پاکستان کیوں ٹوٹا؟ ڈاکٹر صفدر محمود

ایک بنیادی سوال ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے کا ’’ڈائریکٹر‘‘ کون تھا؟ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کس کی سرپرستی، مدد اور مداخلت سے عمل میں آئی؟ اس کا ہرگز مطلب اپنی سیاسی غلطیوں، کوتاہیوں، مختلف حکومتوں، حکمرانوں اور فوجی راج کے پیدا کردہ احساس محرومی پر پردہ ڈالنا نہیں کیونکہ وہ سب کچھ بہرحال تلخ حقیقتیں ہیں اور انہیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ اسی سے دوسرا سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اس قسم کی محرومیاں، کوتاہیاں، غیر دانشمندانہ پالیسیاں اور بے انصافیاں صرف پاکستان میں ہی روا رکھی گئیں؟ کیا صوبائی کشمکش، علاقائی آزادی کی تحریکیں اور نفرتیں صرف پاکستان کی سیاست کا ہی حصہ تھیں؟ نہیں ہرگز نہیں، اسی طرح کی صورتحال بہت سے نوآزاد یا ترقی پذیر ممالک کے علاوہ بعض ترقی یافتہ ممالک میں بھی موجود ہے۔ وہاں بھی وفاقی یا مرکزی حکومت پر بے انصافی کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ بہت سے ممالک کے صوبوں میں رسہ کشی اور نفرت بھی رنگ دکھاتی ہے، بعض اوقات حکمران اور حکومتیں غلط فیصلے بھی کرتی ہیں لیکن ان تمام عوامل کے باوجود وہ ممالک اندرونی طور پر تقسیم ہونے کے باوجود ٹوٹتے نہیں۔ ان کے کچھ علاقے یا صوبے آزادی کا نعرہ بھی لگاتے ہیں، علیحدگی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں جیسا کہ خود ہندوستان میں کوئی درجن بھر علیحدگی کی تحریکیں جاری و ساری ہیں لیکن کبھی یہ نہیں ہوا کہ کسی علاقے کو فوجی قوت کی بنا پر الگ ہونے کی اجازت دی جائے۔ بشمول مقبوضہ کشمیر، ہندوستان کے کئی صوبوں میں علیحدگی پسندی اور آزادی کی تحریکوں کے ساتھ ساتھ گوریلا جنگ بھی جاری ہے، حکومت کی بعض علاقوں میں رٹ بھی موجود نہیں لیکن اس کے باوجود وہاں کوئی صوبہ یا علاقہ نہ ہندوستان سے علیحدہ ہوا ہے اور نہ ہی آزاد۔ سکھوں نے آزادی کی تحریک چلائی تو ہندوستان نے اسے کچل کر رکھ دیا، مقبوضہ کشمیر میں مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں پھر پاکستان ہی کو کیوں اس قیامت صغریٰ سے گزرنا پڑا؟
ایک بار پھر میں ببانگ دہل تسلیم کرتا ہوں کہ مشرقی پاکستان سے ناانصافیاں ہوئیں، ان کا معاشی حصہ انہیں اس قدر نہ ملا جس قدر ان کا حق تھا، مشرقی پاکستان آبادی میں ۵۶ فیصد تھا اس لیے جمہوری اصولوں کی روشنی میں مساوات یا برابری بھی ان کے ساتھ زیادتی تھی۔ یہ الگ بات کہ ہمارے وہ دانشور جو آئین میں مساوات پر احتجاج کرتے اور اسے ہمالہ جیسی غلطی قرار دیتے ہیں، جذبات کی رو میں بہہ کر یہ بھول جاتے ہیں کہ جغرافیائی فاصلے کو حقیقت تسلیم کرتے ہوئے برابری یا پیرٹی کا اصول سب سے پہلے بنگالی وزیراعظم محمد علی بوگرہ کے آئینی فارمولے میں آیا تھا جس کی بنیاد پر ۱۹۵۴ء میں دستور بنایا جانا تھا لیکن غلام محمد نے اسمبلی برخاست کر کے دستور سازی کی بساط لپیٹ دی۔ اس سے قبل خواجہ ناظم الدین فارمولے میں بھی برابری کا مقصد ایک اور طریقے سے حاصل کیا گیا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آئین میں برابری کا اصول بنگالی سیاستدانوں نے خوش دلی سے تسلیم کیا تھا۔ گزشتہ برسوں کے دوران ۱۶؍دسمبر کے حوالے سے ٹی وی پروگراموں میں ۱۹۵۶ء کے آئین میں طے کردہ مساوات کے اصول کو خوب رگڑا دیا گیا۔ رگڑا دینے والوں کو علم نہیں تھا کہ ۱۹۵۶ء کا آئین جناب حسین شہید سہروردی کا کارنامہ تھا اور وہ نہ ہی صرف بنگالی تھے بلکہ شیخ مجیب الرحمن کے استاد، سیاسی رہنما اور گرو بھی تھے۔ دراصل اب یہ ساری باتیں خیال رفتہ (After Thought) ہیں، اگر مشرقی پاکستان بنگلادیش نہ بنتا تو پھر یہ باتیں کسی کو یاد بھی نہ ہوتیں اور نہ ہی موضوع گفتگو ہوتیں۔ مارچ ۱۹۴۸ء میں مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران قائد اعظمؒ کے اس بیان پر بھی تنقید کی جاتی ہے کہ صرف اردو قومی زبان ہو گی، آپ بنگالی کو صوبائی سطح پر سرکاری زبان کی حیثیت سے اختیار کر لیں۔ تنقید کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی اس سے قبل ۲۵فروری ۱۹۴۸ء کے دن اردو کو سرکاری قومی زبان قرار دے چکی تھی، جس کی بنگالیوں نے اسمبلی میں حمایت کی تھی۔ قائد اعظمؒ نے تو اسمبلی کے فیصلے کی نمائندگی کی تھی۔ یہ بھی درست ہے کہ مشرقی پاکستان میں سیاسی احساس محرومی کو ایوبی مارشل لا اور فوجی طرز حکومت نے ابھارا اور اسے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل دی۔ پارلیمانی جمہوریت میں بنگالیوں کو اقتدار ملنے کی توقع تھی، وہ جانتے تھے کہ کسی بھی چھوٹے صوبے کو ساتھ ملا کر پیرٹی کے باوجود اقتدار حاصل کر سکیں گے لیکن ایوبی مارشل لا نے ان کی امید کی یہ شمع بھی بجھا دی اور انہیں یقین دلا دیا کہ اب کبھی بھی ان کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو گا۔ پھر ایوبی مارشل لا کی آمرانہ سختیوں، میڈیا، سوچ اور اظہار پر شدید پابندیوں اور سیاسی مخالفوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کارروائیوں نے بنگالیوں پر یہ بھی واضح کر دیا کہ ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہے۔ ’’پاکستان سے بنگلادیش‘‘ نامی کتاب میں سابق بنگالی سفیر اور کرنل شریف الحق نے بالکل درست لکھا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے ۱۹۶۹ء میں علیحدگی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ کرنل شریف الحق بنگلا دیش کی تحریک آزادی اور ۱۹۷۱ء کی جنگ کے ہیرو ہیں۔ وہ بنگلادیش کے سابق سفیر اور شیخ مجیب الرحمن کے خلاف بغاوت کرنے والوں میں شامل تھے، چنانچہ ان کا لکھا ہوا مستند ہے۔ شیخ مجیب الرحمن جب ۱۹۷۲ء میں رہائی پا کر لندن پہنچا تو اس نے بی بی سی کے انٹرویو میں یہ تسلیم کیا کہ وہ عرصے سے بنگلادیش کے قیام کے لیے کام کر رہا تھا۔ ۱۶ نومبر ۲۰۰۹ء کو بنگلا دیش کی وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نے انکشاف کیا کہ وہ ۱۹۶۹ء میں لندن میں اپنے والد کے ساتھ تھی جہاں شیخ مجیب الرحمٰن نے ہندوستانی ایجنسی ’’را‘‘ کے افسران سے ملاقاتیں کیں اور بنگلا دیش کے قیام کی حکمت عملی طے کی۔ حسینہ واجد کا بیان عینی شاہد کا بیان ہے اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں۔ شیخ مجیب الرحمن کبھی بھی اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہوتا اگر اسے ہندوستان کی مکمل حمایت حاصل نہ ہوتی اور ہندوستان اپنی فوجی قوت کے بل بوتے پر مشرقی پاکستان کو الگ نہ کر دیتا۔ اس الجھی ہوئی کہانی کو سمجھنے کے لیے اس پہلو پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ جب ۱۹۵۶ء کے آئین میں بنگالی لیڈر شپ نے پیرٹی کا اصول مان لیا تھا تو پھر یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی اس اصول کو کیوں ختم کر دیا اور کس اتھارٹی کے تحت ون یونٹ ختم کرنے اور ون مین ون ووٹ کا اصول نافذ کرنے کا اعلان کیا کیونکہ یہ فیصلے تو نئی دستور ساز اسمبلی نے کرنے تھے۔ دراصل یحییٰ خان صدارت پکی کرنے کے لیے مجیب الرحمن سے سازباز کرنے میں مصروف تھا اور یہ دو بنیادی فیصلے اسی ہوس اقتدار کے تحت کیے گئے تھے۔ یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ انتخابات کروانے کے بعد اقتدار منتقل نہ کرنا پاکستان کو توڑنے کے مترادف تھا ورنہ بنگالی ہرگز علیحدگی نہیں چاہتے تھے۔ سیاسی بصیرت اور ملکی اتحاد کا تقاضا تھا کہ اقتدار اکثریتی پارٹی کو منتقل کیا جاتا۔ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کے نتیجے کے طور پر مشرقی پاکستان میں بغاوت ہوئی جسے کچلنے کے لیے آرمی ایکشن کیا گیا۔ گولی سیاسی مسائل کا کبھی بھی حل نہیں ہوتی، چاہے وہ مشرقی پاکستان ہو یا بلوچستان۔ سیاسی مسائل ہمیشہ سیاسی بصیرت سے ہی حل ہوتے ہیں۔ آرمی ایکشن نے بظاہر پاکستان کو بہت کمزور کر دیا تھا۔ سولہ دسمبر کے سانحے کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم ایک بنیادی پہلو اور اہم ترین فیکٹر کو پس پشت ڈال دیتے ہیں… وہ بنیادی حقیقت ہے بھارت کی ہمسائیگی اور بھارت کے ساتھ دوتہائی بارڈر کا مشترک ہونا۔ فرض کیجیے کہ مشرقی پاکستان بھارت کا ہمسایہ نہ ہوتا تو کیا بنگالی برادران کو کہیں سے اتنی مالی اور فوجی اور سیاسی مدد ملتی۔ اگر وہ بڑی تعداد میں ہجرت بھی کر جاتے تو کیا دوسرا ہمسایہ ملک انہیں وہاں جلا وطن حکومت قائم کرنے دیتا، ان کے نوجوانوں کو مکتی باہنی بنا کر رات دن فوجی تربیت اور اسلحے سے لیس کر کے گوریلا کارروائیاں کرنے کی اجازت دیتا۔ آرمی ایکشن کی زیادتیوں کو نہایت طاقتور میڈیا کے ذریعے پورے دنیا میں پھیلاتا اور پاکستان کی جی بھر کے کردار کشی کرتا، روس جیسی سپر پاور کو اندرونی معاملے میں شامل کرتا اور روس سے معاہدہ کر کے اور بے پناہ فوجی اسلحہ لے کر اپنے ہمسایہ ملک پر چڑھ دوڑتا۔ اگر یہ مکتی باہنی کی فتح تھی تو پھر پاکستان کی فوج نے ہندوستان کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے؟
ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ہندوستان کا کیا دھرا تھا، ہندوستان نے بنگالیوں اور مکتی باہنی کی آڑ میں تقسیم ہند اور ۱۹۶۵ء کی جنگ کا انتقام لیا۔ ورنہ آرمی ایکشن سری لنکا میں بھی ہوتے رہے، ہندوستان میں بھی سکھوں کا قتل عام ہوا، مقبوضہ کشمیر میں بھی خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں اور عصمتیں لٹ رہی ہیں، کیا یہ علاقے اپنے ملکوں سے الگ ہوئے؟ اسی سیاسی و تاریخی پس منظر میں سولہ دسمبر ۱۹۷۱ء کو اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے ہندوستان ماتا کی تقسیم کا بدلہ لے لیا اور نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا۔ بلاشبہ غلطیاں، زیادتیاں اور بے انصافیاں ہوئیں لیکن اس طرح کی غلطیاں اور بے انصافیاں بہت سے ممالک میں ہوتی رہتی ہیں اور ہو رہی ہیں لیکن ان کے استحکام پر زد نہیں پڑی نہ ہی پڑوسی ان غلطیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دراصل ہمارے اس سانحے کا ڈائریکٹر ہندوستان تھا اور یاد رکھیے اْسے آئندہ بھی موقع ملا تو باز نہیں آئے گا۔ یہ بھی یقین رکھیے میں نے یہ الفاظ کسی نفرت کے جذبے کے تحت نہیں لکھے بلکہ میرے ان احساسات و خدشات کے سوتے ملک کی محبت سے پھوٹتے ہیں۔ میں ہمسایہ ممالک بشمول ہندوستان سے اچھے دوستانہ روابط قائم کرنے کے حق میں ہوں، جنگیں ہرگز مسائل کا حل نہیں ہوتیں۔ امن ہماری ضرورت ہے، مضبوط دفاع ہماری بقا کا ضامن ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ تاریخ کو بھلا دیا جائے۔ میری بات ذہن نشین کر لیجیے جو قومیں اپنی تاریخ فراموش کر دیتی ہیں ان کا جغرافیہ انہیں فراموش کر دیتا ہے۔ جو حضرات اس موضوع کا تفصیلی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں وہ میری تحقیقی کتاب ’’پاکستان کیوں ٹوٹا‘‘ یا میری انگریزی کتاب “Divided Pakistan” پڑھیں۔ (بشکریہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی۔ 16۔دسمبر 2014ء)

Comments