جنگ آزادی-1857 قسط -11-جھانسی کی رانی

جھانسی کی رانی مر چکی تھی ، اس کی لاش کو جلانے کے بعد راکھ ہندو عقیدے کے مطابق اسٹیل کی کوٹلیہ میں بھر نے کے بعد گنگا برد کرنے کے لئے گنگا روانہ کی جاچکی تھی ، لکشمی بائی ( رانی ) کا لے پالک بچہ ایک برہمن نے مندر میں ہی رکھ لیا - جھانسی کی رانی آزادی کی راہ میں قربان تو ہوگئی مگر اپنے پیچھے لڑنے والے متوالوں کو ایک عظیم حوصلہ دے گئی - جہاں جہاں رانی کے مرنے کی خبر جاتی باغی سپاہیوں میں انتقام کی آگ مزید بھڑک اٹھتی - جھانسی فتح کرنے کے بعد انگریز کے رہنے والوں پر زندگی تنگ کردی - لارڈ ڈلہوزی کی فوج بھوکے کتوں کی طرح ہر اس فرد کو ڈھونڈھ رہے تھے جس پر انہیں ذرہ برابر بھی شبہہ ہوتا کہ اس نے رانی کا ساتھ دیا ہوگا - ایک ہی وقت میں گاؤں کے تمام مرد ،نوجوانوں کو قطار میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دیا گیا - یا تو شیر خوار بچے باقی چھوڑے گئے یا بوڑھی عورتیں ، نوجوان عورتیں ڈلہوزی کتوں کی خوراک بن چکی تھیں - رانی کا سرپرست .
محسن مرہٹہ کمانڈر تانییتا توپی رانی کی موت کے بعد اپنے چند باا عتماد سیاہیوں کو ساتھ لیکر راتوں رات جھانسی سے کانپور کی جانب کوچ کرگیا - جہاں دیسی باغی سپاہ پہلے سے موجود تھی - تانیتا توپی کے کانپور آجانے سے دیسی سپاہیوں کا جوش و جذبہ اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا - کانپور شہر میں انگریز کے تمام بنگلوں ، گیسٹ ہاؤسز اور اسلحہ گودام شعلوں زد میں تھے - سفید چمڑی والا اپنی چمڑی بچانے کوکسی کونے کھدرے میں چوہے کی بل جیسی جگہ مل جاتی تو غنیمت جانتا - بہت تیزی کے ساتھ کانپور انگریز سپاہیوں کے لئے نرگ بنتا جارہا تھا -
کلکتہ کے انگریز ہیڈ کوارٹر میں کوئی گھنٹہ ایسا نہیں گزرتا جب انہیں سر پھٹول ،مارم ماری اور انگریز کی لاشوں کی تعداد نہ بتائی جا رہی ہو - بنگلہ کوئی باقی بچا ہی نہیں تھا کہ جس کے جلنے کی خبر دی جا تی - جھانسی کی فتح کے بعد انگریز ہائی کمان کی جانب سے انگریز فوج کو اودھ پہنچنے کا حکم ملا - سر ہنری لانس کی زیر کمان انگریز فوج لکھنؤ کی جانب پیش قدمی کر رہی تھی - جہاں تانیتا توپی ان کے شایان شان " سواگت " کا معقول بندوبست کرنے میں مصروف تھا - یہ لکھنؤ وہی مشہور و معروف لکھنؤ ہے جس کے صوبہ اودھ کے نواب نے ریاست کے نام سے زیادہ شہرت کمائی - علم و دانش سے مالا مال ریاست لکھنؤ میں اودھ کے نواب واجد علی شاہ نے 1847میں ریاست اودھ کا تاج پہنا ، ان کی عیاشی ، آوارہ و رنگین مزاجی کی داستانیں تاریخ کے صفحات پر جا بجا بکھری نظر آتی ہیں - نواب کی آوارہ مزاجی نے ریاست کے معاملات اس حد تک بگاڑ دئیے کہ مجبور ہوکر سرکار برطانیہ کے نمائندے لارڈ ہارڈنگ نے نواب واجد علی شاہ کو خبردار کیا کہ اگر فی ا لفور ریاستی انتظامات اور معاملات کو نہ سدھارا گیا تو کمپنی ریاست کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لے گی - ( درحقیقت لکھنؤ بہت پہلے ہی انگریز سے تعا ون باھمی کی یادداشت پر دستخط کرچکا تھا ) 1849 میں کرنل سلیمن کو ریزیڈ نٹ ، جس نےتین ماہ تک اودھ کے گرد و نواح کا جا ئزہ لیکر امن و امان اور انتظامی معاملات کی رپورٹ مرتب کی - اس رپورٹ میں ریاست کی تباہ حالی ، لوٹ مار ، لاقانونیت اور عوام کی سرکشی کو نمایاں اہمیت دی - جس کے نتیجے میں 1856 کو نواب واجد علی شاہ کی حکومت کو معزولی کا پروانہ تھمادیا گیا - اور نواب واجد علی شاہ کو گرفتار کرکے لکھنؤ روانہ کردیا - اودھ کے شہریوں نے دیکھا کہ عیاشی کے ہاتھوں ذلیل و رسوا نواب کے دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں ، انگریز سپاہی دھکے دیتے ہوئے نواب کو سرکاری سواری میں بٹھا رہے تھے - ادھر محل کے اندر افتخار النساء بیگم مارے غصے کے ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھیں ، کبھی بالکنی سے نواب کی گرفتاری کا نظارہ دیکھتیں ، اور جب دل بیٹھنے لگتا تو چار چھ قدم ٹہل لیتیں - یہ وہی افتخار النساء بیگم تھیں جن کو تاریخ میں لوگ بیگم حضرت محل کے نام سے جانتے ہیں - ان کے آباؤ اجداد ایران سے ہجرت کرکے اودھ میں آباد ہوئے تھے - نواب کی قربت حاصل کرنے کے لئے افتخار النساء نے نواب کے بنائے ہوئے فنون موسیقی کے مرکز میں رقص کی تعلیم و تربیت حاصل کی - رقص میں اپنی مہارت اور خوبصورتی کی بناء پر بہت جلد نواب کا دل جیتنے میں کامیاب ہوگئیں - نواب واجد علی شاہ نے باقائدہ شادی کا اعلان کرکے ان کو اپنے حرم میں داخل کیا - اور یوں افتخار النساء بےگم حضرت محل بن گئیں - ان کے ہاں نرینہ اولاد ہوئی - جس کا نام برجیس قدر رکھا گیا - مگر کمسنی میں ہی برجیس قدر کے والد نواب واجد علی معزول کردے گئے - چناچہ ریاست کے معاملات بیگم حضرت محل نے سنبھال لئے اور کم سن برجیس قدر کو ولی عہد بنا دیا - یہاں سے ایک دوسری حضرت محل کا جنم ہوتا ہے ، وطن کی محبت سے سرشار اور انگریز سے اپنے وطن کو واپس لینے کی آرزو لیکر حضرت محل میدان عمل میں نکل آئیں - جنگ آزادی جو اپنے عروج پر آتی جارہی تھی ، ایسے میں بیگم حضرت محل کا نانا صاحب کے ساتھ میدان میں آنا تحریک آزادی میں جان ڈالتا جارہا تھا - بیگم حضرت محل نے عوام کو انگریزوں کے جابرانہ قبضے کے خلاف منظم کرنا شروع کیا - باغی سپاہیوں کی بڑی تعداد کیونکہ پہلے ہی سے کانپور میں داخل تھیں اس لئے وہاں گھمسان کا رن پڑا - سیر کو سوا سیر والا معاملہ تھا -
انگریز فوج ہنری لارنس کی کمان میں بھاری بھرکم اسلحے کے ساتھ کلکتہ میں داخل ہوئیں - اودھ کا محاذ انگریزوں کے لئے تر نوالہ نہیں تھا - اور نہ ہی معاملہ قلعہ میں محصور ہوکر لڑنے کا تھا - اس مرتبہ میدان کے بیچوں بیچ محاذ گرم ہوا - باغی فوجی دیوانہ وار ہنری لارنس کی فوج ر پل پڑے - ان دیسی باغیوں کو اس بات کی بالکل پرواہ نہیں تھی کہ کتنے سر کٹ کر زمین کو چاٹ رہے ہیں - انہیں تو بس ایک ہی جنون سوار تھا کہ کمینے انگریز سے اپنا اود ھ واپس لینا ہے - چناچہ گھمسان کا رن پڑا - دونوں جانب سے بھرپور لڑائی لڑی گئی - جذبہ و جنون اسلحے پر حاوی آگیا - اور باغیوں کو کامیابی نصیب ہوئی - ہنری لارنس کو اپنی جان بچانی مشکل ہوگئی ، لارنس کو زندہ بچ جانے والی فوج کے ساتھ مجبورا ریزیڈنسی میں پناہ لینی پڑی - اودھ دوبارہ بیگم حضرت محل کے پاس آ چکا تھا -
باغی فوج یہاں کامیاب ہونے کے بعد مرکز لکھنؤ کی جانب نکل گئی ، تاکہ انگریزوں کو مار بھگائے - مگر یہ باغی سپاہیوں کی غلطی تھی ، ان کو چاہیے تھا کہ وہ کچھ دن اور اود ھ میں رہتے تاکہ زخم خوردہ انگریز کی طاقت کو مکمل طور پر کچل دیتے - مگر ان ڈیڑھ دو ہفتوں میں لارنس نے اپنے آپ کو مجتمع اور منظم کر لیا - اور مرکز سے بھی مزید کمک بھی طلب کرلی - جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ انقلاب کے حامی لکھنؤ برجیس قدر اور حضرت محل کے حوالے کرنے کے بعد دوسرے علاقوں میں نکل گئے - حضرت محل نہایت زیرک خاتون تھیں وہ لکھنؤ میں ہی رکی رہیں اور بہت سے معاملات اپنے انتہائی با ا عتبار جانثار محبوب خان کو سونپ دئیے ، جن میں فوج ، پولیس ، انتظامی معاملات شامل تھے ، اور خود باغیوں کو جمع کرنے اور منظم کرنے میں لگ گئیں - حضرت محل کی جدوجہد دیکھ کر اودھ سے بھی باغی گروہ در گروہ لکھنؤ پہنچ رہے تھے - بیگم حضرت محل نے دہلی میں بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو بھی خط لکھ کر اپنی فتح کی نوید سنائی اور مزید باغیوں کی درخواست پیش کی ، اس کے ساتھ ساتھ دیگر بااثر جاگیرداروں، زمینداروں کو بھی پیغام بھیجے اور مدد کی درخواست کی تاکہ لکھنؤ میں انگریز کو مکمل شکست سے دوچار کیا جاسکے - مگر حالات ایسے دوراہے پر آچکے تھے کہ ایک طرف دہلی میں بادشاہ سلامت خود محصور تھے - انگریز اپنی فوج کا دباؤ بڑھا رہا تھا اور مخبروں کا جال بچھا یا جا چکا تھا - دہلی کے دیسی باغی سیاہی بادشاہ سلامت کوچھوڑ کر لکھنؤ کی جانب کیسے جاتے ؟ دہلی کی طرف سے مایوس ہونے کے بعد باہم مشاورت سے طے پایا کہ سب مل کر انگریز پر بھرپور حملہ کرتے ہیں - آزدی کی خاطر جان دے دینا گوارا ہے مگر انگریز کی غلامی منظور نہیں - چناچہ حملے کا دن اور مقام متعین کیا گیا - آسان ترین ہدف ریزیڈنسی ہی تھا ، چناچہ ریزیڈنسی پر بھرپور ضرب مارنے کا پروگرام بنایا گیا - بچیس جولائی 1857کو ریزیڈنسی کا محاصرہ کیا گیا اورباغی سپاہیوں کا توپ خا نہ مسلسل گولے برساتا رہا رات بھر گولہ با ری جاری رہی - قلعے کی دیواروں پر جا بجا شگاف پڑ رہے تھے - صبح سات بجے گولہ باری رکی ، جب تک باغی دیواروں کے نیچے سے سرنگیں بنا چکے تھے - آٹھ بجے دوبارہ توپ خانہ گرجا اور ہراول دستے نے قلعے کے دروازے پر ہلہ بول دیا ، باغی ریزیڈنسی کے اندر گھس چکے تھے - مرکزی راہداری کے ساتھ کے کچھ مکانوں کو آگ لگا دی گئی ، انگریز بھی جان مار رہا تھا - آخری معرکے کے طور پر دیسی سپاہی دیوانہ وار حملے کرتے جاتے تھے - دو انگریز چیف کمشنرز ان حملوں میں مارے گئے - مگر انگریز بھی ہار ماننے والا نہیں تھا - انگریز کے ساتھ ساتھ کچھ سکھ دستے بھی انگریزوں کی کمان میں لڑ رہے تھے - دیسی مقامی باغیوں اور سکھ فوج سے بھی لڑائی جاری تھی - مقامی آبادی نے انگریز سپاہیوں کو سامان کی کمک پھنچانی شروع کردی تھی - ایسے میں کانپور سے انگریز بٹالین مدد کو پہنچ گئی اور یوں انگریز کے تن مردہ میں میں جان پڑ گئی - انگریز کمک ہیولاک کی کمان میں کانپور سے روانہ ہوئی - محصور انگریز نجات دھندہ ہیولاک کا راستہ دیکھ رہے تھے - ریزیڈنسی پر ایک مرتبہ پھر گولہ باری شروع ہوگئی ، دیسی سیاہیوں کا دستہ آگے بڑھ کر مرکزی دروازہ عبور کرتے ہوئے اندر داخل ہوا - لاشوں کا ڈھیر لگ گیا - یہاں تک کہ ان کو پھلانگ کر جانا مشکل ہوگیا تو باغیوں نے سیڑھی کی مدد سے لاشوں کو عبور کیا اور مزید اندر کی جانب داخل ہوئے - لکھنا پڑے گا کہ انگریز نے بھی اس دن جان کی بازی لگا دی تھی -
ہیولاک جب کانپور سے چلا تو تانیتا توپی نے اس کو جالیا - راستے میں ہی اس کی آو بھگت کا سامان تیار تھا - اچانک چھاپہ مار حملوں میں ہیولاک کو فوج کو تتر بتر کرکے رکھ دیا تھا - ادھر ریزیڈنسی کا ایک ایک دن قیامت بن کر گزرتا تھا - انگریز دن بھر اپنے سپاہیوں کی لاشوں کو ٹھکانے لگا تا یا پھر گولہ باری متا ثرہ حصوں کی مرمت میں وقت گزارتا - ہیولاک پر تانیتا توپی قہر بن کر لپٹ چکا تھا - آغاؤ کے مقام پر حملہ ہوا - ہیولا ک بچ نکلا - بشیر تا گنج پر دوبارہ آمنا سامنا ہوا - اس مرتبہ ہیولاک کی قسمت اچھی تھی ،بچ نکلا ، حانلآنکہ اس بار تانیتا توپی نے بہت کاری وار کیا تھا - تیسری مرتبہ بشیر تا گنج کا محاذ ہیولاک کی فوج کے واسطے شمشان گھاٹ سے کم نہ تھا - با غیوں سے بشیرتا گنج کے مقام پر ایسا کاری وار کیا کہ آدھی سے زیادہ فوج کٹ کٹا کر گاجر مولی بن گئی - اپنی باقی فوج کو لیکر ہیولاک نے گنگا کے کنارے پر ہی پڑاؤ ڈال دیا - ایک طرف گنگا کا کنارہ تھا ، دوسری طرف تانیتا توپی اپنے خونخوار با غیوں کے ساتھ موجود تھا - ہیولاک کی تمام تر چالاکی رفو چکر ہوچکی تھی - حضرت محل کے توصیفی اور حوصلہ افزاء پیغامات باغی سپاہیوں کے لئے حوصلہ افزائی کا با عث بن رہے تھے - باغی بشیر گنج پر قبضہ جمع چکے تھے ، ہیولاک بھیگی بلی کی طرح گنگا کنارے موجود تھا -
تانیتا توپی نے گوالیار ، ساگر اور کانپور سے تمام انقلابیوں کو ایک جگہ منظم کرلیا تھا - خونی معرکہ ہونے کو تھا - ہیولاک بھی ہار ماننے والا نہ تھا - اس نے بھی بھرپور انداز میں جوابی وار کیا - انقلابی فوج حکمت عملی سے خالی تھی اس کے پاس لمبی لڑائی کا کوئی واضح منصوبہ بھی نہیں تھا - بس ان کو جان لڑانا آتا تھا ، سو وہ جان لڑاتے رہے - اس مقام پر کرنل نیل ، ہیولاک کی مدد کو پہنچا ، ایک مرتبہ پھر محاذ جنگ گرم ہوا - نیل اور ہیولاک میں اختیار اور کمان کے معاملے پر اختلاف ہوا مگر جلد ہی دونوں میں راضی نامہ ہوگیا - ہیولا ک کی کمان میں ہی جنگ لڑنے کا فیصلہ ہوگیا - اور ریزیڈنسی کی جانب دوبارہ پیش قدمی جاری رکھی گئی - اس دوران تانیتا بار بار راستے میں رکاوٹ ڈالتا رہا ، اس کے سات سو سے زیادہ جانثار ان لڑا ئیوں میں کام آئے - بالآخر ہیولاک ریز یڈ نسی تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا - اس کے باوجود سات آٹھ روز تک جنگ جاری رہی - کوئی بھی ہار ماننے ر تیار نہ تھا - سر کولن کیمبل خود میدان میں آچکا تھا - ادھر انقلابی " آزادی یا موت" کا نعرہ مارتے آزادی پر قربان ہوتے جارہے تھے - ایک ایک انچ پر جنگ ہورہی تھی - کمرہ دالان ، محل کی فصیل ، چبوترہ ، گلیاں ،بازار کون سی جگہ ہوگی جہاں جنگ نہ ہورہی ہو - صبح جب انگریز نے فتح کا بگل بجایا اور لاشوں کی گنتی کا عمل ہوا - دوہزار انقلابی لاشے راستے میں پڑے تھے - صرف چار انقلابی زخمی زندہ حالت میں گرفتار ہوئے آٹھ سو انگریز سپاہی اس جنگ میں ایک ہی رات میں کام آئے - بیگم حضرت محل نے آزادی کی خاطر اس جنگ میں اپنے ماتھے پر لگا رقص و سرود کی ملکہ ہونے کا کا داغ دھو دیا تھا - بیگم حضرت محل نے اس نازک موقع پر بھی ہمت نہیں ہاری - آزادی کی جدوجہد جاری رکھی اور اپنے اودھ سے نکل کر نیپال کی سرزمین میں جا بسی - حضرت محل نے دو برس تک انگریز یلغار کا مقابلہ کیا - ایک موقع ایسا بھی آیا تھا جب باغی فوج کے سردار دلپت سنگھ نے حضرت محل سے اجازت طلب کی تھی کہ "ملکہ حضور انگریز قیدی میرے حوالے کردیں میں ان کے ہاتھ پیر کاٹ کر ان کے ہیڈ کوارٹر بھیجوں گا -" تب ملکہ حضرت محل نے کہا " ہم قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ خود کرتے ہیں نہ ہی کسی کو کرنے دیں گے، ہمارے جتنے بھی فرنگی قیدی اور ان کی عورتیں ہیں ان پر کبھی ظلم نہیں ہوگا " نیپال کے رانا جنگ بہادر نے حضرت محل کو نیپال میں رہنے کی اجازت دی - 1879 میں جنگ آزادی کی باہمت خاتون بیگم حضرت محل نے انتقال فرمایا اور کھٹمنڈو کی جا مع مسجد ( امام باڑہ ) میں دفن کی گئیں - (جاری ہے )





Comments