جنرل بخت خان کہاں گیا ؟ جنگ آزادی قسط 10 - نجیب ایوبی

برصغیر میں اسلامی احیائی اور آزادی کی تحا ریک ( نجیب ایوبی)‎ قسط نمبر ١٠‎
نیپال کا راستہ پہاڑوں اور ندی نالوں سے بھرا پڑا تھا - بلند و بالا آسمان چھوتے پہاڑ ،نوکیلی برفانی چوٹیاں ، پہاڑوں کے ڈھلوان پر بل کھاتے راستے ،ان پر خطر راستوں میں بلندی سے گرتا برف کا پگھلا پانی اپنی پوری قوت کے ساتھ نشیب کی جانب چنگھا ڑیں مارتا ، اپنے زور پر راستہ بناتا بڑے ندی نالے میں گرتا اور بہتا چلا جاتا - نشیب میں گھنے جنگلوں کی ایک لمبی قطار ، سورج کی کرنیں جھلمل کرتی جب جنگل پر پڑتیں تو سوائے چند سفید لکیروں کے کچھ سجھائی نہیں دیتا - دیسی سپاہییوں کے لئے جان بچانے اور فرنگی دشمن سے بچنے کی خاطر نیپال کے گھنے جنگلوں سے زیادہ محفوظ جگہ شاید ہی کوئی اور ہوتی - جنرل بخت خان ان جنگلوں میں کہاں روپوش تھا یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا - بخت خان کے پیچھے میرٹھ اور کانپور سے آنے والی دیسی سپاہیوں کی بڑی تعداد بھی ان ہی جنگلوں میں جا چھپی تھی - ادھر دلی میں شاہی محل کے گرد پہرا بڑھا دیا گیا تھا ، دیسی باغی سپاہی محل کے ارد گرد ٹولیوں کی صورت میں گشت پر مامور تھے ، جو رات میں ڈیوٹی دیتا وہ دن میں لوٹ مار کے واسطے شہر میں گھومتا انگریز کی تلاش میں تھک ہار کر مندر ،مسجد ریلوے اسٹیشن ، درگاہ کسی بھی جگہ سوجاتا - خبریں گرم تھیں کہ انگریز اپنی نفری طلب کرنے والا ہے - سرکار انگلشیہ ان کی مدد کے واسطے توانا فوجی بھیجنے کا اہتمام کررہی ہے - جیسے جیسے یہ خبریں بازاروں میں سینہ بہ سینہ گھومتیں ، دیسی وت سپاہیوں کی تیاریوں میں جان پڑتی جاتی -
کیا ہندو ،کیا مسلمان اور کیا سکھ ، کوئی کرپان سجائے کوئی تلوار اٹھائے تو کوئی ماتھے پر تلک لگا ئے جئے رام جیے بھگوان اور لاج رکھ لیجیو "نظام الدین" کی صدائیں مارتا شہر بھر میں دندناتا پھرتا - شہنشاہ معظم ، بادشاہ ہند بہادر شاہ محمد ظفر شاعری بھول کر شاہی محل کا پچھلا حصہ اور قلعے کا مرکزی دروازہ مضبوط کروا رہے تھے تاکہ انگریز کے ممکنہ حملے سے محفوظ رہا جا سکے - شہر میں افراتفری کا عالم تھا مگر اس عا لم ہاہوکار میں نیپال کے جنگل میں مرہٹوں کا ایک کمانڈر " تانیتا توپی " اپنی پوری آن بان کے ساتھ گرجتا برستا بگھوڑے دیسی سپاہیوں کی دل جوئی اور مدد کے لئے موجود تھا - جنگ آزادی کا فراموش کیا ہوا کردار ، دلیر کمانڈر تانیتا توپی نے اپنی فوج بنا رکھی تھی کانپور ، کالپی اور اودھ تک انگریز اس کے نام سے کانپتے رہے - دریائے گنگا کے کنارے اتر پردیش کا کمائی پوت تجارتی شہر کانپور انگریز سپاہیوں کے لئے شمشان گھاٹ بنتا جا رہا تھا - تانیتا توپی کو جیسے ہی انگریز سپاہیوں کی خوشبو آتی یا بھنک پڑتی ، تانیتا طوفان بن کر انگریز پر جھپٹتا اور آنا فانا لاشوں کا ڈھیر لگا کر روپوش ہوجا تا - تانیتا توپی انگریز پلٹنوں میں موت کا استعارہ بن چکا تھا - تانیتا توپی اپنے سپاہیوں کے ساتھ انگریز کو چرکے لگاتا ہوا گرفتاری سے بچتا بچاتا کسی نہ کسی طرح نیپال کے گھنوں جنگلوں میں پہنچ چکا تھا - جہاں پہلے سے موجود باغی پناہ لئے ہوئے تھے ، اب انگریز سے لوٹا ہوا آدھا اسلحہ دلی میں تقسیم کیا جاتا اور جو آسانی سے ڈھو لیا جائے وہ نیپال کے جنگلوں میں پہنچا دیا جاتا -
باغی چاہے مسلمان ہوں یا مرہٹے ، سکھ ہوں یا ہندو ، تانییتا توپی ان سب کا کماندار تھا - انگریز کے مخبر مسلسل اپنی سرکار کو اطلاعات پہنچا رہے تھے کہ بخت خان محل چھوڑ چکا ہے ، مگر بخت خان ہے کہاں ؟ انگریز کے پاس کوئی خبر نہیں تھی - انگریز سوچ رہا تھا کہ بخت خان دلی میں ہی موجود ہے اور پلٹ کر کوئی بڑا حملہ کرنے والا ہے ، چناچہ انگریز فوج نے اپنی مدد کے لئے براہ راست سرکار انگلشیہ سے مدد طلب کرلی - باغی سپاہیوں کی دلی میں روزانہ کی بنیاد پر آمد ہورہی تھی - دلی کی گلیاں نعروں سے گونجی پڑتی تھیں - بدنظمی کا بازار گرم تھا - جس کے ہاتھ جو لگتا وہ اسی کی ملکیت قرار پاجاتا - مگر پھر بھی الله کا احسان تھا کہ دیسی سپاہیوں نے آپس میں کسی مسلمان یا ہندو سے چھینا جھپٹی نہیں کی - ان کا مشترکہ دشمن انگریز تھا - چناچہ انگریز کی کوئی بھی چیز ہو اس پر باغی فوج کا حق تھا - یہی فارمولا پورے ہندوستان میں لاگو ہو چکا تھا - دراصل یہ انگریز کے بنائے ہوئے اس فارمولے کا جواب تھا جو انگریز نے " قانون وراثت " کے نام پر ہندو ، مسلمانوں کی جائیداد اور ملکیت ہتھیانے کیلئے لاگو کیا تھا - اگر کسی کی حقیقی اولاد نہ ہو تو وہ اپنی جائداد کسی کو نہیں دے سکتا ، نئے قانون کے تحت ان کی " تمام جاگیر ، جائیداد بحق سرکار ضبط کرلی جا ئے" حکم نامہ آچکا تھا - عیسائی بنانے کا خبط اس حد تک سوار تھا کہ گشتی چرچ ، ننوں ، پادریوں اور ان کی پیشت پناہی کے واسطے مشنری اداروں کا جال بچھا دیا گیا تھا - جو کھلے بندوں " عیسائییت " کا بھرتی دفتر لئے لٹی پٹی ، فاقہ زدہ ، ہلاک شدہ بستیوں میں گھومتے ، یتیم بچوں کو پناہ کے نام پر انگلستان روانہ کرتے ، غلام وہ بھی مفت میں ، پھر " عیسائیت " کی چھتری تلے - ہندوستان میں یہی دو قوانین ایسے ظالمانہ شکل میں رائج کے گئے جس نے ہندوستان کے ہر طبقے میں آگ لگادی تھی - جس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں " نن اور پادری " جو اپنے مشن کے لئے یہاں آئے تھے دیسی سپاہیوں کی انتقام کی آگ بجھانے کے کام آرہے تھے - انگریز کے ان کالے اور مکروہ قوانین کی کراہت کا اندازہ لگانے کیلئے پادری "ای ایڈ منڈ " کے جاری کردہ خط جو حکمیہ انداز میں لکھا اور مشتہر گیا اس کا متن ملاحظہ کیجئے ، اس کے مطابق " اب تمام ہندوستان میں ایک عملداری ہوگئی ، تار برقی سے سب جگہ کی خبر ایک ہوگئی ، ریلوے ، سڑک سے سب جگہ کی آمد و رفت ایک ہوگئی ، مذھب بھی ایک چاہیے ! اس لئے مناسب ہے کہ تم ( ہندوستانی ) لوگ بھی ایک مذہب ( عیسائی ) ہو جاؤ " ایڈمنڈ پادری کا یہ خط ہندوستان میں آگ لگانے کے لئے بہت کافی تھا - اس طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ انگریز آقاؤں نے ٹھنڈا کرکے کھانے کے بجا ئے پورے ہندوستان کو گرم گرم کھانے کا ایجنڈا مدنظر رکھا - ریاستوں کے الحاق کے معاملے میں وعدہ خلافیاں ، بد دیانتیاں دکھانی شروع کردیں - جس کی تفصیل میں جائے بغیر بھی انگریز کی کمینگی واضح ہوجاتی ہے - جھانسی کی ریاست کو ہتھیانے کا منصوبہ انگریز کو ننگا کردینے کے لئے بہت کافی ہے - انفرادی اعتبار سے لوگوں کی املاک کو تو بحق سرکار ھتیایا کر سرکار کا خزانہ بھرا جاتا رہا ، پوری کی پوری آزاد ریاست کو وراثت کے کالے قانون کے تحت ہتھیانے کا واقعہ دنیا کا انوکھا واقعہ تھا - رانی لکشمی بائی جنگ آزادی کا وہ عظیم کردار ہے جسے کوئی بھی تاریخ دان نظر انداز کرکے آگے نہیں بڑھ سکتا - " جھانسی " کی رانی اور جھانسی کی ملکہ کا پانے والی بائی نے 1857 کی جنگ آزادی میں اپنی شجاعت و بہادری سے وہ داستان رقم کی جس نے نام ، محض نام کے شہنشھاہ بہادر شاہ ظفر کی شخصیت کو گہنا دیا - تاریخ کی کتابوں میں مغل سلطنت کے آخری تاجدار اور مظلوم و محصور بادشاہ کے طور پر تو شاہ محمد ظفر کو یاد رکھا جاسکتا ہے مگر شجاعت اور مردانگی کے حوالے سے کوئی ایک سطر کی تحریر بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتی ، جبکہ اس کے برعکس جدوجہد آزادی کے اوائل میں ہی جھانسی کی رانی اور نواب واجد علی شاہ ، والی اودھ کی ملکہ بیگم حضرت محل نے وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ متعصب تاریخ نویس بھی ان خواتین کا ذکر احترام سے کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے -
جھانسی جسے قدیم وقتوں میں وارنسی پکارا جاتا تھا . لکشمی 1828 میں برہمن مورو پنت کے گھر پیدا ہوئی - بچپن میں ماں کا انتقال ہوگیا ، چودہ سال کی امر میں راجہ گنگا دیوار راؤ نوالکار سے بیاہی گئی - اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ، مگر چار سال سے زیادہ نہ جی پایا - میاں بیوی نے کسی کو گود لے لیا جائے - وراثت کا قانون لاگو ہوچکا تھا - چناچہ وراثت کی قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے حکومت برطانیہ کے مقامی نمائندوں کو بطور گواہ گود لینے کی تقریب میں مدعو کیا گیا - راجہ کے چچا زاد بھائی کا بیٹا آنند راو کو گود لےلیا گیا - پوری ریاست میں جشن کا سماں تھا - ہر فرد خوش تھا کا اب ریاست کا وارث آگیا ہے - کچھ عرصے بعد یعنی تقریبا تین سا ل بعد مہاراجہ کا انتقال ہوگیا ، راجہ کے انتقال کے بعد رانی لکشمی بائی نے نہایت ذمہ داری کے ساتھ ریاست کے معاملات چلائے -
انگریز مکار گورنر لارڈ ڈیلھوزے نے ریاست کو ہتھیانے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا - اور اپنی قبضہ گیریت جمانے کو پوری ریاست کو بحق سرکار ضبط کرنے کے احکامات جاری کردئیے ، کہ لے پالک بچہ نئے قانون کے تحت وراثت کا حقدار نہیں ہوسکتا - رانی لکشمی بائی نے قانونی جدوجہد جاری رکھی اور اس ظالمانہ قبضے کے خلاف برطانیہ جاکر عدالت میں مقدمہ دائر کردیا - انگریز عدالت نے رانی کو انصاف دینے کے نام پر محض ساٹھ ہزار کی پنشن منظور کی اور برطانوی قانون کے تحت پوری ریاست ہڑپ کرلی - لارڈ ڈل ھوزی کی مکارانہ سازش کامیاب ہوگئی ، یہی وہ لمحہ تھا جب رانی نے انگریز سے لڑنے کا فیصلہ کیا - ملکہ جھانسی نے اپنے جانثاروں کو ساتھ لیا اور انگریز کے مقابل آگئی - خود بھی ٹریننگ لی اور سپاہ بھی تیار کی - اس معاملے میں مرہٹہ کمانڈر " تانتا توپی " ملکہ کے ساتھ ساتھ رہا - ہر آڑے ، مشکل وقت میں تانیتا آہنی دیوار بن کر ملکہ کی حفاظت پر آجاتا - چند دنوں میں ایک زبردست لشکر تیار ہوگیا - جس نے انگریز کی اینٹ سے اینٹ بجا دی - ستمبر 1857 سے اکتوبر 1857 تک ، یعنی ایک ماہ تک ریاست کی ایک ایک انچ زمین پر لارڈ ڈلہوزی کا مقابلہ کیا گیا - لارڈ کو فوج کو ریاست سے باہر رکھ کر " تا نیتا توپی " ڈلہوزی کتوں کو مارتا اور بھگاتا رہا - بالاخر جنوری کے اخر میں ڈلہوزی فوج ریاست میں داخل ہوئی ، اس کے باوجود پندرہ دنوں تک جھانسی کی رانی نے دن اور رات انگریز فوج کا مقابلہ کیا - وہ دن کی روشنی میں مردانہ لباس پہن کر انگریز پر یلغار کرتی ، اور رات کی تاریکی کا اٹھا کر انگریز کی فوج کو زک پہنچاتی - اس کا جتنا دم تھا اس سے بڑھ کر مزاحمت کی رانی قلعہ میں محصور تھی ، انگریز نے قلعہ چاروں طرف سے گھیرے میں لےلیا تھا -
رانی اپنے چند سپاہیوں کے ساتھ قلعے کے بڑے ہال میں موجود تھی ، رانی نے اپنی پشت پر اپنے چار ماہ کے لے پا لک کو چمڑے کی بیلٹ کے ساتھ باندھ رکھا تھا - دروازے پر رانی نے اپنی ملازمہ خاص کاشی کو اس تاکید کے ساتھ کھڑا کیا تھا کہ چاہے جان چلی جائے مگر قلعے کا مرکزی دروازہ نہ کھولنا - انگریز فوج نے اپنی پوری قوت کے ساتھ قلعہ پر حملہ کیا تھا ، جانثار مارے گئے اب محل کا مرکزی کمرہ ہی باقی بچا تھا ، جہاں ملازمہ کاشی اور چند خاص سپاہی موجود تھے ملکہ کمرے سے ملحقہ کمرے میں مردانہ لباس میں موجود تھی ، کمر سے بچہ بندھا تھا ، جب فوج سے دروازہ نہ کھل سکا تو انھوں نے لکڑی کے بڑے شہتیر کی مدد سے دروازہ توڑا ، پہلی گولی ملازمہ خاص کاشی نے اپنے جسم پر روک لی ، دوسری گولیوں میں باقی ماندہ جان نثار مارے گئے ، اس سے پہلے کہ انگریز سپاہی رانی کی جھانسی کو ڈھونڈھ نکالتے ، رانی نے پچھلا دروازہ استمعال کیا اور قلعے کی فصیل پر آگئی ، تقریبا چالیس فٹ اونچی فصیل سے چھلانگ لگائی اور گھوڑے پر بیٹھ کر اپنے بچے کے ساتھ زخمی حالت میں قلعے سے بہت دور نکل آئی -
جان بچ جانے کے بعد جھانسی کی رانی آرام سے نہیں بیٹھی ، اس نے ریاست میں پھر کر ، انگریزوں سے بچتے بچاتے اپنی فوج کو دوبار ہ منظم کیا ، تانیتا توپی کی کمان میں انگریزوں پر دوبارہ حملہ کیا - یہ حملہ زخمی شیرنی کا حملہ تھا - انگریز کو نہ چاہتے ہوئے بھی پسپا ہونا پڑا - اور رانی کی جھانسی نے جھانسی کو دوبارہ انگریز کی غلامی سے آزاد کروالیا - کچھ عرصے بعد جب جنگ آزادی زور پکڑ گئی تو انگریزوں نے جھانسی حاصل کرنے کیلئے ایک اور حملہ کیا ، رانی میدان چھوڑنے والوں میں سے نہیں تھی ، اس نے دشمن کا مقابلہ کیا ، شیرنی کی طرح لڑی ، مگر ایک سپاہی کی تلوار سے بری طرح گھائل ہوئی ، اپنے آپ کو زندہ یا مردہ انگریز کتوں کے حوالے کرنا رانی کو قبول نہیں تھا - لہٰذا اپنا زخمی جسم لئے جنگل میں چلی گئی ، شدید زخمی حالت میں تھی ، بیہوش ہو کر گر پڑی ، کہتے ہیں کہ ایک شخص ملا جس نے اسے پہچانا ، دوا دارو کی ، مگر زخم کاری تھا ، ٹھیک نہ ہوسکا - مرنے سے پہلے جھانسی کی رانی نے کہا کہ " اے بھلے مانس ، میں کیسے گوارا کروں کہ مری ہوئی رانی کو انگریز ہاتھ بھی لگائے ؟ میں کیا کروں ؟ اس شخص نے مشورہ دیا کہ تیرے مرنے کے بعد تجھے ( تیری لاش کو ) آگ لگا دوں ؟ رانی نے رضامندی ظاہر کردی - پھر رانی کی لاش کو آگ لگا دی گئی - یوں بہادر رانی نہ زندہ اور نہ ہی مردہ کبھی انگریز کے ہاتھ نہ لگ سکی . (جاری ہے )




Comments