یوم تاسیس جماعت اسلامی پر خاص تحریر : مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی


مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی ساری کتابوں کو دوبارہ اس طرح پڑھوں گا کہ اس میں سے”میں“ ڈھونڈ سکوں۔تفہیم القرآن، خلافت و ملوکیت، تجدید و احیائے دین،سنت کی آئینی حیثیت اور درجنوں دیگر کتابیں کھنگال ڈالیں، لیکن تلاش کے باوجود میں اس میں کہیں بھی”میں“ نہ ڈھونڈ پایا۔ تحریر ---- میاں عبدالشکور -
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
۔

ٹھیک طرح یاد نہیں میں نے سید ابو الا علیٰ مودودی صاحب کا نام کب اور کس سے سنا تھا۔ اتنا یاد ہے کہ جب یہ نام سنا، تو انوکھا سا اور بھلا سا لگا۔ انوکھا اس لیے کہ ہمارے ہاں دیہات میں (اور میں خود دیہاتی ہوں) عام طور پر نام اللہ دتہ، غلام حسین،لال خان، موج دین قسم کے ہوتے تھے اور ایسے ناموں میں ابو الا علیٰ واقعی انوکھا تھا اور بھلا اس لیے لگاکہ نام میں سید اور اعلیٰ پن کی موجودگی دل کو بھانے والی تھی۔یہ خیال پہلے دن سے آج تک نہ صرف بر قرار ہے بلکہ اس کی چاشنی میں مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے۔ میری عمر پانچ چھ سال ہوگی جب میں نے اپنے گھر والوں سے یہ خبر سنی کہ مولانا مودودی کو سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ سزائے موت کی خبر میرے ارد گردبہت سے چہروں کو مرجھا گئی۔ اس خبر نے میرے بے خبر بچپنے کو بھی اتنا ہی مضطرب کیا جتنا کئی با خبر جوانیوں کو۔پھر معلوم ہوا کہ ملکی اور بین الاقوامی دباﺅ اور احتجاج نے سزائے موت کو عمر قید اور عمر قید کو رہائی میں بدل دیا ہے۔ یہ گویا مولانا مودودی? سے میرا پہلا غائبانہ تعارف تھا۔ میں پرائمری اسکول سے ہائی اسکول میں منتقل ہوا، تو ایک انتہائی شفیق استاد کنور سعید اللہ خان سے واسطہ پڑا۔ ایک دن انہوں نے بتایا کہ لاہور موچی دروازے میں جماعت اسلامی کا تین روزہ سالانہ اجتماع ہونے والا ہے۔ ہمارے کئی اساتذہ اس میں شرکت کے لیے جائیں گے اور اگر میں بھی جاناچاہوں،تو وہ مجھے بھی اپنے ہمراہ لے جانے کے لیے تیار ہیں۔مولانا مودودی جیسی عظیم شخصیت کو ملنے اور لاہور جیسے بڑے شہر کو دیکھنے کی آفر ملے،تو کون کافر انکار کی جرا ت کر سکتاتھا۔میں نے بھی فوراً ہاں کردی اور اکتوبر1963 کو ہمارا چھوٹا ساقافلہ جس میں ‘میں ہی سب سے چھوٹا تھا موچی گیٹ لاہور پہنچ گیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کا زمانہ تھا، جماعت اسلامی زیر عتاب تھی اس لیے اجتماع عام کی اجازت ہونے کے باوجود لاﺅڈاسپیکر کے استعمال پر پابندتھی۔ مولانا مودودی کی فکرِ رسا نے عجیب تدبیر ڈھونڈ نکالی۔ اجتماعِ عام میں پہلے دن مولانا مودودی نے جو خطاب کرنا تھا انہوں نے اسے تحریر کر لیا پھر اجتماع عام کے پنڈال میں ہر پچاس فٹ کے فاصلے پر ایک انسانی” سپیکر“ کھڑا تھا۔ گویاایک اور”مودودی“ تقریر پڑھ کر اپنے سامنے والوں کو سنا رہا تھا۔ یوں پورا پنڈال پوری یکسوئی سے بیک وقت ایک ہی تقریر سن رہا تھا۔ میں بھی اس پنڈال میں ”اصل مودودی صاحب “ سے کوئی تیس پینتیس فٹ کے فاصلے پر کھڑا یہ تقریر سن رہا تھا۔ اچانک گولی چلنے کی آواز آئی،کچھ سرکاری غنڈے اسٹیج کی دائیں جانب سے اندر گھسنے کی کوشش کر رہے تھے اور کارکنان انہیں روکنے کے لیے کوشاں تھے۔اسی موقع پر جب کسی نے گھبراہٹ میں مولانا مودودی کوبیٹھ جانے کا کہا،تو انہوں نے وہ تاریخ ساز جملہ کہاجو ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا،”اگر آج میں بیٹھ گیا،تو پھر کھڑا کون رہے گا۔“ چند لمحوں بعد یہ روح فر سا خبر ملی کی جماعت اسلامی کا ایک قیمتی ساتھی اللہ بخش غنڈو ں کو روکتے روکتے گولی لگنے سے شہید ہوگیا ہے۔ چند لمحوں کی ہنگامہ آرائی کے بعد مجمع پھر پر سکون ہوچکا تھا۔ مولانا مودودیاور دیگر ”مودودیوں“ کی آواز ایک بار پھر گونجنا شروع ہو ئی اور حاضرین نے یہ پورا خطاب پورے اطمینان اور یکسوئی سے سن لیا۔ خطاب کے بعد لوگ اپنی اپنی قیام گاہوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ میں بھی استاد مکرم کے ہمراہ اجتماع گاہ کے گجرات/گوجرانوالہ کیمپ لوٹ آیا۔ کچھ دیر بعد کیمپ میں پھر ہلچل شروع ہوئی، معلوم ہوامولانامودودی مختلف رہائشی کیمپوں میں حاضرین اجتماع سے بنفسِ نفیس ملتے ملاتے ہمارے کیمپ میں تشریف لا رہے ہیں۔ ایک خیال نے دل میں گدگدی پیدا کی” کیا میں مودودی صاحب کو قریب سے دیکھ پاﺅں گا۔ اتنا قریب سے کہ مصافحہ کر سکوں“ سوچ کی یہ لہر ابھی پوری طرح گزر بھی نہ پائی تھی کہ ایک بہت ہی خوبصورت چہرہ بادامی رنگ کی شیروانی میں ملبوس چھوٹے چھوٹے قدم ا ٹھاتا عین ہمارے درمیان موجود تھا۔ میں نے بے ساختگی اور وارفتگی میں اپنا ہاتھ مصافحہ کے لیے آگے بڑھا دیا۔ یہ عام فوٹو گرافی کا زمانہ نہ تھا۔ تاہم ایسے لگا کہ میری آنکھوں نے جلدی جلدی درجن بھر تصویروں کے پرنٹ اپنے ذہن کی تختی پر اتا ر لیے ہیں۔ یہ مولانا مودودی سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات تھی جس کی جھلکیاں کسی زبردست کیمرے سے اتاری گئی تصویروں سے کہیںزیادہ شفاف آج بھی میرے دل و دماغ میں پوری طرح محفوظ ہیں۔ اب میں ا سکول سے کالج اور پھر کالج سے پنجاب یونیورسٹی پہنچ گیا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات مکمل ہوچکے تھے اور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات نے مجھے بطور صدر اور سید احسان اللہ وقاص کو بطور سیکرٹری منتخب کر لیا تھا۔نئی اسٹوڈنٹس یونین کی تقریب حلف برداری کا مرحلہ سر پر پہنچا تھا۔سید احسان اللہ وقاص، حفیظ اللہ نیازی اور میں اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھے۔ نواب زادہ نصر اللہ،پروفیسر غفور احمداور ممتاز قانون دان اے کے بروہی کے نام ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ہماری خواہش تھی ان میں سے کسی سے وقت مل جائے،تو اپریل کے آغاز میں ہم تقریب کا اہتمام کر لیں۔ ہم آبپارہ مارکیٹ کے پاس سے گزر رہے تھے کہ اچانک بجلی کی سی سرعت سے ذہن میں ایک خیال ابھرا، مولانا مودودی صاحب بھی آج کل آرام اور علاج کی خاطر اسلام آباد میں ہیں، کیوں نہ ان سے مہمانِ خصوصی بننے کی درخواست کی جائے۔ سید احسان اللہ وقاص اور حفیظ اللہ نیازی دونوں نے میرے اس خیال کومسترد کردیا۔ مولانا مودودی صحت مند اور لاہور میں موجود ہوتے تب بھی اپنی مصروفیات کے باعث تشریف نہ لاتے، اب تو بالکل ہی ممکن نظر نہیں آتا، یہ دونوں کی رائے تھی۔میں نے گزارش کی کہ مجھے آپ سے اتفاق ہے،پھر بھی اسی بہانے مولانا مودودی کی  زیارت کرلینے میں کیا حرج ہے۔ دونوں نے تھوڑی دیر سوچا اور کہا” خیال تو اچھا ہے“اب ہماری گاڑی مولانا مودودی کی اسلام آباد میں موجودعارضی رہائش گاہ کی جانب رواں دواںتھی۔ ان کے گھر پہنچ کر ہم نے گھنٹی بجائی۔چند لمحوں بعد دروازہ کھلا، پاﺅں میں لکڑی کے کھڑاواں پہنے ہولے ہولے قدم اٹھاتے مولاناخود دروازہ کھولنے تشریف لائے تھے، ہم ٹھٹک سے گئے، ایک خوشگوار مسکراہٹ نے حوصلہ دیا”آئیے تشریف لایے۔“ہم مولاناکے پیچھے پیچھے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔سامنے کرسیاں بچھی تھیں،مولانامودودیکے تشریف رکھنے کے بعد ہم بھی بیٹھ گئے۔ابھی سنبھلے بھی نہ تھے کہ مولانا کی آواز سنائی دی ”کیسے آنا ہوا ہے؟“میں نے اکھڑی اکھڑی سانسوں کوسنبھالتے ہوئے کہا ”مولانا صحت کی خرابی کے باعث شاید آپ مانیں گے تو نہیں،پھر بھی دل چاہتا ہے کہ آپ سے گزارش کروں کہ آپ ہماری تقریب حلف برداری میں بطور مہمان خصوصی تشریف لائیں“کسی نہ کسی طرح میں نے اپنا جملہ مکمل کردیا۔ تھوڑی دیر فضا میں خاموشی رہی۔مولاناکا چہرہ سوچ میں ڈوبا تھا،پھر ایک خوشگوار آواز ابھری”آپ یہ تقریب کب کرنا چاہتے ہیں؟“ہمارے کانوں کو جیسے یقین نہ آرہا ہو، میں نے سوچے سمجھے بغیر جواب دیا مولانا آپ کےلئے جب  بھی ممکن ہو۔مولانا مسکرائے اور فرمایا ”اچھا تو میں 23اپریل کو واپس لاہور لوٹ رہا ہوں چنددن تو سفر کی تکان رہے۔گی آپ29اپریل کو تقریب رکھ لیجئے۔“مولانامودودیسچ مچ ہماری تقریب میں مہمان خصوصی ہوں گے!ہم یہ ناقابل یقین خبر لے کر واپس لاہور لوٹ رہے تھے۔ جس جس نے سنا حیرت زدہ رہ گیا۔پنجاب یونیورسٹی کے فیصل آڈیٹوریم میں تقریب کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔ ان دنوں ملک غلام مصطفی کھر پنجاب کے گورنر تھے۔ انھیں کسی طور بھی یہ بات گوارانہ تھی کہ مولانا مودودی? ان کی گورنر شپ میں یونیورسٹی تشریف لائیں۔ تقریب کے انعقاد  میں  صرف ایک دن باقی تھا۔ ہم چند دوست نماز عصر کے وقت مولانا مودودی کی رہائش /5 -اے ذیلدار پارک پہنچے تاکہ اگلے دن مولانا محترم کی یونیورسٹی آمد کے پروگرام کو حتمی شکل دے سکیں۔ا چانک یونیورسٹی وائس چانسلر کی گاڑی/5اے ذیلدار پارک آکررکی۔ وائس چانسلر شیخ امتیاز علی باہر نکلے اور سیدھے مولانا کے کمرے میں داخل ہوگئے۔ ہمارے دل خوف اور اضطراب سے دھڑکنے لگے۔ایک مختصر ملاقات کے بعد شیخ امتیاز علی باہر نکلے اور دائیں بائیں نظر دوڑائے بغیر گاڑی میں سوار ہو کر واپس روانہ ہوگئے۔ خطرے کی گھنٹیاں کانوں میں بجنے لگیں۔ اللہ خیر کرے شیخ امتیاز علی آئے، مولانا محترم سے ملے اور پھر پ ±ھرتی سے لوٹ گئے۔دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے۔اتنے میں ادھیڑ عمر کے ایک صاحب میرے پاس آئے اور آہستہ سے کہا مولانا مودودی آپ کو بلا رہے ہیں۔میں تیز قدموں اور دھڑکتے دل سے مولانا کے کمرے میں داخل ہوا۔مولانا نے لفافے میں بند ایک مختصر خط میرے حوالے کیا اور فرمایا اسے پڑھلیجئے۔خط کھولنے سے قبل ہی مجھے پوری طرح اندازہ ہوگیا تھا۔ خط کھولا تو لکھاتھا زمین پا   ﺅں کے نیچے سے سر کنے لگی اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا۔ دل نے سوچا ”دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے“۔ذہن میں کئی سارے سوال ابھرے،ڈوبے اور پھر ا بھرے مگر کوئی مکمل جملہ نہ بن پایا، ”دیکھیے مولانا…مگر…لیکن… پھر جیسے مولانا نے میرے سارے اَن کہے جملے سن لیے ہوں۔”میرے عزیز میں کبھی کسی کے خوف کے باعث اپنے فیصلے تبدیل نہیں کرتا، تاہم اسے معیوب سمجھتا ہوں کہ ادارے کا سربراہ آکر مجھ سے درخواست کرے اور میں اس کی درخواست کا احترام نہ کروں۔مجھے معلوم ہے کہ وقت کم ہے اور آپ لوگوں کے لیے متبادل مہمان خصوصی کا بندوبست کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس لیے میں ابھی پروفیسر غفور احمد صاحب کو فون کر رہا ہوں، وہ کل آپ کی تقریب کے مہمانِ خصوصی ہوں گے

مجھے میرے سارے کہے اور ان کہے سوالوں کا جواب مل چکا تھا، میں اطمینان اور اضطراب کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ذیلدارپارک سے باہر نکلا اور اپنے ساتھیوں اور یونیورسٹی طلبہ کو اطلاع دی۔ بدلی ہوئی صورت حال کو ہضم کرنا کسی کے لیے بھی آسان نہ تھا۔ تاہم مولاناکے واضح اور پر عزم فیصلے نے ہمیں کسی بڑے بحران سے بچا لیا۔ عجیب اتفاق دیکھیے کہ مصطفی کھر کو چند ہی مہینوں میں گورنری سے ہاتھ دھونا پڑے، میں نے سید مودودی? کو ایک بار پھر یونیورسٹی تشریف لانے کی دعوت دی اور انہوں نے پہلی اور آخری بار یونیورسٹی میں طلبہ و اساتذہ سے”سیرت کا پیغام“ پہ وہ معرکتہ الآرائ خطاب کیا جو ان کی کتاب” سیرت سرور عالم“کا اب باقاعدہ حصہ ہے۔ 1972ئ جمعیت کا سالانہ اجتماع ہونے والا تھا ناظم اعلیٰ تسنیم عالم منظر مرحوم لاہور تشریف لائے۔ مجھے بلایا اور کہا ”ہم قدم“ کے لیے سید مودودی کا انٹر ویو کرنا ہے۔میرے پاس وقت نہیں آﺅ مل کر سوالنامہ مرتب کر لیتے ہیں۔ پھر تم سید مودودی? سے وقت لے کر انٹرو یو کر لینا۔ میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔سارا سوالنامہ انہوں نے ہی مرتب کیا ،میری بس رسمی رضامندی حاصل کی اور کہا ”کل ہمیں مظفر آباد جانا ہے، واپسی پر میں ساتھ نہیں ہوں گاتم دوستوں سے مل کر انٹرو یو مکمل کر لینا۔“ اگلے دن ہم مظفر آباد روانہ ہو گئے، واپسی پر وہ واقعی ہمارے ساتھ نہ تھے۔ دریائے نیلم میں نہاتے ہوئے وہ اللہ کو پیارے ہو چکے تھے اور ہم ان کی جدائی کا اندو ہناک غم ساتھ لیے واپس لوٹ رہے تھے۔ کئی دن تو سوگ ہی میں گزر گئے، پھر اس انٹر ویو کا خیال آیا جس کے سارے سوال تسنیم عالم منظر نے خود مرتب کیے تھے۔ برادرم سلیم منصور خالد، متقین الرحمن اور میں مولاناکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انٹر ویو میں کل آٹھ سوال تھے۔ہم سوال پڑھتے جاتے۔ سید مودودی? (صحت کی خرابی کے باعث) آہستہ آہستہ جواب دیتے رہتے۔اتنی آہستہ کہ ہم تینوں آرام سے پوری عبارت لکھ لیتے۔انٹر ویو کا آخری سوال تھا”مولانا اپنی زندگی کا کوئی ایسا واقعہ بتائیے، جب آپ نے نصرت خدا وندی کو قریب سے دیکھا ہو“، مولانا کے چہرے پر اضطراب کے آثار نمایاں ہو گئے ، کچھ خاموشی کے بعد بولے”بھئی میں بولتے بولتے تھک گیا ہوں اور میرا خیال ہے کہ انٹر ویو کے تقریباً سب سوالوں کے جوابات بھی ہوچکے ہیں، اس لیے آپ اسی پر اکتفا کر لیں۔“ میں نے عرض کی ”مولانا مرحوم تسنیم عالم منظرنے یہ سوال خاص طور پر لکھا تھا ، اس لیے اس کا جواب ضرور چاہیے۔آپ تھک گئے ہوں، تو میں کل حاضر ہوسکتا ہوں“۔ مولانا نے مروت میں ”ناں“ نہیں کہا اگر چہ مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ غالباً وہ ”ناں“ ہی کہنا چاہتے ہیں، ہم اپنے اپنے کاغذات سنبھالے واپس آگئے۔ اگلے روز میں پھر مولانا محترم کے پاس حاضر ہوگیا۔مجھے دیکھا تو ذرا توقف سے کہا ”اچھا تو آپ پھر آگئے“ یوں لگا مولانا اس سوال کا جواب دینے سے اجتناب کر رہے ہیں، پھر ہولے سے کہا”آغاشورش نے1968 میں چٹان مجھ سے ایک انٹر ویو لیا تھا۔ صفدر چودھری صاحب کے پاس وہ شمارہ ہوگا آپ ذرا اسے پڑھ لیجئے“ کچھ سمجھ نہ آیا کہ مولانا نے وہ شمارہ پڑھنے کے لیے مجھے کیوں کہا ،تاہم جر?ت انکار نہ ہوسکی۔ میں نے باہر نکل کر صفدر چودھری صاحب سے مطلوبہ شمارہ حاصل کرنے کی کوشش کی ،مگر شمارہ دستیاب نہ ہوسکا۔”چٹان“ کے دفتر فون کیا اور پھر وہاں پہنچ کر آغا صاحب سے شمارے کی درخواست کی ،مگر عجیب اتفاق کہ وہاںبھی شمارہ نہ مل پایا۔ اگلے روز پھر ایک بارمیں مولانا کے کمرے میں داخل ہونے کی جسارت کر چکا تھا۔ ایک لطیف سی مسکراہٹ نے میرا استقبال کیا اور پوچھا” کیا آپ نے چٹان کا شمارہ پڑھ لیا“ میں نے کہا مولانا چٹان کا مطلوبہ شمارہ نہ صفدر صاحب سے ملااور نہ چٹان کے دفتر ہی سے دستیاب ہوسکا ہے، شفقت فرمائیے اور میرے سوال کا جواب آپ خود ہی عنایت فرما دیجئے۔ سید مودودی نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر یوں مخاطب ہوئے”میرا خیال تھا میرے اجتناب سے تم سمجھ گئے ہو گے، میں نے زندگی بھر اس بات کی کوشش کی ہے کہ میری سوچ، گفتگو یا تحریر میں کبھی ”میں “غالب نہ آئے ، ضرورت پڑنے پر بھی میں یہ کبھی نہیں کہتا کہ میں نے یہ سوچا ہے یا میں نے یہ فیصلہ کیا ہے، بلکہ میں شعوری طور پر کہتا رہا ہوں کہ جماعت اسلامی نے یہ سوچا ہے یا جماعت اسلامی نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے مجھے امید ہے اب آپ مجھ سے یہ سوال نہ پوچھیں گے۔ ایک بار پھر میں سکتے میں آچکا تھا۔ سنبھلا تو میں نے دوبارہ جسارت کی” لیکن مولانا آپ نے مجھے چٹان پڑھنے کا مشورہ کیوں دیا“ مولاناگویا ہوئے ”شورش کاشمیری بھی تمہاری طرح ضدی تھے، جب ان کا اصرار حد سے زیادہ بڑھا، تو میں نے انہیں ایک معمولی واقعہ جس کا تذکرہ امین احسن اصلاحی صاحب اپنی کسی تحریر میں کر چکے تھے، یہ بتائے بغیر سنا دیا۔ شکست قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ البتہ اس نشست سے میں یہ طے کرکے اٹھا کہ سید مودودیکی ساری کتابوں کو دوبارہ اس طرح پڑھوں گا کہ اس میں سے”میں“ ڈھونڈ سکوں۔تفہیم القرآن، خلافت و ملوکیت، تجدید و احیائے دین،سنت کی آئینی حیثیت اور درجنوں دیگر کتابیں کھنگال ڈالیں، لیکن تلاش کے باوجود میں اس میں کہیں بھی”میں“ نہ ڈھونڈ پایا۔ اس واقعے کو گزرے دو عشرے ہوچکے تھے۔ایک بار امریکا سے واپسی پر میں اپنے کزن ظفر علی خان صاحب کے گھر لندن میں ٹھہرا۔رات سونے سے قبل بیڈ روم میں مولانا ابوالحسن علی ندوی(علی میاں) کی کتاب میز پر پڑی دیکھ ”مسلمانوں کے زوال سے دنیا نے کیا کھویا“ اصل کتاب عربی میں لکھی گئی تھی ،مگر اردو ترجمہ بھی کمال کا تھا۔ کتاب نے رات بھر جگائے رکھا، البتہ حیرت بھی ہوئی کہ کتاب کے ہر ہر صفحے پر”میں“ غالب تھی۔پھر مولانا ابو الکلام کی کتاب ”غبارِ خاطر“یاد آئی جو ”میں “سے بھر ی پڑی ہے، سید مودودیکے دیگر ہم عصر وں کی تحریریں اور ایک بار پھر مولانا مودودی کا وہ انٹر ویو یادوں کے نہاں خانے سے نکل کر سامنے آکھڑا تھا۔ بیسویں صدی کے مفکرین میں یہ اعزاز صرف مولانا مودودیکو حاصل تھا کہ لاکھوں صفحات پر پھیلی ان کی تحریروں میں آپ”میں“ کہیں تلاش نہ کرسکیں گے۔ پہاڑ اکثر خوبصورت دکھائی دیتے ہیں،مگر صرف دور سے۔قریب آنے پر پتھریلی چٹانیں، گہرے کالے غار اور خوف دلانے والی گھاٹیاں سارا حسن غارت کر دیتی ہیں۔مگر ابوالاعلیٰ سید مودودیایسے پہاڑ تھے جو دور سے تو خوبصورت نظر آتے ہی تھے قریب آنے پر خوبصورت تر دکھائی دینے لگتے۔ میں انہیں بیسیوں بار ملا ہوں۔ان کی ڈھیروں یادیں تتلیاں بن کر حافظے کے باغیچوں میں اڑتی پھرتی ہیں۔یہ ساری یادیں ،یہ ساری باتیں ہوا کے مہکتے جھونکوں کی طرح ہیں۔ ہر ہر گھونٹ جام شیریں کی طرح۔ ”عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ' “



Comments