کنیکٹ کراچی - 2017- آنکھوں دیکھا حال - تحریر : نون - الف‎

گزشتہ اتوار کو کنیکٹ کراچی - 2017 احباب اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے سابقین کے اعزاز میں ہونے والا " فیملی گیٹ تو گیدر " بلاشبہ ایک شاندار پروگرام ثابت ہوا - اس پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ شہر کراچی میں دو دن کی موسلا دھار اور لگاتار بارش اور جل تھل کرتی سڑکوں کی ناگفتہ بہ حالت کے باوجود جس عزم و ہمت اور جستجو کے ساتھ احباب جمعیت نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں اس تقریب میں شرکت کی وہ قابل ستائش ہے - میرا اپنا معاملہ یہ تھا کہ ایک رات پہلے تک مجھے یقین نہیں تھا کہ میں یخ بستہ ہواؤں ، ٹھنڈ اور بارش کے سبب اس پروگرام میں شریک ہو بھی سکوں گا کہ نہیں؟ - رات گئے میرے ایک دوست کا فون آیا اور ان کا مشورہ تھا کہ منتظمین کو آپ مشورہ دیں کہ پروگرام کی تاریخ آگے بڑھا دیں - میرے دوست کے خیال میں بارش اور موسم کی وجہ سے شاید پروگرام نہ ہوسکے - سچی بات تو یہ تھی کہ میں خود بھی اسی مخمصے میں تھا کہ کسی طرح منتظمین کی جانب سے پروگرام کی تبدیلی یا اگلی تاریخوں کا اعلان کردیا جائے - ابھی ذہن ہاں اور ناں کی درمیانی کیفیت اور ڈھل مل یقین کی ملی جلی کیفیت میں تھا کہ رات گئے سوشل میڈیا پر منتظمین کی ایکسپو ہال سے پروگرام تیاریوں انتظامات کا جائزہ لینے والی تصاویر نے چونکا دیا - اور پھر یقین ہو گیا کہ " جماعتی بڑے ہی ڈھیٹ ہیں " -پروگرام کرکے ہی چھوڑیں گے - گھر میں بچے ایک ٹانگ پر کھڑے تھے کہ فیملی پروگرام ہے اور ہم بھی چلیں گے - لہذا بچوں کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ اگر صبح دھوپ نکل آئ تو ضرور چلیں گے - فجر میں آنکھ کھلی تو موسم پچھلی رات کی طرح سرد تھا - کچھ دیر کو آنکھ لگی - اور دس بجے بچوں نے جھنجوڑ کر بستر سے اٹھا دیا " ابو ابو دھوپ نکل آ ئی " ! بچوں کے نعرہ مستانہ نے مجھے بستر چھوڑنے پر مجبور کردیا - بارش رک چکی تھی لہذا تساہل برتنے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی - ایکسپو پہنچتے پہنچتے سورج بھی اپنا اثر دکھا چکا تھا - جیسے ہی ہال کے استقبالی ایریا میں داخل ہوئے رجسٹریشن انچارج نویدعلی بیگ سے ملاقات ہوئی اور رجسٹریشن کے مراحل سے گزر کر اس جگہ پہنچے جہاں اصل تقریب ہو رہی تھی - پہلا سیشن جاری تھا - نائب امیر جما عت اسلا می کراچی جناب اسامہ رضی صا حب اس سیشن کے میزبان تھے - ہال ابھی پورا نہیں بھرا تھا مگر شرکا کاجوش اپنے عروج پر تھا - اور کیوں نہ ہوتا اس سیشن کی صدا رت سا بق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن ( سا بق ناظم اعلی اسلامی جمعیت طلبہ ) کر ر ہے تھے - مہمانان کرام اور احباب کی اسٹیج سے ہونے والی گرما گرم اور ماضی و حال کی جمعیت اور موجودہ حالات میں احباب کے کردار پر گفتگو ہوتی رہی -ساتھ ہی ساتھ احباب کی بڑی تعداد آپس میں ملاقاتوں ،سیلفیوں میں بھی مصروف دکھائی دی - اس سیشن میں ایک بزرگوار سے ملاقات ہوئی جو غالبا ستر سال کے ہوں گے - لاٹھی تھامے نفیس اجلے لباس زیب تن کئے رجسٹریشن کا ونٹر پر لائن میں لگے ہوئے تھے ، نوید علی بیگ نے ان کو دیکھا اور قطار سے نکا ل کر سب سے آگے لے آئے - تعارف حاصل کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ ماشاللہ 1953 میں اسلامی جمیعت طلبہ کے رکن تھے اور اس تقریب میں بہت اہتمام کے ساتھ شرکت کرنے آئے ہیں - رجسٹریشن کے مرحلے پر ہی ایک خوبصورت اور دیدہ زیب مجلہ " احباب -کراچی " تقسیم کیا جارہا تھا - جو اپنے گیٹ اپ اور شاندار تحریروں کے سبب ایک یادگار دستاویز ثابت ہوا - اور بھی بہت سے ہوں گے جو اپنے بچھڑے دوستوں اور جوانی کے رفقاء سے ملنے جانے کتنے دنوں سےاس پروگرام میں شرکت کیلئے تیار بیٹھے ہوں گے - اسی طرح جناب محترم مظفر ہاشمی صاحب ( سا بق ممبر قومی اسمبلی ) نے بھی تقریب سے کچھ عرصہ پہلے اس پروگرام کی تیاریوں کے سلسلے میں ایک نشست رکھی جس میں 1960 کے عشرے کے احباب کو مدعو کیا گیا تھا - اور اس میں بھی پچاس سے زیادہ احباب جمع ہوگئے تھے -
27 ذیلی کمیٹیوں اور بیسیوں سابقین کی انتھک محنتوں سے سجا احباب کا یہ پروگرام " امید کی کرن " ثابت ہوا - پہلے سیشن میں محترم منور حسن صاحب کی فکر انگیز گفتگو اور اسامہ رضی کی نظامت نے سرد ماحول کو خاصہ گرما دیا - حافظ نعیم الرحمان امیر حلقہ کراچی نے ہمیشہ کی طرح نہایت پر اثر گفتگو کی - امریکہ سے بطور خاص آئے ہوئے ہمارے دوست معوذ صدیقی بھی خوب بولے اور اپنے تجربات و احساسات کو ہم تک پہنچایا - آسٹرلیا سے تشریف لائے ہوئے سابق راؤ وجاہت علی اپنی تنظیم کے اسٹال کے ساتھ ساتھیوں کے درمیان دکھائی دئیے - اسی طرح انیق احمد بھائی نے بھی جذبات سے بھرپور گفتگو کی - احباب کو ان کی اعلی خدمات پر ایوارڈ دینے کا سلسلہ بھی دوران سیشن جاری رہا - اس کے بعد نماز اور کھا نے کا بریک تھا - جس میں احباب اپنی فملیز کے ساتھ ملتے ملاتے اور خوش گپیوں میں مشغول دکھائی دئیے - اس کو دیکھ کر کچھ کچھ امریکہ میں اسلامی تنظیم " اکنا " کا سا لانہ کنونشن یاد آگیا - نماز اور کھانے کے بعد دوسرا سیشن مشاعرے کا تھا - جو توقع کے برخلاف بہت ہی کامیاب رہا - عام طور پر مشاعرے دوپہر میں نہیں ہوتے - اس قسم کی شعری مجا لس کے لئے رات کا وقت ہی موزوں ہوتا ہے مگر جس انداز میں مشاعرہ شروع ہوا اس کی ابتداء نے ہی انتہا کا پتہ دے دیا تھا - اس مشاعرے کے میزبانی معروف ادبی سماجی شخصیت جناب شکیل خان کے ذمے تھی - ان کی بھرپور اور گرجدار نظامت نے شعرا کو ادھر ادھر بھٹکنے اور ایک کلام سے آگے تجاوز کرنے ہی نہیں دیا - شعرا کرام میں شاعر جمعیت جناب افضال احمد بطور خاص لاہور سے تشریف لائے ، جاپان سے آئے ہوئے جناب عبدا لرحمان ، اجمل سراج ، پروفیسر محمود غزنوی ( سابق صدر جا معہ کراچی اسٹوڈنٹ یونین ) علا الدین خانزادہ ( سابق صدر کراچی پریس کلب ) ،ڈاکٹر اورنگ زیب رہبر ، کالم نگار نجیب ایوبی، نعیم الدین نعیم ، نوجوان طالبعلم شاعر عبدالرحمان مومن ( ماہنامہ ساتھی )، اور میٹرک کے طالبعلم نوجوان شاعر شہیر سلال نے اپنے کلام سے مستفیض فرمایا - وقت کی شدید کمی کے سبب اس سیشن کا دورانیہ محض ایک گھنٹہ رکھا گیا تھا - احباب کے ذمہ دار اور پروگرام کے روح رواں جناب وا سع شا کر صاحب جو خود بھی ادب اور فنون لطیفہ کے بہت بڑے دلدادہ ہیں سارا وقت دلچسپی کے ساتھ اسٹیج پر موجود رہے - جناب محترم عنایت علی خان صاحب کی زیر صدارت اس مشاعرے کی خاص بات یہ تھی کہ اس مشاعرے کے تمام پڑھنے والوں کا تعلق کسی نہ کسی دور میں جمیعت سے رہا تھا - اسی بناء پر صا حب صدر سمیت تمام شرکاء مدعو کے گیے تھے - عام طور پر مشاعرے واہ واہ اور داد کے حوالے سے کامیاب قرار دے جاتے ہیں مگر اس مشاعرے کا کلائمکس یہ تھا کہ
جب محترم عنایت علی خان صا حب نے اپنا صدارتی کلام سا معین کی نذر کیا تو پورا آڈوٹوریم فرط جذبات سے نعرہ تکبیر کی آوازوں سے گونج اٹھا - محترم عنایت علی خان نے جماعت کے شہید رکن قومی اسمبلی جناب ڈاکٹر نذیر احمد شہید کی شہا دت پر اپنی شہرہ آفاق نظم " طلبگار یہاں اور بھی ہیں " - جس جذبے لگن اور شوق پڑھی تو بےساختہ سامعین کی آنکھوں سے اشک رواں ہو گیۓ اور فرط جذبات میں اللہ کی تکبیریں بلند ہورہی تھیں - ایک نہایت جذباتی فضاء میں یہ شاندار محفل مشاعرہ اپنے اختتام کو پہنچی -
پھر تیسرا اور چوتھا سیشن بھی ہوگیا - جب ایوارڈ تقسیم ہوئے اور پھر جب امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق صاحب تشریف لائے - امیر العظیم بھائی - وقاص انجم جعفری ، موجودہ نا ظم اعلی کاکاخیل بھائی سمیت تمام شرکاء ہی خوب بولے - میں سمجھتا ہوں کہ خطاب کرنے والے احباب نہیں ان کے ماضی کی جمیعت ان کے اندر سے بول رہی تھی - ایک ایک حرف ایک اک لفظ ماضی کا عکس لئے حال کی ترجمانی کرتا سنائی دیا - بہرکیف رنگ و نور و جذبوں میں ڈوبی یہ تقریب بھی آخر کو اختتام پر آنی ہی تھی، سو اختتام پذ یر ہوئی - اور بیشمار یادوں کی شمعیں ہمارے دلوں اور ذہنوں میں روشن کرکے چلی گئی - پروگرام کے بارے میں ساتھیوں کی بہت سی آراء ہو سکتی ہیں - ان میں سے کچھ بہت اہم اور کچھ کم اہم ہو سکتی ہیں مگر غیر اہم ہرگز نہیں - کچھ افراد کا خیال ہے کہ اس تقریب میں تقاریر بہت زیادہ تھیں - اس طرح کی تقاریر تو ہر بڑے پروگرام میں ہوتی ہی رہتی ہیں - یہاں تو کچھ منفرد ہونا چاہیے تھا احباب کو ملنے جلنے اور آپس میں گفتگو کرنے کے زیادہ مواقع ملنے چاہییں تھے - اسی طرح پروگرام میں دئیے جانے والے ایوارڈز پر بھی کچھ ساتھی گفتگو کرتے دکھائی دئیے - کچھ کا خیال تھا ان کو کیوں ملا ؟ کچھ کہہ رہے تھے کہ ان کو کیوں نہیں ملا ؟ احباب کے اہل خانہ جو بطور خاص ساتھ آ ئے تھے ، ان کے لئے کسی قسم کی کوئی ایکٹویٹی نہیں تھی - دوسرے الفاظ میں بچے اور خواتین بجھے بجھے دکھائی دئیے - ( آئندہ کے لئے اگر ان کو مدعو کرنا ہے تو ان کی دلچسپی کا بھی کوئی خاص اہتمام رکھا جانا چاہیے ) میرا خیال ہے کہ اس طرح کے سوالات شرکاء کا حق ہیں - ضروری ہوا تو جلد یا بدیر اس کا جواب بھی ساتھیوں کو مل جائے گا - میرے نزدیک اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس پروگرام سے ہم نے کیا حاصل کیا اور ہم کیا حاصل کرسکتے تھے ؟ وہ مقصد جو منتظمین کے پیش نظر تھا اس پر کتنی بات ہوئی یا سرسری انداز میں آگے بڑھ گیۓ ؟ کیا اس نوعیت کی تقاریب کی بدولت ہم اپنے سابق ہونے پر فخر ہی کرتے رہیں گے یا اس سے آگے بڑھتے ہوئے اس بات پر بھی غور کریں گے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر اسلامی تحریک میں فعال کردار ادا نہیں کر پارہے ؟ جائزے کے اجلاس میں جہاں پروگرام کی تعریف توصیف ہوگی وہیں اس کا تنقیدی پہلو سے جائزہ بھی ہوگا - اسلئے کہ ان ہی عوامل کے ساتھ اپنے کام اور مطلوبہ مقا صد میں بہتری کے امکانات پیدا ہوتے ہیں -
میری رائے میں تو جماعت اسلامی اور جمعیت کو احباب کا یہ پروگرام ہر سال کرنا چاہیے - مگر کچھ جدت اور دلچسپی کے ساتھ ! میرا احساس ہے کہ اس کو مزید انٹر ایکٹیو بنایا جاسکتا تھا - روایتی میزبانی کے بجائے سامعین میں اتر کر ان سب کو انوالو کرکے زیادہ دلچسپ بنایا جانا چاہیے تھا - محض تقاریر سنوانا کوئی بہت اچھا امپریشن نہیں چھوڑتا - یہ بھی ہوسکتا تھا کہ میزبان اسٹیج سے نیچے آتا اور کسی بچے سے ایک سوال کرکے کوئی گفٹ دیتا - نیچے بیٹھے کسی بزرگ ( سابق جمعیت ) سے ان کا تعارف حاصل کرتا - اس دور کی کوئی اچھی یاد ،اچھی تحریک ، نصب العین ، تعلیم کے معیار پر بات کرتا ، کسی خاتون سے کسی طالبہ سے کسی موجودہ کارکن سے جمعیت کے حوالے سے چھوٹے موٹے دلچسپ سوالات کے ذریعے بھی اس تقریب کو مزید دلچسپ بنایا جاسکتا تھا -اور جب کہ ماضی میں ہماری طلبہ یونینز کا یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ ہما ری طلبہ عدالتیں ، رو برو ، اسٹیج ڈرامے سب سے ممتاز اور دلچسپی کے ہزاروں سامان لئے ہوتی تھیں -
( معزرت کے ساتھ اس تقریب میں اس نوعیت کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دی ) ایک دوست کا تبصرہ لکھ رہا ہوں - " کراچی کے سرد اور خشک موسم کی طرح ایک اور خشک پروگرام " ( اس تبصرے سے اتفاق اور عدم اتفاق کا حق قارئین کے پاس موجود ہے )- آپ میرے اس تاثر سے پورا پورا اختلاف بھی کرسکتے ہیں ، میرا تاثر یہ ہے کہ بیشمار احباب وہ ہیں جو حلقہ جات میں جماعت اسلامی کے نظم کا باقاعدہ حصہ نہیں ہیں - ان کا رسمی تعلق انتخابات کے مواقعوں پر ووٹ دینا ، قربانی عید الاضحی کے وقت گھر سے گاڑی میں کھال ڈال کر لانا اور کیمپ تک پہنچا کر واپس چلے جانا رہ گیا ہے - ضرورت اس امر کی ہے کہ ان احباب کو کسی نہ کسی طرح ہلکے پھلکے سیٹ اپ میں منسلک کیا جائے - اور اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ احباب کے فورم کو باقائدہ شکل دی جائے اور اس کے کچھ عہدیدار بنائے جائیں جن کا کام سارا سال احباب کی تلاش اور ان کو کسی نہ کسی صورت فعال کیا جائے - مجلے کو سہہ ماہی لیا جائے جس کی بدولت لکھنے والے احباب کی حوصلہ افزائی ہو سکے - اور پورے سال اس کے ممبران اس کی منصوبہ بندی کریں - کہ آئندہ کیا بہتری لائی جا سکتی ہے - دوسری بات یہ کہ باقاعدہ اس کے عہدیدار متعین کے جانے چاہئیں تاکہ وہ اس کام کو اپنا کا م سمجھین - پھر ان ہی ساتھیوں کی ذمہ داری ہو کہ بیرون ممالک احباب کا ڈیٹا حاصل کیاجا ئے، بیرون ممالک احباب سے رابطے رکھنا اور پاکستان واپس آنے کی صورت میں ان کو نظم کا حصہ بنانا بھی ان کے کام میں شامل ہو - محسوس ہوا کہ اس پروگرام میں حلقہ جات اور ضلعی جماعت کو شامل نہیں کیا گیا اسطرح ممکن تھا کہ حاضری مزید بہتر ہوتی - آئندہ کیلئے اس قسم کے پروگرام میں شرکت اور اطلا ع کے لئے مقا می حلقہ جات اور تنظیم کو ہدایت کی جائے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں سابقین جمعیت کو ڈھونڈیں کھوجیں اور مجتمع کریں - ورنہ نشستا برخاستا گفتن شنیدن جہاں بہت کچھ ہورہا ہے وہاں ایک احباب کی یہ محفل بھی سہی ! والی بات نہ ہو - الله تعالی ان تمام دوستوں پر اپنا فضل و کرم رکھے جنہوں نے دن رات ایک کرکے اتنی اچھی محفل سجائی - کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے - اور کمی کجی کس جگہ نہیں ہوتی ؟ امید ہے آئندہ ہونے والا پروگرام پہلے پروگرام سے بہت اچھا ہوگا - آپ تمام شرکاء و منتظمین کو بے انتہا مبارک با د --- مگر یہ تو بتائیے کہ "میرا ایوارڈ کہاں ہے ؟؟؟"

Comments