میں ڈالا جاسکے ، ماسوائے مظلومیت کے آخری چند ایام اور شہزادوں کے سر کٹے لاشوں کے - باغی سپاہیوں کی بغاوت نے بہادر شاہ ظفر کو انگریز سے کئے معایدے کے خلاف باغی سپاہیوں کا ساتھ دینے کا مجرم گردانا گیا - میرا اپنا خیال یہی ہے کہ یقینا بہادر شاہ ظفر اور انگریز لارڈ النبرا کے درمیان خفیہ معاہدہ ہی بہادر شاہ ظفر کے پاؤں کی زنجیر تھا جس نے بادشاہ کو ہمت و بہادری کے ساتھ با غیوں کا ساتھ دینے اور انگریز کے خلاف کھل خلا کر جنگ کرنے سے باز رکھا - انگریز کی فوج جس نے دہلی پر قبضہ کیا کل تعداد چھہ ساڑھے چھ ہزار سے زیادہ نہ تھی - اس کے مقبلے پر باغی فوج کی تعداد اگر بخت خان ، اور مولوی جعفر تھاںسیری کی سپاہ بھی ملائی جائے تو ان کی ہی تعداد تقریبا بڑھ ہزار تھی اس کے علاوہ مقامی افراد کی تعداد بھی ہزاروں سے کم نہیں تھی - کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر بادشاہ سلامت کی جانب سے نیک نیتی کے ساتھ انگریز کا مقابلہ کیا جاتا تو ہندوستان پر انگریز کبھی بھی قابض نہیں ہوسکتا تھا - مگر حقیقت یہی ہے کہ خاندان مغلیہ ملیامیٹ ہوچکی تھی - ہاں اتنا ضرور ہے کہ بادشاہ نے اپنی نجی محافل اور دربا ری مشاعروں میں باغیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے کلام موزوں کیا اور اپنے اشعار کے ذریعے ہندوستان کو آزاد کروانے کا اشارہ دیا - بادشاہ کا یہی کلام مقدمہ غداری میں آپ کے خلاف گواہی کے طور پر بطور ثبوت پیش کیا گیا - منشی جیون لال روزنامچہ نویس نے بادشاہ کے خلاف گواہی دیتے ہوئے ان کا حوالہ بھی دیا - گواہی کے مطابق بادشاہ نے مشہور شاعر صدر الدین آزردہ کے سامنے جہاں دیگر شعراء بھی موجود تھے اپنا کلام سنایا - جس کا مفہوم یہ ہے ' ' خدا کرے کہ دین کے دشمن تباہ و برباد ہو جائیں - اور خدا کرے کہ فرنگی نیست و نابود ہو جائیں - قربانیاں دے کر عید کے تہوار کو مناؤ اور دشمن کو تہہ تیغ کردو کہ کوئی بچ کہ نہ جانے پائے " چند نعرے جو باغیانہ اشعار کی وجھہ سے مقبول عام ہوئے وہ یہ تھے " ایک دو تین ، گھوڑے کی زین ، بھا گ جاؤ وارن ہیستین " " لبا لب پیالہ بھرا خون سے ،فرنگی کو مارا بڑی دھوم سے " بہادر شاہ ظفر کا بیشتر کلام ہنگامہ کی نذر ہوگیا - اور کہیں بھی محفوظ نہیں رہ سکا - بادشاہ کا اکثر کلام ترتیب کے لئے حکیم احسان الله کے پاس جمع ہوتا تھا مگر غدر کے ہنگاموں میں جانے کہاں ضا ئع ہو گیا البتہ کچھ اشعار ، غزلیں سینہ بہ سینہ لوگوں تک پہنچیں اور محفوظ ہوگئیں - ملک بدری میں بھی کلام کہا گیا جو بادشاہ اپنے ملاقاتیوں کو سناتے تھے - اس کلام بادشاہ نے دلسوزی کے ساتھ وطنیت ، اجتمعا ئیت اور جذبات کا پرسوز اظہار کیا ہے - " کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل ، کوئی کیا کسی سے لگائے دل وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے بندھے کیوں نہ آنسوؤں کی جھڑی ، کہ یہ حسرت ان کے گلے پڑی وہ جو کاکلیں تھی بڑی بڑی وہ انہی کے پیچ میں آگئے نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں .نہ کسی کے دل کا قرار ہوں جو کسی کے کام نہ اسکے ، میں وہ ایک مشت غبار ہوں
دلی پر قبضے کے بعد انگریزوں نے اس وقت دلی کے فصیل بند شہر کے مکینوں پر جو ظلم ڈھائے اس کا اندا زہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہرگلی، محلے میں خوف و ہراس کا ماحول تھا۔’صرف کوچہ چیلان میں ایک دن کے اندر 1400 سے زائد لوگوں کو ہلاک کیا گیا تھا، ایک انگریز مورخ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ " بوڑھوں کو قتل ہوتے دیکھ کر اسے بڑا افسوس ہوتا تھا" کتا بوں میں لکھا ہے کہ کوتوالی کے چوراہے پر روزانہ شام کو ایک اچکن سینے والے کی دکان کھلتی تھی جو سر شام اپنی دکان کے آگے کرسیاں ڈال کر بیٹھ جاتا تھا - گرمی کی شاموں میں پانی کا چھڑکاؤ بھی ہوتا - شام ہوتے ہی انگریز میمیں ، اور گورے صاب ٹولیوں کی صورت میں جمع ہوجاتے - پھر باغی قیدیوں کی لاری ان باغیوں کو لیکر آجاتی - سب کو باری باری کھمبے پر سولی سے لٹکا یا جاتا - ان میں جوان بوڑھے اور کم عمر بھی ہوتے - رات گئے تک یہ تماشہ جاری رہتا - ہر سولی پر انگریز شراب کا گھو نٹ پیتا اور لاشوں کو تڑپتا دیکھ کر دوسرے انگریز کی جانب فاتحانہ شان دے دیکھ کر "چیئیرز" کرتا -






اس وقت کے مشہور شاعر صہبائی کوچہ چیلان میں رہتے تھے۔ ان کی انقلابی نظمیں اور کلام باغی سپاہ کا حوصلہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرہا تھا -انگریزوں کے غلبہ کے بعد اس کوچہ پر جو مصیبت نازل ہوئی، صہبائی بھی اس کی زد میں آئے اور اس کوچہ کے کئی دوسرے باشندوں کی طرح بالکل بے گناہ و بے قصور قتل کر دیے گئے۔ا صہبائی کے ساتھ ان کے بیٹے عبدالکریم سوز بھی ہلاک ہوئے۔ خواجہ حسن نظامی کا بیان ہے کہ اس قتل عام میں صہبائی کے کنبہ کے کل ۲۱ افراد قتل ہوئے۔ زیادہ تر جو علاقے قتل و غارت گری کی زد میں آئے وہ مسلمانوں کے تھے - ہندو علاقے وفاداری کا سرٹیفیکٹ لے چکے تھے - گھر بار خالی کرکے مسلمان ادھر سے ادھر جان بچانے کے لئے بھگتے پھرتے - ان کے مکانات پر قبضے کر لئے گئے - انگریز نے فوری طور پر کرنل برن کو شہر کا گورنر نامزد کیا - کرنل برن نے جو پہلا حکمنامہ جاری کیا وہ یہ تھا کہ سب کے مردوں ، عورتوں اور بچوں کو سازو سامان سمیت ہمارے سامنے پیش کیا جائے - چناچ حکم کی تعمیل ہوئی - جو بھاگ گئے تھے ان کے اسباب کرنل کی حویلی کے آگے ڈھیر کردے گئے - جی بچ رہے ان کی عورتوں ، بچوں اور جوان بچیوں کو کرنل برن کے محل گھسیٹے ہوئے لے جایا گیا - جہاں انصاف ملتا ، انصاف بھی کیا ؟ سارا سامان بحق سرکار ضبط اور بوڑھی عورتوں اور معصوم بچوں کو دھکے مار کر شہر سے نکل جانے کا حکم نامہ مل جاتا - آبرو بچانے کو باپردہ جوان عورتوں نے کنوؤں میں کود کر اپنی جان دے دی - یہاں تک ہوا کہ کنویں ان کی لاشوں سے پٹ گئے - جن خواتین نے اب جو چھلانگ لگائی تو ڈوبنے کے بجائے وہ لاشوں پر ہی گریں - جب ان کو نکالا جاتا تو وہ کنویں سے زندہ نکلنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتیں - معصوم بچوں کو سینے سے لگا ئے کنوؤں میں چھلانگ لگادیتیں - کئی غیرت مند مردوں نے اپنی تلواروں سے پہلے اپنی بیوی بیٹیوں کو قتل کیا اور پھر چار و ناچار گرفتاری دے دی - ایک خوبصورت جوان لڑکی جو اندھی تھی جب انگریز نابکار ان پر جھپٹے تو اندھی لڑکی کنویں میں کود گئی اس کے پیچھے ماں بھی کنویں میں کودی ، دو بیٹے مارے گئے ، شوہر کو پھانسی گھاٹ پر لٹکادیا گیا - (جاری ہے )

Comments